آؤٹرنیٹ کردے گا انٹرنیٹ کی چُھٹی
برقی رابطے کی نئی ٹیکنالوجی دنیا بھر میں بلامعاوضہ استعمال کی جاسکے گی
انٹرنیٹ، ایک جادوئی ٹیکنالوجی، جس نے ہماری دنیا بدل کر رکھ دی۔
آج شاید ہی کوئی شعبہ اس ٹیکنالوجی کے دائرۂ اثر سے باہر ہو۔ ہر شعبے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ انٹرنیٹ کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ الغرض انٹرنیٹ ٹیکنالوجی روزمرّہ زندگی کا حصّہ بن چکی ہے۔ انٹرنیٹ سے استفادہ کرنے کے لیے ہم مختلف کمپنیوں کے محتاج ہیں۔ انہیں انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر (آئی ایس پیز) کہا جاتا ہے۔ ہم ان کمپنیوں کی فیس ادا کر کے انٹرنیٹ کنکشن حاصل کرتے ہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا سے جُڑ جاتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جادوئی ٹیکنالوجی سے دنیا کے ہر خطے کا فرد مستفید نہیں ہو رہا۔ کہیں آئی ایس پیز کا مسئلہ ہے، تو کہیں غربت اور پس ماندگی انٹرنیٹ سے استفادہ کرنے کی راہ میں حائل ہے۔
اس صورت حال میں آپ انٹرنیٹ تک دنیا کے ہر فرد کی بلامعاوضہ رسائی کا تصور کر سکتے ہیں؟ ایسا ہو سکتا ہے، کیوں کہ ایک تنظیم کی جانب سے اس تصور کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ دو برس کے بعد دنیا کا ہر فرد مفت انٹرنیٹ استعمال کرے گا۔
یہ دعویٰ نیویارک میںمیڈیا ڈیولپمنٹ انویسٹمنٹ فنڈ ( ایم ڈی آئی ایف) نامی تنظیم نے کیا ہے اور اس پر عملی کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ یہ منصوبہ ''آؤٹرنیٹ'' کے نام سے آگے بڑھ رہا ہے۔
'' آؤٹرنیٹ '' پروجیکٹ کے لیے '' ڈیٹا کاسٹنگ'' ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ اس ٹیکنالوجی کے تحت ڈیٹا ریڈیائی لہروں کی صورت میں بھیجا جاتا ہے۔ ایم ڈی آئی ایف کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے انٹرنیٹ کو خلا سے دنیا بھر میں پھیلایا جاسکے گا۔ اس مقصد کے لیے سیکڑوں چھوٹے مصنوعی سیارے ارضی مدار میں بھیجے جائیں گے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہوگا جیسے سیٹیلائٹ چینلز کے سگنلز خلا سے زمین پر پہنچتے ہیں اور پھر ٹیلی ویژن سیٹ انہیں کیچ کر لیتے ہیں۔
زمین کے زیریں مدار میں بھیجے جانے والے مصنوعی سیارے دنیا بھر میں موجود مختلف اسٹیشنوں سے ڈیٹا وصول کریں گے اور ''یوزر ڈیٹاگرام پروٹوکول'' نامی تیکنیک کے ذریعے اس ڈیٹا کو زمین پر بھیج دیں گے۔
سید کریم اس پروجیکٹ کے سربراہ ہیںِ۔ ان کا کہنا ہے کہ ''آؤٹر نیٹ'' کے لیے مطلوبہ ٹیکنالوجی پہلے ہی موجود ہے، جس کی وجہ سے اس منصوبے کی تکمیل میں زیادہ وقت صرف نہیں ہوگا۔ رواں برس جون میں یہ تنظیم ناسا سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر اس ٹیکنالوجی کے آزمائشی تجربات کے لیے اجازت طلب کرے گی، جس کے بعد جون 2015ء میں ارضی مدار میں مصنوعی سیاروں کو بھیجا جائے گا۔ اس کے ایک برس بعد ''آؤٹر نیٹ'' حقیقت بن جائے گا۔
اس بات کا امکان بھی ہے کہ ٹیلی کام اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیاں اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کریں، مگر سید کریم کے مطابق وہ اور اس منصوبے کی ٹیم ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
آج شاید ہی کوئی شعبہ اس ٹیکنالوجی کے دائرۂ اثر سے باہر ہو۔ ہر شعبے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ انٹرنیٹ کا عمل دخل نظر آتا ہے۔ الغرض انٹرنیٹ ٹیکنالوجی روزمرّہ زندگی کا حصّہ بن چکی ہے۔ انٹرنیٹ سے استفادہ کرنے کے لیے ہم مختلف کمپنیوں کے محتاج ہیں۔ انہیں انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر (آئی ایس پیز) کہا جاتا ہے۔ ہم ان کمپنیوں کی فیس ادا کر کے انٹرنیٹ کنکشن حاصل کرتے ہیں اور انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا سے جُڑ جاتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اس جادوئی ٹیکنالوجی سے دنیا کے ہر خطے کا فرد مستفید نہیں ہو رہا۔ کہیں آئی ایس پیز کا مسئلہ ہے، تو کہیں غربت اور پس ماندگی انٹرنیٹ سے استفادہ کرنے کی راہ میں حائل ہے۔
اس صورت حال میں آپ انٹرنیٹ تک دنیا کے ہر فرد کی بلامعاوضہ رسائی کا تصور کر سکتے ہیں؟ ایسا ہو سکتا ہے، کیوں کہ ایک تنظیم کی جانب سے اس تصور کو حقیقت میں بدلنے کے لیے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ دو برس کے بعد دنیا کا ہر فرد مفت انٹرنیٹ استعمال کرے گا۔
یہ دعویٰ نیویارک میںمیڈیا ڈیولپمنٹ انویسٹمنٹ فنڈ ( ایم ڈی آئی ایف) نامی تنظیم نے کیا ہے اور اس پر عملی کام بھی تیزی سے جاری ہے۔ یہ منصوبہ ''آؤٹرنیٹ'' کے نام سے آگے بڑھ رہا ہے۔
'' آؤٹرنیٹ '' پروجیکٹ کے لیے '' ڈیٹا کاسٹنگ'' ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ اس ٹیکنالوجی کے تحت ڈیٹا ریڈیائی لہروں کی صورت میں بھیجا جاتا ہے۔ ایم ڈی آئی ایف کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے انٹرنیٹ کو خلا سے دنیا بھر میں پھیلایا جاسکے گا۔ اس مقصد کے لیے سیکڑوں چھوٹے مصنوعی سیارے ارضی مدار میں بھیجے جائیں گے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہوگا جیسے سیٹیلائٹ چینلز کے سگنلز خلا سے زمین پر پہنچتے ہیں اور پھر ٹیلی ویژن سیٹ انہیں کیچ کر لیتے ہیں۔
زمین کے زیریں مدار میں بھیجے جانے والے مصنوعی سیارے دنیا بھر میں موجود مختلف اسٹیشنوں سے ڈیٹا وصول کریں گے اور ''یوزر ڈیٹاگرام پروٹوکول'' نامی تیکنیک کے ذریعے اس ڈیٹا کو زمین پر بھیج دیں گے۔
سید کریم اس پروجیکٹ کے سربراہ ہیںِ۔ ان کا کہنا ہے کہ ''آؤٹر نیٹ'' کے لیے مطلوبہ ٹیکنالوجی پہلے ہی موجود ہے، جس کی وجہ سے اس منصوبے کی تکمیل میں زیادہ وقت صرف نہیں ہوگا۔ رواں برس جون میں یہ تنظیم ناسا سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر اس ٹیکنالوجی کے آزمائشی تجربات کے لیے اجازت طلب کرے گی، جس کے بعد جون 2015ء میں ارضی مدار میں مصنوعی سیاروں کو بھیجا جائے گا۔ اس کے ایک برس بعد ''آؤٹر نیٹ'' حقیقت بن جائے گا۔
اس بات کا امکان بھی ہے کہ ٹیلی کام اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنیاں اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کریں، مگر سید کریم کے مطابق وہ اور اس منصوبے کی ٹیم ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔