عابدہ اقبال آزاد کی یادیں…
ادبی اسکالرز نے عابدہ کی سوچ کو سیاسی اور انقلابی قرار دیا
پلکوں پہ خواب سجائے، محبت کے رنگ اور جذبات بکھیرنے والی کراچی کی مشہور شاعرہ، افسانہ نگار اور ایکسپریس کی کالم نگار عابدہ اقبال آزاد کو اس فانی دنیا سے گزرے دس برس بیت گئے مگر ان کی یادیں ، قارئین کے دلوں میں اب بھی تازہ ہے، آپ 20 اپریل 2012 کو جہان ادب سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئیں۔
عابدہ اقبال بے پناہ صلاحیتوں کی مالکہ تھیں اور اردو ادب کو فروغ دینے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہتی تھیں۔ انھوں نے اپنی شاعری اور تحریر وںکے ذریعے اردو ادب کو ایک نیا انداز دیا اور جدید تر روپ دینے کی کوشش کی، مگر ان کی بے وقت موت نے انھیں اس ہدف سے محروم کردیا۔ عابدہ اپنی جدید اور منفرد تحریروں کی وجہ سے ہر صاحب ذوق اور ادب نواز کی ہر دلعزیز تھیں۔ عابدہ اپنی سیاسی اور انقلابی سوچ کے تحت آخر دم تک عوام کو ناانصافی، ظلم و تشدد سے نجات دلانے کے لیے اپنا قلمی احتجاج ریکارڈ کراتی رہیں۔
عابدہ بنگلہ دیش کے ایک ممتاز تاجر گھرانے میں پیدا ہوئیں جو بھارت کے شہر اعظم گڑھ سے تعلق رکھتا تھا۔ انھوں نے ڈھاکا میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی بنیادی تعلیم بنگال میں ہونے کی وجہ سے وہ رابندر ناتھ ٹیگور سے بے حد متاثر تھیں۔ شادی کے بعد انھوں نے کراچی کو اپنا بسیرا بنالیا اور اردو زبان پر بھرپور توجہ دی۔ یہی وہ دور تھا، جب انھوں نے کراچی میں بسنے والے لوگوں کو اور ان کی معاشرتی ناانصافیوں کو انتہائی قریب سے دیکھا اور محسوس کیااور یہی ان کی نظموں اور کالم نگاری کا موضوع بھی بن گیا۔
عابدہ اقبال مختلف سماجی تنظیموں کے ساتھ وابستہ تھیں اور اسی لیے عام انسان کی زندگی کی ضرورتوں کو نہ صرف بخوبی سمجھتی تھیں بلکہ ان کی سوچ و جذبات کو اپنی تحریر میں رقم کرکے ان لوگوں تک پہنچ جاتی تھیں۔ اسی کوشش میں عابدہ نے عام اور معاشی لحاظ سے محروم طبقے سے وابستہ لوگوں کی زندگی کو اپنی تخلیقات کا موضوع بنا لیا۔ انھوں نے اپنی تحریر میں معاشی طور پر پسے ہوئے طبقے اور مفاد نسواں کے لیے آواز بلند کی اور ان کے حق میں احتجاج کیا۔ وہ بنیادی طور پر امن اور سیاست میں توازن رکھنے کے حق میں تھیں، یعنی عابدہ مساوات پر یقین رکھتی تھیں۔ وہ معاشرے کے ہر اس فرنٹ پر مقابلہ کرنے کو تیار تھیں جس سے عام طبقے کے ساتھ ناانصافی، ظلم اور تشدد کا رنگ جھلکتا تھا۔ عابدہ نے اپنی سوچوں کو کبھی بھی نہ کسی دباؤ میں آنے دیا اور نہ ہی انھیں قید کیا۔
ان کے کالمز ہوں یا شاعری یا پھر افسانہ ان کی تحریر کے سادہ اور خصوصی طرز کو ادبی حلقوں میں سراہا گیا جب کہ عابدہ اپنی شاعری میں انسانی زندگی کو اپنا مقصد بنا کر عام لوگوں تک پہنچ جاتیں۔ ایک ایسے دور میں جب اردو شاعری جنون، عشق، خوبصورتی کے موضوع میں محدود تھی۔ عابدہ نے اپنی شاعری میں سوچ جذبات کا ایک مختلف زاویہ پیش کیا۔ ہلکی پھلکی روزمرہ زبان کے استعمال سے اپنی سوچ و جذبات کو بیان کرنے کا ہنر عابدہ بخوبی جانتی تھیں۔
آسان الفاظ کے چناؤ سے عابدہ نے اپنی نظموں کو سجایا اور جس سے ان کی نظمیں سمجھنے میں قارئین کو نہ تو کوئی دقت ہوئی اور نہ ہی اس کے بھاری پن سے پریشان ہوئے اسی لیے مشکل اور حساس موضوع کو بھی انھوں نے سادگی سے بیان کیا۔ عابدہ کی شاعرہ اور تحریر کی خصوصیت ہے کہ وہ پڑھنے والوں کے دلوں پر بوجھ نہیں بلکہ ایک سوچ بن کر طاری ہو جاتی ہے۔
عابدہ کی سوچ آسمان کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ اسی لیے اپنی نظموں میں انھوں نے زندگی کے ہر پہلو کو محسوس کیا اور الفاظ میں ڈھال کر اپنے اندر کے ٹیلنٹ کو اجاگر کیا اور لوگوں کے دل میں اتر گئیں۔ عابدہ اقبال ہر پیچیدہ مسائل بہت آسانی سے بیان کر جاتیں جن سے قارئین بھی سوچنے پر مجبور ہو جاتے۔ عابدہ کا انداز انتہائی مخصوس تھا۔ شاعری ہو یا کالمز یا پھر افسانہ، عابدہ کی سوچ اور ان کے موضوعات کسی نہ کسی مقصد پر مبنی تھے۔
عابدہ اپنے ادبی فن سے اردو ادب کو فروغ دینے میں ایک نمایاں کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ کہا جاتا ہے عابدہ اقبال آزاد نظریاتی شاعرہ تھیں۔ اسی طرح ان کے کالمز بھی معاشرے کے ہر پہلو پر کیا گیا ایک عمیقجائزہ تھے۔ بدانتظامی اور ناانصافی کے خلاف وہ ایک تنقید کار کا رول ادا کر رہی تھیں۔ عابدہ نے اپنے قلم کو عورتوں کے حقوق کے لیے بھی پوری طرح استعمال کیا۔ اپنی شاندار تخلیق سے عورت کے کردار کو نمایاں کیا اور اسے معاشرے کے اس مقام پر پہنچایا جس کی وہ حقدار ہے۔
ادبی اسکالرز نے عابدہ کی سوچ کو سیاسی اور انقلابی قرار دیا جب کہ پاکستانی معاشرے میں غیر کے نام پر قتل کے مسئلے کو اجاگر کرنے پر انھیں فیمنسٹ بھی کہا گیا۔ عابدہ نے اپنی نظموں میں غیرت کے نام پر قتل کو ایک ظالمانہ اور غیر حساس فعل قرار دیا، جب کہ ان کی نثر کی گہرائی نے اردو کے ماہرین اور نقادوں کی توجہ مبذول کرائی ۔ حساس شخصیت کی شاعرہ عابدہ آخر دم تک ناانصافی، ظلم و تشدد کے خلاف سراپا احتجاج رہیں۔
انھوں نے اپنے شایع ہونے والے دو مستقل عنوانات کے کالمز آئینہ اور دوسرا چہرہ سے بے پناہ مقبولیت حاصل کی جب کہ ان کی نظموں کے مجموعے'' آسمان'' نے شایع ہوتے ہی ان کو مقبولیت کی بلندیوں تک پہنچادیا۔ ان کی تحریر کے سادہ اور خصوصی اسٹائل کو ادبی حلقوں میں سراہا گیا جب کہ تنقید نگاروں نے عوامی تحریر کی کیٹیگری میں شمار کیا۔ عابدہ آرٹس کونسل کی لائف ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخلص سماجی کارکن بھی تھیں۔ عابدہ اپنی ادبی خدمات کی وجہ سے صحافتی اور ادبی حلقوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔