گھریلو ملازمین پر تشدد ہمارے معاشرے کا المیہ

لوگ ہر چیز کا غصہ اپنے کمزور ملازمین پر نکالتے ہیں اور انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔


سدرہ کوثری February 27, 2014
گذشتہ کچھ عرصے میں ملازمین بالخصوص ملازم بچیوں کو تشدد اور جنسی زیادتی کر کے قتل کرنے کے واقعات میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے.

آمنہ جوہر ٹاؤن جیسے پوش علاقے میں ایک پرائیویٹ اسکول ٹیچر بیبی صاحبہ کے گھر کی ملازم تھی۔ اس کی مالکن کسی بڑے نجی سکول میں پڑھاتی تھیں جبکہ صاحب ایک بینک میں ملازم تھے۔ اس کے باوجود بھی وہ دونوں میاں بیوی اپنے دو ننھے بچوں کے ہمراہ کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ اوپر والی منزل پر دو کمروں کے سامنے آہنی جالی کی دیوار بنی تھی تاکہ گھر محفوظ رہے۔

مالکن صبح جاتے ہوئے آمنہ کو اوپر والی منزل میں بند کر کے جاتی تھیں، ان کا کہنا تھا کہ آمنہ چوریاں کرتی ہے، تالے میں بند رہے گی تو چوری نہیں کر پائے گی، بیچاری آمنہ ان کے واپس آنے تک بھوکی پیاسی اوپر ہی بند رہتی تھی ۔ ہر چھوٹی بڑی بات پر آمنہ کو پلاسٹک کے پائپ سے، جوتوں، تھپڑوں ، لاتوں اور مکوں سے مار پڑنا معمول کی بات تھی اور اکثر کوئی بڑی غلطی کرنے پر استری سے آمنہ کو جلایا جاتا تھا۔ آمنہ نے کئی بار اپنی والدہ کو چھپ کر مالک مکان کے گھر سے فون کیا اور ساری صورتحال بتائی۔ جب اس کی والدہ پیسے لینے آئیں تو انہوں نے بی بی صاحبہ سے شکایت کی اور آمنہ کو واپس لے جانے کی دھمکی دی۔ بی بی صاحبہ نے آمنہ کوجھوٹا قرار دیکر چند ہزارروپے آمنہ کی والدہ کے ہاتھ میں تھما دیے اور اس کے جانے کے بعد آمنہ کی پھر شامت آ گئی۔گیارہ سالہ آمنہ کو روز روز جانوروں کی طرح پیٹتا دیکھ کر مالک مکان نے ان سے بات کی کہ بچی کو ایسے مت ماریں اور اگر آپ لوگوں نے ملازمہ کی طرف یہ رویہ نہیں بدلا تو ہم کسی این جی او میں یا پولیس میں آپ کی شکایت کر دیں گے۔

مالک مکان کی تنبیہ پر کچھ عرصہ بعد ان دونوں میاں بیوی نے وہ گھر چھوڑ کر کہیں اور گھر کرائے پر لے لیا تاہم بعد میں بھی آمنہ ان پرانے مالک مکان کو فون کر کے کہتی تھی کہ اسے ان لوگوں سے بچا لیں ان لوگوں کے تشدد کرنے کے طریقوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے لیکن وہ لوگ بے بس تھے آمنہ کیلئے کچھ نہ کر سکے۔ کچھ وقت بعد آمنہ کا فون آنا بھی بند ہو گیا اب خدا جانے اس بچی کے ساتھ کیا ہوا۔

آج کل ہمارے اساتذہ اور پڑھے لکھے طبقے کا یہی حال ہے ۔ آئے روز اخبارات میں خبریں دیکھنے میں آتی ہے کہ معصوم ملازم بچے بچیاں زخموں کی تاب نہ سہتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے کیا یہ کسی قدیم حبشی غلام قبیلے کے بچھڑے ہوئے لوگ ہیں جن پر ظلم و ستم کرنا لوگ اپنا فرض سمجھتے ہیں؟ کیا یہ ملازم بھی اُس زمانے کے غلاموں کی حیثیت رکھتے ہیں جو سقراط، افلاطون اور ارسطو کے ادوار میں لوگوں کی خدمتیں کرتے تھے، ماریں کھاتے تھے اور پھر بھی اپنے مالکان کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لئے دن رات محنت کرتے تھے، آج بھی ان معصوم لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح سلگتے انگاروں کی مہر لگا کر اپنی ملکیت بنا دیا جاتا تھا اور پھر چاہے ان کے ساتھ جو شخص جیسا چاہے سلوک کرے ، ہماری بلا سے۔۔۔

گذشتہ کچھ عرصے میں ملازمین بالخصوص ملازم بچیوں کو تشدد اور جنسی زیادتی کر کے قتل کرنے کے واقعات میں بے پناہ اضافہ دیکھا گیا ہے ۔مالکن صاحبہ کا تو غریب ملازمین کو چور، نکٹھو اور کاہل سمجھنا عام سی بات ہے اب تو صاحب نے بھی ان کو مارنے پیٹنے سے گریز نہیں کرنا۔ کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ لوگوں کو کیا کہیں ، جب پڑھے لکھے لوگوں کی ہی بڑی تعداد ملازمین پر تشدد کرنےمیں پیش پیش دیکھائی ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو تقریباً ہر گھر میں 8سال سے 17 سالہ ملازم لڑکی کام کرتی نظر آئے گی۔ ان کے گھر والے پورے سال کی پیشگی رقم لیکر گاؤں سے انہیں شہروں کی بڑی کوٹھیوں میں چھوڑ جاتے ہیں اور 50 ہزار سے لیکر ایک لاکھ روپے تک کی رقم وصول کر کے انہیں مکمل طور پر بھول جاتے ہیں۔ ان کے بچوں کے ساتھ مالکان کیا سلوک کرتے اس کی ان کو نہ خبر ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی پرواہ۔

چائلڈ لیبر بڑھنے کی بڑی وجہ غربت اور آبادی میں اضافہ ہے ،پڑھے لکھے لوگوں کا ان چھوٹے بچوں کو ملازمت دینا غلط اقدام ہے۔جس عمر میں انہیں سکول جانا چاہیئے وہ موٹر مکینک کا کام سیکھ رہے ہوتے ہیں اور اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے بھاری بھرکم اوزار اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ بچے بڑوں کی نسبت کم پیسوں پر کام کرتے ہیں اس ہی لیے ان کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ جب یہ ننھے ملازمین اتنے سستے اور کام کے ہیں تو ان بچوں پر تشدد کی کیا وجہ ہے؟اب تک جتنے بھی تشدد کے کیسز سامنے آئے ہیں اس میں بچے جانبر نہ ہو سکے، وجہ بے تہاشا زخم ،مارپیٹ، ان کی تذلیل اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا ہے۔ انہیں بھوکا رکھا جاتا ہے اور جانوروں کی طرح گھر کے کسی کمرے یا چھت پر بند کر دیاجاتا ہے تاکہ وہ چوری نہ کر سکیں، چاہے وہ اپنی جان سے ہی چلے جائیں۔

اگر ہم اپنے ذہنوں پر ذرا زور ڈالیں تو پچھلے برس مظفر گڑھ میں گیلانی خاندان میں بھی فہیم نامی بچے کو تشدد کا نشانہ بنا کر چھت پر بند کر دیا گیا تھا۔ بروقت علاج نہ ہونے سے وجہ معصوم فہیم زخموں کی تاب نہ لا سکا اور جہان ِ فانی سے کوچ کر گیا۔ جبکہ گیلانی خاندان نے اس بچے کے والدین کو دھمکیاں اور کچھ رقم دیکر چپ کروا دیا گیا، اب بھی بڑے شہروں میں ملازم بچوں پر تشدد کے مختلف واقعات سامنے آئے جس میں پڑھے لکھے اور اچھے خاندان سے تعلق رکھنے والے لوگ سر فہرست دکھائے دیے۔

اس ظالمانہ رویے اور وحشیانہ تشدد کی ایک وجہ ڈپریشن بھی ہے جس کی وجہ سے مالکن اپنے ملازمین کو حقیر، ناکارہ اور گرا ہوا بے کردار انسان سمجھتی ہے۔ ان سے امتیازی سلوک برتا جاتا ہے اور ان کی عزت و بے عزتی کی کسی کو پرواہ نہیں ہوتی۔ لوگ ہر چیز کا غصہ اپنے کمزور ملازمین پر نکالتے ہیں اور انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، کچھ نوکرانیاں یا تو اس سب کی عادی ہو جاتی ہیں اور کچھ رقم لیکر چپ سادھ لیتی ہیں ، ایسا نہ کریں تو گھر تبدیل کر لیتی ہیں اور کچھ بچیاں وحشیانہ زیادتی کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ کوئی اس حققیت کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہے، حالات تو یک دم نہیں بدلے جا سکتے لیکن اپنے رویوں میں تبدیلی ضرور لائی جا سکتی ہے۔ اگر ہم اپنے ملازمین کو بھی اپنی ہی طرح جیتا جاگتا انسان سمجھنا شروع کر دیں اور ان کی تکالیف، احساسات اور پریشانیوں کو خاطر میں لائیں، ان کی مدد کریں اور انہیں باعزت روزگار مہیا کریں تو یقینا جنسی زیادیتوں، بیہمانہ تشدد اور خودکشیوں کے رجحان میں کمی آ سکتی ہے، اور ہمارے صرف ایک مثبت اقدام ملک سے چائلڈ لیبر کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں