اخوت کی جہانگیری
یہ فی زمانہ عظیم ترین عالمی ریکارڈز میں سے ایک ہے کہ گزشتہ تقریباً تین چار سو برس سے دنیا جس معاشی نظام پر کاربند ہے
بدقسمتی سے سیاستدانوں کی بحثوں کا موضوع بننے کے بعد سے ریاستِ مدینہ اور اس کی برکات، روایات کا ذکر بھی ایک ایسی غیر سنجیدگی کی فضا کا شکار ہوگیا ہے کہ اب مواخاتِ مدینہ پر بھی بات کرنے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں اس سے بھی ہمارے البیلے سیاستدان اور اُن کے سوشل میڈیا مینجر اس کی تشریح کے لیے بھی کسی کمیشن کا مطالبہ نہ کردیں۔
واضح رہے کہ یہاں کمیشن سے مراد وہ نہیں جس کی طرف ذہن فوراً مبذول ہوجاتا ہے۔ ہُوا یوں کہ پرسوں رات اخّوت کے ایک ٹیلی تھان کے دوران ڈاکٹر امجدؔ ثاقب ہی کا لکھا ہوا اخّوت کا ترانہ ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس کے ابتدائی بول ہیں''ہم مواخات ہیں۔ہم مواخات ہیں'' کسی سوال کرنے والے کے جواب میں ڈاکٹر امجدنے بتایا کہ دوسرے مذاہب اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے تو رہے ایک طرف خود وطن عزیز کے بھی بے شمار سننے والوں کی ''مواخات'' کے معانی اور اس کی تاریخ سے آشنائی نہ ہونے کے برابر ہے اور بالخصوص انگلش میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے والی نسل کو یہ سمجھانا بھی ایک مہم کی شکل اختیارکرجاتاہے کہ باہمی محبت، قربانی اور بھائی چارے کا آج سے چودہ برس قبل رسول پاکؐ اور اُن کے صحابہ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا تھا کہ مدینے کے انصار نے اپنے ان مہاجر بھائیوں کی صرف خاطرِ خدمت اور مہمانداری نہیں کی تھی بلکہ انھیں اپنے مال اور جائیداد میں بھی نصف کا حصہ دار بنا دیا تھا، سو ترانے میں ''ہم مواخات ہیں'' سے مراد مواخات کے عمل میں اپنی شمولیت کا وہی اظہار تھا جس نے خون کے رشتے کے بغیر لوگوں کو سگے بھائیوں کی طرح ایک دوجے کے دکھ سکھ کا ساتھی اور حصے دار بنا دیا تھا۔
گزشتہ بیس برس میں ''اخوّت '' نامی تحریک اور تنظیم قرضِ حسنہ کے چند ہزاروں پر مبنی رفاہی پروگرام سے آج ایک سو باسٹھ ارب کی ہو شربا رقم تک پھیلی چکی ہے، یہ فی زمانہ عظیم ترین عالمی ریکارڈز میں سے ایک ہے کہ گزشتہ تقریباً تین چار سو برس سے دنیا جس معاشی نظام پر کاربند ہے، اس کا مرکزی ستون ''سُود'' ہے بالخصوص بینکنگ کا تو سارا نظام ہی اس کے گرد گھومتا ہے، ایسے میں بلاسود قرضوں کا ایک وسیع اور کامیاب نظام بلاشبہ کسی دیوانے کے خواب سے مختلف نہیں تھا مگر تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ا س کے ہر موڑ کے پیچھے بھی کہیں نہ کہیں کوئی دیوانہ یا چند دیوانے ہی موجود ہوتے ہیں۔
مجھے یاد ہے ''اخوّت کے بالکل ابتدائی زمانے میں ڈاکٹر امجد ثاقب اپنے ر وحانی استاد شعیب سلطان صاحب کے ساتھ مجھے اور منو بھائی مرحوم کو لے کر ایک گائوں میں گئے تھے جہاں انتہائی غریب اور بے وسیلہ لوگوں کو دس سے بیس ہزار کے قرضِ حسنہ جاری کیے جانے تھے ۔ تقریب تقسیم قرضہ جات کے لیے گائوں کی مسجد دفتر ٹھہری جس کے ننگے فرش پر بیٹھ کر یہ کارروائی مکمل کی گئی جس میں نہ تو قرض لینے و الے کا کوئی ضامن تھا اور نہ ہی اس سے کسی اشٹام یا رسید وغیرہ پر دستخط کرائے گئے۔
عام طور پر یہ خواتین یا تو بیوہ یا مطلّقہ تھیں یا اُن کے شوہرکسی بھی وجہ سے گھر کا خرچہ چلانے کے اہل نہیں تھے اور اُس سے بھی زیادہ خوش اور حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ ان غریب ترین لوگوں کے قرضہ اور وہ بھی وقت مقررہ پر ادا کرنے کی اوسط 99% سے زیادہ تھی اور اب جب کہ یہ ادارہ قرض حسن کے ساتھ ساتھ تعلیم، ہائوسنگ، ٹرانس جینڈر اور کفالتِ ِ یتامیٰ کے حوالے سے بھی ایسی خدمات سرانجام دے رہا ہے جس کی وجہ سے لوگ ایدھی صاحب کی طرح ''اخوّت '' پر بھی آنکھیں بند کرکے اعتبار کر لیتے ہیں کم و بیش اس کے ابتدائی زمانے سے اس کے ساتھ ہونے کی وجہ سے میں نے اس محبت یگانگت اور اعتماد کے سفر کو قدم بہ قدم اور لحظہ بہ لحظہ دیکھا ہے اور میں نے اس کے تنظیمی ڈھانچے کی خلوص اور شفافیت کے ساتھ ساتھ اس کو ایک جدید اور منظم ادارے کے طور پر بنتے اور پھلتے پھولتے دیکھا ہے اس لیے مجھے جہاں اور جب بھی گواہی کے لیے بلایا جاتاہے، میں حاضر ہو جاتا ہوں۔
اخوّت کے لفظ میں جس طرح بھائی چارے کی تمام خوب صورتیوں کو یکجا کردیا گیا ہے، اسی طرح اس کا ہر نیا منصوبہ بھی ایک نئی مگر خوشگوار حیرت کے ساتھ طلوع ہوتا ہے، ان دنوں وطنِ عزیز میں نظریات کے نام پر جس ضد بازی اور مکالمے کے نام پر خود کلامی کو فروغ دیا جارہا ہے، اُس کی نسبت سے میں نے پرسوں والے پروگرام میں ایک نظم سنائی تھی سو وہی بغیر کسی تمہید اور وضاحت کے اس اعتماد کے ساتھ درج کرتا ہوں کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ۔
اے مرے دوستو، بھلے لوگو
اے مرے دوستو بھلے لوگو
عیب سے پاک تو ہے بس اک وہ
جو ہے ہم سب کا پالنے والا
ہر اندھیرا اُجالنے والا
کس لیے پھر یہ خبط عظمت کا
کس لیے دوسروں کے عیبوں کی
گنتیاں ہی سدا گنے جانا
کس لیے نیند میں چلے جانا
اے مرے دوستو بھلے لوگو
آئو بیٹھو مکالمہ کرکے
ایک دوجے کی خوبیاں جانیں
جو کمی ہو کسی میں وہ مانیں
جس رعائت کے آپ طالب ہوں
دوسروں کو بھی وہ عطا کردیں
جس معافی کو اپنا حق سمجھیں
دائرہ اس کا کچھ بڑا کردیں
مل کے جینا جو سیکھ لیں ہم تم
کوئی اُلجھائو راہ میں نہ رہے
کوئی بے گانگی کا سایا تک
دل میں اور دل کی چاہ میں نہ رہے
اے مرے دوستو بھلے لوگو
اے مرے دوستو بھلے لوگو
واضح رہے کہ یہاں کمیشن سے مراد وہ نہیں جس کی طرف ذہن فوراً مبذول ہوجاتا ہے۔ ہُوا یوں کہ پرسوں رات اخّوت کے ایک ٹیلی تھان کے دوران ڈاکٹر امجدؔ ثاقب ہی کا لکھا ہوا اخّوت کا ترانہ ٹیلی کاسٹ کیا گیا جس کے ابتدائی بول ہیں''ہم مواخات ہیں۔ہم مواخات ہیں'' کسی سوال کرنے والے کے جواب میں ڈاکٹر امجدنے بتایا کہ دوسرے مذاہب اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے تو رہے ایک طرف خود وطن عزیز کے بھی بے شمار سننے والوں کی ''مواخات'' کے معانی اور اس کی تاریخ سے آشنائی نہ ہونے کے برابر ہے اور بالخصوص انگلش میڈیم میں تعلیم حاصل کرنے والی نسل کو یہ سمجھانا بھی ایک مہم کی شکل اختیارکرجاتاہے کہ باہمی محبت، قربانی اور بھائی چارے کا آج سے چودہ برس قبل رسول پاکؐ اور اُن کے صحابہ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا تھا کہ مدینے کے انصار نے اپنے ان مہاجر بھائیوں کی صرف خاطرِ خدمت اور مہمانداری نہیں کی تھی بلکہ انھیں اپنے مال اور جائیداد میں بھی نصف کا حصہ دار بنا دیا تھا، سو ترانے میں ''ہم مواخات ہیں'' سے مراد مواخات کے عمل میں اپنی شمولیت کا وہی اظہار تھا جس نے خون کے رشتے کے بغیر لوگوں کو سگے بھائیوں کی طرح ایک دوجے کے دکھ سکھ کا ساتھی اور حصے دار بنا دیا تھا۔
گزشتہ بیس برس میں ''اخوّت '' نامی تحریک اور تنظیم قرضِ حسنہ کے چند ہزاروں پر مبنی رفاہی پروگرام سے آج ایک سو باسٹھ ارب کی ہو شربا رقم تک پھیلی چکی ہے، یہ فی زمانہ عظیم ترین عالمی ریکارڈز میں سے ایک ہے کہ گزشتہ تقریباً تین چار سو برس سے دنیا جس معاشی نظام پر کاربند ہے، اس کا مرکزی ستون ''سُود'' ہے بالخصوص بینکنگ کا تو سارا نظام ہی اس کے گرد گھومتا ہے، ایسے میں بلاسود قرضوں کا ایک وسیع اور کامیاب نظام بلاشبہ کسی دیوانے کے خواب سے مختلف نہیں تھا مگر تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ا س کے ہر موڑ کے پیچھے بھی کہیں نہ کہیں کوئی دیوانہ یا چند دیوانے ہی موجود ہوتے ہیں۔
مجھے یاد ہے ''اخوّت کے بالکل ابتدائی زمانے میں ڈاکٹر امجد ثاقب اپنے ر وحانی استاد شعیب سلطان صاحب کے ساتھ مجھے اور منو بھائی مرحوم کو لے کر ایک گائوں میں گئے تھے جہاں انتہائی غریب اور بے وسیلہ لوگوں کو دس سے بیس ہزار کے قرضِ حسنہ جاری کیے جانے تھے ۔ تقریب تقسیم قرضہ جات کے لیے گائوں کی مسجد دفتر ٹھہری جس کے ننگے فرش پر بیٹھ کر یہ کارروائی مکمل کی گئی جس میں نہ تو قرض لینے و الے کا کوئی ضامن تھا اور نہ ہی اس سے کسی اشٹام یا رسید وغیرہ پر دستخط کرائے گئے۔
عام طور پر یہ خواتین یا تو بیوہ یا مطلّقہ تھیں یا اُن کے شوہرکسی بھی وجہ سے گھر کا خرچہ چلانے کے اہل نہیں تھے اور اُس سے بھی زیادہ خوش اور حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ ان غریب ترین لوگوں کے قرضہ اور وہ بھی وقت مقررہ پر ادا کرنے کی اوسط 99% سے زیادہ تھی اور اب جب کہ یہ ادارہ قرض حسن کے ساتھ ساتھ تعلیم، ہائوسنگ، ٹرانس جینڈر اور کفالتِ ِ یتامیٰ کے حوالے سے بھی ایسی خدمات سرانجام دے رہا ہے جس کی وجہ سے لوگ ایدھی صاحب کی طرح ''اخوّت '' پر بھی آنکھیں بند کرکے اعتبار کر لیتے ہیں کم و بیش اس کے ابتدائی زمانے سے اس کے ساتھ ہونے کی وجہ سے میں نے اس محبت یگانگت اور اعتماد کے سفر کو قدم بہ قدم اور لحظہ بہ لحظہ دیکھا ہے اور میں نے اس کے تنظیمی ڈھانچے کی خلوص اور شفافیت کے ساتھ ساتھ اس کو ایک جدید اور منظم ادارے کے طور پر بنتے اور پھلتے پھولتے دیکھا ہے اس لیے مجھے جہاں اور جب بھی گواہی کے لیے بلایا جاتاہے، میں حاضر ہو جاتا ہوں۔
اخوّت کے لفظ میں جس طرح بھائی چارے کی تمام خوب صورتیوں کو یکجا کردیا گیا ہے، اسی طرح اس کا ہر نیا منصوبہ بھی ایک نئی مگر خوشگوار حیرت کے ساتھ طلوع ہوتا ہے، ان دنوں وطنِ عزیز میں نظریات کے نام پر جس ضد بازی اور مکالمے کے نام پر خود کلامی کو فروغ دیا جارہا ہے، اُس کی نسبت سے میں نے پرسوں والے پروگرام میں ایک نظم سنائی تھی سو وہی بغیر کسی تمہید اور وضاحت کے اس اعتماد کے ساتھ درج کرتا ہوں کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ۔
اے مرے دوستو، بھلے لوگو
اے مرے دوستو بھلے لوگو
عیب سے پاک تو ہے بس اک وہ
جو ہے ہم سب کا پالنے والا
ہر اندھیرا اُجالنے والا
کس لیے پھر یہ خبط عظمت کا
کس لیے دوسروں کے عیبوں کی
گنتیاں ہی سدا گنے جانا
کس لیے نیند میں چلے جانا
اے مرے دوستو بھلے لوگو
آئو بیٹھو مکالمہ کرکے
ایک دوجے کی خوبیاں جانیں
جو کمی ہو کسی میں وہ مانیں
جس رعائت کے آپ طالب ہوں
دوسروں کو بھی وہ عطا کردیں
جس معافی کو اپنا حق سمجھیں
دائرہ اس کا کچھ بڑا کردیں
مل کے جینا جو سیکھ لیں ہم تم
کوئی اُلجھائو راہ میں نہ رہے
کوئی بے گانگی کا سایا تک
دل میں اور دل کی چاہ میں نہ رہے
اے مرے دوستو بھلے لوگو
اے مرے دوستو بھلے لوگو