بیانیے کی سیاست کو ’’رد‘‘ کرنے کا وقت
تمام سیاسی جماعتیں عوام کے حقوق اور جمہوری آزادی کا ڈھول پیٹتی نظر آتی ہیں
آج کل ہماری سیاست میں '' بیانیہ'' بیچنے کا چلن عام ہو چلا ہے ، عموما پر فریب بیانیے کی مدد سے اکثر سیاسی جماعتیں اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا تو دی جاتی ہیں مگر اس میں ضروری نہیں ہوتا کہ طاقتور حلقے ان کے بیانیے سے متفق ہوں یا اسے قبول کرلیں، اور یوں جب طاقت کے اصل محرک ان جماعتوں کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں تو پھر یہ جماعتیں نئے بیانیے کی بنت کرکے عوام سے پر فریب نعرے لگوا کر دوبارہ طاقت وروں کے ترلے کرکے اپنے گروہی مفادات کو اہم جان کر ایک مصالحتی اقتدار حاصل کرکے عوام کو بکائو مال کی طرح بیچ دیتی ہیں اور پھر نہایت صفائی سے عوام کے بنیادی جمہوری حقوق سے صرف نظر کر لی جاتی ہے۔
عوام کی حمایت سے اکثر یہ جماعتیں اقتدار تو حاصل کرلیتی ہیں مگر اس کے نتیجے میں عوام کے جمہوری سیاسی اور سماجی حقوق طاقتوروں کو فروخت کر دیے جاتے ہیں ، اور جب بے مول اور لا حاصل عوام اپنے بیچے جانے کو سمجھ جاتی ہے تو دوبارہ سے ایک نیا بیانیہ گھڑا جاتا ہے تاکہ عوام اقتدار کی راہداریوں میں صرف بھٹکتے رہیں مگر جمہوری اور معاشی حصول کسی طور نہ لے پائے اور نہ عوام کو ان کے یہ حقوق دیے جائیں۔
دور کیوں جائیں بلکہ آج کل کی سیاست ہی میں سب کچھ دیکھا جا سکتا ہے ، تمام سیاسی جماعتیں عوام کے حقوق اور جمہوری آزادی کا ڈھول پیٹتی نظر آتی ہیں مگر مجال کہ اقتدار کے ایوانوں میں جاکر ان کی جمہوری آزادی کے لیے کچھ کیا جاتا ہو، اقتدار سے الگ ہوکر کہیں بیرونی سازش کی دھائی سننی پڑتی ہے تو کہیں آئین اور قانون کے تحت جمہوری اداروں کی بحالی کا بیانیہ عوام کے سامنے لایا جاتا ہے ، بعض مرتبہ عوام کو طاقتور طبقوں کے سامنے ''ڈٹ '' کر کھڑا ہونا دکھایا جاتا ہے تو دوسرے ہی لمحے غور و فکر کے بعد طاقتوروں کی مرضی پر چلنے کے لیے معافی اور ترلے زبانوں پر لائے جاتے ہیں اور پارلیمینٹ کو بے توقیر کرنے والے جمہوری جدوجہد کرنے کے خوش کن نعروں سے دوبارہ عوام کے خوابوں کو خوبصورتی سے ذبح کرنے کی جانب اپنا سفر جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔
اس گنجلک سیاسی ماحول میں طاقتور طبقوں سے خارجہ ، خزانہ ، داخلہ اور سرمایہ کاری کے شعبوں کو پارلیمینٹ کے ذریعے منتخب نمایندوں کو دینے کی بات کوئی بھی نہیں کرتا اور جو مسائل کی جڑ ہے اس کی تلاش میں نہ عوام کو سیاسی طور سے آگاہی دی جاتی ہے اور نہ ہی انھیں کھل کر حقیقی صورتحال بتائی جاتی ہے ، اس سیاسی ماحول میں '' کیوں '' کا سوال نہ اٹھانا ہی ہمارے عوام کی سیاسی لا علمی اور سیاست دانوں کی مفاد پرستی ہے ، جب تک سماج میں سوال اٹھانے کا چلن عام نہیں کیا جائے گا، یاد رکھا جائے کہ اس وقت تک نہ جمہوری حاصلات عوام کو حاصل ہوں گی اور نہ ہی عوام اپنے بنیادی حقوق لے پائیں گے۔
جب نیا پاکستان زمین دوز ہونے لگتا ہے تو امر بالمعروف کا بیانیہ آ جاتا ہے ، جب وہ کمزور ہونے لگتا ہے تو بیرونی سازش نکل آتی ہے جب بیرونی سازش کا پول کھلنے لگتا تو ''غلامی یا آزادی'' کا بیانیہ لا کر عوام کی سیاسی، معاشی اور سماجی محرومی سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔
''آزادی یا غلامی'' کا یہ بیانیہ آمر جنرل ضیا کے دور کے اس ریفرنڈم کے بیانیے کی روح لیے ہوئے ہے ، جس میں سوال تھا کہ '' آپ اسلامی ریاست کے حق میں ہیں تو پانچ سال کے لیے ضیاالحق کو صدر منتخب کیجیے ورنہ آپ نہ مسلمان ہیں اور نہ سچے پاکستانی۔ آزادی یا غلامی کا نیا بیانیہ بھی مذکورہ بیانیے کا عکس اور عوام کو دوبارہ سے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے علاوہ کچھ نہیں۔آئینی طور سے نئی لائی گئی حکومت کا یہ ایک اچھا بیانیہ ہے کہ وہ کوئی انتقامی سیاست نہیں کرے گی اور کارکردگی پر نظر رکھے گی مگر ان ساڑھے تین سالوں میں ملک کا معاشی اور عوامی استحصال کیا گیا ہے اس کی جوابدہی جانے والوں سے کیوں نہیں کی جائے گی کہ سابقہ نے بالترتیب مختلف شعبوں کا جب یہ حال کیا ہو کہ
بیرونی قرض:2018 میں 90 ارب ڈالر
2022 میں 131 ارب ڈالر
اندرونی قرض:2018 میں 1.1 ٹرلین روپے
2022 میں 4.5 ٹرلین روپے
ایکسچینج ریٹ:2018 میں 125 روپے
2022 میں 186 روپے
کرپشن انڈیکس:2018 میں 117 نمبر
2022 میں 147 نمبر
اکنامک گروتھ ریٹ:2018 میں %5.53
2022 میں %0.04
اسی کے ساتھ اس کی جواب طلبی کب اور کیسے ہو گی کہ ملک کے طاقتور ادارے یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے تھے تو تین برس تک کیوں ریت میں سر دیے بیٹھے تھے؟
دوسری جانب ملک میں لائی گئی بظاہر آئینی سیاسی صورتحال میں ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کا پتہ اسٹبلشمنٹ کی اقتدار پر کمزور گرفت کو مضبوط کرنے میں دوبارہ سے جت گیا ہے، جب کہ دوسری جانب مسلم لیگ ن اپنے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے اور اسٹبلشمنٹ کے سیاسی اقتدار میں اثر و نفوذ کو کم کرنے اور جمہوری اقتدار کی باگ ڈور منتخب نمایندوں کو دینے کی کوشش میں اسٹبلشمنٹ /پیپلز پارٹی گٹھ جوڑ کے جال میں پھڑ پھڑاتی نظر آرہی ہے۔
اس آئینی تبدیلی کی سادہ سی وجہ عمران نیازی کے ناکام تجربے کے نتیجے میں اسٹبلشمنٹ کو دوبارہ سے اس کی اصل شکل میں بحالی ہی دکھائی دیتا ہے۔
ملکی سلامتی کے نام پر عوام کو اسٹبلشمنٹ کی بیزاری سے چھٹکارا دلانے اور اسے ایک مرتبہ پھر سقوط ڈھاکا کے بعد بیل آئوٹ کرنے کا کام بہت خوبصورتی سے پی پی اور جمیعت علمائے اسلام ف کرتی نظر آرہی ہے۔
سو مسلم لیگ ن کو قابو کرنے اور اسٹبلشمنٹ جاگیردار سردار گٹھ جوڑ کے لیے نہایت صفائی سے پیپلز پارٹی کے سیاسی گھوڑوں کی ڈھائی چال کا سہارا لے کر اسٹبلشمنٹ کو کسی حد تک کمزوری کی طرف لے جانے والی جماعت (مسلم لیگ ن) '' گو اس کی پیدائش انھی کے گملوں میں کی گئی تھی'' سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا ، اس پورے سیاسی منظر نامے میں نظر آرہا ہے کہ ملک کے آئینی عہدوں کو بڑی صفائی سے پی پی کے حوالے کرنے کی کوشش میں بلاول کی لندن یاترا کو بغور دیکھا جاسکتا ہے جب کہ کارکردگی کے میدان میں مسلم لیگ ن کو چھوڑ دیا گیا ہے ، جس کا لازمی نتیجہ پنجاب سے مسلم لیگ ن کو جہاں کمزور کرنا دکھائی دیتا ہے وہیں مسلم لیگ میں در آنے والے اسٹبلشمنٹ مخالف ڈنک کو نکالنا بھی نظر آرہا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ نوازشریف لندن سے بلاول کا دامن امید سے بھرتے ہیں یا اپنے بیانیے '' ووٹ کو عزت دو'' کو محفوظ رکھتے ہیں؟
موجودہ سیاست کی یہ سہ رخی لڑائی بڑے دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ، جس میں اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیے کے مسلم لیگ ن کے رہنمائوں ایسوں کو نوازشریف نے اس عارضی اقتدار سے دور رکھا ہوا ہے جب کہ پی پی کو آئینی عہدوں پر متمکن رکھنے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ مستقبل کی اسٹبلشمنٹ کو بچایا بھی جا سکے اور سیاسی عمل میں اسٹبلشمنٹ اپنا بہتر سالہ اثر و نفوذ بھی جاری رکھ سکے ، گویا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
عوام کی حمایت سے اکثر یہ جماعتیں اقتدار تو حاصل کرلیتی ہیں مگر اس کے نتیجے میں عوام کے جمہوری سیاسی اور سماجی حقوق طاقتوروں کو فروخت کر دیے جاتے ہیں ، اور جب بے مول اور لا حاصل عوام اپنے بیچے جانے کو سمجھ جاتی ہے تو دوبارہ سے ایک نیا بیانیہ گھڑا جاتا ہے تاکہ عوام اقتدار کی راہداریوں میں صرف بھٹکتے رہیں مگر جمہوری اور معاشی حصول کسی طور نہ لے پائے اور نہ عوام کو ان کے یہ حقوق دیے جائیں۔
دور کیوں جائیں بلکہ آج کل کی سیاست ہی میں سب کچھ دیکھا جا سکتا ہے ، تمام سیاسی جماعتیں عوام کے حقوق اور جمہوری آزادی کا ڈھول پیٹتی نظر آتی ہیں مگر مجال کہ اقتدار کے ایوانوں میں جاکر ان کی جمہوری آزادی کے لیے کچھ کیا جاتا ہو، اقتدار سے الگ ہوکر کہیں بیرونی سازش کی دھائی سننی پڑتی ہے تو کہیں آئین اور قانون کے تحت جمہوری اداروں کی بحالی کا بیانیہ عوام کے سامنے لایا جاتا ہے ، بعض مرتبہ عوام کو طاقتور طبقوں کے سامنے ''ڈٹ '' کر کھڑا ہونا دکھایا جاتا ہے تو دوسرے ہی لمحے غور و فکر کے بعد طاقتوروں کی مرضی پر چلنے کے لیے معافی اور ترلے زبانوں پر لائے جاتے ہیں اور پارلیمینٹ کو بے توقیر کرنے والے جمہوری جدوجہد کرنے کے خوش کن نعروں سے دوبارہ عوام کے خوابوں کو خوبصورتی سے ذبح کرنے کی جانب اپنا سفر جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔
اس گنجلک سیاسی ماحول میں طاقتور طبقوں سے خارجہ ، خزانہ ، داخلہ اور سرمایہ کاری کے شعبوں کو پارلیمینٹ کے ذریعے منتخب نمایندوں کو دینے کی بات کوئی بھی نہیں کرتا اور جو مسائل کی جڑ ہے اس کی تلاش میں نہ عوام کو سیاسی طور سے آگاہی دی جاتی ہے اور نہ ہی انھیں کھل کر حقیقی صورتحال بتائی جاتی ہے ، اس سیاسی ماحول میں '' کیوں '' کا سوال نہ اٹھانا ہی ہمارے عوام کی سیاسی لا علمی اور سیاست دانوں کی مفاد پرستی ہے ، جب تک سماج میں سوال اٹھانے کا چلن عام نہیں کیا جائے گا، یاد رکھا جائے کہ اس وقت تک نہ جمہوری حاصلات عوام کو حاصل ہوں گی اور نہ ہی عوام اپنے بنیادی حقوق لے پائیں گے۔
جب نیا پاکستان زمین دوز ہونے لگتا ہے تو امر بالمعروف کا بیانیہ آ جاتا ہے ، جب وہ کمزور ہونے لگتا ہے تو بیرونی سازش نکل آتی ہے جب بیرونی سازش کا پول کھلنے لگتا تو ''غلامی یا آزادی'' کا بیانیہ لا کر عوام کی سیاسی، معاشی اور سماجی محرومی سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔
''آزادی یا غلامی'' کا یہ بیانیہ آمر جنرل ضیا کے دور کے اس ریفرنڈم کے بیانیے کی روح لیے ہوئے ہے ، جس میں سوال تھا کہ '' آپ اسلامی ریاست کے حق میں ہیں تو پانچ سال کے لیے ضیاالحق کو صدر منتخب کیجیے ورنہ آپ نہ مسلمان ہیں اور نہ سچے پاکستانی۔ آزادی یا غلامی کا نیا بیانیہ بھی مذکورہ بیانیے کا عکس اور عوام کو دوبارہ سے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے علاوہ کچھ نہیں۔آئینی طور سے نئی لائی گئی حکومت کا یہ ایک اچھا بیانیہ ہے کہ وہ کوئی انتقامی سیاست نہیں کرے گی اور کارکردگی پر نظر رکھے گی مگر ان ساڑھے تین سالوں میں ملک کا معاشی اور عوامی استحصال کیا گیا ہے اس کی جوابدہی جانے والوں سے کیوں نہیں کی جائے گی کہ سابقہ نے بالترتیب مختلف شعبوں کا جب یہ حال کیا ہو کہ
بیرونی قرض:2018 میں 90 ارب ڈالر
2022 میں 131 ارب ڈالر
اندرونی قرض:2018 میں 1.1 ٹرلین روپے
2022 میں 4.5 ٹرلین روپے
ایکسچینج ریٹ:2018 میں 125 روپے
2022 میں 186 روپے
کرپشن انڈیکس:2018 میں 117 نمبر
2022 میں 147 نمبر
اکنامک گروتھ ریٹ:2018 میں %5.53
2022 میں %0.04
اسی کے ساتھ اس کی جواب طلبی کب اور کیسے ہو گی کہ ملک کے طاقتور ادارے یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے تھے تو تین برس تک کیوں ریت میں سر دیے بیٹھے تھے؟
دوسری جانب ملک میں لائی گئی بظاہر آئینی سیاسی صورتحال میں ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی کا پتہ اسٹبلشمنٹ کی اقتدار پر کمزور گرفت کو مضبوط کرنے میں دوبارہ سے جت گیا ہے، جب کہ دوسری جانب مسلم لیگ ن اپنے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے اور اسٹبلشمنٹ کے سیاسی اقتدار میں اثر و نفوذ کو کم کرنے اور جمہوری اقتدار کی باگ ڈور منتخب نمایندوں کو دینے کی کوشش میں اسٹبلشمنٹ /پیپلز پارٹی گٹھ جوڑ کے جال میں پھڑ پھڑاتی نظر آرہی ہے۔
اس آئینی تبدیلی کی سادہ سی وجہ عمران نیازی کے ناکام تجربے کے نتیجے میں اسٹبلشمنٹ کو دوبارہ سے اس کی اصل شکل میں بحالی ہی دکھائی دیتا ہے۔
ملکی سلامتی کے نام پر عوام کو اسٹبلشمنٹ کی بیزاری سے چھٹکارا دلانے اور اسے ایک مرتبہ پھر سقوط ڈھاکا کے بعد بیل آئوٹ کرنے کا کام بہت خوبصورتی سے پی پی اور جمیعت علمائے اسلام ف کرتی نظر آرہی ہے۔
سو مسلم لیگ ن کو قابو کرنے اور اسٹبلشمنٹ جاگیردار سردار گٹھ جوڑ کے لیے نہایت صفائی سے پیپلز پارٹی کے سیاسی گھوڑوں کی ڈھائی چال کا سہارا لے کر اسٹبلشمنٹ کو کسی حد تک کمزوری کی طرف لے جانے والی جماعت (مسلم لیگ ن) '' گو اس کی پیدائش انھی کے گملوں میں کی گئی تھی'' سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا ، اس پورے سیاسی منظر نامے میں نظر آرہا ہے کہ ملک کے آئینی عہدوں کو بڑی صفائی سے پی پی کے حوالے کرنے کی کوشش میں بلاول کی لندن یاترا کو بغور دیکھا جاسکتا ہے جب کہ کارکردگی کے میدان میں مسلم لیگ ن کو چھوڑ دیا گیا ہے ، جس کا لازمی نتیجہ پنجاب سے مسلم لیگ ن کو جہاں کمزور کرنا دکھائی دیتا ہے وہیں مسلم لیگ میں در آنے والے اسٹبلشمنٹ مخالف ڈنک کو نکالنا بھی نظر آرہا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ نوازشریف لندن سے بلاول کا دامن امید سے بھرتے ہیں یا اپنے بیانیے '' ووٹ کو عزت دو'' کو محفوظ رکھتے ہیں؟
موجودہ سیاست کی یہ سہ رخی لڑائی بڑے دلچسپ مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ، جس میں اسٹبلشمنٹ مخالف بیانیے کے مسلم لیگ ن کے رہنمائوں ایسوں کو نوازشریف نے اس عارضی اقتدار سے دور رکھا ہوا ہے جب کہ پی پی کو آئینی عہدوں پر متمکن رکھنے کی کوششیں جاری ہیں تاکہ مستقبل کی اسٹبلشمنٹ کو بچایا بھی جا سکے اور سیاسی عمل میں اسٹبلشمنٹ اپنا بہتر سالہ اثر و نفوذ بھی جاری رکھ سکے ، گویا سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔