ادب کیا ہے
گزشتہ کئی ماہ میں ادب کے حوالے سے میری متعدد تحریریں شایع ہو چکی ہیں
TOKYO:
گزشتہ کئی ماہ میں ادب کے حوالے سے میری متعدد تحریریں شایع ہو چکی ہیں۔ ان تحریروں کو پڑھنے والوں کی جانب سے پسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ بعض طالب علم یہ سوال کرتے ہیں کہ فنی ادب کیا ہے اور یہ کیسے تخلیق ہوتا ہے، یہ کالم اسی تناظر میں تحریر کیا گیا ہے۔ سوال فنی ادب کیا ہے؟ ہمیں اس سوال کے جواب کے لیے ادبی اصطلاحات کو سمجھنا ہوگا۔ اصطلاح مختصر اظہاریہ ہوتا ہے اس مختصر اظہاریے میں کسی مکمل سوچ، خیال یا نظریے کی جامعیت موجود ہوتی ہے یعنی اصطلاح نام ہی اس مختصر لفظ کا ہے جو علمی مطالب کے ادا کرنے کے لیے واضح کیا جاتا ہے۔
کسی بھی علم میں اصطلاحات کی حیثیت کلیدی (چابی) کی ہوتی ہے جو علوم کو کھولنے کا کام انجام دیتی ہے۔ وہی اصطلاح مفید اور روشن ہوتی ہے جو اپنے اندر بااعتبار ایک علمی بحث کی بجائے خود ایک واضح وضاحت رکھتی ہو۔ آئیے ادبی اصطلاحات کا جائزہ لیتے ہیں۔ ادب میں ادبی تحریر کو نثر کہتے ہیں یعنی کسی تحریر میں لکھنے کا ایک ایسا نظام جس میں قافیہ، ردیف، بحر اور دوسرے شعری اجزا موجود نہ ہوں اسے نثر کہتے ہیں۔
اصناف کا لفظ ادب میں جماعت بندی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً افسانہ، ناول، ڈرامہ وغیرہ۔ اگر یہ لفظ شاعری میں استعمال ہوگا تو اصناف سخن کا لفظ استعمال ہوگا۔ ادب میں افسانہ زندگی کے کسی ایک واقعے یا پہلو کو عمومی طور پر کہانی کی شکل میں پیش کیا جانا ہے۔ ڈرامہ واقعات کو منصوبہ کے تحت اسٹیج پر یا منظر نگاری کی صورت پیش کرنا ہے۔ ناول مغربی اصناف ہے جو اردو میں داستان کے بعد رائج ہوئی۔
اس میں زندگی کے کئی پہلو گوشے سامنے لائے جاتے ہیں افسانہ چہرہ ہوتا ہے تو ناول میں انسان پورا جلوہ گر ہوتا ہے۔ ناولٹ افسانے اور ناول کے درمیان کی کڑی ہے۔ داستان وہ طویل کہانی ہے جس میں من گھڑت قدیمی واقعات، مہم جوئی، مذہبی تبلیغ، طلسم، علم سحر اور جنس سب ہی کچھ شامل ہے۔ خاکہ نگاری ایک طرح کی سوانحی مضمون ہوتا ہے جس میں صرف چند منتخب واقعات کو نیم مزاحیہ انداز میں جھلکیوں کے انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔
ادب میں کسی خیال کسی صورت کو وجود میں لانے کا عمل تخلیق کہلاتا ہے۔ حکایات انسانوں کے علاوہ بے جان اشیا اور حیوانات کے کردار بنا کر ایسی کہانی بنائی جاتی ہے جو سبق آموز ہو۔ انشائیہ ایک نثری تحریر ہے جس میں دانش مندانہ شگفتگی اور متنوع انداز اختیار کرکے خصوصی حوالے سے گفتگو کی جاتی ہے اس میں ذات کا حوالہ بڑا اہم ہوتا ہے۔ مختلف ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں کو کسی خاص موضوع یا ترتیب کے لحاظ سے جمع کرکے کتابی شکل دینا تالیف کہلاتا ہے۔ اس کام کو کرنیوالے کو مولف کہتے ہیں۔
ادیبوں کا ایسا گروہ جو خاص نقطہ نظر، رویہ یا خاص ادبی اسلوب کے حامل ادیبوں، شاعروں کا تفصیلی علاقائی تعارف پر مشتمل ہوتا ہے۔ ادب میں دبستان کہتے ہیں، اعلیٰ ادبی معیارات رکھنے والا ادب فن پارہ (کلاسیک) کہلاتا ہے، ایسا ادب جو ایک لمبے عرصے تک برقرار وجودرکھ سکے فن پارہ کے ضمن میں آتا ہے۔ ادبی تحریروں کو ادبی معیارات اور فن کے مطابق پرکھنا اس کی تشریح کرکے اس کی قدر و قیمت کا تعین کرنا اور تجزیہ کرنا تنقید کہلاتا ہے۔ ادب میں علم بیان ایسے قاعدے اور طریقے کو کہتے ہیں جس کی مدد سے ہم اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے ایک لفظ کے معنی کو مختلف عبارتوں، مختلف طریقوں سے ادا کرسکتے ہیں تاکہ تحریر میں زور اور حسن پیدا ہو جائے۔ علم بلاغت سے زور اور علم فصاحت سے حسن پیدا ہوتا ہے۔
تحریر میں معنوی خوبیاں بلاغت اور لفظی خوبیاں فصاحت کہلاتی ہیں۔ ادب میں گل و بلبل، گلشن، ویرانہ، شمع، بہار، خزاں، دریا، پہاڑ وغیرہ علامتوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ جب لفظ کو اپنے مخصوص معنی کے بجائے دوسرے معنی لیے جائیں تو علامت کہتے ہیں جب لفظ کو اپنے حقیقی معنی میں استعمال نہ کیا جائے تو اسے مجاز کہتے ہیں مثلاً تلوار کو اقتدار کے معنی میں آگ کو گرمی کے معنی میں استعمال کیا جائے۔
مبالغہ کے ذریعے کلام میں عظمت پیدا کی جاتی ہے۔ بہترین مبالغہ وہ ہے جو اس حقیقت کو چھپا جائے کہ وہ مبالغہ ہے یعنی اس میں جھوٹ اس طرح بولا جائے کہ سچ کا گمان ہوتا ہے ایک چیز کو دوسری چیز کے معنی میں شریک کرنے کا عمل تشبیہ کہلاتا ہے مثلاً محبوب کی زلف چاند کی مانند ہے کسی شے کی خصوصیت کو دوسری شے سے منسوب کرنا استعارہ کہلاتا ہے مثلاً زید شیر ہے۔ اگر ہم اس میں سچ اور جھوٹ یا سائنسی نقطہ نظر کے چکر میں پڑ جائیں گے تو ادب کے حسن سے محروم ہو جائیں گے۔ اب آئیے شاعری کی اصطلاحات کی جانب۔ شاعر کے قلمی نام کو تخلص کہتے ہیں۔ جس طرح دروازے کے دو پٹ ہوتے ہیں اسی طرح شعر کے دو مصرع ہوتے ہیں، جسے بیت کہتے ہیں۔ مقطع کم ازکم دو اشعار پر مبنی ہوتا ہے ایک شعر کا مطلب دوسرے سے تعلق رکھتا ہے۔
شاعری کی گرامر کو بحر کا نام دیا جاتا ہے۔ شاعری کے قوانین کا مجموعہ عروض کہلاتا ہے۔ وہ طالب علم جو فن شاعری پر عبور حاصل کرنا چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ شاعری کی گرامر یعنی علم بحر اور قوانین کا مجموعہ یعنی علم عروض کا مطالعہ لازمی کریں۔ ہر شعر کے آخر میں ایک لفظ کو مکرر یعنی بار بار لایا جاتا ہے اسے ردیف کہتے ہیں۔ ردیف سے پہلے جو لفظ صوتی آہنگ یعنی وزن پیدا کرتا ہے اسے قافیہ کہتے ہیں۔ کسی شاعر کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تصنیف کا مجموعہ کلیات کہلاتا ہے۔ کسی شاعر کے سنجیدہ کلام کو معمولی رد و بدل سے مضحکہ خیز بنا دینے کا عمل تحریف کہلاتا ہے۔ تحریف کی ادب میں وہی صورت ہے جو مصوری میں کارٹون کی ہے۔ نثر میں اسلوب style یعنی طرز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
شاعری میں اسے لہجہ کہتے ہیں۔ جب شاعر غیر ارادی طور پر شعر کہے تو اسے آمد کہتے ہیں۔ جب شاعر ارادی طور پر شعر کہے تو اسے آورد کہتے ہیں۔ شاعر کا غوروفکر کے بغیر کسی موقع محل پر فوری شعر موزوں کہنا فی البدیہ شعر کہلاتا ہے۔ زمین کو انگریزی مین لائن کہتے ہیں لیکن شاعری میں زمین شاعری کا وہ نظام ہے جو قافیہ اور ردیف کے زیر اثر ہوتا ہے۔
یہ شاعر کے شعری مزاج کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ نشست ادبی مجلس کو کہتے ہیں۔ انسان باطن کی ایک ایسی کیفیت جو جمال (خوبصورتی) کا ادراک کرتی ہے ادبی اصطلاح میں ذوق کہلاتی ہے۔ ایسی شاعری جو خوف اور رحم کے جذبات پیدا کرے المیہ شاعری اور ایسی شاعری جو بہادری اور جوش کے جذبات پیدا کرے رزمیہ شاعری کہلاتی ہے۔ ایسے اشعار جن میں کسی کی تعریف کی جائے قصیدہ کہلاتی ہے۔ ایسی نظم جس میں خدا تعالیٰ کی تعریف کی گئی ہو حمد اور جس میں نبی کریمؐ کی تعریف کی جائے نعت کہتے ہیں۔ ایسی نظم جس میں کسی شہر کی تعریف کی جائے مرثیہ کہا جاتا ہے۔ غزل ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں پانچ یا اس سے زائد اشعار ہوتے ہیں۔ جب شاعری میں کوئی فلسفہ یا مسئلہ حیات پیش کرنا ہو تو شاعری نظم کی صورت میں کی جاتی ہے۔
گزشتہ کئی ماہ میں ادب کے حوالے سے میری متعدد تحریریں شایع ہو چکی ہیں۔ ان تحریروں کو پڑھنے والوں کی جانب سے پسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔ بعض طالب علم یہ سوال کرتے ہیں کہ فنی ادب کیا ہے اور یہ کیسے تخلیق ہوتا ہے، یہ کالم اسی تناظر میں تحریر کیا گیا ہے۔ سوال فنی ادب کیا ہے؟ ہمیں اس سوال کے جواب کے لیے ادبی اصطلاحات کو سمجھنا ہوگا۔ اصطلاح مختصر اظہاریہ ہوتا ہے اس مختصر اظہاریے میں کسی مکمل سوچ، خیال یا نظریے کی جامعیت موجود ہوتی ہے یعنی اصطلاح نام ہی اس مختصر لفظ کا ہے جو علمی مطالب کے ادا کرنے کے لیے واضح کیا جاتا ہے۔
کسی بھی علم میں اصطلاحات کی حیثیت کلیدی (چابی) کی ہوتی ہے جو علوم کو کھولنے کا کام انجام دیتی ہے۔ وہی اصطلاح مفید اور روشن ہوتی ہے جو اپنے اندر بااعتبار ایک علمی بحث کی بجائے خود ایک واضح وضاحت رکھتی ہو۔ آئیے ادبی اصطلاحات کا جائزہ لیتے ہیں۔ ادب میں ادبی تحریر کو نثر کہتے ہیں یعنی کسی تحریر میں لکھنے کا ایک ایسا نظام جس میں قافیہ، ردیف، بحر اور دوسرے شعری اجزا موجود نہ ہوں اسے نثر کہتے ہیں۔
اصناف کا لفظ ادب میں جماعت بندی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً افسانہ، ناول، ڈرامہ وغیرہ۔ اگر یہ لفظ شاعری میں استعمال ہوگا تو اصناف سخن کا لفظ استعمال ہوگا۔ ادب میں افسانہ زندگی کے کسی ایک واقعے یا پہلو کو عمومی طور پر کہانی کی شکل میں پیش کیا جانا ہے۔ ڈرامہ واقعات کو منصوبہ کے تحت اسٹیج پر یا منظر نگاری کی صورت پیش کرنا ہے۔ ناول مغربی اصناف ہے جو اردو میں داستان کے بعد رائج ہوئی۔
اس میں زندگی کے کئی پہلو گوشے سامنے لائے جاتے ہیں افسانہ چہرہ ہوتا ہے تو ناول میں انسان پورا جلوہ گر ہوتا ہے۔ ناولٹ افسانے اور ناول کے درمیان کی کڑی ہے۔ داستان وہ طویل کہانی ہے جس میں من گھڑت قدیمی واقعات، مہم جوئی، مذہبی تبلیغ، طلسم، علم سحر اور جنس سب ہی کچھ شامل ہے۔ خاکہ نگاری ایک طرح کی سوانحی مضمون ہوتا ہے جس میں صرف چند منتخب واقعات کو نیم مزاحیہ انداز میں جھلکیوں کے انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔
ادب میں کسی خیال کسی صورت کو وجود میں لانے کا عمل تخلیق کہلاتا ہے۔ حکایات انسانوں کے علاوہ بے جان اشیا اور حیوانات کے کردار بنا کر ایسی کہانی بنائی جاتی ہے جو سبق آموز ہو۔ انشائیہ ایک نثری تحریر ہے جس میں دانش مندانہ شگفتگی اور متنوع انداز اختیار کرکے خصوصی حوالے سے گفتگو کی جاتی ہے اس میں ذات کا حوالہ بڑا اہم ہوتا ہے۔ مختلف ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں کو کسی خاص موضوع یا ترتیب کے لحاظ سے جمع کرکے کتابی شکل دینا تالیف کہلاتا ہے۔ اس کام کو کرنیوالے کو مولف کہتے ہیں۔
ادیبوں کا ایسا گروہ جو خاص نقطہ نظر، رویہ یا خاص ادبی اسلوب کے حامل ادیبوں، شاعروں کا تفصیلی علاقائی تعارف پر مشتمل ہوتا ہے۔ ادب میں دبستان کہتے ہیں، اعلیٰ ادبی معیارات رکھنے والا ادب فن پارہ (کلاسیک) کہلاتا ہے، ایسا ادب جو ایک لمبے عرصے تک برقرار وجودرکھ سکے فن پارہ کے ضمن میں آتا ہے۔ ادبی تحریروں کو ادبی معیارات اور فن کے مطابق پرکھنا اس کی تشریح کرکے اس کی قدر و قیمت کا تعین کرنا اور تجزیہ کرنا تنقید کہلاتا ہے۔ ادب میں علم بیان ایسے قاعدے اور طریقے کو کہتے ہیں جس کی مدد سے ہم اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے ایک لفظ کے معنی کو مختلف عبارتوں، مختلف طریقوں سے ادا کرسکتے ہیں تاکہ تحریر میں زور اور حسن پیدا ہو جائے۔ علم بلاغت سے زور اور علم فصاحت سے حسن پیدا ہوتا ہے۔
تحریر میں معنوی خوبیاں بلاغت اور لفظی خوبیاں فصاحت کہلاتی ہیں۔ ادب میں گل و بلبل، گلشن، ویرانہ، شمع، بہار، خزاں، دریا، پہاڑ وغیرہ علامتوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ جب لفظ کو اپنے مخصوص معنی کے بجائے دوسرے معنی لیے جائیں تو علامت کہتے ہیں جب لفظ کو اپنے حقیقی معنی میں استعمال نہ کیا جائے تو اسے مجاز کہتے ہیں مثلاً تلوار کو اقتدار کے معنی میں آگ کو گرمی کے معنی میں استعمال کیا جائے۔
مبالغہ کے ذریعے کلام میں عظمت پیدا کی جاتی ہے۔ بہترین مبالغہ وہ ہے جو اس حقیقت کو چھپا جائے کہ وہ مبالغہ ہے یعنی اس میں جھوٹ اس طرح بولا جائے کہ سچ کا گمان ہوتا ہے ایک چیز کو دوسری چیز کے معنی میں شریک کرنے کا عمل تشبیہ کہلاتا ہے مثلاً محبوب کی زلف چاند کی مانند ہے کسی شے کی خصوصیت کو دوسری شے سے منسوب کرنا استعارہ کہلاتا ہے مثلاً زید شیر ہے۔ اگر ہم اس میں سچ اور جھوٹ یا سائنسی نقطہ نظر کے چکر میں پڑ جائیں گے تو ادب کے حسن سے محروم ہو جائیں گے۔ اب آئیے شاعری کی اصطلاحات کی جانب۔ شاعر کے قلمی نام کو تخلص کہتے ہیں۔ جس طرح دروازے کے دو پٹ ہوتے ہیں اسی طرح شعر کے دو مصرع ہوتے ہیں، جسے بیت کہتے ہیں۔ مقطع کم ازکم دو اشعار پر مبنی ہوتا ہے ایک شعر کا مطلب دوسرے سے تعلق رکھتا ہے۔
شاعری کی گرامر کو بحر کا نام دیا جاتا ہے۔ شاعری کے قوانین کا مجموعہ عروض کہلاتا ہے۔ وہ طالب علم جو فن شاعری پر عبور حاصل کرنا چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ شاعری کی گرامر یعنی علم بحر اور قوانین کا مجموعہ یعنی علم عروض کا مطالعہ لازمی کریں۔ ہر شعر کے آخر میں ایک لفظ کو مکرر یعنی بار بار لایا جاتا ہے اسے ردیف کہتے ہیں۔ ردیف سے پہلے جو لفظ صوتی آہنگ یعنی وزن پیدا کرتا ہے اسے قافیہ کہتے ہیں۔ کسی شاعر کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تصنیف کا مجموعہ کلیات کہلاتا ہے۔ کسی شاعر کے سنجیدہ کلام کو معمولی رد و بدل سے مضحکہ خیز بنا دینے کا عمل تحریف کہلاتا ہے۔ تحریف کی ادب میں وہی صورت ہے جو مصوری میں کارٹون کی ہے۔ نثر میں اسلوب style یعنی طرز کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
شاعری میں اسے لہجہ کہتے ہیں۔ جب شاعر غیر ارادی طور پر شعر کہے تو اسے آمد کہتے ہیں۔ جب شاعر ارادی طور پر شعر کہے تو اسے آورد کہتے ہیں۔ شاعر کا غوروفکر کے بغیر کسی موقع محل پر فوری شعر موزوں کہنا فی البدیہ شعر کہلاتا ہے۔ زمین کو انگریزی مین لائن کہتے ہیں لیکن شاعری میں زمین شاعری کا وہ نظام ہے جو قافیہ اور ردیف کے زیر اثر ہوتا ہے۔
یہ شاعر کے شعری مزاج کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ نشست ادبی مجلس کو کہتے ہیں۔ انسان باطن کی ایک ایسی کیفیت جو جمال (خوبصورتی) کا ادراک کرتی ہے ادبی اصطلاح میں ذوق کہلاتی ہے۔ ایسی شاعری جو خوف اور رحم کے جذبات پیدا کرے المیہ شاعری اور ایسی شاعری جو بہادری اور جوش کے جذبات پیدا کرے رزمیہ شاعری کہلاتی ہے۔ ایسے اشعار جن میں کسی کی تعریف کی جائے قصیدہ کہلاتی ہے۔ ایسی نظم جس میں خدا تعالیٰ کی تعریف کی گئی ہو حمد اور جس میں نبی کریمؐ کی تعریف کی جائے نعت کہتے ہیں۔ ایسی نظم جس میں کسی شہر کی تعریف کی جائے مرثیہ کہا جاتا ہے۔ غزل ایسی نظم کو کہتے ہیں جس میں پانچ یا اس سے زائد اشعار ہوتے ہیں۔ جب شاعری میں کوئی فلسفہ یا مسئلہ حیات پیش کرنا ہو تو شاعری نظم کی صورت میں کی جاتی ہے۔