وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے

اس ملک کی رولنگ کلاس بار بار ہر دو چار سال بعد اسی جگہ سے ملک کو گزرنے پر مجبورکیوں کرتے ہیں جہاں سے بار بار گزرے ہیں

ISLAMABAD:
عمران خان ملکی معیشت کے لیے بارودی سرنگ نہیں ایٹم بم لگا کر گئے ہیں، ڈیزل اور پٹرول پر ٹیکس نہیں لیا۔ آئی ایم ایف حکام سے ملاقات میں پروگرام بحالی کے لیے درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش ہے۔ جب تک ہم آئی ایم ایف کے پاس جاتے رہیں گے ترقی نہیں کر سکتے؛ نئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی معاشی نقشہ کشی۔

اسد عمر کا مگر تجزیہ ہے کہ یہ امپورٹڈ حکومت چلانے کے اہل نہیں۔ معیشت پانچ فیصد شرح نمو سے بڑھ رہی تھی، ریکارڈ ایکسپورٹس ہوئیں، زرِمبادلہ کے ذخائر بھی مستحکم تھے مگر ان کے آتے ہی سب کچھ الٹ پلٹ ہو رہا ہے۔ خزانے میں ساڑھے پانچ ارب دو ہفتوں میں اڑن چھو ہو گئے ہیں۔ معیشت چلانا ان کے بس کا روگ نہیں۔

یہ بیانات میڈیا میں غزل اور جواب آں غزل کے طور پر نمایاں چھپے مگر سیاست کے کار زار میں معیشت سرے سے زیر ِ بحث ہی نہیں۔ وہاں توشہ خانے کے تحائف کی خرید و فروخت پر ایک دوسرے کی دستار تار تار ہو رہی ہے۔ ہیلی کاپٹر پر بنی گالا سے وزیر اعظم آفس کے اخراجات کا تخمینہ زیر بحث ہے۔ جواب میں غداری اور غلامی کی تفسیر اور آزادی کی شان میں قصیدے جابجا زیربحث ہیں۔ کابینہ میں وزارتوں کی تقسیم اور اتحادیوں کے ناز نخرے کی رسمیں ادا ہو رہی ہیں۔معیشت بحالی کا پلان بی چین اور قطر کے تکیے پر موقوف ہے۔

یہ تمہید فریقین کی سیاسی ترجیحات اور عملی صورت حال کے تضاد کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ ہمارے وہ احباب جو زندگی کی پانچ چھ دِہائیاں دیکھ چکے، ان کے لیے یہ سب شناسا سا ہے، بار بار دیکھی ہوئی فلم، ایک ایک سین یاد۔ یادش بخیر پرویز مشرف حکومت کے بعد 2008 میں ن لیگ نے چارٹر آف ڈیماکریسی کے تازہ تازہ خمار میں پی پی پی کے ساتھ بطور اتحادی حکومت میں شرکت کی۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے یکے بعد دیگرے دھواں دھار پریس کانفرنسوں میں خزانے کی ویرانی اور معیشت کی زبوں حالی کا اس قدر زوردار خوفناک نقشہ کھینچا کہ سرمایہ کاروں نے دوڑیں لگا دیں۔ خرابی سراسر پچھلی حکومت کی ہی بتائی گئی۔ پانچ سال بعد ن لیگ کو حکومت ملی تو نام و مقام کی تبدیلی کے ساتھ وہی نوحہ گری پھر سے دیکھنے کو ملی۔ یہی سلسلہ ہر نئی حکومت کے ساتھ رہا ۔

پاکستان اب تک 22 مرتبہ آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر دست سوال دراز کر چکا ہے۔ پہلی بار 1958 مگر 1980 سے لے کر اب تک 15 بار مشق ہائے گداگری کی خجالت سے گزرنا پڑا۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں رتی بھر کوئی تبدیلی ہوئی اور نہ ہمارے ذوقِ گدائی میں شرمساری کا کوئی گزر ہوسکا۔


ہر بار کاسہ گدائی کا سائز بڑھتا ہی چلا گیا۔بڑے بڑے جغادری ماہرین بتاتے نہیں تھکتے کہ بار بار بیلنس آف پیمنٹ بحران کی وجہ درآمدات میں برآمدات کی نسبت کئی گنا اضافہ ہے۔ درآمدات کا برآمدات سے تناسب مگر کم ہونے کا نام نہیں لیتا ۔ ٹیکنالوجی اور ویلیو ایڈیشن میں زمانہ قیامت کی چال چل گیا مگر اپنی چال بدلی نہ چلن بدلا۔

کیا یہ محض اتفاق ہے کہ آبادی کے اعتبار سے چھٹا سب سے بڑا ملک جسے اپنے جوہری ہونے کا گھمنڈ بھی ہے بدستور دلدل میں کیوں پھنسا ہوا ہے؟ ورلڈ سسٹم اور اس کے گورکھ دھندے میں کونسے ایسے الجھاوے ہیں کہ ہم ایسا ملک بار بار اس میں الجھ جاتا ہے۔ لبرل ڈیماکریسی اور کیپیٹلزم کے پروردہ ماہرین کے بقول یہ ممالکModernization theory یا Development Theory کے اس روایتی ماڈل کو فالو نہیں کرپاتے جس پر عمل پیرا ہو کر ترقی یافتہ ممالک نے ترقی کو اپنایا یعنی ٹیکنالوجی، ایکسپورٹس، گلوبل مارکیٹ سے مکمل جڑاؤ وغیرہ ۔

اس کے برعکس وہ ماہرین جو بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں وہ Dependency Theory کے ذریعے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک نے گلوبل سسٹم کچھ اس انداز میں ترتیب دیا ہے کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کو حقیر ٹیکنالوجی اور تجارتی ورلڈ آرڈر کے چنگل میں پھنسا کر ان کی سستی لیبر اور وسائل کے ثمرات اپنی جانب سمیٹ لیتے ہیں جب کہ غریب اور ترقی پذیر ممالک کی تہی دامنی وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے۔

اس گلوبل نظام کو تاریخ اور معیشت کے تناظر میں سمجھنے کے لیے معروف اسکالر ایمانویل ویلرسٹین نے ورلڈ سسٹم تھیوری پیش کی۔ اس کا بنیادی نکتہ بھی یہی ہے کہ عالمی نظام میں ترقی یافتہ اقوام نے اپنے برتری قائم رکھنے اور وسائل کی سستی فراہمی کے لیے اس نظام کی آبیاری کی ہے۔

ایک سائز سب کے لیے والے معاشی فارمولے کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کیپٹیلزم کی کوکھ سے معاشی ناہمواری اور کمزور کے وسائل اور لیبر کے استحصال کا جنم اس نظام کا فطری عمل ہے۔ اس لیے آنکھیں بند کرکے کیپیٹلزم ورلڈ سسٹم کی پڑھائی جانے والی پٹی سے وسیع البنیاد اور قدرے متوازن ترقی اور ڈویلپمنٹ ممکن نہیں۔ ممالک کو اپنے جغرافیائی امکانات اور دھرتی سے ماخوذ فیصلوں کو بروئے کار لانا پڑے گا نہ کہ ترقی یافتہ ممالک کے تخلیق کردہ ورلڈ سسٹم کی ظاہری چمک دمک میں چندھیا کر خوار ہونے سے کچھ ہوگا۔

چین، کوریا، تائیوان، سنگاپور، ویت نام کی کامیاب مثالیں سامنے ہیں کہ اپنے مقامی ماحول اور صلاحیتوں کو ایک ویژن اور جنون کے ساتھ طویل مدت پلاننگ کے ذریعے انھوں نے معاشی استحکام ممکن بنایا۔ بیرونی اداروں اور طاقت پر انحصار ، ملک میں کرپشن اور نااہلی کے حامل ممالک بشمول پاکستان Dependency Theory کے مستقل کردار ہیں۔

اللہ مفتاح اسماعیل کی ذہانت کی لاج رکھے اور وہ ایک ارب ڈالرز کی قسط جاری کرانے میں کامیاب ہو جائیں جس کے لیے آئی ایم ایف نے پانچ کڑی شرائط رکھی ہیں۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اس ملک کی رولنگ کلاس بار بار ہر دو چار سال بعد اسی جگہ سے ملک کو گزرنے پر مجبورکیوں کرتے ہیں جہاں سے بار بار گزرے ہیں۔ سیاسی بیانیوں سے معیشت اور سماج بدل سکتے تو ہم آج شاید صفِ اول میں ہوتے مگر ایسا نہ ہوا نہ ہونے کا امکان ہے۔ ہاں توشہ خانے کی کہانیاں اور غداری و غلامی کی گردانیں عوام کی توجہ ایک بار پھر کامیابی سے زمینی حقائق سے ہٹانے میں کامیاب ہیں۔
Load Next Story