قبائلی عوام کا احساسِ محرومی ختم کیا جائے

وزیر اعظم شہباز شریف کا دورہ شمالی وزیرستان اور ترقیاقی منصوبوں کے آغازکا اعلان انتہائی خوش آیند اقدام ہے


Editorial April 23, 2022
وزیر اعظم شہباز شریف کا دورہ شمالی وزیرستان اور ترقیاقی منصوبوں کے آغازکا اعلان انتہائی خوش آیند اقدام ہے (فوٹو: اے پی پی)

قبائلی علاقوں، بالخصوص شمالی وزیرستان میں امن وامان کی بحالی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہے اور بہت جلد اس حوالے سے اسلام آباد میں وزیرستان کے عمائدین کا ایک گرینڈ جرگہ بلایا جائے گا، جس میں تفصیلی بات ہوگی۔

ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے میر انشاہ میں عمائدین کے ایک جرگے سے خطاب کرتے ہوئے کیا اور انھوں نے شمالی وزیرستان میں فوری طور پر ایک یونیورسٹی کے قیام، میڈیکل کالج، دانش اسکولز اور ایک موبائل اسپتال کے قیام کے اعلانات کیے۔

میر انشاہ پہنچنے پر وزیر اعظم کا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ، سول وعسکری اور قبائلی عمائدین نے پرتپاک استقبال کیا۔ وزیراعظم کو موجودہ سیکیورٹی صورتحال پر تفصیلی بریفنگ دی گئی،اس موقعے پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ مسلح افواج کی کوششوں اور قوم کی مکمل حمایت سے دہشت گردوں کو شکست دینے میں کامیابی ملی اور قوم دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کا دورہ شمالی وزیرستان اور ترقیاقی منصوبوں کے آغازکا اعلان انتہائی خوش آیند اقدام ہے، اس طرح یہ پسماندہ علاقے ترقی یافتہ علاقوں کے ہم پلہ ہوسکیں گے ، لیکن سب سے پہلے شمالی و جنوبی وزیرستان ، فاٹا سمیت پورے صوبہ خیبر پختون خوا میں امن و امان کی مخدوش صورتحال کو بہتر بنانے پر ہی مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

یادش بخیر ، وزیرستان میں جب طالبان کا ظہور ہو رہا تھا تو سب سے پہلے ہمارے مضبوط جرگہ سسٹم کو ناکارہ بنایا گیا ، مگر آج وزیراعظم شہباز شریف عمائدین کے جرگے سے گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔

قبائلی اضلاع میں بدامنی کے واقعات میں اضافے کی بعض دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ قبائلی اضلاع میں قیامِ امن اور خاص کر یہاں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے کیے جانے والے وعدوں اور اعلانات پر ان کی روح کے مطابق عمل درآمد کا نہ ہونا ہے جس سے قبائلی عوام کے احساسِ محرومی میں اضافہ ہوا ۔

وہ افراد جو قبائلی اضلاع کے انضمام کے حوالے سے متذبذب تھے، لیکن جب انضمام کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تھا تو یہ لوگ بھی انضمام کے حق میں ہوگئے تھے ، لیکن اب جب انضمام کے فوائد اور اثرات سامنے آنے میں بعض رکاوٹیں پیش آرہی ہیں تو یہ لوگ ایک بار پھر تذبذب کا شکار ہیں۔ درحقیقت حکومت نے انضمام کے وقت قبائل سے خوشحالی اور ترقی کے جو وعدے کیے تھے وہ ایفا نہیں ہو رہے ہیں، جس سے قبائل میں ایک ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے ۔

تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قائد اعظم قبائلیوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ انھوں نے بنوں میں قبائلی عمائدین اور زعماء سے کئی جرگے کیے۔ قائداعظم قبائل کو پاکستان کا بازو کہا کرتے تھے۔ بعض پختون قوم پرست رہنما متحدہ ہندوستان کے حامی اور کانگریس پارٹی کے ہم خیال تھے۔ کانگریسی رہنما پختونوں کے علاقے میں متحدہ ہندوستان کے حق میں مہم چلا رہے تھے۔

کانگریسی رہنما پنڈت نہرو اس طرح کی ایک مہم کے سلسلے میں شمالی وزیرستان کے صحت افزا مقام رزمک آئے تو جرگے کے دوران ایک قبائلی بزرگ میر دل خان نے ان پر واضح کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم نے پاکستان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔''

اہلِ وزیرستان کو اپنی فوج سے بے پناہ محبت ہے۔ وزیر قبائل آج بھی اپنے ٹرکوں پر ''پاک فوج کو سلام'' ضرور لکھا کرتے ہیں۔ اس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کو جب اور جہاں ضرورت پڑی، اس علاقے کے لوگوں نے اسے مقدس فرض سمجھ کر ملک و قوم کی بے لوث خدمت کی۔ دشمن نے ہمیشہ فوج اور قبائل کا رشتہ کمزور کرنے کی کوشش کی، وزیرستان میں جاری شورشوں کے پیچھے یہی ایجنڈا کارفرما ہے۔

جن لوگوں نے وزیرستان کو دیکھا نہیں اُن لوگوں کو وزیرستان کا معاشرہ بنیاد پرست اور لوگ سخت دل معلوم ہوئے، حالانکہ ایسا بالکل نہیں۔ یہاں کے لوگ انتہائی امن پسند مگر حریت پسند ہیں۔ شادی بیاہ اور خوشی کے دیگر مواقعے پر ہوائی فائرنگ اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنا یہاں کا رواج ہے۔

شمال مغربی پاکستان جن میں صوبہ خیبر پختونخوا اور فاٹا شامل ہیں، یہاں حکومت پاکستان اورکالعدم تنظیموں جیسے تحریک طالبان پاکستان کے درمیان ایک جنگ جاری ہے۔ اس جنگ کے بڑے ملٹری آپریشنز میں آپریشن ضرب عضب، آپریشن راہ راست ،آپریشن بلیک تھنڈراسٹورم وغیرہ شامل ہیں۔

علاقے میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کے لیے پاک فوج نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور اب بھی وہ اپنے فرائض پوری جانفشانی اور تندہی سے سرانجام دے رہی ہے۔

یہ جنگ پیپلز پارٹی کی حکومت سے شروع ہوئی اور تاحال جاری ہے۔ ان متاثرہ علاقوں میں شمالی وزیرستان،جنوبی وزیرستان،سوات ، دیر زیریں، بونیر، شانگلہ اور دیگر علاقہ جات شامل ہیں تاہم دیر زیریں،سوات،بونیر،شانگلہ اور جنوبی وزیرستان میں آپریشن مکمل ہو گیاہے۔

شمالی وزیرستان میں ابھی حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا ہے،پاک فوج پرعزم ہے کہ وہ ان علاقوں سے دہشت گردی کا خاتمہ کرکے دم لے گی اور اس مقصد کو پایہ تکمیل پہنچانے کے لیے وہ ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے ۔

مقامی اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں افغان طالبان ایک بار پھر متحرک ہو رہے ہیں اور کچھ علاقوں میں وہ چندہ اکٹھا اور مقامی لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے جرگوں کا انعقاد کرتے بھی دیکھے گئے ہیں۔ قبائلی اضلاع میں طالبان کے منتشر دھڑے نئے قیادت کی سرپرستی میں دوبارہ متحد ہو رہے ہیں اور ان کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں وزیرستان اور قبائلی علاقوں میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

وزیرستان،کرم، باجوڑ اور مہمند کے قبائلی اضلاع میں افغان طالبان کی موجودگی کی اطلاعات آرہی ہیں۔ سب سے زیادہ ملٹری آپریشنز بھی وزیرستان میں ہوئے ہیں لیکن ان علاقوں میں ایسے گروپس بھی ہیں جو پاکستان کے اندر مسلح کارروائیاں نہیں کرتے تھے، ان گروپس کا عمل دخل افغانستان میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ وزیرستان کا بارڈر افغانستان کے پکتیکا اور خوست اضلاع کے ساتھ ملتا ہے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ افغان طالبان اب بہت زیادہ فعال ہو چکے ہیں اور لوگوں کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے جرگے بھی کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیرستان میں طالبان دھڑے دوبارہ سے منظم ہو رہے ہیں اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اثر ڈیورنڈ لائن کے پاکستانی علاقوں میں رہنے والے افراد پر بھی براہِ راست پڑتا ہے۔

پچھلے عرصہ کے دوران ہونے والی کارروائیوں میں پاکستانی طالبان کی ساتھ داعش نے بھی کچھ حملوں کی ذمے داری قبول کی ہے، اس لیے ڈیورنڈ لائن پر جو باڑ قائم کی گئی ہے ، اس کی حفاظت کی ذمے داری سب پر عائد ہوتی ہے۔

ان علاقوں کی ہر بچی زیور تعلیم سے آراستہ ہو، ہر نوجوان برسر روزگار ہو ، کھیت کھلیان سرسبز و شاداب اور تعلیمی ادارے آباد ہوں، یہاں کے اسپتالوں میں صحت کی بہترین سہولیات عوام کو مفت میسر کی جائیں۔ خواتین کو ان کے گھروں میں صاف پانی فراہم کیا جائے تاکہ وہ میٹھے پانی کے چشموں سے پانی بھرنے کی تکلیف سے نجات حاصل کر سکیں۔ قدرتی گیس کی فراہمی سے جہاں خواتین کو پہاڑوں کی خاک چھاننے، لکڑیاں لانے کی اذیت سے چھٹکارا نصیب ہو گا وہاں جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کو بھی یقینی بنا کر موسمی تبدیلیوں اور قدرتی آفات سے بچا جا سکتا ہے۔

جدید اور تیز ترین انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونی کیشن کی فراہمی سے یہاں کے لوگوں خصوصاً نوجوانوں کو جہاں باقی دنیا سے رابطوں میں آسانی ہوگی وہاں سیاحت کو فروغ بھی ملے گا۔ اس علاقے کے عوام کو بھی وہ حقوق اور سہولیات میسر ہوں جن سے پشاور، اسلام آباد، کراچی اور لاہور کے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔

امن کے خواب کو شرمندہ تعبیرکرنا ہے تو حکومت کو قبائل کے ساتھ کیے گئے وعدوں پر فی الفور عمل درآمد کا آغازکرنا ہوگا۔ اس ضمن میں طے شدہ اقتصادی ترقیاتی پیکیج پر عمل درآمد کے علاوہ قبائل کو سیاسی ڈائیلاگ کے عمل میں بھی شریک کرنا ہوگا، قبائلی اضلاع میں اثر و نفوذ رکھنے والی سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو اعتماد میں لے کر قبائل سے متعلق تمام فیصلے مشاورت سے کیے جائیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اس علاقے کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت اور وسائل رکھتے ہیں ، انھیں ہر صورت میں بروئے کار لانا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں