Why۔۔۔۔۔۔۔۔

ستر کا عشرہ پاکستان کے لیے ہنگامہ خیز رہا ہے۔ پہلے انتخابات، پھر مذاکرات اور اس کے بعد جنگ۔۔۔۔


Muhammad Ibrahim Azmi Advocate February 28, 2014
[email protected]

BIRMINGHAM: ڈاکٹر سے پوچھا جائے کہ آپریشن کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ جواب ہو گا چیر پھاڑ۔ اگر یہی آپریشن کسی آبادی میں ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے مار دھاڑ۔ ڈاکٹر حضرات بھی پہلے دوائی سے کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سرجری کرنا کسی بھی مریض کے لیے آخری حربہ ہوتا ہے۔ اگر اس کی جان نہ بچ سکتی ہو تو یقینا عمل جراحی ہونا ہی چاہیے۔ اس مریض پر غور کریں جس کے آدھے رشتے دار کہتے ہوں کہ مریض دوائی سے ٹھیک ہو جائے گا اور آدھے کہیں کہ نہیں آپریشن ہونا چاہیے۔ ڈاکٹروں کی آراء دو حصوں میں بٹ گئی ہوں اور وہ مریض کے چاہنے والوں سے پوچھ رہے ہوں کہ کیا کرنا ہے؟ کیا وہ مریض بچ سکے گا جس کے قریبی رفقا اپنی اپنی پسند کے ڈاکٹروں سے مریض کا علاج کروانا چاہتے ہیں۔ دوائی اور سرجری کے دلائل دونوں طرف سے آ رہے ہوں تو مریض کی بے چارگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

پاکستان اپنے قیام کے ابتدائی دور سے ہی سے دائیں اور بائیں کی تعریف میں بٹا ہوا ہے۔ درمیانی راہ پر چلنے والی مسلم لیگ ہمیشہ دونوں کے درمیان سینڈوچ بنی رہی ہے۔ لبرل اور اسلام پسند بھرپور انداز میں تحریک پاکستان کا حصہ نہ تھے۔ دونوں گروہ منظم تھے اور اپنے اپنے نظریات کا پرچار کر رہے تھے۔ سرخ سویرے کا سپنا دیکھنے والوں کے لیے روس اور چین کی ترقی تھی تو سبز سویرے کا خواب دیکھنے والوں کے لیے پٹرو ڈالر سے مالا مال عربوں کی ترقی۔ قرارداد مقاصد سے لے کر بھارت سے دوستی اور افغان جنگ سے لے کر لال مسجد تک دونوں گروہ برسر پیکار ہیں۔ اب طالبان سے لال مسجد تک دونوں گروہ برسر پیکار ہیں۔ اب طالبان سے مذاکرات اور آپریشن پر بھی دونوں گروہ آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ دونوں طرف کے اپنے اپنے دلائل ہیں اور ہر جانب سے اپنا اپنا سچ ہے۔

اخبارات کے صفحات کی تحریریں اور الیکٹرانک میڈیا کی تقریریں ہمارے سامنے ہیں۔ مذاکرات اور ان میں ڈیڈ لاک کے بعد کی بھیانک تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان مذاکرات کی ناکامی نے تقسیم ہند کی بنیاد رکھی۔ قائد کی آخری کوشش کو نہرو کے ایک بیان نے ختم کر دیا۔ اس کے بعد کی جنگیں، کشمیر کا مسئلہ اور تناؤ کی کیفیت ان مذاکرات کی ناکامی کے سبب ہوئی۔ ایوب خان کی گول میز کانفرنس کی ناکامی نے یحییٰ خان کے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ پوری قوم خوش تھی کہ بوڑھے آمر سے نجات ملی۔ وہ طاقتور اور تازہ دم آمر کی بے وقوفیوں سے ناواقف تھی۔ مجیب اور بھٹو کے مذاکرات کی ناکامی نے مشرقی پاکستان میں آپریشن کی بنیاد رکھی۔ اس بنیاد سے ایک دیوار برآمد ہوئی اور جدائی کی ایک لکیر کھینچ دی گئی۔ آپریشن کی ابتدا کو خوش آیند قرار دینے والے آنے والی ذلت و رسوائی سے آگاہ نہ تھے۔ وہ فریق مخالف کی طاقت کو کم تر اور اپنے آپ کو مضبوط سمجھ رہے تھے۔ یہ تھے چالیس، ساٹھ اور ستر کے مذاکرات کی ناکامی کے نتائج۔

ستر کا عشرہ پاکستان کے لیے ہنگامہ خیز رہا ہے۔ پہلے انتخابات، پھر مذاکرات اور اس کے بعد جنگ۔ المناک نتیجہ اور ''سقوط ڈھاکہ'' کا المیہ۔ ''نیا پاکستان '' بنا تو اس کے قائد ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ پانچ سال حکومت کرنے کے بعد انتخابات کروائے گئے۔ حزب اختلاف ''پاکستان قومی اتحاد'' کے نام پر منظم ہو گئی تھی۔ انتخابی دھاندلیوں کا الزام لگا اور ایک بار پھر مذاکرات ہوئے۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ منظم اور باقاعدہ مذاکرات۔ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان یا یوں کہہ لیجیے کہ تلوار اور ہل کے نشان پر انتخابات کرنے والی دو پارٹیوں کے درمیان۔ ابتدا بڑی سنجیدہ تھی لیکن لیکن آہستہ آہستہ دونوں طرف سے مطالبات بڑھتے گئے۔ ایک طرف بھٹو اس اہم ملکی معاملے کو چھوڑ کر ہفتے بھر کے پانچ ملکوں کے دورے پر چلے گئے۔ دوسری طرف اصغر خان نے فوج کے سربراہوں کو خط لکھ دیا۔ ایک جانب مصطفیٰ کھر دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر میدان میں کچھ کر دکھانا چاہتے تھے۔ دوسری جانب اصغر خان اور بیگم نسیم ولی نے مذاکراتی ٹیم کے ہاتھ باندھ دیے تھے۔ مفتی محمود، نصراللہ خان اور پرویز غفور پر مشتمل ٹیم کسی فل اسٹاپ اور کومے میں ترمیم کا اختیار نہیں رکھتی تھی۔ نہ یہ طے ہوا تھا کہ نئی حکومت کیسے بنے گی اور نہ آئینی ترامیم کا رخ متعین ہوا تھا۔ اعتماد کے فقدان سے مذاکرات ناکام ہوئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی پہلے اپنی حکومت اور پھر اپنے چیئرمین کی زندگی سے محروم ہوئی۔ مذاکرات میں ڈیڈ لاک ہونے کے بعد ناکامی کا اعلان اور پھر مار دھاڑ کی یہ تاریخ ہے۔

دور مشرف میں اکبر بگٹی اور لال مسجد کے واقعات نے دہشت گردی کو بڑھا دیا تھا۔ دونوں مقامات پر چوہدری شجاعت نے کامیاب مذاکرات کرنے تھے۔ سب راضی تھے لیکن مشرف نہ مانے۔ لال مسجد میں زیادہ سے زیادہ بجلی، پانی، گیس بند کر دی جاتی تو معاملہ ایک ہفتے میں حل ہو جاتا۔ بگٹی سے شکایات تھیں تو 80 سالہ بلوچ لیڈر کا صرف محاصرہ کر لیا جاتا تو وہ اپنے آپ کو حفاظتی تحویل میں پیش کر دیتے۔ دونوں مقامات پر آپریشن کو خوش آمدید کہنے والے اکیسویں صدی کی پہلی اور دوسری دہائی کے ساتھ آٹھ برسوں میں خون خرابے کو دیکھیں۔ مذاکرات سے گریز اور آپریشن کرنے کی جلدی نے دو مسئلے پیدا کر دیے۔ ایک طرف مذہبی انتہا پسندی کو پورے ملک میں پھیلا دیا تو دوسری طرف بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے حوصلے بلند کر دیے۔ یہ ہے نئی صدی میں پاکستان میں چیر پھاڑ اور مار دھاڑ کرنے کی تاریخ۔

کیوں، کب، کہاں، کیسے، کون، کسے۔ اردو کے چھ ک یا انگریزی کا ایک H اور پانچ W۔ اس میں اہم ''کیوں'' کیونکر ہوتا ہے؟ ہر موقعے پر کسی واقعے کا سبب جاننے کے لیے Why کو بھلا دیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے تاریخی واقعات میں چھوٹی سی مثال اونٹ کے منہ میں زیرہ یا پہاڑ کو رائی بنانے کے مترادف ہے۔ دیکھیں یہ تمثیل اس کیوں کو حل کرتی ہے جسے ہم ہر مسئلے میں بھلا دیتے ہیں۔

ایک بچہ اگر آپ کے گھر پتھر پھینکتا ہے اور شیشہ توڑ دیتا ہے۔ ایک مرتبہ آپ نے کھڑکی کی مرمت کروالی لیکن دوسری مرتبہ وہ بچہ آپ کے ہاتھ لگ گیا۔ اب آپ کیا کریں گے؟ آپ کے پاس دو اختیارات ہیں۔ ہم دونوں کو آزما کر نتیجہ دیکھتے ہیں۔ آپ غصے میں اس بچے کو تھپڑ مارتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنے والد کو لے آتا ہے۔ آپ کا اس آدمی سے جھگڑا اور مارپیٹ شروع ہو جاتی ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ ہمارا شیشہ کیوں توڑتا ہے اور وہ آدمی کہتا ہے کہ آپ نے میرے بچے کو کیوں مارا۔ بات بڑھ جائے تو معاملہ اسپتال اور تھانے تک بھی جا سکتا ہے۔ دوسری پسند یہ ہو سکتی ہے کہ آپ بچے سے پوچھیں کہ وہ آپ کے گھر پتھر کیوں مارتا ہے؟ وہ کہے گا کہ آپ کا بیٹا میرے اسکول میں پڑھتا ہے اور مجھے مارتا پیٹتا ہے۔ آپ اپنے بیٹے کو بلاتے ہیں کہ کیوں اس لڑکے کو مارتے ہو۔ آپ دونوں کو گلے ملوا کر دوستی کروا سکتے ہیں۔ پہلے حل میں آپ نے کیوں پر توجہ نہ دی۔ آپ نے ایک بچے کا غیر فطری عمل دیکھا۔ وہ عمل نہیں بلکہ ردعمل تھا۔ آپ کی نظر نہ اپنی خامی پر تھی اور نہ دوسرے پر ہونے والی زیادتی پر۔ مذاکرات سے قبل یہی ہوتا ہے کہ دونوں فریق اپنے آپ کو معصوم سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ جب بات چیت ہوتی ہے تو دونوں کو اپنی اپنی خامیاں نظر آتی ہیں۔ فیصلہ ہمیشہ کی طرح ''سینڈوچ'' بنی مسلم لیگ نے کرنا ہے۔ دوائی سے ٹھیک ہوجانے والے مریض کے لیے آپریشن کرنا ہے یا نظر رکھنی ہے کیوں پر۔ دیکھنا ہے وجہ کو۔ سمجھنا ہے کہ کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا جب تک نہ سمجھا جائے کہ کیا ہوتا ہے Why۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں