عظیم استاد… سبط حسن
پاکستان کی ترقی پسند اور سامراج دشمن تحریک کا ذکر سید سبط حسن کے ذکر کے بغیر ادھورا ہوتا ہے
ان کی موت کو 36 سال ہوگئے ہیں'لیکن آج بھی ان کی کتابوں کو Best Sellerکا درجہ حاصل ہے اور بڑی تعداد میں نوجوان ان کو خرید کر پڑھ رہے ہیں۔ پاکستان کی ترقی پسند اور سامراج دشمن تحریک کا ذکر سید سبط حسن کے ذکر کے بغیر ادھورا ہوتا ہے 'میں نے اور بہت سے دیگر دوستوں نے زیادہ تر سیاسی شعور سبط حسن کو پڑھ کر حاصل کیا۔
20 اپریل عظیم انقلا بی دانشور سید سبط حسن کی برسی تھی 'شاید ہی کوئی با شعورسیاسی کارکن ہو گا جس نے' ما ضی کے مزار' موسی سے ما رکس تک' نوید فکر' پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء' شہر نگاراں' انقلاب ایران' افکار تازہ' ادب اور روشن خیالی ' سخن در سخن' مغنی آتش نفس' The Battle of ideas in pakistan 'جیسے علمی اور انقلابی کتابوں کو نہ پڑھا ہو'ان کتابوں نے کروڑوں دلوں کو روشنیوںاور انقلابی امنگوں سے منّور کر دیا۔
روشن خیالی'اعتدال پسندی'لبرل ازم'سیکولر ازم'اور سوشلزم ان سب کے متعلق معلومات' تاریخی پس منظر اور دلائل کے ساتھ ان کتابوں میں موجود ہیں' اس عظیم علمی خزانے کا مصنف سیّد سبط حسن 20 اپریل 1986 کو دہلی میں حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے' جہاں وہ ''انجمن ترقی پسند مصنفین'' کی گولڈن جوبلی تقریبات میں شرکت کے لیے گئے تھے۔
سبط حسن صرف نظریاتی مصنف نہ تھے بلکہ عملی طور پر انھوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے پلیٹ فارم سے سامراج مخالف تحریک میں حصہ لیا تھا'وہ بہت پیارے انسان تھے 'ان کے لہجے کی مٹھاس ضرب المثل بن چکی ہے لیکن وہ اپنے اصولوں پر کھبی بھی سودا بازی نہیں کرتے تھے 'جب ان کی تاریخی کتاب'' ماضی کے مزار ''کو آدم جی ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا 'تو انھوں نے فوراً اس ایوارڈ کو لینے سے انکار کر دیا 'انھوں نے کہا کہ میں ایک ایسا ایوارڈ کیسے قبول کر سکتا ہوںجو ایک سرمایہ دار کے نام سے منسوب ہو'جن کے خلاف میں نے ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔
31 جولائی 1916کو یو پی کے شہر اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے اس شخص کا ذہن ابتداء ہی سے ترقی پسند رحجانات اور تحقیق کی طرف مائل تھا اور انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے بہت جلد ہی ترقی پسند تحریک کے سرخیل سجاد ظہیر (بنے بھائی) کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی 'انھوں نے سبط حسن کو'' انجمن ترقی پسند مصنفین'' کو منظم کرنے کا کام سونپا 'اس تحریک نے بر صغیر کے ترقی پسند اورسامراج دشمن ادیبوں اورشاعروں کو منظم کرکے قومی آ زادی کی تحریک میں ایک نئی روح پھونکی۔
ایک زمیندار گھرانے سے تعلق کی بناء پر انھوں نے اعلیٰ اداروں میں تعلیم حاصل کی' انھوں نے علی گڑھ یو نیور سٹی سے تاریخ میں گریجویشن کیا'پھر انھوں نے نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی 'اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ واپس آ گئے اور کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے 'انھوں نے لکھنو سے انجمن ترقی پسند مصنفین کے رسالے'' نیا ادب'' کا اجراء کیا'وہ روزنامہ National Herald کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔ (جاری ہے)
20 اپریل عظیم انقلا بی دانشور سید سبط حسن کی برسی تھی 'شاید ہی کوئی با شعورسیاسی کارکن ہو گا جس نے' ما ضی کے مزار' موسی سے ما رکس تک' نوید فکر' پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء' شہر نگاراں' انقلاب ایران' افکار تازہ' ادب اور روشن خیالی ' سخن در سخن' مغنی آتش نفس' The Battle of ideas in pakistan 'جیسے علمی اور انقلابی کتابوں کو نہ پڑھا ہو'ان کتابوں نے کروڑوں دلوں کو روشنیوںاور انقلابی امنگوں سے منّور کر دیا۔
روشن خیالی'اعتدال پسندی'لبرل ازم'سیکولر ازم'اور سوشلزم ان سب کے متعلق معلومات' تاریخی پس منظر اور دلائل کے ساتھ ان کتابوں میں موجود ہیں' اس عظیم علمی خزانے کا مصنف سیّد سبط حسن 20 اپریل 1986 کو دہلی میں حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گئے' جہاں وہ ''انجمن ترقی پسند مصنفین'' کی گولڈن جوبلی تقریبات میں شرکت کے لیے گئے تھے۔
سبط حسن صرف نظریاتی مصنف نہ تھے بلکہ عملی طور پر انھوں نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے پلیٹ فارم سے سامراج مخالف تحریک میں حصہ لیا تھا'وہ بہت پیارے انسان تھے 'ان کے لہجے کی مٹھاس ضرب المثل بن چکی ہے لیکن وہ اپنے اصولوں پر کھبی بھی سودا بازی نہیں کرتے تھے 'جب ان کی تاریخی کتاب'' ماضی کے مزار ''کو آدم جی ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا 'تو انھوں نے فوراً اس ایوارڈ کو لینے سے انکار کر دیا 'انھوں نے کہا کہ میں ایک ایسا ایوارڈ کیسے قبول کر سکتا ہوںجو ایک سرمایہ دار کے نام سے منسوب ہو'جن کے خلاف میں نے ہمیشہ جدوجہد کی ہے۔
31 جولائی 1916کو یو پی کے شہر اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے اس شخص کا ذہن ابتداء ہی سے ترقی پسند رحجانات اور تحقیق کی طرف مائل تھا اور انھوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے بہت جلد ہی ترقی پسند تحریک کے سرخیل سجاد ظہیر (بنے بھائی) کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی 'انھوں نے سبط حسن کو'' انجمن ترقی پسند مصنفین'' کو منظم کرنے کا کام سونپا 'اس تحریک نے بر صغیر کے ترقی پسند اورسامراج دشمن ادیبوں اورشاعروں کو منظم کرکے قومی آ زادی کی تحریک میں ایک نئی روح پھونکی۔
ایک زمیندار گھرانے سے تعلق کی بناء پر انھوں نے اعلیٰ اداروں میں تعلیم حاصل کی' انھوں نے علی گڑھ یو نیور سٹی سے تاریخ میں گریجویشن کیا'پھر انھوں نے نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی 'اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ واپس آ گئے اور کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے 'انھوں نے لکھنو سے انجمن ترقی پسند مصنفین کے رسالے'' نیا ادب'' کا اجراء کیا'وہ روزنامہ National Herald کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔ (جاری ہے)