چینی کی برآمد پر پابندی
ایک ارب ڈالر کی خاطر آئی ایم ایف نے پٹرول مہنگا کرنے سمیت 5 سخت ترین شرائط عائد کردی ہیں
2009 کی بات ہے ملک میں چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ 36 روپے فی کلو چینی فروخت ہوتے ہوتے پھر 52 روپے فی کلو تک جا پہنچی تھی۔ اگست 2009 کی بات ہے اپنے ایک دوست کے ساتھ سرگودھا شہر کے ایک محلے سے گزر رہا تھا کہ انھوں نے بتایا کہ چینی کی قلت شدید ہوتی جا رہی ہے لوگوں نے زیادہ سے زیادہ اسٹاک کرنا شروع کردیا ہے۔
اکثر گلی محلوں میں گھروں کو ہی لوگوں نے گودام کی شکل دے دی ہے اور چینی ذخیرہ کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس سال کے آخر تک چینی کی قیمت 90 روپے فی کلو تک پہنچ سکتی ہے اور چینی کی نئی پیداوار آنے سے قبل یہ سارا اسٹاک ختم ہو جائے گا اور ایسا ہی ہوا، ان دنوں ایک موقع پر چینی 90 روپے فی کلو بھی فروخت ہو رہی تھی۔
ہمارے ملک میں ذخیرہ اندوزی کی وبا عام ہے حتیٰ کہ ادویات اور وہ بھی جان بچانے والی یا اس سے کم درجے کی انتہائی ضروری ادویات بھی عین موقع پر غائب کردی جاتی ہیں جسے مارکیٹ میں کہا جاتا ہے کہ ''شارٹ'' ہوگئی ہے اور بعد میں یا تو کافی سارا منافع کما کر اس شارٹ کو ختم کردیا جاتا ہے یا مستقل بنیادوں پر اضافی قیمت متعین کردی جاتی ہے۔
موجودہ حکومت نے آتے ہی چینی کی برآمد پر پابندی عائد کردی ہے نئی حکومت کے اس اعلامیے کے بعد میں نے چینی کی درآمد برآمد کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی تو چینی کی برآمد سے متعلق ایک سنہرا سال نظر آیا۔
جب پاکستان چینی برآمد کرنے والے اہم ملکوں میں شامل تھا اور وہ سال تھا یعنی مالی سال 2017-18 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے عالمی شوگر مارکیٹ کو 14 لاکھ 70 ہزار میٹرک ٹن چینی فراہم کرکے تقریباً 50 کروڑ84 لاکھ ڈالر وصول کیے تھے، جس سے 56 ارب 38 کروڑ روپے وصول ہوئے تھے۔
اس سے اگلے سال 2018-19 میں چینی کی برآمد میں نصف سے کہیں زیادہ مقدار اور آمدن میں بھی کمی ہوئی لیکن پھر بھی پاکستان نے تقریباً 7 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کر ہی لی تھی اور پاکستان چینی کے برآمدی ملکوں کی صف میں موجود رہا، جس سے تقریباً 31 ارب 15 کروڑ روپے کی آمدن حاصل ہوئی۔ 2018 میں چینی لگ بھگ 50 روپے فی کلو دستیاب تھی۔
اس کے بعد چینی کی درآمد ہی درآمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ حکومت کبھی ذخیرہ اندوزی سے تنگ آ کر چینی درآمد کرنے کی منظوری دیتی اور چینی کی برآمد پر پابندی عائد کردیتی۔ لیکن شوگر مل والوں سے لے کر ذخیرہ اندوزوں تک جنھیں چینی مافیاز کا نام دیا گیا عوام بھی اخباری اطلاعات کے ذریعے ان باتوں سے مطلع ہوتے رہے ہیں۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کچھ عرصے کے لیے چینی فی کلو 160 روپے تک بھی دستیاب تھی۔ یہی وہ موڑ تھا جب بہت سے افراد نے چینی سے منہ موڑ کر گڑ کا استعمال شروع کردیا، پھر تو گڑ کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے۔
چینی کا سب سے زیادہ استعمال چائے میں کیا جاتا ہے اسے واحد پاکستانی مشروب بھی کہہ سکتے ہیں، جو ہر دور میں سستی رہی ہے،لیکن اب مہنگی ہو کر رہ گئی ہے۔ قوم اربوں روپے کی چائے پی جاتی تھی۔ ملک میں چینی کی قلت دور کرنے کے لیے حکومت نے 2020-21 میں چینی کی درآمد پر اربوں روپے خرچ کیے اب اربوں روپے کی چینی بھی کھا پی جاتے ہیں۔ پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق 2020-21 کے دوران 2 لاکھ 81 ہزار 329 میٹرک ٹن چینی کی درآمد پر 12 کروڑ86 لاکھ 53 ہزار ڈالر صرف کرتے ہوئے 20 ارب89 کروڑ30 لاکھ روپے خرچ کردیے گئے۔
اسی طرح حالیہ اعداد و شمار کچھ یوں ہیں کہ جولائی 2021 تا مارچ یعنی 31 مارچ2022 تک 3 لاکھ 11 ہزار میٹرک ٹن چینی درآمد کرلی گئی جس پر بلحاظ ڈالر 19 کروڑ9 لاکھ ڈالر صرف کیے گئے جو بلحاظ پاکستانی روپے 32 ارب 20 کروڑ80 لاکھ روپے بنتے ہیں۔
اس طرح جب چائے بنانے میں اربوں کی چائے اور اربوں کی چینی استعمال ہوگی تو ایک کپ چائے کی لاگت بھی بڑھے گی کیونکہ 100 روپے کی لگ بھگ چینی فی کلو مل رہی ہے اور چائے کی پتی کے داموں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ملک کے کئی مقامات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ ان علاقوں سے چائے کی پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے لیکن پاکستان میں ان اشیا کی پیداوار بڑھانے کی طرف توجہ نہیں ہے جن کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور ہم اربوں روپے خرچ کرکے درآمد کرتے ہیں۔
پاکستان میں ایسی زرعی معاشی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے جس سے اس بات کی کوشش کی جائے کہ پاکستان کو زرعی اشیا کی درآمد کی ضرورت نہ رہے۔ ایک ملک چند سال قبل 15 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کر رہا تھا۔ اب مستقل طور پر درآمد کرنے والا ملک بنتا جا رہا ہے۔ غور فرمائیں کہ مالی سال 2017-18 میں تقریباً 51 کروڑ ڈالر کما لیے تھے۔
اب یہ تسلسل جاری رہتا ہے عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمت بھی بڑھی ہے اس لحاظ سے اگر برآمدی مقدار بھی بڑھا لیتے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک ارب ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتے تھے۔ اب اسی ایک ارب ڈالر کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
ایک ارب ڈالر کی خاطر آئی ایم ایف نے پٹرول مہنگا کرنے سمیت 5 سخت ترین شرائط عائد کردی ہیں۔ اسی لیے میرا خیال ہے کہ پاکستان میں زرعی معاشی منصوبہ بندی ہونی چاہیے اور اس کا نفاذ اس طرح کیا جانا چاہیے کہ کوئی بھی حکومت ہو اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرے۔ اب یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ کبھی پیاز، آلو، ٹماٹر وغیرہ 5 تا 10 روپے فی کلو اور کبھی 150 سے 200 روپے فی کلو 400 روپے کلو ٹماٹر بھی فروخت ہوئے ہیں۔
اسی طرح کبھی لاکھوں ٹن گندم درآمد ہو رہی ہے، اسی طرح چینی درآمد ہو رہی ہے اور کھاد کی کبھی قلت کبھی بالکل غائب لیکن دگنی تگنی قیمت ادا کرنے پر ظاہر ہوکر مل بھی جاتی ہے۔ نئی حکومت نے یوریا قلت پر کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔ رپورٹ کب آئے گی یا کیسے آئے گی یہ وقت آنے پر ہی معلوم ہوگا۔
اکثر گلی محلوں میں گھروں کو ہی لوگوں نے گودام کی شکل دے دی ہے اور چینی ذخیرہ کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس سال کے آخر تک چینی کی قیمت 90 روپے فی کلو تک پہنچ سکتی ہے اور چینی کی نئی پیداوار آنے سے قبل یہ سارا اسٹاک ختم ہو جائے گا اور ایسا ہی ہوا، ان دنوں ایک موقع پر چینی 90 روپے فی کلو بھی فروخت ہو رہی تھی۔
ہمارے ملک میں ذخیرہ اندوزی کی وبا عام ہے حتیٰ کہ ادویات اور وہ بھی جان بچانے والی یا اس سے کم درجے کی انتہائی ضروری ادویات بھی عین موقع پر غائب کردی جاتی ہیں جسے مارکیٹ میں کہا جاتا ہے کہ ''شارٹ'' ہوگئی ہے اور بعد میں یا تو کافی سارا منافع کما کر اس شارٹ کو ختم کردیا جاتا ہے یا مستقل بنیادوں پر اضافی قیمت متعین کردی جاتی ہے۔
موجودہ حکومت نے آتے ہی چینی کی برآمد پر پابندی عائد کردی ہے نئی حکومت کے اس اعلامیے کے بعد میں نے چینی کی درآمد برآمد کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی تو چینی کی برآمد سے متعلق ایک سنہرا سال نظر آیا۔
جب پاکستان چینی برآمد کرنے والے اہم ملکوں میں شامل تھا اور وہ سال تھا یعنی مالی سال 2017-18 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے عالمی شوگر مارکیٹ کو 14 لاکھ 70 ہزار میٹرک ٹن چینی فراہم کرکے تقریباً 50 کروڑ84 لاکھ ڈالر وصول کیے تھے، جس سے 56 ارب 38 کروڑ روپے وصول ہوئے تھے۔
اس سے اگلے سال 2018-19 میں چینی کی برآمد میں نصف سے کہیں زیادہ مقدار اور آمدن میں بھی کمی ہوئی لیکن پھر بھی پاکستان نے تقریباً 7 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کر ہی لی تھی اور پاکستان چینی کے برآمدی ملکوں کی صف میں موجود رہا، جس سے تقریباً 31 ارب 15 کروڑ روپے کی آمدن حاصل ہوئی۔ 2018 میں چینی لگ بھگ 50 روپے فی کلو دستیاب تھی۔
اس کے بعد چینی کی درآمد ہی درآمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ حکومت کبھی ذخیرہ اندوزی سے تنگ آ کر چینی درآمد کرنے کی منظوری دیتی اور چینی کی برآمد پر پابندی عائد کردیتی۔ لیکن شوگر مل والوں سے لے کر ذخیرہ اندوزوں تک جنھیں چینی مافیاز کا نام دیا گیا عوام بھی اخباری اطلاعات کے ذریعے ان باتوں سے مطلع ہوتے رہے ہیں۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کچھ عرصے کے لیے چینی فی کلو 160 روپے تک بھی دستیاب تھی۔ یہی وہ موڑ تھا جب بہت سے افراد نے چینی سے منہ موڑ کر گڑ کا استعمال شروع کردیا، پھر تو گڑ کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے۔
چینی کا سب سے زیادہ استعمال چائے میں کیا جاتا ہے اسے واحد پاکستانی مشروب بھی کہہ سکتے ہیں، جو ہر دور میں سستی رہی ہے،لیکن اب مہنگی ہو کر رہ گئی ہے۔ قوم اربوں روپے کی چائے پی جاتی تھی۔ ملک میں چینی کی قلت دور کرنے کے لیے حکومت نے 2020-21 میں چینی کی درآمد پر اربوں روپے خرچ کیے اب اربوں روپے کی چینی بھی کھا پی جاتے ہیں۔ پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق 2020-21 کے دوران 2 لاکھ 81 ہزار 329 میٹرک ٹن چینی کی درآمد پر 12 کروڑ86 لاکھ 53 ہزار ڈالر صرف کرتے ہوئے 20 ارب89 کروڑ30 لاکھ روپے خرچ کردیے گئے۔
اسی طرح حالیہ اعداد و شمار کچھ یوں ہیں کہ جولائی 2021 تا مارچ یعنی 31 مارچ2022 تک 3 لاکھ 11 ہزار میٹرک ٹن چینی درآمد کرلی گئی جس پر بلحاظ ڈالر 19 کروڑ9 لاکھ ڈالر صرف کیے گئے جو بلحاظ پاکستانی روپے 32 ارب 20 کروڑ80 لاکھ روپے بنتے ہیں۔
اس طرح جب چائے بنانے میں اربوں کی چائے اور اربوں کی چینی استعمال ہوگی تو ایک کپ چائے کی لاگت بھی بڑھے گی کیونکہ 100 روپے کی لگ بھگ چینی فی کلو مل رہی ہے اور چائے کی پتی کے داموں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ملک کے کئی مقامات کی نشاندہی بھی کی گئی کہ ان علاقوں سے چائے کی پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے لیکن پاکستان میں ان اشیا کی پیداوار بڑھانے کی طرف توجہ نہیں ہے جن کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور ہم اربوں روپے خرچ کرکے درآمد کرتے ہیں۔
پاکستان میں ایسی زرعی معاشی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے جس سے اس بات کی کوشش کی جائے کہ پاکستان کو زرعی اشیا کی درآمد کی ضرورت نہ رہے۔ ایک ملک چند سال قبل 15 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کر رہا تھا۔ اب مستقل طور پر درآمد کرنے والا ملک بنتا جا رہا ہے۔ غور فرمائیں کہ مالی سال 2017-18 میں تقریباً 51 کروڑ ڈالر کما لیے تھے۔
اب یہ تسلسل جاری رہتا ہے عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمت بھی بڑھی ہے اس لحاظ سے اگر برآمدی مقدار بھی بڑھا لیتے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک ارب ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتے تھے۔ اب اسی ایک ارب ڈالر کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
ایک ارب ڈالر کی خاطر آئی ایم ایف نے پٹرول مہنگا کرنے سمیت 5 سخت ترین شرائط عائد کردی ہیں۔ اسی لیے میرا خیال ہے کہ پاکستان میں زرعی معاشی منصوبہ بندی ہونی چاہیے اور اس کا نفاذ اس طرح کیا جانا چاہیے کہ کوئی بھی حکومت ہو اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کرے۔ اب یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ کبھی پیاز، آلو، ٹماٹر وغیرہ 5 تا 10 روپے فی کلو اور کبھی 150 سے 200 روپے فی کلو 400 روپے کلو ٹماٹر بھی فروخت ہوئے ہیں۔
اسی طرح کبھی لاکھوں ٹن گندم درآمد ہو رہی ہے، اسی طرح چینی درآمد ہو رہی ہے اور کھاد کی کبھی قلت کبھی بالکل غائب لیکن دگنی تگنی قیمت ادا کرنے پر ظاہر ہوکر مل بھی جاتی ہے۔ نئی حکومت نے یوریا قلت پر کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔ رپورٹ کب آئے گی یا کیسے آئے گی یہ وقت آنے پر ہی معلوم ہوگا۔