نئی سرد جنگ اور ہماری داخلی حقیقتیں
خان صاحب اربن مڈل کلاس کو اپنے نعروں سے متاثرکرسکتے ہیں، لیکن اقتداران کو تب ہی مل سکتا ہے جب ان کے ساتھ الیکٹیبلزجڑیں
لاہور:
اگر خان صاحب نے توشہ خانہ کا سارا مال کوڑیوں کے بھائو نہیں اٹھایا ہوتا تو کیا ہوتا؟ کم از کم اقتدار سے ہٹتے ہی جس اسکینڈل سے ان کا سامنا ہوا وہ نہ ہوتا، کہا جاتا ہے کہ روزانہ کا دس لاکھ کا پٹرول ہیلی کاپٹر پیتا تھا یا اس کا کل خرچہ تھا جس کے ذریعے وہ بنی گالا سے وزیر اعظم ہائوس جایا کرتے تھے۔
لگ بھگ ایک ارب کا خرچہ صرف خان صاحب کے بنی گالہ سے لے کر وزیرِ اعظم ہائوس آنے اور جانے پر ہوا، ان ساڑھے تین سالوں میں۔ ابھی تو اور بہت کچھ ہے جس سے پردہ اٹھنا ہے ، لیکن یہ جو دو یہاں بیان کیے ہوئے اسکینڈل ہیں ان کی تردید وہ کر نہیں سکتے بلکہ توشہ خانہ والا اسکینڈل تو انھوں نے قبول کیا ہے، یہ کہہ کر '' میرے تحائف میری مرضی'' جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تحائف پاکستان کے وزیر اعظم کو دیے گئے تھے، اس منصب کو دیے گئے تھے اس منصب پے بیٹھے ہوئے عمران خان نامی فرد کو نہیں۔ جو سربراہان مہمان بن کر پاکستان آئے تھے وہ پاکستان کے مہمان تھے ، خان صاحب کے نہیں اور جو تحائف ان کو یہاں پر پیش کیے گئے تو کیا وہ تحائف خان صاحب لینے کے حقدار ہیں۔
شاید خان صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم اور عمران خان ایک ہی شخص کے دو نام ہیں۔ توشہ خانے میں پڑے تحائف اور دیگر نوادرات کو مال غنیمت سمجھ کر رال ٹپک پڑی، آپ جو ریاست مدینہ اس ملک کو بنانے کے دعویدار تھے پورے کے پورے 112 مختلف تحائف کوڑیوں کے بھائو خرید کر لے اڑے، جب میڈیا نے تعاقب کیا تو کچھ نئے رولز اور ضابطے وغیرہ بنا کے کچھ زیادہ پیسے جمع کرائے اور پھر یہ کہ دیا کہ اس کی تصدیق و تردید نہیں کی جاسکتی کیوں کہ یہ اسٹیٹ سیکریٹ ہیں۔
اور دوسری طرف ایک فرح خان یا فرح گجر نامی کوئی خاتون ہیں جس کے بارے میں بھی بہت سے انکشافات ہوئے ہیں، وہ بزدار صاحب کا استعفیٰ قبول ہونے سے پہلے ہی ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ خان صاحب نے جس لاپروائی سے حکومت چلائی، اس کی وجہ سے ایک بھی ایسا کام اس حکومت کا گنا نہیں جاسکتا کہ آیندہ آنے والے انتخابات میں وہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے اپنے ووٹر کے پاس جا سکیں۔ اس لیے انھوں نے ایک بیانیہ ترتیب دیا ہے جن شواہد پر وہ بیانیہ ترتیب دیا گیا ہے وہ شواہد کے مروج معیار پورا نہیں اترتے۔ ہاں مگر خان صاحب کا اپنا حلقہ احباب ہے، ان کے چاہنے والے ہیں، ان کے عاشقان کا قبیلہ وسیع در وسیع ہے۔
خاص کرکے پنجاب میں گزشتہ بیس پچیس سالوں میں بڑی تیزی سے مڈل کلاس ابھری ہے، وہ خان صاحب پے اندھا یقین رکھتے ہیں ۔ خود ہماری مڈل کلاس پوری دنیا کی ایسی مڈل کلاس کے ابھرنے پر جن ارتقائی مراحل سے گذرتی ہے وہ کم و بیش ایسی ہی مماثلت رکھتے ہیں ، یہ مڈل کلاس انتہا پسند اور جنونیت رویے رکھتی ہے۔ ہم نے یہ مظہر کراچی میں بانی متحدہ کے حوالے سے دیکھا ، یا ٹرمپ صاحب اور مودی صاحب کے نام بھی گنوائے جاسکتے ہیں۔
خان صاحب کے پاس اب صرف بیانیہ کی سیاست رہ گئی ہے۔ یہ بیانیہ کی سیاست یا تو قوم پرست کرتے ہیں یا پھر الطاف بھائی کرتے تھے ، انھوں نے اقتدار کے مزے لیے۔ جب انھوں نے اپنے آپ کو کچھ سمجھنا شروع کیا تو پھر قوم پرستوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ آپ سب کے سامنے ہے۔ خان صاحب اگر نہ سنبھلے تو اسی راہ سے ان کو گزرنا ہوگا۔
دوسری طرف دنیا بالکل واضح انداز میں دو بڑے بلاک بناتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ایک ہے آمریت کی طرز پر چلتا ہوا بلاک جس کی قیادت چین اور روس کررہے ہیں ، دوسری طرف ہے جمہوریت کی طرز پر چلتا ہو ا بلاک جس کی قیادت امریکا اور یورپی یونین کررہے ہیں۔ کل تک ہم امریکی بلاک میں تھے اور ان کی طرف سے ہمیں چھوٹ تھی کہ بھلے یہاں آمریت ہو ، کیونکہ وہ اتنے مہذب نہیں تھے ۔ وہ مہذب اب بھی نہ ہوں کہ ان کے پاس اب بھی ایسے ممالک ان کے بلاک میں ہیں جو اندر میں آمریتی نظام رکھتے ہیں مگر وہ ماضی والے بھی نہیں نہ ان کے سامنے وہ کمیونزم والا دوسرا بلاک ہے۔ پیوٹن اس وقت دنیا کے بدترین آمر کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔
ان کے پاس تیل اور گیس سے کمائی ہوئی بہت بڑی دولت ہے جب کہ چین بہت مختلف ہے ۔ انھوں نے اپنا مقام بڑی محنت سے بنایا ہے ۔ ان کا معاشی نظام گلوبل معیشت سے جڑا ہوا ہے۔ ان کی اشیا دنیا کی صنعت کے ساتھ اٹوٹ انداز میں جڑی ہوئی ہیں، لیکن حال ہی میں ان کے اندر کووڈ والا بحران خطرناک انداز میں پھر سے ابھر آیا ہے۔ جس نے ان کی معیشت کو پھر سے بند کردیا ہے۔ ان کی بنائی ہوئی ویکسین پائیدار اور دیرپا نہ تھی ان کو کووڈ سے مقابلہ کرنے والا طریقہ کار یورپ و امریکا کے سامنے کھڑا نہ ہوسکا اس لیے کہ آمریتی نظام تنقید برداشت نہیں کرسکتا۔
امریکا اور یورپ کو کووڈ سے مقابلہ کرتے ہوئے میڈیا سے فیڈ بیک ملتا رہا اور وہ اپنا طریقہ کار ٹھیک کرتے رہے۔ جب کہ چین کے ساتھ ایسا نہ تھا وہاں انسانی حقوق اور آزاد میڈیا کا تصور ہی نہیں، یہ ٹکرائو دو سسٹم کے بیچ کا ٹکرائو ہے جس کے اوپر بیٹھی ہے آج کی سرد جنگ۔ جب کہ دونوں کے پاس سسٹم وہی ہے جس کو مارکیٹ اکانومی یا کیپیٹل ازم کہا جاسکتا ہے۔ یہ کل والی سرد جنگ کے پس منظر سے ہٹ کے ہے۔ ٹکرائو اتنا تیز ہے کہ خود جو گلوبلائزیشن ہے اس کے لیے خطرے بڑھ گئے ہیں ، لیکن بہت سے محققین کا یہ خیال ہے کہ گلوبلائزیشن کو اب کوئی خطرہ نہیں بلکہ حلقہ سا جھٹکا ہے اور وہ گلوبلائزیشن کے لیے بہتر بھی ہے کہ اس سے خود گلوبلائزیشن کے اندر جدت آئے گی۔ گلوبلائزیشن اب ایک نئے زاویے کے ساتھ ابھرے گی۔
ہمارے لیے ایک طرف چین جیسا آزمایا ہوا دوست بھی ہے اور ہماری پوری تاریخ امریکا کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ ایک طرف تو یہ حقیقت ہے لیکن ہمارے جو پرانے دوست ممالک ہیں جیسا کہ سعودی عرب و دبئی وغیرہ وہ بھی امریکی و یورپی یونین سے جڑے ہوئے ہیں، ہماری ساٹھ فیصد ایکسپورٹ یورپ کو ہوتی ہے۔ دوسرا امریکا و برطانیہ وغیرہ سے۔ ہماری نوے فیصد بیرونی کرنسی کے ذخائر یا یوں کہیے ریمیٹنسز بھی انھی ممالک سے آتے ہیں۔ ورلڈ بینک ہو یا آئی ایم ایف ان پر چین کا کوئی اثر نہیں ہے۔ ہم اب اتنے مقروض ہوچکے ہیں کہ یہ کہنا کہ ہم آزاد خارجہ پالیسی رکھ سکتے ہیں، وہ بات زمینی حقائق سے ٹکرائو میں ہے ، جب کہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دی خان صاحب نے۔
خان صاحب جو معجون بیچ رہے ہیں، یہ وہی معجون ہے جس سے ٹرمپ نے امریکا کو بے وقوف بنایا، یہ وہی حب الوطنی ہے جس سے مودی ہندوستان کے لوگوں کو بیوقوف بنا رہا ہے۔ باقی جو توشہ خانہ ہے وہ حقیقت ہے۔ خان صاحب یہ بھول گئے تھے کہ وہ اس ریاست کے امیر ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان ملے، روزگار ملے ، مہنگائی کم ہو۔ ایک ذمے دار حکومت ملے جو ہماری دہلیز پے آئی ہوئی یہ سرد جنگ کی گرمی سے بچائے ، ہماری معیشت بحال ہو۔
خان صاحب اربن مڈل کلاس کو اپنے نعروں سے متاثر کرسکتے ہیں ، لیکن اقتدار ان کو تب ہی مل سکتا ہے جب ان کے ساتھ الیکٹیبلز جڑیں۔ یہ وہ نشستیں ہیں جو اسٹبلیشمنٹ سے جڑی ہوئی ہیں یا یوں کہیے کہ وہ تو یہ دیکھتے ہیں کہ اقتدار کس کشکول میں گرے گا ، یہ و ہاں خود بہ خود پہنچ جاتے ہیں ، جس طرح جہانگیر ترین کا جہاز ان کو لے آتا تھا ۔
اب تین بیانیے ہیں ایک زرداری کا بیانیہ ماڈریٹ اور کم و بیش لبرل اور سیکیولر بیانیہ، دوسرا میاں نواز شریف کا بیانیہ جو بھی ماڈریٹ ہے اور تیسرا ہے فاشسٹ اور انتہا پرست بیانیہ جو خان صاحب کا ہے۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ؟