ترسیلات زر میں کمی

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم قومی معیشت کو متحرک رکھنے کا اہم ذریعہ ہے


Editorial September 12, 2012
اگست میں ترسیلات زر میں 5کروڑ‘14لاکھ 99 ہزار ڈالر یا 3.93 فیصد کمی آئی ہے۔ فوٹو: رائٹرز

ایک خبر کے مطابق رواں مالی سال کے دوسرے ماہ (اگست) کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے تقریباً ایک ارب 26 کروڑ ڈالر کی رقوم وطن بھیجیں جب کہ گزشتہ سال اگست میں یہ رقوم تقریباً ایک ارب 31 کروڑ ڈالر تھیں گویا اس سال تقریباً 5 کروڑ ڈالر کی رقوم کم ارسال کی گئیں۔

روز گار کے سلسلے میں بیرون ملک گئے ہوئے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ہر ماہ کروڑوں ڈالر وطن میں بھیجتی ہے۔ اس طرح یہ رقم ملکی معیشت کے استحکام میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم قومی معیشت کو متحرک رکھنے کا اہم ذریعہ ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اگست میں ترسیلات زر میں 5کروڑ'14لاکھ 99 ہزار ڈالر یا 3.93 فیصد کمی آئی ہے، اسے بیرون ملک پاکستانیوں کا اپنی حکومت اور ملکی معیشت پر عدم اعتماد کا ایک مظہر بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس پر ارباب اختیار کو غور کرنا چاہیے۔

ہمارے ہاں ہر حکومت نے خواہ وہ جمہوری تھی یا غیر جمہوری اس نے معاشی پالیسی تشکیل دیتے ہوئے جغرافیائی صورتحال کے پیش نظرعسکری استحکام کو ترجیح دی اور کبھی کوئی ایسی پالیسی تشکیل نہیں دی گئی جس سے ایسا انفرااسٹرکچر وجود میں آئے جو معاشی سرگرمیوں میں تیزی اور استحکام کا باعث بن سکے۔ ماضی میں پانچ سالہ منصوبے بنانے کا پروگرام شروع ہوا تھا، تمام تر خرابیوں کے باوجود یہ اچھا اقدام تھا لیکن بتدریج یہ بھی ختم ہوگئے ۔ اس وقت صورتحال یوں ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے پورے ملک میں معیشت کا پہیہ سست کر دیا ہے۔

نئی فیکٹریاں کیا لگتیں جو موجود ہیں وہ بھی روز بروز مندی کا شکار ہو کر بند ہو رہی ہیں۔ پاکستانی برآمدات میں بھی کمی آ چکی ہے اور ہر سال اس میں مسلسل کمی آتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر پسماندگی کا شکار زراعت ملکی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہی اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ ہمیں سبزیاں بیرون ملک سے درآمد کرنا پڑ رہی ہیں۔ حکومتوں کی اسی غفلت اور بدعنوانی کا نتیجہ ہے کہ تاجر اور صنعتکار وطن عزیز میں سرمایہ کاری کرنے کے بجائے مایوس ہو کر اپنا سرمایہ بڑی تیزی سے بیرون ملک منتقل کر رہا ہے۔

معیشت میں مندی کے بادل تیزی سے چھا رہے ہیں۔ ان حالات میں بھی حکومت کی جانب سے کوئی ایسی معاشی پالیسی سامنے نہیں آ رہی جس سے یہ امید جنم لے سکے کہ ملک کی معیشت میں بہتری آئے گی۔ حکومت کی عوام اور ملکی ترقی و خوشحالی میں عدم دلچسپی کا نتیجہ ہی ہے کہ نہ صرف یہاں کا سرمایہ کار مایوسی کی دلدل میں پھنستا چلا جا رہا ہے بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی وطن عزیز میں رقوم بھیجنی کم کر دی ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق گزشتہ ماہ صرف سعودی عرب ہی سے سال بہ سال 16 لاکھ 70 ہزار ڈالر اور متحدہ عرب امارات سے 2 کروڑ 92 لاکھ ڈالر کی کمی آئی۔ روپے کی قدر میں استحکام آنے کے بجائے اس کی قدر میں کمی ہوئی اورملکی معیشت قرضوں کے شکنجے میں جکڑتی جا رہی ہے۔

آخر کب تک بیرون ملک سے مانگے گئے بھاری قرضوں کی بیساکھیوں پر لنگڑاتی ملکی معیشت کو سہارا دیا جاتا رہے گا۔ اگر اس نے لنگڑاتے لنگڑاتے زخموں سے چور ہو کر چلنے سے انکار کر دیا تو پھر؟ بڑے پیمانے پر سرمائے کی بیرون ملک منتقلی اور باہر سے ترسیلات زر میں کمی کے باوجود حکومتی ایوانوں میں سکوت طاری ہے اور کوئی ایسی معاشی پالیسی سامنے نہیں آ رہی جس سے امید کی کرن پھوٹے اور سرمایہ کار اپنا سرمایہ وطن عزیز میں لگانے کو ترجیح دے۔

جب ملک کا نوجوان طبقہ اور سرمایہ کار ہی مایوسی کا شکار ہو جائے تو یہ صورتحال معاشی زوال کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔اس سے زیادہ پریشان کن امر اورکیا ہو سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت دعوے اور نعرے لگانے کے بجائے حقیقی معنوں میں ملکی معیشت کی ترقی کے لیے اپنا لائحہ عمل تیار کرے اور ایسی پالیسیاں تشکیل دے جس سے معیشت پر چھائے ہوئے مندی کے بادل چھٹ جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |