فکری مغالطے
حاشی صرف مشرق کا معاملہ بھی نہیں ہے، بلکہ مغرب میں بھی اسے ناپسندیدہ فعل سمجھاجاتا ہے
پاکستان کی دوصاحب الرائے شخصیات ،جن میں سے ایک سابق جج اور دوسرے ایک مذہبی جماعت کے سربراہ رہ چکے ہیں۔
اپنے عالمانہ تجزیے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس ملک کو درپیش دیگر تمام مسائل ثانوی ہیں،اصل مسئلہ فحاشی اور عریانی ہے۔اس لیے انھوںنے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکٹایاہے،تاکہ اس کی مدد سے اس عفریت سے جان چھڑائی جاسکے۔ بعض لکھاری فحاشی اور عریانیت کی تعریف متعین کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جس کے بعد عدالت کوئی حکم صادر فرمائے گی۔
پہلی بات یہ کہ فحاشی اور عریانی دو الگ انسانی رویے ہیں۔انھیں ایک دوسرے سے گڈ مڈ نہیں کیا جاسکتا۔فحاشی کے لیے عریانیت ضروری نہیں، فحاشی ایک مبہم اور غیر واضح اصطلاح ہے،اس لیے اس کا کوئی واضح پیمانہ مقرر نہیں کیا جاسکتا ۔ہر معاشرے اور ہر فرد کے لیے فحاشی کے الگ معیارہیں۔بعض لوگوں کے نزدیک جیدعلماء، سیاسی قائدین اورسماجی رہنمائوںکی تقاریر کے بعض حصے فحاشی پر مبنی ہوتے ہیں۔اسی طرح بعض ادبی شہ پاروں اور محققانہ تحریروں پر بھی فحاشی کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
خواتین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ 95فیصد مرد جس انداز میںان کو گھورتے ہیں، وہ فحاشی ہے۔لہٰذایہ کسی حد تک اجتماعی،لیکن زیادہ تر انفرادی معاملہ ہے۔ فحاشی صرف مشرق کا معاملہ بھی نہیں ہے، بلکہ مغرب میں بھی اسے ناپسندیدہ فعل سمجھاجاتا ہے۔ مگر فحاشی کی کوئی واضح اور مربوط تعریف سامنے نہیں آسکی ہے۔
عریانیت(Nudity)ایک مختلف اصطلاح ہے۔یہ عموماً انسانی جسم کی بے لباسی سے عبارت ہے۔ یہ بھی معاشرے پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی بے لباسی کوکس حد تک قبول کرتا ہے۔ بے لباسی یا عریانیت بھی زمان ومکان کی تبدیلی سے مشروط ایک رویہ ہے۔ہر معاشرہ میںمردوزن کے جسم کے بعض حصوں کی بے لباسی قبول ہوتی ہے،جب کہ دیگر حصوں کی بے لباسی کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔
مثال کے طورپر عرب دنیا میں خواتین کی پنڈلیوں کا برہنہ ہونا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔یہی سبب ہے کہ بیشتر عرب ممالک میں خواتین اسکرٹ زیب تن کرتی ہیں۔ لیکن وہاں پیٹ کے کچھ حصوں کابے لباس ہونا پسند نہیں کیا جاتا، لہٰذا ساڑھی یااس سے ملتا جلتا لباس جس میں پیٹ کا کچھ حصہ نمایاں ہو، مستعمل نہیں ہے۔ اس کے برعکس برصغیر میں خواتین کی پنڈلیوں کا بے لباس ہونا مجموعی طورپرناپسندیدہ فعل ہے،جب کہ پیٹ کے کچھ حصے کھلے رہنے کو برا نہیں سمجھاجاتا۔ اس لیے برصغیر میں ساڑھی خواتین کا پسندیدہ لباس ہے، لیکن اسکرٹ عام پہناوا نہیں ہے۔جنوبی ہند، بنگال اور راجھستان وغیرہ میں یہ دیگر مذاہب کے علاوہ مسلم خواتین کا مرغوب لباس ہے۔
اسی طرح اگر حجاب کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے بھی معیارات مختلف معاشروںمیں مختلف ہیں۔ایران اور بیشترعرب ممالک میںخواتین جسم کے ساتھ صرف سر ڈھانپی ہیں، چہرے پر نقاب نہیںلیتیں۔ جب کہ افغانستان اورپاکستان کے کچھ حصوں خاص طورپر قبائلی علاقوں میں خواتین کے لیے چہرہ چھپانایا نقاب استعمال کرناضروری تصورکیاجاتا ہے۔لہٰذا عریانیت بھی ایک اضافی(Relative)اصطلاح ہے، جو زمان و مکان کے ساتھ تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔
اس لیے اس کی کوئی متعین تعریف ممکن نہیں۔ بعض حساس نوعیت کے فیصلے یا فتوے جاری کرتے وقت ہمارے محترم اکابرین کو مختلف معاشروں میں پائی جانے والی روایات اور اقدار کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔جب عربوں نے ایران فتح کیاتو ایرانی دائرہ اسلام میں اس کی خصوصیات کی وجہ سے داخل ہوگئے، لیکن انھوںنے عرب ثقافت کوقبول کر نے کے بجائے اپنی ثقافتی اقدار کو جاری رکھا۔چنانچہ ایرانیوں کو ان کے اس اقدام کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔لہٰذا یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک پختون پنجاب یا سندھ کی ثقافتی روایات کو قبول کرنے کا پابند نہیں ہے۔اسی طرح کسی سندھی،سرائیکی یا بلوچ کو پختون روایات کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔ہمارے رہنمائوں کو سید احمدشہید بریلوی کی تحریک کی ناکامیوں کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔
تاریخ،فلسفہ،سیاسیات، عمرانیات اوراصول فقہ (Jurisprudence)کاادنیٰ طالب علم ہونے کے باوجود جیدعلمائے کرام کا نقطہ ہائیِ نظر اوران کے مختلف مسائل پردیے گئے فتاویٰ میری سمجھ سے بالاترہیں ۔ شایداس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میںاسلام کوایک متحرک (Dynamic) مذہب سمجھتا ہوں، جوزمان ومکان کی تبدیلی کے ساتھ قوانین میںترامیم واضافے کی اجازت دیتاہے ۔اجماع اور قیاس جس کی سب سے بڑی دلیل ہیں۔
جب کہ ہمارے دینی رہبروں نے دسویں صدی کے بعد تحقیق وتفتیش کی کھڑکیاں بند کردی ہیں اور وہ ان اصول وضوابط پر تکیہ کیے ہوئے ہیں،جوامام غزالی نے ایک ہزار برس قبل طے کردیے تھے۔نتیجتاًتاریخ تو آگے بڑھتی چلی گئی اوران ہزار برسوں کے دوران سائنسی ترقی کے سبب دیگر انسانی معاشرے ارتقائی عمل کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے نئی منزلوں کی طرف بڑھ گئے، لیکن مسلم معاشرے ترقی کے عمل کا حصہ نہ بن سکے۔
دوسرا مسئلہ جس کی معروف تاریخ دان ڈاکٹرمبارک علی نے نشاندہی کی ہے، وہ یہ ہے کہ مسلم معاشروںمیںسائنس اور فلسفہ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے مسلم معاشروں میں ابتدائی دو صدیوں (آٹھویںاور نویں)کے بعد شاعر، ادیب اور دینی عالم تو پیدا ہوئے فلسفی، مجتہدین، مفکرین اورسائنسدان پیدا ہونے کا سلسلہ رک گیا۔کیونکہ ریاست اور علمائے دین نے ملی بھگت کرکے سائنسدانوں، فلسفیوںاور مفکرین کاراستہ روکنے کاہر ہتھکنڈا استعمال کیا۔ان کے ساتھ ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیارکیاگیا،ان کی تحقیقات کو سربازارنذرآتش کیاگیا اوربیشتر کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
اہل علم ،مذہبی امور(Jurisprudence)سمیت کسی عصری علوم پر تحقیق کرتے ہوئے خوفزدگی کا شکار ہونے لگے۔اس لیے نہ مذہبی معاملات پر اجتہاد ہوسکا اور عصری تقاضوں کے مطابق نئے اصول وضوابط طے ہوسکے اورنہ ہی جدید سائنس وٹیکنالوجی پرکوئی بامعنی تحقیق ہوسکی۔اس صورتحال کے نتیجے میں مسلم معاشروں میں تہذیب وتمدن کے ارتقاء کے راستے مسدود ہوتے چلے گئے۔
نتیجتاًمسلم معاشرے جمود میں مبتلا ہوکر اندرونی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے اور آج تک اسی کیفیت میں مبتلاہیں۔پاکستان کی صورتحال اس لیے مزیدابتر ہے کہ یہاں قومی تشکیلات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔جب تک یہ تسلیم نہیں کیا جاتا کہ پاکستان کثیرالمسلکی اور کثیر اللسانی ملک ہے،اس ملک کے مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔اس لیے جب تک پاکستان کی سیاسی اور سماجی تشکیلات کونہیں سمجھا جاتا، پاکستانی معاشرے کو صحیح ڈگر پر لگانا ممکن نہیں ہے۔
غورطلب پہلو یہ ہے کہ سٹیلائٹ اورانفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں جب شہریوںکو اپنی پسند کے چینل اور پروگرام دیکھنے کاحق اورموقع ملاہے، توبعض عناصر ان سے یہ حق چھینے کے کیوں درپئے ہیں؟ حالانکہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ ناپسندیدہ پروگرام یا چینل کوہٹانامشکل نہیں ہے۔لہٰذایہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک گوناگوں مسائل میں گھرا ہواہے اور دہشت گردی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے، بعض سقہ قسم کی شخصیات ملک کو درپیش اصل مسائل سے صرف نظر کرتے ہوئے عدلیہ کواس ثانوی مسئلہ میں الجھاکر خاص طورپر میڈیاکونشانہ کیوں بنانا چاہتے ہیں؟کیا یہ عناصرکسی فکری مغالطہ کا شکار ہیں یا دانستہ اس ملک کے عوام کوجاننے کے حق سے محروم کرکے ان پر اپنی پسند کا قبائلی کلچر مسلط کرنا چاہتے ہیں؟یہ سوچنے کی بات ہے۔