کڑوی گولی
اس وقت عالمی حالات ایسے ہیں کہ پٹرول کے بڑھتے ریٹ کووزیراعظم شہباز شریف حکومت روک نہیں سکے گی
ISLAMABAD:
ہم پاکستانیوں کے لیے سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ اب ملک میں ہمیشہ جمہوریت کا دور دورہ ہو گا۔ اور اب کوئی جمہوریت کے خلاف سازش نہیں کرے گا اور نہ جمہوری حکومت کا تختہ الٹا جائے گا۔اب عوام کی حکومت چلے گی اور عوام انتخابات کے ذریعے اپنے نمایندوں کو منتخب کریں گے۔ جو آئینی طور پر اپنی مدت پوری کریں گے۔
اب ہمارے سیاستدانوں کو ہوشیار ہوجانا چاہیے کہ ماضی میں ان کی نااہلی اور باہمی چپقلش سے ملک کے حالات جو تباہی کے دہانے تک پہنچتے رہے ہیں اور ان ناگفتہ بہ حالات کو درست کرنے کے لیے جو مہربان آگے آتے رہے ہیں اب وہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے۔ چنانچہ ہوش کے ناخن لیں اور باہم مل جل کر خوش اسلوبی سے ملک کو چلانے کی تیاری کریں۔
اگر آپس میں اسی طرح لڑتے رہے اور ملک کی ترقی کے لیے کچھ نہ کر سکے تو پھر جمہوریت کو برقرار رکھنے کا جو بیانیہ سامنے آ رہا ہے وہ کمزور پڑ سکتا ہے اس لیے تمام سیاسی جماعتوں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ باہمی اختلافات کو اس حد تک لے کر نہ جائیں جس سے جمہوریت کو لپیٹ دیا جائے۔
مگر اسے کیا کہیں کہ چند روز قبل ہی حکومت اور حزب اختلاف کی باہمی لڑائی سے ملک میں جو سیاسی ڈیڈلاک پیدا ہو گیا تھا اس کے نتیجے میں بالآخر اب گیارہ سیاسی پارٹیوں کا گروپ اقتدار میں آگیا ہے اور حکومت یعنی پی ٹی آئی حزب اختلاف بن چکی ہے مگر عمران خان حزب اختلاف میں بیٹھنے کے لیے قطعی تیار نہیں ہیں وہ جلدازجلد الیکشن کرا کے پھر اقتدار حاصل کرنے کے لیے ملک گیر مہم چلا رہے ہیں۔
عمران خان اپنے جلسوں میں چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف آدھی رات کو عدالتیں کیوں کھولی گئیں، آخر انھوں نے ایسا کیا جرم کیا تھا ؟ ان کا یہ معصومانہ سوال کیا نواز شریف کے اس سوال جیسا نہیں کہ ''مجھے کیوں نکالا گیا؟'' نواز شریف کے وزیر اعظم کے عہدے سے بے دخل کیے جانے کے بعد ان کے اجتماعات میں بھی کثیر تعداد میں لوگ اکٹھے ہوتے تھے مگر ان سے محض اظہار ہمدردی کے لیے وہ انھیں ان کے منصب پر واپس نہیں پہنچا سکے تھے۔
چنانچہ خان صاحب کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے بڑے بڑے جلسوں سے نہ اسٹیبلشمنٹ مرعوب ہوگی نہ الیکشن کمیشن پر کوئی اثر ہوگا البتہ ملک میں انارکی پیدا ہوگی۔ جہاں تک عدالتوں کے آدھی رات کو کھلنے کا معاملہ ہے تو اس کی وجہ انھیں خود پتا ہے کہ وہ عدالتی حکم کی نافرمانی کرنے جا رہے تھے۔ وہ تحریک عدم اعتماد کو ذرا گھاس نہیں ڈال رہے تھے۔ وہ اسے آخر وقت تک ناکام بنانے کی کوشش کرتے رہے کیونکہ ان کے مطابق وہ ان کے خلاف امریکی سازش کا نتیجہ تھی۔
وہ اس مبینہ سازش کی خود بھی پہلے ہی حقیقت معلوم کرسکتے تھے مگر وہ مبینہ دھمکی آمیز خط کو 7 مارچ سے 27 مارچ تک اپنے پاس رکھے رہے اور اس کی کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دی۔ البتہ 27 مارچ کے جلسے میں اس کا انکشاف کیا اور اسے لہرا لہرا کر عوام کو دکھاتے رہے مگر اب دیر ہو چکی تھی کیونکہ پارلیمنٹ میں اکثر ممبران کی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے کی وجہ سے ان کا وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹنا طے پا چکا تھا اس وقت تک ایک طرف خود ان کی اپنی پارٹی کے لوگ ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے ، دوسری طرف ان کی حلیف جماعتیں بھی ان سے دور ہو چکی تھیں۔ انھوں نے اپنی حکومت کو بچانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی مگر نواز شریف کی طرح ان کی غلطیاں انھیں لے ڈوبیں۔
اب ان کا بیانیہ امریکا مخالف ہے جو ملکی مفادات کے سراسر خلاف ہے۔ تاہم ان کا امپورٹڈ حکومت اور وقت سے پہلے ان کی حکومت کو ختم کرانے کا بیانیہ پبلک کو ضرور لبھانے والا ہو سکتا ہے مگر کیا اس بیانیے کی آڑ میں ان کی حکومت کی نااہلی عوام سے زیادہ دیر تک چھپی رہے گی۔ اب اگر وہ اپنی پارٹی کو دوبارہ جتوانا چاہتے ہیں تو انھیں اپنی حکومت کی کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھنا پڑے گا۔ جہاں تک ان کی حکومت کی کارکردگی کا معاملہ ہے تو وہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ انھوں نے اپنے پورے پونے چار سال حزب اختلاف کو کرش کرنے میں گزار دیے۔
خان صاحب نے اقتدار سنبھالنے سے قبل بار بار کہا تھا کہ وہ تمام چور ڈاکوؤں کا محاسبہ کریں گے اور ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔ اس سلسلے میں مقدمے تو خوب چلے جن پر بے دریغ سرکاری رقم خرچ کی گئی۔ لندن کے ایک وکیل کی لا فرم کو بھی اس کام کے لیے لگایا گیا مگر بھاری فیس لینے کے باوجود بھی وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکی اور اب لا فرم نے واضح کردیا ہے کہ اسے نواز شریف کی کرپشن کے کوئی ثبوت نہیں ملے اس نے اس انکشاف کے ساتھ ہی نواز شریف سے معافی بھی مانگی ہے۔
اس اعتراف پر اس وکیل کو دی گئی تمام فیس واپس لینا چاہیے تھی، مگر اس نے تو الٹا حکومت پاکستان پر مقدمہ کر دیا تھا کہ اسے مقدمے کی پوری فیس ادا نہیں کی گئی جو اسے دلائی جائے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے عوام سے کیے گئے وعدوں میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا الٹا انھیں مہنگائی اور بے روزگاری کی مصیبت میں مبتلا کردیا۔
اب اس وقت ملکی اقتدار شہباز شریف کے پاس ہے۔ عام انتخابات میں ابھی ڈیڑھ سال باقی ہے وہ اس پوری مدت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر جو بوجھ تبدیلی سرکار نے ان کے کاندھوں پر ڈالا ہے کیا اسے یہ اٹھا پائیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ پچھلی حکومت خاص طور پر جو معاشی مسائل چھوڑ کر گئی ہے ان کو حل کرنا بہت مشکل ہوگا۔ ایک طرح سے اگر دیکھا جائے تو حزب اختلاف نے عمران حکومت کو برطرف کرا کے اس پر بڑا احسان کیا ہے۔ اب جو بھی خرابیاں وہ کرگئے ہیں انھیں درست کرنا شہباز شریف کی ذمے داری ہے۔
اس وقت عالمی حالات ایسے ہیں کہ پٹرول کے بڑھتے ریٹ کووزیراعظم شہباز شریف حکومت روک نہیں سکے گی اور نہ ہی کسی طرح مہنگائی پر قابو پا سکے گی۔ ایسے حالات میں عوام عادت کے مطابق پھر پچھلی حکومت یعنی عمران خان کو یاد کرنے لگیں گے اور ان کی نااہلی کو یکسر بھول جائیں گے ۔ حزب اختلاف نے حکومت سنبھال کر کہیں اپنے پیروں پر خود کلہاڑی تو نہیں ماری ہے؟ لگتا ہے انھوں نے صرف عمران حکومت کے ان پر بنائے گئے مقدمات کی بھرمار سے جان چھڑانے کے لیے یہ کڑوی گولی نگلی ہے۔
ہم پاکستانیوں کے لیے سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ اب ملک میں ہمیشہ جمہوریت کا دور دورہ ہو گا۔ اور اب کوئی جمہوریت کے خلاف سازش نہیں کرے گا اور نہ جمہوری حکومت کا تختہ الٹا جائے گا۔اب عوام کی حکومت چلے گی اور عوام انتخابات کے ذریعے اپنے نمایندوں کو منتخب کریں گے۔ جو آئینی طور پر اپنی مدت پوری کریں گے۔
اب ہمارے سیاستدانوں کو ہوشیار ہوجانا چاہیے کہ ماضی میں ان کی نااہلی اور باہمی چپقلش سے ملک کے حالات جو تباہی کے دہانے تک پہنچتے رہے ہیں اور ان ناگفتہ بہ حالات کو درست کرنے کے لیے جو مہربان آگے آتے رہے ہیں اب وہ دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے۔ چنانچہ ہوش کے ناخن لیں اور باہم مل جل کر خوش اسلوبی سے ملک کو چلانے کی تیاری کریں۔
اگر آپس میں اسی طرح لڑتے رہے اور ملک کی ترقی کے لیے کچھ نہ کر سکے تو پھر جمہوریت کو برقرار رکھنے کا جو بیانیہ سامنے آ رہا ہے وہ کمزور پڑ سکتا ہے اس لیے تمام سیاسی جماعتوں پر یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ باہمی اختلافات کو اس حد تک لے کر نہ جائیں جس سے جمہوریت کو لپیٹ دیا جائے۔
مگر اسے کیا کہیں کہ چند روز قبل ہی حکومت اور حزب اختلاف کی باہمی لڑائی سے ملک میں جو سیاسی ڈیڈلاک پیدا ہو گیا تھا اس کے نتیجے میں بالآخر اب گیارہ سیاسی پارٹیوں کا گروپ اقتدار میں آگیا ہے اور حکومت یعنی پی ٹی آئی حزب اختلاف بن چکی ہے مگر عمران خان حزب اختلاف میں بیٹھنے کے لیے قطعی تیار نہیں ہیں وہ جلدازجلد الیکشن کرا کے پھر اقتدار حاصل کرنے کے لیے ملک گیر مہم چلا رہے ہیں۔
عمران خان اپنے جلسوں میں چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ان کے خلاف آدھی رات کو عدالتیں کیوں کھولی گئیں، آخر انھوں نے ایسا کیا جرم کیا تھا ؟ ان کا یہ معصومانہ سوال کیا نواز شریف کے اس سوال جیسا نہیں کہ ''مجھے کیوں نکالا گیا؟'' نواز شریف کے وزیر اعظم کے عہدے سے بے دخل کیے جانے کے بعد ان کے اجتماعات میں بھی کثیر تعداد میں لوگ اکٹھے ہوتے تھے مگر ان سے محض اظہار ہمدردی کے لیے وہ انھیں ان کے منصب پر واپس نہیں پہنچا سکے تھے۔
چنانچہ خان صاحب کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے بڑے بڑے جلسوں سے نہ اسٹیبلشمنٹ مرعوب ہوگی نہ الیکشن کمیشن پر کوئی اثر ہوگا البتہ ملک میں انارکی پیدا ہوگی۔ جہاں تک عدالتوں کے آدھی رات کو کھلنے کا معاملہ ہے تو اس کی وجہ انھیں خود پتا ہے کہ وہ عدالتی حکم کی نافرمانی کرنے جا رہے تھے۔ وہ تحریک عدم اعتماد کو ذرا گھاس نہیں ڈال رہے تھے۔ وہ اسے آخر وقت تک ناکام بنانے کی کوشش کرتے رہے کیونکہ ان کے مطابق وہ ان کے خلاف امریکی سازش کا نتیجہ تھی۔
وہ اس مبینہ سازش کی خود بھی پہلے ہی حقیقت معلوم کرسکتے تھے مگر وہ مبینہ دھمکی آمیز خط کو 7 مارچ سے 27 مارچ تک اپنے پاس رکھے رہے اور اس کی کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دی۔ البتہ 27 مارچ کے جلسے میں اس کا انکشاف کیا اور اسے لہرا لہرا کر عوام کو دکھاتے رہے مگر اب دیر ہو چکی تھی کیونکہ پارلیمنٹ میں اکثر ممبران کی تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے کی وجہ سے ان کا وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹنا طے پا چکا تھا اس وقت تک ایک طرف خود ان کی اپنی پارٹی کے لوگ ان کا ساتھ چھوڑ چکے تھے ، دوسری طرف ان کی حلیف جماعتیں بھی ان سے دور ہو چکی تھیں۔ انھوں نے اپنی حکومت کو بچانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی مگر نواز شریف کی طرح ان کی غلطیاں انھیں لے ڈوبیں۔
اب ان کا بیانیہ امریکا مخالف ہے جو ملکی مفادات کے سراسر خلاف ہے۔ تاہم ان کا امپورٹڈ حکومت اور وقت سے پہلے ان کی حکومت کو ختم کرانے کا بیانیہ پبلک کو ضرور لبھانے والا ہو سکتا ہے مگر کیا اس بیانیے کی آڑ میں ان کی حکومت کی نااہلی عوام سے زیادہ دیر تک چھپی رہے گی۔ اب اگر وہ اپنی پارٹی کو دوبارہ جتوانا چاہتے ہیں تو انھیں اپنی حکومت کی کارکردگی کو عوام کے سامنے رکھنا پڑے گا۔ جہاں تک ان کی حکومت کی کارکردگی کا معاملہ ہے تو وہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ انھوں نے اپنے پورے پونے چار سال حزب اختلاف کو کرش کرنے میں گزار دیے۔
خان صاحب نے اقتدار سنبھالنے سے قبل بار بار کہا تھا کہ وہ تمام چور ڈاکوؤں کا محاسبہ کریں گے اور ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔ اس سلسلے میں مقدمے تو خوب چلے جن پر بے دریغ سرکاری رقم خرچ کی گئی۔ لندن کے ایک وکیل کی لا فرم کو بھی اس کام کے لیے لگایا گیا مگر بھاری فیس لینے کے باوجود بھی وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکی اور اب لا فرم نے واضح کردیا ہے کہ اسے نواز شریف کی کرپشن کے کوئی ثبوت نہیں ملے اس نے اس انکشاف کے ساتھ ہی نواز شریف سے معافی بھی مانگی ہے۔
اس اعتراف پر اس وکیل کو دی گئی تمام فیس واپس لینا چاہیے تھی، مگر اس نے تو الٹا حکومت پاکستان پر مقدمہ کر دیا تھا کہ اسے مقدمے کی پوری فیس ادا نہیں کی گئی جو اسے دلائی جائے۔ پی ٹی آئی کی حکومت نے عوام سے کیے گئے وعدوں میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا الٹا انھیں مہنگائی اور بے روزگاری کی مصیبت میں مبتلا کردیا۔
اب اس وقت ملکی اقتدار شہباز شریف کے پاس ہے۔ عام انتخابات میں ابھی ڈیڑھ سال باقی ہے وہ اس پوری مدت کو استعمال کرنا چاہتے ہیں مگر جو بوجھ تبدیلی سرکار نے ان کے کاندھوں پر ڈالا ہے کیا اسے یہ اٹھا پائیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ پچھلی حکومت خاص طور پر جو معاشی مسائل چھوڑ کر گئی ہے ان کو حل کرنا بہت مشکل ہوگا۔ ایک طرح سے اگر دیکھا جائے تو حزب اختلاف نے عمران حکومت کو برطرف کرا کے اس پر بڑا احسان کیا ہے۔ اب جو بھی خرابیاں وہ کرگئے ہیں انھیں درست کرنا شہباز شریف کی ذمے داری ہے۔
اس وقت عالمی حالات ایسے ہیں کہ پٹرول کے بڑھتے ریٹ کووزیراعظم شہباز شریف حکومت روک نہیں سکے گی اور نہ ہی کسی طرح مہنگائی پر قابو پا سکے گی۔ ایسے حالات میں عوام عادت کے مطابق پھر پچھلی حکومت یعنی عمران خان کو یاد کرنے لگیں گے اور ان کی نااہلی کو یکسر بھول جائیں گے ۔ حزب اختلاف نے حکومت سنبھال کر کہیں اپنے پیروں پر خود کلہاڑی تو نہیں ماری ہے؟ لگتا ہے انھوں نے صرف عمران حکومت کے ان پر بنائے گئے مقدمات کی بھرمار سے جان چھڑانے کے لیے یہ کڑوی گولی نگلی ہے۔