’’نظریہ پاکستان‘‘ کی ایجاد کا اصل مقصد

یہ ’’نظریہ پاکستان‘‘ ہمارے ذرایع ابلاغ کو یہود وہنود کے ایجنٹوں سے پاک کیے رکھتا ہے


Nusrat Javeed September 12, 2012
[email protected]

اپنے ہی ''فیلڈ مارشل'' ایوب خان کو ہٹاکر جنرل یحییٰ خان 1969ء میں پاکستان کے صدر بھی بن گئے تھے۔

اپنے اقتدار کے ایک سال بعد انھوں نے انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا۔ لوگ اس فیصلے سے بہت خوش ہوئے کیونکہ انھیں آزاد ملک بن جانے کے 23 سال بعد بالغ رائے دہی کی بنیاد پر اپنی حکومت منتخب کرنے کا موقعہ مل رہا تھا۔ مگر سونے کا نوالہ کھلا کر شیر کی آنکھ سے دیکھنے والے ہمارے ''مائی باپ'' حکمران ہمیں اپنے کنٹرول سے بالکل آزاد بھی تو نہیں کر سکتے تھے۔ انھیں راہِ راست پر رکھنے کی خاطر ایک فوجی ایجنسی کے میجر جنرل عمر کو ایوب خان کی بنائی کنونشن لیگ کے تقریباََ تین کروڑ روپے کے منجمد شدہ فنڈ ادا کر دیے گئے۔

اس رقم کو بڑی دیانتداری سے خرچ کرتے ہوئے جنرل عمر نے سارے مسلم لیگیوں کو اِکٹھاکرنے کا فیصلہ کیا اور مرحوم خان عبدالقیوم خان کو ان کا سربراہ بنانے کی ٹھانی۔ میاں ممتاز خان دولتانہ جیسے ''جاگیردار'' جنہوں نے قائد اعظم کی آنکھیں دیکھی تھیں، ان کے قابو میں نہ آئے اور عوام نے اپنے ووٹ کو اسی طرح استعمال کیا جس کا وہ ارادہ کیے بیٹھے تھے۔ بعد کی کہانی میرے اس کالم کا موضوع نہیں۔

اگرچہ احتیاطاً یہ لکھ دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک بہت بڑے کاروباری ادارے کی سربراہی سے استعفیٰ دے کر ''تبدیلی کے نشان'' کی قیادت میں اسی ملک کی خدمت کرنے کے عزم میں مبتلا اسد عمر اِن ہی جنرل عمر کی اولاد بتائے جاتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ اطلاع درست ہے یا نہیں۔ میں نے اس ضمن میں پوچھا تاچھی کا تردد ہی نہیں کیا۔ ویسے بھی یہ کام رشتے کرانے والی مائیوں کو زیادہ زیب دیتا ہے۔

مجھے ویسے بھی یحییٰ خان کا زمانہ جنرل عمر کے بجائے ایک اور نوابزادہ قسم کے جرنیل کی وجہ سے یاد آ رہا ہے۔ نام تھا ان کا شیر علی خان پٹودی۔ یحییٰ خان کے دنوں میں وہ ہماری وزارتِ اطلاعات کے سربراہ ہوا کرتے تھے اور ہمارے ملک خداداد میں ایجنسیوں کے بعد آہو کی طرح بھٹکے ہوئے عامیوں کو یہی وزارت صراطِ مستقیم پر چلایا کرتی ہے۔ نوابزادہ شیر علی خان پٹودی اپنے مشن کی تکمیل میں ضرورت سے کہیں زیادہ جُت گئے۔ ان ہی کی محنت کی بدولت بالآخر یہ دریافت ہوا کہ ہمارا ایک ''نظریہ پاکستان '' بھی ہے۔ جیسے ''نظریہ ضرورت'' ماضی کی عدالتوں کو مارشل لائوں کے جواز فراہم کرتا رہا ہے، اسی طرح یہ ''نظریہ پاکستان'' ہمارے ذرایع ابلاغ کو یہود وہنود کے ایجنٹوں سے پاک کیے رکھتا ہے۔

''نظریہ پاکستان'' کی ایجاد کا اصل مقصد ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے اردگرد جمع''دہریوں اور کمیونسٹوں'' کی وجہ سے اقتدار سے محروم رکھنا تھا۔ مگر یہ نظریہ ان ہی کی حکومت کے ان دنوں بہت کام آیا جب ان کی حکومت نے بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت کو برطرف کرنے کے بعد فوج کے ذریعے اس صوبے کے لوگوں کو ''سرداروں کی غلامی'' سے آزاد کروانے کی ٹھانی۔ یہ الگ بات ہے کہ ''سردار'' بہت ڈھیٹ ثابت ہوئے۔ 2012ء میں بھی بلوچ نوجوانوں کو ''گمراہ'' کر کے پاکستان کی وحدت اور ریاست کے خلاف ورغلاتے رہتے ہیں۔

بہرحال ''نظریہ پاکستان'' نے بہت سارے محاذ کھولے۔ ان محاذوں میں ایک ہماری نظریاتی مملکت کو فحاشی اور عریانی کے سیلاب سے بچائے رکھنے کا بھی ہے۔ گمراہ، آوارہ اور عیاش لوگ دنیا کے ہر خطے اور ملک میں موجود ہوا کرتے ہیں۔ وہ اپنے اپنے معاشروں میں فحاشی اور عریانی پھیلانے کی مذموم کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے پارسا لوگوں کا مگر یہ دعویٰ رہا ہے کہ پاکستانی اپنی سرشت میں نیک طنیت لوگ ہیں۔ انھیں عریانی اور فحاشی کی راہ پر چلانے والے ان کے اپنے لوگ نہیں بلکہ ان میں سے اُٹھے وہ بدبخت افراد ہیں جو یہود و ہنود کے تنخواہ دار ہیں۔ اپنے آقائوں سے ہدایات لے کر پاکستان جیسی نظریاتی مملکت میں رہنے والے مومنین کو شمشیر وسناں کے بجائے طائوس و رباب سے موہ لینے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔

یہود و ہنود کی فحاشی فروغ سازشوں کا ذکر 1970ء سے مسلسل سنتے چلے آنے کے بعد مجھے جب 1984ء میں پہلی بار بھارت جانے کا موقعہ ملا تو بڑی مایوسی ہوئی۔ اپنے دو ماہ سے زیادہ قیام کے دوران مجھے کسی نے اس طرف راغب کرنے کا تکلف بھی نہ کیا۔ دلی سے تھرڈ کلاس کے ایک ڈبے میں کلکتہ تک کا سفر کرتے ہوئے صوبہ بہار کے تمام اسٹیشنوں سے گزرتے ہوئے میری نظر تار تار لباس والے بچوں اور عورتوں کے اس ہجوم کی طرف اُٹھ جاتی جو درختوں اور منڈیروں پر بیٹھے پرندوں کے جھنڈ کی طرح بے چینی سے منتظر ہوتے کہ ریل میں بیٹھے مسافر ان کی طرف کھانے پینے کی کونسی اشیاء پھینکیں گے۔ مجھے ان مناظر سے اتنی گھن آئی کہ کسی اسٹیشن کے آنے سے پہلے میں اپنی آنکھیں بند کر لیتا۔ ڈبے کی چھت کو دیکھتا رہتا یا کھڑکی کے پاس والی نشست چھوڑ کر دور کسی کونے میں چلا جاتا۔

کچھ یہودی مجھے اپنے چند غیر ملکی دوروں کے درمیان ضرور ملے ہیں۔ مگر یونہی بس چلتے چلتے۔ مُلکِ یہود جانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ ہرگز لاعلم ہوں کہ وہاں عریانی اور فحاشی کا کیا سامان ہے۔ لیکن پیر کو ''انٹرنیشنل ہیرلڈٹربیون'' کے ادارتی صفحات پر چھپا ایک مضمون پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ اسرائیل میں تو یہودیوں کے اپنی وضع کے ''طالبان'' اُبھر کر لوگوں کو پریشان کر رہے ہیں۔
یہ مضمون ''شانی'' نام کی ایک خاتون نے لکھا ہے جو اسرائیلی فوج میں کام کرتی رہی ہے۔ اس کے مضمون کا عنوان ''کیا ہوتا ہے جب دو اسرائیل ملتے ہیں؟'' رکھا گیا ہے۔ چار سے زیادہ کالموں تک پھیلے اس طویل مضمون میں اس خاتون نے اپنے ان تجربات کا ذکر کیا ہے جن کا سامنا اسے نوجوان اسرائیلی کیڈٹوں کو تربیت دینے کے دوران ہوا۔

اس کی کہانی کا پہلا واقعہ ایک حبشی نژاد یہودی نوجوان کے بارے میں ہے جس کا سر اس چھوٹی ٹوپی سے ڈھکا ہوا تھا جو بنیاد پرست یہودی پِنوں کے ساتھ اپنے سر پر چپکائے رہتے ہیں۔ تربیت کے ایک مرحلے میں اس خاتون انسٹرکٹر نے اس نوجوان کی ٹانگوں کو سیدھا رکھنے کے لیے چھو لیا۔ وہ تلملا اُٹھا اور چیخ کر بتایا کہ اسے کسی غیر عورت کا چھونا ''حرام '' ہے۔ مگر حیران کن واقعہ تو وہ ہے جہاں وہ خاتون بتاتی ہے کہ ایک مرتبہ تربیتی کلاس لیتے ہوئے اس نے ایک گرنیڈ کو اُٹھاکر ہاتھ کی اُنگلیوں سے اس کی ساخت سمجھانے کی کوشش کی۔ جب وہ یہ سب کچھ کر رہی تھی تو آہستہ آہستہ اس کے کیڈٹ طلبہ کلاس سے باہر جانا شروع ہو گئے۔ بالآخر کمرے میں صرف ایک یہودی نوجوان باقی رہ گیا۔ شانی کو شک پڑا کہ اس سے کوئی فاش غلطی ہو گئی ہے۔

مگر تحقیق کرنے کے بعد اسے علم ہوا کہ لڑکے اس کی کلاس سے باہر اس لیے چلے گئے تھے کہ ان کی ''دینی کتابوں میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کسی عورت کا ہتھیار کو بھی چھونا حرام ہے''۔ اپنے تمام تجربات گنوانے کے بعد شانی نے سوال اُٹھایا ہے کہ کیا اسرائیل جیسی ''نظریاتی مملکت'' اب ''ایک متحد ملک'' رہ گئی ہے۔ کیا بنیاد پرستوں اور سیکولر یہودیوں کے درمیان تیزی سے بڑھتی خلیج اسے ایک کے بجائے دو قطعی طور پر الگ اور شاید ایک دوسرے سے متحارب ممالک میں تقسیم نہ کر دے گی؟ سوال اہم ہے۔ مگر ہمیں کیا۔ یہودی جانیں اور ان کا ملک۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |