Fatty Liver جگر کے خلیوں کے لیے نقصان دہ چربی
عام طور سے اس کی پہلی علامت جسمانی کم زوری کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، جو مستقل نہیں ہوتی۔
انسانی جسم میں جگر کئی اہم کام انجام دیتا ہے۔ جگر نظام ہاضمہ کو درست رکھنے کے ساتھ جسم کا حصّہ بننے والی خوراک سے فاسد مادے علیحدہ کر کے دل کو صاف خون مہیا کرتا ہے۔
ہماری خوراک سے مختلف قسم کی توانائی الگ کر کے انہیں ذخیرہ کرنا بھی جگر کا کام ہے۔ یہ ہارمونز کے نظام کو بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کے خراب ہونے سے انسانی جسم کے دوسرے اعضا پر بھی متأثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جگر کے مختلف امراض عام ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق علاج کی ناکافی سہولیات بھی امراض میں اضافے کا سبب ہیں۔
جگر کے امراض میں سے ایک Fatty Liver بھی ہے۔ اس بیماری میں جگر میں جمنے والی چربی اس کارکردگی کو شدید متاثر کرتی ہے۔ یہ چربی چھوٹی چھوٹی گول گیندوں کی شکل میں خلیوں کے درمیان پھنس کر اس کے افعال کو متأثر کرتی ہے۔ ہیپاٹائٹس، شوگر، بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کے علاوہ مٹاپا، جسم میں وٹامن اور غذا کی کمی، دواؤں کا زیادہ استعمال اور پیٹ کے مختلف امراض بھی فیٹی لیور کی وجہ بنتے ہیں۔
یہ بیماری دنیا میں عام ہے۔ فیٹی لیور کی وجہ سے جگر میں موجود خلیوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ہزاروں مردہ خلیوں کا ایک جال سا بننے لگتا ہے، جس سے خون کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس بیماری کی علامات ظاہر ہونے میں وقت لگتا ہے۔ عام طور سے اس کی پہلی علامت جسمانی کم زوری کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، جو مستقل نہیں ہوتی۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں زیادہ تر افراد ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے اور اسے معمولات زندگی انجام دینے کے دوران ہونے والی تھکن سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کی دوسری اہم علامت پیٹ کے اوپری حصے میں درد کی شکایت کرنا ہے۔ یہ معمولی نوعیت کا درد ہوتا ہے، جو عموما پیٹ کے دائیں جانب اٹھتا ہے۔
اس بیماری کا شکار لوگ جب ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں، تو وہ علامات جاننے کے بعد خون کے مختلف ٹیسٹ اور الٹرا ساؤنڈ کروانے کا مشورہ دیتے ہیں، جس کے بعد فیٹی لیور کی تشخیص ہوتی ہے۔ جگر کی بعض بیماریاں اسے آہستہ آہستہ ناکارہ بنا دیتی ہیں اور انسان موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس اہم عضو کو جزوی یا مکمل طور پر نقصان پہنچنے کی صورت میں اس کی تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ انسانی اعضا کی پیوند کاری اب نئی بات نہیں اور عطیہ شدہ جگر کی پیوند کاری بھی کی جاچکی ہے۔
حال ہی میں طب کی دنیا میں پہلی بار ایک مشین کی مدد سے عطیہ شدہ جگر کو انسانی جسم کے بغیر زندہ رکھنے کا تجربہ بھی کیا گیا ہے۔ آکسفورڈ یونی ورسٹی اور انسانی اعضا کی پیوندکاری کے لیے مشہور کنگز کالج لندن کے طبی ماہروں کا کہنا ہے کہ اس مشین کی مدد سے جگر کو انسان کے جسم کے درجۂ حرارت پر 24 گھنٹے تک متحرک اور افعال انجام دینے کے قابل رکھا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس عرصے میں خود کار مشین کی مدد سے جگر کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار خلیوں کی مرمت بھی کی جاسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق انہوں نے اس مشین کے ذریعے زندہ رکھے گئے عطیہ شدہ جگر کو دو مریضوں کے جسم میں کام یابی سے منتقل کیا اور وہ تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔
برطانوی سائنس دانوں کی تیار کردہ اس مشین کا حجم ایک عام ٹرالی کے برابر ہے۔ اس مشین کی تیاری اور تجربات میں انہیں پندرہ سال کا عرصہ لگا ہے۔ اس مشین میں لگی نلکیوں کے ذریعے مناسب مقدار میں آکسیجن، خون اور مقویات جگر تک پہنچائے جاتے ہیں تاکہ وہ انسانی جسم میں پیوند کاری کے قابل رہے۔ باسٹھ سالہ این کرسٹی کا جگر ہیپاٹائٹس کے مرض کی وجہ سے ناکارہ ہو چکا تھا اور ان کی زندگی کے لیے جگر کی پیوندکاری کی ضرورت تھی۔ ایک عطیہ شدہ جگر کو اس مشین کے ذریعے زندہ رکھنے کے بعد این کرسٹی کے جسم میں منتقل کر دیا گیا۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مشین جگر کو زیادہ وقت تک محفوظ رکھنے کے لیے طب کی دنیا کا بڑا کارنامہ ہے اور اسے مزید تجربات کے بعد گردے اور پھیپھڑے کی پیوند کاری کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ہماری خوراک سے مختلف قسم کی توانائی الگ کر کے انہیں ذخیرہ کرنا بھی جگر کا کام ہے۔ یہ ہارمونز کے نظام کو بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ اس کے خراب ہونے سے انسانی جسم کے دوسرے اعضا پر بھی متأثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جگر کے مختلف امراض عام ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق علاج کی ناکافی سہولیات بھی امراض میں اضافے کا سبب ہیں۔
جگر کے امراض میں سے ایک Fatty Liver بھی ہے۔ اس بیماری میں جگر میں جمنے والی چربی اس کارکردگی کو شدید متاثر کرتی ہے۔ یہ چربی چھوٹی چھوٹی گول گیندوں کی شکل میں خلیوں کے درمیان پھنس کر اس کے افعال کو متأثر کرتی ہے۔ ہیپاٹائٹس، شوگر، بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کے علاوہ مٹاپا، جسم میں وٹامن اور غذا کی کمی، دواؤں کا زیادہ استعمال اور پیٹ کے مختلف امراض بھی فیٹی لیور کی وجہ بنتے ہیں۔
یہ بیماری دنیا میں عام ہے۔ فیٹی لیور کی وجہ سے جگر میں موجود خلیوں کو نقصان پہنچتا ہے اور ہزاروں مردہ خلیوں کا ایک جال سا بننے لگتا ہے، جس سے خون کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس بیماری کی علامات ظاہر ہونے میں وقت لگتا ہے۔ عام طور سے اس کی پہلی علامت جسمانی کم زوری کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے، جو مستقل نہیں ہوتی۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں زیادہ تر افراد ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے اور اسے معمولات زندگی انجام دینے کے دوران ہونے والی تھکن سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کی دوسری اہم علامت پیٹ کے اوپری حصے میں درد کی شکایت کرنا ہے۔ یہ معمولی نوعیت کا درد ہوتا ہے، جو عموما پیٹ کے دائیں جانب اٹھتا ہے۔
اس بیماری کا شکار لوگ جب ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں، تو وہ علامات جاننے کے بعد خون کے مختلف ٹیسٹ اور الٹرا ساؤنڈ کروانے کا مشورہ دیتے ہیں، جس کے بعد فیٹی لیور کی تشخیص ہوتی ہے۔ جگر کی بعض بیماریاں اسے آہستہ آہستہ ناکارہ بنا دیتی ہیں اور انسان موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس اہم عضو کو جزوی یا مکمل طور پر نقصان پہنچنے کی صورت میں اس کی تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ انسانی اعضا کی پیوند کاری اب نئی بات نہیں اور عطیہ شدہ جگر کی پیوند کاری بھی کی جاچکی ہے۔
حال ہی میں طب کی دنیا میں پہلی بار ایک مشین کی مدد سے عطیہ شدہ جگر کو انسانی جسم کے بغیر زندہ رکھنے کا تجربہ بھی کیا گیا ہے۔ آکسفورڈ یونی ورسٹی اور انسانی اعضا کی پیوندکاری کے لیے مشہور کنگز کالج لندن کے طبی ماہروں کا کہنا ہے کہ اس مشین کی مدد سے جگر کو انسان کے جسم کے درجۂ حرارت پر 24 گھنٹے تک متحرک اور افعال انجام دینے کے قابل رکھا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس عرصے میں خود کار مشین کی مدد سے جگر کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار خلیوں کی مرمت بھی کی جاسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق انہوں نے اس مشین کے ذریعے زندہ رکھے گئے عطیہ شدہ جگر کو دو مریضوں کے جسم میں کام یابی سے منتقل کیا اور وہ تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔
برطانوی سائنس دانوں کی تیار کردہ اس مشین کا حجم ایک عام ٹرالی کے برابر ہے۔ اس مشین کی تیاری اور تجربات میں انہیں پندرہ سال کا عرصہ لگا ہے۔ اس مشین میں لگی نلکیوں کے ذریعے مناسب مقدار میں آکسیجن، خون اور مقویات جگر تک پہنچائے جاتے ہیں تاکہ وہ انسانی جسم میں پیوند کاری کے قابل رہے۔ باسٹھ سالہ این کرسٹی کا جگر ہیپاٹائٹس کے مرض کی وجہ سے ناکارہ ہو چکا تھا اور ان کی زندگی کے لیے جگر کی پیوندکاری کی ضرورت تھی۔ ایک عطیہ شدہ جگر کو اس مشین کے ذریعے زندہ رکھنے کے بعد این کرسٹی کے جسم میں منتقل کر دیا گیا۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مشین جگر کو زیادہ وقت تک محفوظ رکھنے کے لیے طب کی دنیا کا بڑا کارنامہ ہے اور اسے مزید تجربات کے بعد گردے اور پھیپھڑے کی پیوند کاری کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔