قومی سلامتی پالیسی
قومی سلامتی پالیسی ’’پیش‘‘ کرنے کے نام پر جو کچھ دیکھنے میں آیا وہ ایک طویل المدتی منصوبہ بندی کی نشاندہی کرتا ہے
رات کو دیر تک جاگنے والے ہر شخص کی طرح مجھے بھی علی الصبح اُٹھ کر تیار ہوکر گھر سے باہر نکلنے کے خیال سے وحشت ہوتی ہے۔ بدھ کی صبح مگر یہ سب کرنا ہی پڑا۔ اس سے ایک روز پہلے وفاقی کابینہ کا ایک طویل اجلاس ہوچکا تھا۔ اس میں شریک وزراء کو تھوڑی دیر کے لیے قومی سلامتی پالیسی کا مجوزہ مسودہ صرف پڑھنے کے لیے دِکھا کر واپس لے لیا گیا اور فیصلہ یہ ہوا کہ اس کے جو حصے ملکی مفاد کو زک پہنچائے بغیر افشاء کیے جاسکتے ہیں بدھ کی صبح قومی اسمبلی کے سامنے رکھ دیے جائیں گے۔ خیال یہ بھی تھا کہ وزیر اعظم بذاتِ خود ایوان میں جاکر اس پالیسی کو پیش کرنے کے بعد اس کے چیدہ چیدہ نکات لوگوں کو سمجھائیں گے۔
میں جب قومی اسمبلی پہنچا تو پریس گیلری رپورٹروں سے بھری پڑی تھی۔ چوہدری نثار علی خان صاحب نے مائیک سنبھالا ہوا تھا۔ موصوف ذاتی ملاقاتوں میں کافی لیے دیے رہتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں لیکن جب کھڑے ہوجائیں تو بولتے چلے جاتے ہیں۔ اکثر انھیں یہ یاد بھی نہیں رہتا کہ طاقتور مائیکرو فون کے ہوتے ہوئے انھیں پھیپھڑوں کا پورا زور لگاکر بلند آواز میں بولنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ آدمی مگر جذباتی ہیں۔ خود کو بہت مخلص بھی گردانتے ہیں۔ موقع ملے تو دل کی بھڑاس پوری طرح نکالنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔
وزیر داخلہ کی طویل بلند آہنگ تقریر میں لیکن ''خبر'' کہیں بھی نہیں تھی۔NACTAنام کا ادارہ پہلے سے موجود ہے۔ اسے مزید موثر اور توانا بنانا ہے تو صوبائی حکومتوں کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ مسئلہ صرف صوبائی خود مختاری وغیرہ کا نہیں۔ اس سے کہیں زیادہ اہم یہ حقیقت ہے کہ اس ادارے کو مزید موثر بنانے کے لیے تقریباً28ارب روپے کی جو خطیر رقم درکار ہے اس میں سے وفاقی حکومت صرف 4ارب ادا کرے گی۔ بقیہ رقم صوبوں کے لیے مختص اس رقم سے منہا کی جائے گی جو NFCایوارڈ کے بعد ان کے حصے آتی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ صوبائی حکومتیں اپنے حصے کی رقوم کے ذریعے وفاقی حکومت کے لیے ایک ایسا طاقتور ادارہ قائم کرنا چاہیں گی جسے وزیر داخلہ بارہا پاکستان کی Primeکاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی اور کبھی ایجنسی قرار دیتے رہے۔ زیادہ بہتر یہی ہوتا کہ اس ادارے کے قیام کی تجویز کو قومی اسمبلی میں باقاعدہ پیش کرنے سے پہلے صوبائی حکومتوں سے مشاورت کا عمل مکمل کرلیا جاتا۔
دہشت گردی کے مقابلے کے لیے ایک سریع الحرکت فورس بنانے کی بات بھی ہو رہی ہے۔ بھارت میں بھی National Security Guardsکے نام کا ایک ادارہ موجود ہے۔ مگر یہ صرف اسی وقت حرکت میں آتا ہے جب صوبائی حکومتیں اپنی پولیس کو میسر صلاحیتوں کے ذریعے بمبئی جیسے واقعات کا مقابلہ نہ کرپائیں۔ پاکستان میں جو واقعات ہوتے ہیں ان کی نوعیت قطعی مختلف ہے۔ خودکش بمباری بتدریج کم ہوتے ہوئے اب ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیے جانے والے دھماکوں کی راہ بنا رہی ہے۔ ایسے دھماکے Sleepers Cellsکے ذریعے کروائے جاتے ہیں جو ملک کے سارے اہم شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ NACTAکی بدولت انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ فونوں کی جدید ترین آلات کے ذریعے نگرانی کے بعد ان Cellsکی نشاندہی ممکن ہے۔ ہوسکتا ہے NACTA کے ماتحت کام کرنے والی سریع الحرکت فورس بجائے صوبائی حکومتوں کو مطلع کرنے کے اپنے جوان Sleepers Cellsکا سراغ ملنے کے فوراً بعد انھیں غیر موثر بنانے کے لیے بھجوا دیں۔
یہ فورس اگر ایسے ہنگامی کاموں سے نبردآزما ہونے تک محدود رہے تو شاید کوئی خاص مسئلہ نہ ہو۔ مگر اس کا وسیع تر پھیلاؤ اور جدید ترین آلات اور اسلحہ سے لیس ایک انتہائی تربیت یافتہ ''کمانڈو فورس'' کا قیام وفاقی حکومت کی ''اصل نیت'' کے بارے میں نہ صرف اس کے سیاسی مخالفوں بلکہ ریاست کے دیگر اداروں کے ذہنوں میں بھی کافی شکوک وشبہات پیدا کرسکتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بنائی FSFکے بارے میں یہی تو ہوا تھا۔ اسی لیے جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگانے کے فوری بعد اسے ختم کردیا تھا۔ اسی ادارے کے سربراہ مسعود محمود نے اپنی جان بچانے کے لیے وہ گواہی دی تو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگانے کا سبب ٹھہری۔ FSFکے ساتھ جڑی ان کہانیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے چوہدری نثار علی خان کو اپنی سریع الحرکت فورس کے بارے میں تفصیلی وضاحتیں دینا ہوگی۔ وزیر اعظم نے بڑی متانت اور بردباری سے اس پہلو کو سمجھ لیا اور چوہدری نثار علی خان کی طولانی تقریر کے بعد خود کھڑے ہوکر سید خورشید شاہ سے یہ وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی قومی اسمبلی میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں کوNACTAکے حوالے سے ایک طویل مشاورتی اجلاس کے لیے مدعو کریں گے۔
بدھ کو قومی سلامتی پالیسی ''پیش'' کرنے کے نام پر جو کچھ دیکھنے میں آیا وہ ایک طویل المدتی منصوبہ بندی کی نشاندہی کرتا ہے۔ فی الوقت دہشت گردی کی بابت حکومتی پالیسی ''اسی تنخواہ'' پر گزارہ کرنے والی دِکھ رہی ہے۔ کوئی اُمید افزاء تبدیلی نظر نہیں آئی ہے۔