ایک معمہ ہے
پاکستان کا بھی اس لیے ہی براحال ہے وہ لوگ جوکبھی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادارنہیں تھے وہ گلے کا ہار بنے بیٹھے ہیں
ایک طوطی کا دل گھومنے کے لیے بڑا بے تاب تھا۔ طوطی روز طوطے سے کہتی کہ '' مجھے گھومنے جانا ہے، اپنے شہر سے کہیں دور میں یہاں رہتے رہتے بور ہو گئی ہوں'' آخرکار طوطا اپنی بیگم طوطی کی ضد سے مجبور ہوگیا اور سفرکا ارادہ پختہ کر لیا اور وہ تمام تیاریاں مکمل کر کے نکل پڑے ، کبھی اس جگہ تو کبھی دوسری جگہ بڑا مزا آرہا تھا ، گھومتے گھامتے ایک شہر کی طرف آنکلے۔
وہاں دیکھا تو بڑی وحشت برس رہی تھی لوگ پریشان اور خوفزدہ تھے یہ سب دیکھ کر طوطی کہنے لگی'' مجھے بڑی گھبراہٹ ہو رہی ہے میرا دل نہیں لگ رہا ، دم سا گھٹ رہا ہے چلو واپس چلتے ہیں'' طوطا کہنے لگا '' رات ہو گئی ہے ہر طرف اندھیرا ہے رات کسی پیڑکی ڈال پر گزار لیتے ہیں پھر صبح ہوتے ہی یہاں سے نکل جائیں گے'' طوطی نہیں مان رہی تھی وہ ایک پل بھی ادھر گزارنا نہیں چاہتی تھی آخر عاجز آکر شوہرانہ حقوق استعمال کرتے ہوئے طوطے نے ڈانٹ پلائی اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
قریب ہی ایک الو بیٹھا تھا اور ان کی باتیں سُن رہا تھا ، وہ بھی طوطے سے باتیں کر نے لگا ۔طوطے نے اس سے پوچھا '' آپ تو مقامی ہیں یہ بتائیں یہ شہر اتنا ویران اور وحشت ناک کیوں ہے'' الو بولا '' میاں یہ بات میں صبح بتائوں گا '' ان ہی باتوں میں صبح ہوگئی اور الو نے دونوں سے کہا '' چلو میرے ساتھ '' دونوں اس کے ساتھ چلے، الو اُنہیں ایک عمارت میں لے گیا اور وہاں انصاف کے کٹہرے میں جا کھڑا ہوا اور اپنا مقدمہ پیش کیا کہ '' مجھے انصاف دلایا جائے یہ طوطی میری بیوی ہے اس کو طوطا ورغلا کر بھگا کر لے جا رہا ہے برائے مہربانی میری بیوی کو واپس دلایا جائے'' طوطا تو یہ سُن کر ہکا بکا رہ گیا اور چلا کر بولا '' یہ کیا بدتمیزی ہے ہم تو اس شہر میں آئے ہیں یہ تو میری بیوی ہے یہ الو جھوٹ بول رہا ہے'' دونوں طرف سے بڑی بحث ہوئی طوطی کو اپنی بیوی ثابت کرنے کے لیے خوب خوب دلائل دیے گئے چیخم ڈھار سب ہوا۔
آخر فیصلہ آگیا اور طوطے سے کہا گیا کہ ثابت ہوگیا '' یہ الوکی بیوی ہے اور اگر تم اپنے دعوے سے دستبردار نہیں ہوگے تو تمہیں عمر قید کی سزا ملے گی'' طوطا تو یہ سُن کر رونے لگا کہ پردیس میں یہ کیا افتاد پڑی۔ طوطی کا الگ رو رو کر بُرا حال مگر دونوں کی نہ سُنی گئی ، آخر طوطے نے طوطی کو الو کے حوالے کیا اور دل برداشتہ ہو کر عمارت سے چلا الو طوطی کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے پیچھے چلا عمارت سے نکل کر الو نے طوطے کو آواز دی۔ طوطے نے کہا '' اب کیا رہ گیا ہے جو مجھے آواز دے رہے ہو'' الو نے کہا '' میاں طوطے یہ تمھاری ہی بیوی ہے ، اسے لے جائو'' طوطے نے حیران ہو کر پوچھا'' اندر تو تم نے ثابت کردیا کہ یہ تمھاری بیوی ہے'' الو نے کہا '' بھائی کل تم نے مجھ سے سوال کیا تھا ،یہ شہر اتنا ویران کیوں ہے یہ اس کا جواب ہے کہ جہاں انصاف نہ ملے وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔''
آج پاکستان کا بھی اس لیے ہی برا حال ہے وہ لوگ جو کبھی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں تھے وہ گلے کا ہار بنے بیٹھے ہیں۔ گیارہ جماعتیں ،گیارہ نظریات ایک دوسرے میں ایسے ضم ہوئے ہیں من دانم کہ تو دانم عہدوں کی بندر بانٹ میں آئین اور قانون کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں مرکز ہو یا صوبے سب کا حال ایک جیسا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ دنیا نے دیکھا آئین کی دھجیاں ایسی اُڑیں کہ ہاتھ ہی نہ آئیں۔ بزرگ سیاست داں پرویز الہی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ قابل مذمت ہے۔
ایسی جمہوریت نہ دیکھی نہ سُنی اب تو جمہوریت نے بھی ہاتھ جوڑ لیے ہیں کہ مجھے معاف کرو۔ کابینہ بن گئی کس طرح سے بنی سب پر عیاں ہے کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ۔ ایسے ایسے لوگوں کو ہم پر مسلط کر دیا گیا جس کی مثال تاریخ پاکستان میں بھی نہیں تیس سال سے باریاں لگ رہی ہیں اگر تیسری پارٹی کو اقتدار مل بھی گیا تھا تو صبر سے کام لیا جاتا انتخاب زیادہ دور تو نہیں تھے ۔ اب تو حلف بھی اُٹھا لیا مگر کسی کے ارمان پورے نہیں ہوئے۔
ایک بات اور تعجب خیز ہے کہ اب بلاول کی سی وی میں یہ لکھا جائے گا کہ وہ شہباز شریف کے ماتحت کام کریں گے ۔ اقتدار ایسی بلا ہے کہ اس کی خاطر مختلف خیال لوگ ایک جگہ جمع ہو گئے یہ معمہ سمجھنے کا ہے نہ سمجھانے کا ، مگر کھلی کتاب ہے مگر زبان خاموش ہے کہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے ورنہ کہنے کو تو بہت کچھ ہے کہ پی ڈی ایم میں کیسے جان پڑی ، راتوں رات کیا ہوا کس نے مسیحائی کی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم ہوں کے نہ ہونے والے وزیر اعلیٰ یہ سب شاید برداشت ہوجاتے اگر یہ کسی کی سازش یا مداخلت نہ ہوتی ، آج یہ کردار منظور نظر بن گئے یہ بات ہضم نہیں ہورہی ، واقعی دال میں کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔ عمران گلے میں ہڈی کی طرح پھنس گیا ہے اس کو حلق سے نکالنے میں انگلیاں زخمی ہوئی جا رہی ہیں۔
وہاں دیکھا تو بڑی وحشت برس رہی تھی لوگ پریشان اور خوفزدہ تھے یہ سب دیکھ کر طوطی کہنے لگی'' مجھے بڑی گھبراہٹ ہو رہی ہے میرا دل نہیں لگ رہا ، دم سا گھٹ رہا ہے چلو واپس چلتے ہیں'' طوطا کہنے لگا '' رات ہو گئی ہے ہر طرف اندھیرا ہے رات کسی پیڑکی ڈال پر گزار لیتے ہیں پھر صبح ہوتے ہی یہاں سے نکل جائیں گے'' طوطی نہیں مان رہی تھی وہ ایک پل بھی ادھر گزارنا نہیں چاہتی تھی آخر عاجز آکر شوہرانہ حقوق استعمال کرتے ہوئے طوطے نے ڈانٹ پلائی اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
قریب ہی ایک الو بیٹھا تھا اور ان کی باتیں سُن رہا تھا ، وہ بھی طوطے سے باتیں کر نے لگا ۔طوطے نے اس سے پوچھا '' آپ تو مقامی ہیں یہ بتائیں یہ شہر اتنا ویران اور وحشت ناک کیوں ہے'' الو بولا '' میاں یہ بات میں صبح بتائوں گا '' ان ہی باتوں میں صبح ہوگئی اور الو نے دونوں سے کہا '' چلو میرے ساتھ '' دونوں اس کے ساتھ چلے، الو اُنہیں ایک عمارت میں لے گیا اور وہاں انصاف کے کٹہرے میں جا کھڑا ہوا اور اپنا مقدمہ پیش کیا کہ '' مجھے انصاف دلایا جائے یہ طوطی میری بیوی ہے اس کو طوطا ورغلا کر بھگا کر لے جا رہا ہے برائے مہربانی میری بیوی کو واپس دلایا جائے'' طوطا تو یہ سُن کر ہکا بکا رہ گیا اور چلا کر بولا '' یہ کیا بدتمیزی ہے ہم تو اس شہر میں آئے ہیں یہ تو میری بیوی ہے یہ الو جھوٹ بول رہا ہے'' دونوں طرف سے بڑی بحث ہوئی طوطی کو اپنی بیوی ثابت کرنے کے لیے خوب خوب دلائل دیے گئے چیخم ڈھار سب ہوا۔
آخر فیصلہ آگیا اور طوطے سے کہا گیا کہ ثابت ہوگیا '' یہ الوکی بیوی ہے اور اگر تم اپنے دعوے سے دستبردار نہیں ہوگے تو تمہیں عمر قید کی سزا ملے گی'' طوطا تو یہ سُن کر رونے لگا کہ پردیس میں یہ کیا افتاد پڑی۔ طوطی کا الگ رو رو کر بُرا حال مگر دونوں کی نہ سُنی گئی ، آخر طوطے نے طوطی کو الو کے حوالے کیا اور دل برداشتہ ہو کر عمارت سے چلا الو طوطی کا ہاتھ پکڑ کر پیچھے پیچھے چلا عمارت سے نکل کر الو نے طوطے کو آواز دی۔ طوطے نے کہا '' اب کیا رہ گیا ہے جو مجھے آواز دے رہے ہو'' الو نے کہا '' میاں طوطے یہ تمھاری ہی بیوی ہے ، اسے لے جائو'' طوطے نے حیران ہو کر پوچھا'' اندر تو تم نے ثابت کردیا کہ یہ تمھاری بیوی ہے'' الو نے کہا '' بھائی کل تم نے مجھ سے سوال کیا تھا ،یہ شہر اتنا ویران کیوں ہے یہ اس کا جواب ہے کہ جہاں انصاف نہ ملے وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔''
آج پاکستان کا بھی اس لیے ہی برا حال ہے وہ لوگ جو کبھی ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روادار نہیں تھے وہ گلے کا ہار بنے بیٹھے ہیں۔ گیارہ جماعتیں ،گیارہ نظریات ایک دوسرے میں ایسے ضم ہوئے ہیں من دانم کہ تو دانم عہدوں کی بندر بانٹ میں آئین اور قانون کی دھجیاں اُڑائی جا رہی ہیں مرکز ہو یا صوبے سب کا حال ایک جیسا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں جو کچھ ہوا وہ دنیا نے دیکھا آئین کی دھجیاں ایسی اُڑیں کہ ہاتھ ہی نہ آئیں۔ بزرگ سیاست داں پرویز الہی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ قابل مذمت ہے۔
ایسی جمہوریت نہ دیکھی نہ سُنی اب تو جمہوریت نے بھی ہاتھ جوڑ لیے ہیں کہ مجھے معاف کرو۔ کابینہ بن گئی کس طرح سے بنی سب پر عیاں ہے کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا ۔ ایسے ایسے لوگوں کو ہم پر مسلط کر دیا گیا جس کی مثال تاریخ پاکستان میں بھی نہیں تیس سال سے باریاں لگ رہی ہیں اگر تیسری پارٹی کو اقتدار مل بھی گیا تھا تو صبر سے کام لیا جاتا انتخاب زیادہ دور تو نہیں تھے ۔ اب تو حلف بھی اُٹھا لیا مگر کسی کے ارمان پورے نہیں ہوئے۔
ایک بات اور تعجب خیز ہے کہ اب بلاول کی سی وی میں یہ لکھا جائے گا کہ وہ شہباز شریف کے ماتحت کام کریں گے ۔ اقتدار ایسی بلا ہے کہ اس کی خاطر مختلف خیال لوگ ایک جگہ جمع ہو گئے یہ معمہ سمجھنے کا ہے نہ سمجھانے کا ، مگر کھلی کتاب ہے مگر زبان خاموش ہے کہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے ورنہ کہنے کو تو بہت کچھ ہے کہ پی ڈی ایم میں کیسے جان پڑی ، راتوں رات کیا ہوا کس نے مسیحائی کی۔
اب صورت حال یہ ہے کہ وزیراعظم ہوں کے نہ ہونے والے وزیر اعلیٰ یہ سب شاید برداشت ہوجاتے اگر یہ کسی کی سازش یا مداخلت نہ ہوتی ، آج یہ کردار منظور نظر بن گئے یہ بات ہضم نہیں ہورہی ، واقعی دال میں کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔ عمران گلے میں ہڈی کی طرح پھنس گیا ہے اس کو حلق سے نکالنے میں انگلیاں زخمی ہوئی جا رہی ہیں۔