افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں
پاکستان میں ہر دوسرے تیسرے دن دہشت گرد افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کی چوکیوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں
پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں حالیہ کچھ عرصے سے دہشت گردی کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے، دہشت گردی کے ان واقعات کے بعد یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ اب پاکستان کو افغانستان کے بارے میں روایتی پالیسی میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
ویسے تو افغانستان کے حکمران چاہے وہ ظاہر شاہ کا دور ہو، سردار داؤد کی حکومت ہو، خلقی اور پرچمی سوشلسٹوں کی حکومت ہو، افغان مجاہدین کے نام پر برہان الدین ربانی، صبغت اللہ مجددی کی عبوری حکومتیں ہوں، امریکی حمایت یافتہ کرزئی اور اشرف غنی کا دور ہو یا طالبان کی حکومت ہو، ہر دور میں افغانستان پاکستان کے مفادات کے برعکس کام کرتا رہا ہے۔
حالیہ طالبان حکومت کے قائم ہونے کے بعد پاکستان کا ایک بااثر اور طاقتور حلقہ عوام کو یہ باور کرا رہا تھا کہ اب افغانستان میں امریکا اور نیٹو نہیں ہیں، بھارت کے قونصل خانے بند ہو گئے ہیں، طالبان، ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں گے لہٰذا اب پاکستان میں دہشت گردی نہیں ہو گی لیکن یہ سب باتیں صرف باتیں ہی رہیں۔ زمینی حقائق یہ رہے کہ طالبان نے افغانستان پر قابض ہوتے ہی پاک افغان سرحد کو متنازعہ کہنا شروع کر دیا اور مسلح طالبان سرحد پر لگی باڑ کو اکھاڑنے لگے۔
پاکستان کو مطلوب ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کر دیا گیا۔ اب پاکستان میں ہر دوسرے تیسرے دن دہشت گرد افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کی چوکیوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں لیکن افغانستان کی طالبان حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ آخر کب تک پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے افسر، جوان اور شہری دہشت گردی کا شکار ہوتے رہیں گے؟ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں موجود ہیں۔
19 اپریل کو شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں دہشت گردوں نے سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے ایک دہشت گرد کو ہلاک کیا، 21 اپریل کو بلوچستان کے علاقے آواران میں فورسز نے چوکی پر دہشت گردوں کا حملہ پسپا کردیا تاہم بھاگتے ہوئے دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک میجر شہید جب کہ ایک سپاہی زخمی ہو گیا۔ گزشتہ روز شمالی وزیرستان کے دیواگر علاقے میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے پاکستانی سپاہیوں پر حملہ کیا۔ پاک فوج کے 3 جوان شہید ہوئے۔
دہشت گردی کی یہ وارداتیں پاکستان کے لیے ناقابل برداشت ہیں اور دہشت گرد ناقابل معافی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہی خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں دہشت گردوں نے ملٹری کمپاؤنڈ میں داخلے کی کوشش کی، سیکیورٹی فورسز کی فوری کارروائی کے نتیجے میں تین دہشت گرد مارے گئے، آئی ایس پی آر کے مطابق فائرنگ کے شدید تبادلے میں پاک فوج کے چھ جری سپوت مادر وطن پر قربان ہوگئے۔ یہ حالیہ دنوں کا ہی ایک تذکرہ اور حوالہ ہے۔ پاکستان کی سابق حکومت تو طالبان حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے مسلسل کوشاں رہی۔
اس کے علاوہ سابق حکومت نے افغانستان کو گندم، چینی اور کھاد تک مہیا کی حالانکہ پاکستان میں عوام مہنگائی کی وجہ سے بدحال ہو رہے تھے لیکن سابق حکومت مسلسل پاکستانی عوام کی پرواہ کیے بغیر افغانستان کے طالبان حکومت اور عوام کی مدد کرتی رہی لیکن اس کے بدلے میں پاکستان کے عوام کو کیا ملا؟
سابق حکومت نے اس حوالے سے کوئی ٹھوس پالیسی اختیار نہیں کی حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان افغانستان کی حکومت کو خبردار کرتا کہ وہ پاک افغان سرحد کو متنازعہ بنانے سے باز رہے، سرحد پر لگی باڑ کو اکھاڑنے والے مسلح گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرے۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرے یا انھیں اپنے ملک سے بے دخل کرے یا ان کے خلاف خود کارروائی کرے لیکن پاکستان کی حکومت اور پالیسی سازوں نے اس حوالے سے پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی۔ یہ خاموش رہنے کی پالیسی کتنی دیر تک چلے گی۔
پاکستان کی یہ بھی خواہش اور مطالبہ ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت دوحہ معاہدے کی شرائط پر عمل کرے۔ اپنی حکومت میں افغانستان میں بسنے والی تمام اقوام کو بھرپور نمایندگی دی جائے۔ افغانستان کی حکومت خواتین کے حقوق کے حوالے سے خاصی تنقید کی زد میں ہے۔ عالمی میڈیا میں جو اطلاعات آ رہی ہیں 'ان میں یہی کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں بچیوں کے اسکول اور کالجز کو بند کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح جو خواتین گھروں سے باہر نکل کر ملازمتیں یا کوئی اور بزنس کر رہی ہیں ' ان پر بھی مختلف قسم کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں' افغانستان کے نسلی اور لسانی گروہ جن میں تاجک 'ہزارہ منگول اور ازبک شامل ہیں ' وہ طالبان حکومت کی ساخت اور پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔یہ وہ حقائق ہیں جن کی وجہ سے افغانستان کی حکومت عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ افغانستان کے غیر ملکی اثاثے منجمد ہیں' افغانستان کی حکومت کو دنیا کے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ افغانستان اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی فورمز پر اپنا مقدمہ بھی نہیں لڑ سکتا۔ اس ساری صورت حال نے سب سے زیادہ پریشانی اور مشکلات افغانستان کے غریب عوام کو درپیش ہے۔ افغانستان میں کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملازمین کو تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ بیرونی تجارت بھی انتہائی محدود پیمانے پر ہو رہی ہے۔
پاکستان اپنی بساکھ کے مطابق افغان عوام کی مدد کر رہا ہے لیکن پاکستان کی معاشی حالت بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ افغانستان کا بوجھ اٹھا سکے۔ ایسے حالات میں سب سے زیادہ ذمے داری افغانستان کی طالبان حکومت کی ہے کہ وہ اپنے ملک اور عوام کے مفاد میں اپنے طرز حکومت پر نظر ثانی کرے۔
افغانستان کے پڑوسی ممالک میں سب سے طویل 2600 کلو میٹر سے زائد کی سرحد پاکستان کے ساتھ ہے اور اس میں سے 1468 کلومیٹر طویل سرحد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساتھ ہے۔ بلوچستان کے ساتھ اس طویل بارڈر پر افغانستان کے چار صوبے لگتے ہیں جن میں ہلمند، قندھار، نمروز اور زابل شامل ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ساتھ خوست اور ہلمند، پکتیا وغیرہ ہیں۔ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کا بڑا سبب بھی افغانستان کا غیر مستحکم ہونا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کی حکومت کا بھی پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں ہے۔ ریاستی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے وار لارڈز اپنی اپنی مرضی کا قانون نافذ کر رہے ہیں۔ جو لوگ افغانستان کا انٹیلی جنس نیٹ ورک آپریٹ کر رہے ہیں ' ان کی اطلاعات حاصل کرنے کی بنیاد ملکی سلامتی اور اسٹرٹیجیکل معاملات پر نہیں ہے بلکہ ان کا فوکس صرف ایسے لوگوں تک پہنچنا ہوتا ہے جو طالبان کے نظریاتی مخالف ہیں۔
طالبان کے نظریات سے ہم آہنگ مسلح گروہ افغانستان میں من مانی کر رہے ہیں۔ اس لیے افغانستان کے حالات میں جلد بہتری کی امید نظر نہیں آ رہی۔ پہلے افغانستان میں امریکا اور نیٹو کی شکل میں ایک طاقت موجود تھی۔جس کی وجہ سے نظام حکومت اور معیشت چل رہی تھی ' ترقیاتی کام بھی ہو رہے تھے ' افغان عوام کو روز گار اور کاروبار کے مواقع بھی مل رہے تھے ' افغانستان کی کرنسی بھی مستحکم ہو رہی تھی لیکن اب یہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔
اب افغانستان میں کوئی ایسی سنگل پاور موجود نہیں ہے جو وار لارڈز کا خاتمہ کر سکے اور افغانستان کی معیشت کو رواں کر سکے۔ روس یو کرین کی جنگ میں الجھا ہوا ہے۔ روسی حکمرانوں کی ساری توجہ یو کرین کے بحران پر ہے ' وہ اب اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ طالبان کو مالی یا عالمی معاملات میں کوئی سہارا دے سکے۔یہ چین کی ریاستی پالیسی دفاعی نوعیت کی ہے۔ وہ کسی بھی عالمی تنازع میں بطور فریق شامل نہیں ہوتا۔
کسی ملک کی مالی مدد کے حوالے سے بھی چینی حکام اپنی شرائط میں نرمی کے قائل نہیں ہیں۔ چینی سرمایہ کار کسی ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے اس کے تحفظ کی ضمانت مانگتے ہیں۔ اس لیے یہ خیال کرنا کہ چین کسی ایسے ملک کا بوجھ اٹھا لے گا' جو دنیا کی طاقتور اقوام سے متصادم ہو۔
افغانستان کے جو بھی مسائل ہیں، انھیں حل کرنا افغانستان کی حکومت کا سب سے پہلا فرض ہے۔ افغانستان کے عوام کو روزگار فراہم کرنا، معیشت کو بہتر کرنا اور اقوام عالم کو مطمئن کرنا اور ان سے خوشگوار تعلقات قائم کرنا کسی اور کا کام نہیں بلکہ افغانستان کا نظم ونسق چلانے والے طالبان قیادت کا کام ہے۔
پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ایسے تعلقات بنانے چاہئیں جیسے ایک ریاست کے دوسری ریاست کے ساتھ ہوتے ہیں۔ افغانستان پر واضح کیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ متصل سرحدی علاقوں میں شرپسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کا جواب ویسے ہی دیا جائے جیسے افغانستان کی حکومت کا ہو۔
ویسے تو افغانستان کے حکمران چاہے وہ ظاہر شاہ کا دور ہو، سردار داؤد کی حکومت ہو، خلقی اور پرچمی سوشلسٹوں کی حکومت ہو، افغان مجاہدین کے نام پر برہان الدین ربانی، صبغت اللہ مجددی کی عبوری حکومتیں ہوں، امریکی حمایت یافتہ کرزئی اور اشرف غنی کا دور ہو یا طالبان کی حکومت ہو، ہر دور میں افغانستان پاکستان کے مفادات کے برعکس کام کرتا رہا ہے۔
حالیہ طالبان حکومت کے قائم ہونے کے بعد پاکستان کا ایک بااثر اور طاقتور حلقہ عوام کو یہ باور کرا رہا تھا کہ اب افغانستان میں امریکا اور نیٹو نہیں ہیں، بھارت کے قونصل خانے بند ہو گئے ہیں، طالبان، ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کریں گے لہٰذا اب پاکستان میں دہشت گردی نہیں ہو گی لیکن یہ سب باتیں صرف باتیں ہی رہیں۔ زمینی حقائق یہ رہے کہ طالبان نے افغانستان پر قابض ہوتے ہی پاک افغان سرحد کو متنازعہ کہنا شروع کر دیا اور مسلح طالبان سرحد پر لگی باڑ کو اکھاڑنے لگے۔
پاکستان کو مطلوب ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کر دیا گیا۔ اب پاکستان میں ہر دوسرے تیسرے دن دہشت گرد افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کی چوکیوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں لیکن افغانستان کی طالبان حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ آخر کب تک پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے افسر، جوان اور شہری دہشت گردی کا شکار ہوتے رہیں گے؟ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں موجود ہیں۔
19 اپریل کو شمالی وزیرستان کی تحصیل دتہ خیل میں دہشت گردوں نے سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی، پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے ایک دہشت گرد کو ہلاک کیا، 21 اپریل کو بلوچستان کے علاقے آواران میں فورسز نے چوکی پر دہشت گردوں کا حملہ پسپا کردیا تاہم بھاگتے ہوئے دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں ایک میجر شہید جب کہ ایک سپاہی زخمی ہو گیا۔ گزشتہ روز شمالی وزیرستان کے دیواگر علاقے میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں نے پاکستانی سپاہیوں پر حملہ کیا۔ پاک فوج کے 3 جوان شہید ہوئے۔
دہشت گردی کی یہ وارداتیں پاکستان کے لیے ناقابل برداشت ہیں اور دہشت گرد ناقابل معافی ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہی خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک میں دہشت گردوں نے ملٹری کمپاؤنڈ میں داخلے کی کوشش کی، سیکیورٹی فورسز کی فوری کارروائی کے نتیجے میں تین دہشت گرد مارے گئے، آئی ایس پی آر کے مطابق فائرنگ کے شدید تبادلے میں پاک فوج کے چھ جری سپوت مادر وطن پر قربان ہوگئے۔ یہ حالیہ دنوں کا ہی ایک تذکرہ اور حوالہ ہے۔ پاکستان کی سابق حکومت تو طالبان حکومت کو تسلیم کرانے کے لیے مسلسل کوشاں رہی۔
اس کے علاوہ سابق حکومت نے افغانستان کو گندم، چینی اور کھاد تک مہیا کی حالانکہ پاکستان میں عوام مہنگائی کی وجہ سے بدحال ہو رہے تھے لیکن سابق حکومت مسلسل پاکستانی عوام کی پرواہ کیے بغیر افغانستان کے طالبان حکومت اور عوام کی مدد کرتی رہی لیکن اس کے بدلے میں پاکستان کے عوام کو کیا ملا؟
سابق حکومت نے اس حوالے سے کوئی ٹھوس پالیسی اختیار نہیں کی حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان افغانستان کی حکومت کو خبردار کرتا کہ وہ پاک افغان سرحد کو متنازعہ بنانے سے باز رہے، سرحد پر لگی باڑ کو اکھاڑنے والے مسلح گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرے۔ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرے یا انھیں اپنے ملک سے بے دخل کرے یا ان کے خلاف خود کارروائی کرے لیکن پاکستان کی حکومت اور پالیسی سازوں نے اس حوالے سے پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی۔ یہ خاموش رہنے کی پالیسی کتنی دیر تک چلے گی۔
پاکستان کی یہ بھی خواہش اور مطالبہ ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت دوحہ معاہدے کی شرائط پر عمل کرے۔ اپنی حکومت میں افغانستان میں بسنے والی تمام اقوام کو بھرپور نمایندگی دی جائے۔ افغانستان کی حکومت خواتین کے حقوق کے حوالے سے خاصی تنقید کی زد میں ہے۔ عالمی میڈیا میں جو اطلاعات آ رہی ہیں 'ان میں یہی کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں بچیوں کے اسکول اور کالجز کو بند کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح جو خواتین گھروں سے باہر نکل کر ملازمتیں یا کوئی اور بزنس کر رہی ہیں ' ان پر بھی مختلف قسم کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں' افغانستان کے نسلی اور لسانی گروہ جن میں تاجک 'ہزارہ منگول اور ازبک شامل ہیں ' وہ طالبان حکومت کی ساخت اور پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔یہ وہ حقائق ہیں جن کی وجہ سے افغانستان کی حکومت عالمی تنہائی کا شکار ہے۔ افغانستان کے غیر ملکی اثاثے منجمد ہیں' افغانستان کی حکومت کو دنیا کے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ افغانستان اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی فورمز پر اپنا مقدمہ بھی نہیں لڑ سکتا۔ اس ساری صورت حال نے سب سے زیادہ پریشانی اور مشکلات افغانستان کے غریب عوام کو درپیش ہے۔ افغانستان میں کاروبار نہ ہونے کے برابر ہے۔ ملازمین کو تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہیں۔ بیرونی تجارت بھی انتہائی محدود پیمانے پر ہو رہی ہے۔
پاکستان اپنی بساکھ کے مطابق افغان عوام کی مدد کر رہا ہے لیکن پاکستان کی معاشی حالت بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ افغانستان کا بوجھ اٹھا سکے۔ ایسے حالات میں سب سے زیادہ ذمے داری افغانستان کی طالبان حکومت کی ہے کہ وہ اپنے ملک اور عوام کے مفاد میں اپنے طرز حکومت پر نظر ثانی کرے۔
افغانستان کے پڑوسی ممالک میں سب سے طویل 2600 کلو میٹر سے زائد کی سرحد پاکستان کے ساتھ ہے اور اس میں سے 1468 کلومیٹر طویل سرحد پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ساتھ ہے۔ بلوچستان کے ساتھ اس طویل بارڈر پر افغانستان کے چار صوبے لگتے ہیں جن میں ہلمند، قندھار، نمروز اور زابل شامل ہیں۔ خیبرپختونخوا کے ساتھ خوست اور ہلمند، پکتیا وغیرہ ہیں۔ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کا بڑا سبب بھی افغانستان کا غیر مستحکم ہونا ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طالبان کی حکومت کا بھی پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں ہے۔ ریاستی رٹ نہ ہونے کی وجہ سے وار لارڈز اپنی اپنی مرضی کا قانون نافذ کر رہے ہیں۔ جو لوگ افغانستان کا انٹیلی جنس نیٹ ورک آپریٹ کر رہے ہیں ' ان کی اطلاعات حاصل کرنے کی بنیاد ملکی سلامتی اور اسٹرٹیجیکل معاملات پر نہیں ہے بلکہ ان کا فوکس صرف ایسے لوگوں تک پہنچنا ہوتا ہے جو طالبان کے نظریاتی مخالف ہیں۔
طالبان کے نظریات سے ہم آہنگ مسلح گروہ افغانستان میں من مانی کر رہے ہیں۔ اس لیے افغانستان کے حالات میں جلد بہتری کی امید نظر نہیں آ رہی۔ پہلے افغانستان میں امریکا اور نیٹو کی شکل میں ایک طاقت موجود تھی۔جس کی وجہ سے نظام حکومت اور معیشت چل رہی تھی ' ترقیاتی کام بھی ہو رہے تھے ' افغان عوام کو روز گار اور کاروبار کے مواقع بھی مل رہے تھے ' افغانستان کی کرنسی بھی مستحکم ہو رہی تھی لیکن اب یہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔
اب افغانستان میں کوئی ایسی سنگل پاور موجود نہیں ہے جو وار لارڈز کا خاتمہ کر سکے اور افغانستان کی معیشت کو رواں کر سکے۔ روس یو کرین کی جنگ میں الجھا ہوا ہے۔ روسی حکمرانوں کی ساری توجہ یو کرین کے بحران پر ہے ' وہ اب اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ طالبان کو مالی یا عالمی معاملات میں کوئی سہارا دے سکے۔یہ چین کی ریاستی پالیسی دفاعی نوعیت کی ہے۔ وہ کسی بھی عالمی تنازع میں بطور فریق شامل نہیں ہوتا۔
کسی ملک کی مالی مدد کے حوالے سے بھی چینی حکام اپنی شرائط میں نرمی کے قائل نہیں ہیں۔ چینی سرمایہ کار کسی ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے اس کے تحفظ کی ضمانت مانگتے ہیں۔ اس لیے یہ خیال کرنا کہ چین کسی ایسے ملک کا بوجھ اٹھا لے گا' جو دنیا کی طاقتور اقوام سے متصادم ہو۔
افغانستان کے جو بھی مسائل ہیں، انھیں حل کرنا افغانستان کی حکومت کا سب سے پہلا فرض ہے۔ افغانستان کے عوام کو روزگار فراہم کرنا، معیشت کو بہتر کرنا اور اقوام عالم کو مطمئن کرنا اور ان سے خوشگوار تعلقات قائم کرنا کسی اور کا کام نہیں بلکہ افغانستان کا نظم ونسق چلانے والے طالبان قیادت کا کام ہے۔
پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ایسے تعلقات بنانے چاہئیں جیسے ایک ریاست کے دوسری ریاست کے ساتھ ہوتے ہیں۔ افغانستان پر واضح کیا جائے کہ وہ پاکستان کے ساتھ متصل سرحدی علاقوں میں شرپسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کا جواب ویسے ہی دیا جائے جیسے افغانستان کی حکومت کا ہو۔