بلوچستان نئی حکومت کا امتحان

عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں بلوچستان مسلسل چپقلش کا شکار ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan April 23, 2022
[email protected]

میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت کو پہلا دھچکا لگ گیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے وفاقی کابینہ کا حصہ بننے سے انکار کیا اور بی این پی کے اراکین نے اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔

بی این پی کے سربراہ اختر مینگل کا کہنا ہے کہ بلوچوں کو مسلسل مسائل کا سامنا ہے۔گزشتہ ہفتہ بلوچستان کے پسماندہ علاقہ چاغی میں فائرنگ میں کئی افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے، یہ صورتحال کسی صورت قابل قبول نہیں۔ نیشنل پارٹی کے وفد نے صدر ڈاکٹر مالک بلوچ کی قیادت میں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔

ڈاکٹر مالک بلوچ نے وزیر اعظم کو بتایا کہ چاغی بلوچستان کا پسماندہ ترین علاقہ ہے جہاں کے شہریوں کی زندگیوں کا دارومدار ایران سے آنے والے سامان پر ہے۔ حکومت اب سامان پر ٹیکس لگا کر اس تجارت کو قانونی شکل دے سکتی ہے مگر اس سامان کی رسد روکنے کا مقصد مقامی افراد کو فاقہ کشی کا شکار کرنا ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے طلبہ مسلسل خوف کی صورتحال کا شکار ہیں۔

ان کا ایک ساتھی لاپتہ ہوا تو ان طلبہ نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا۔ اسلام آباد کی سول سوسائٹی نے بھی ان طلبہ کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ عمران خان کی سابق وزیرانسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی صاحبزادی دعا مزاری ایڈووکیٹ نے ان طلبہ کے مظاہروں میں سب سے زیادہ متحرک کردار ادا کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے گزشتہ ہفتہ قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور یونیورسٹی کے چانسلر صدر پاکستان کو حکم دیا ہے کہ ان طلبہ کی داد رسی کریں۔

عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں بلوچستان مسلسل چپقلش کا شکار ہے۔ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے ماہی گیر اپنے روزگار کو بچانے کے لیے مسلسل احتجاج کرتے رہے۔

جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل مولانا وحید الرحمن نے گوادر کے ماہی گیروں کو منظم کیا اور اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے طویل ترین دھرنا دیا۔ ان کا سب سے اہم مطالبہ یہ تھا کہ ماہی گیروں کو ہفتہ میں پانچ دن مچھلی کے شکار کی اجازت دی جائے۔ بلوچستان کی حکومت نے مولانا سے معاہدہ کیا مگر اب مولانا پھر احتجاج کررہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ماہی گیروں کے تحفظ کے لیے معاہدہ کے مندرجات پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ گزشتہ سال بلوچستان یونیورسٹی کے دو طالب علموں کے لاپتہ ہونے پر طلبہ نے احتجاج کیا۔ یہ احتجاج پورے صوبہ میں پھیل گیا، تمام یونیورسٹیاں بند ہوگئیں۔ حکومت نے کوئٹہ میں دھرنا دینے والے طلبہ سے طویل مذاکرات کیے مگر یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ یہ لہر صوبہ کی باقی یونیورسٹیوں میں پھیل گئی۔

بلوچستان یونیورسٹی تین ماہ تک بند رہی۔ کوئٹہ میں ایک ہی بڑا سول اسپتال ہے۔ اس کے ڈاکٹر کئی مہینوں سے ہڑتال پرہیں اور اسپتال کا بیرونی علاج کا شعبہ (O.P.D) میں بھی کئی مہینوں سے کام نہیں ہورہا ہے، مگر صوبائی حکومت مسئلہ کا حل تلاش نہیں کرپائی ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تصادم کی خبریں آتی ہیں۔ اسی طرح کے تصادم میں لوگ مارے جاتے ہیں۔ پہلے صرف مکران ڈویژن میں یہ صورتحال نہیں اب یہ صورتحال صوبہ کے دیگر علاقوں تک پھیل گئی ہے۔

بلوچستان کے حالات نئی صدی کے آغاز سے خراب ہونا شروع ہوئے۔ مشرف دور میں حالات میں بہتری کے لیے کچھ نہیں ہوا۔ جب پیپلز پارٹی نے 2008میں وفاق اور صوبہ میں حکومتیں قائم کیں تو بلوچستان کی بہتری کے لیے کچھ اقدامات کیے تھے۔ آغازِ بہبود بلوچستان پیکیج کا اعلان ہوا مگر بلوچستان مذہبی ٹارگٹ کلنگ کا شکار رہا ہے۔ بلوچستان میں آباد دیگر صوبوں کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔

بلوچستان میں آباد ہزارہ برادری نسل کشی کا شکار ہوئی۔ 2013 میں میاں نواز شریف نے اقتدار سنبھالا، پہلی دفعہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مالک بلوچ وزیر اعلیٰ بنے۔ بلوچستان میں ترقی کا عمل شروع ہوا۔ ڈاکٹر مالک نے ایک طرف تعلیم اور صحت کے شعبوں کو بجٹ میں سب سے زیادہ ترجیح دی تو دوسری طرف ڈاکٹر مالک نے یورپ میں مقیم خودساختہ جلاوطن بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات شروع کیے۔

ڈاکٹر مالک کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچنے والا تھا کہ ان کی حکومت رخصت ہوئی اور صورتحال مزید خراب ہوگئی۔ 2018کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف اور بی این پی کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا مگر اس معاہدہ پر عملدرآمد نہیں ہوا اور سردار اختر مینگل متحدہ حزب اختلاف کا حصہ بن گئے۔ اختر مینگل نے عمران خان کی حکومت کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کیا۔

موجودہ مخلوط حکومت کو بلوچستان ساحل کے دائمی حل کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ بلوچستان کے دانشوروں کا بیانیہ ہے کہ حکومت بلوچستان میں حالات بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ڈاکٹر مالک نے میاں شہباز شریف سے کہا تھا کہ بلوچستان کے مسئلہ کا سیاسی حل نکلنا چاہیے اور حکومت کو تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا چاہیے۔ بلوچستان کا سب سے بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے۔

انسانی حقوق کے بین الاقوامی کنونشنز سے ہم آہنگی کے لیے شہریوں کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کے قانون کا مسودہ سینیٹ میں پیش کیا تھا۔ سینیٹ نے اس مسودہ کی منظوری دیدی تھی۔

عمران خان حکومت کی انسانی حقوق کے امور کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے یہ انکشاف کیا کہ سینیٹ سیکریٹریٹ سے یہ بل لاپتہ ہوا اور سابقہ حکومت 10 اپریل 2022 تک اس بل کے مسودہ کو تلاش نہیں کرسکی، یوں یہ قانون کی شکل اختیار نہ کرسکا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر برطانیہ کی پارلیمنٹ سے کسی بل کا مسودہ لاپتہ ہوجاتا تو متعلقہ وزیر کے لیے وزارت سے مستعفی ہونے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔

موجودہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس قانون کو قومی اسمبلی سے منظور کرائے۔ بلوچستان اور وزیرستان سمیت پورے ملک میں نافذ کرنا چاہیے، یوں ایک طرف بلوچستان کے عوام اور ریاست کے درمیان فاصلے کم ہوں گے۔

بلوچستان میں عام معافی کا اعلان ہونا چاہیے۔ بلوچستان کے احساس محرومی کو دور کرنے کے لیے آئین میں بلوچستان کو خصوصی حیثیت دینے کے بارے میں مباحثہ ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ بلوچستان شہباز شریف ، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن کا امتحان ہے۔ ان رہنماؤں کا فرض ہے کہ بلوچستان کے حالات کو معمول پر لانے کے لیے ادارہ جاتی اقدامات کیے جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں