سمندری آلودگی ماہی گیروں کا روزگار خطرے میں پڑ گیا
پورٹ قاسم صنعتی علاقے سے بغیر ٹریٹمنٹ سمندر میں گرنے والے فضلے سے سمندری حیات کی آماج گاہیں آلودہ ہو رہی ہیں
کراچی:
سمندری آلودگی سے ماہی گیروں کا روزگار خطرے میں پڑ گیا ،ریڑھی گوٹھ کے پر امن اور محنت کش ماہی گیروں نے اپنی بستیوں پر قبضہ مافیا کی یلغار کے آگے تین دہائیوں تک جدوجہد کے دوران اپنی جانوں کی قربانی دی اب ماحولیاتی آلودگی سے شکست کھاتے نظر آرہے ہیں۔
ماہی گیروں کو درپیش مسائل اور مستقبل کے خدشات پر تشویش میں مبتلا ماہی گیروں میں زیادہ تر قاسمانی برادری سے تعلق رکھنے والے مالی گیر ہیں جو کئی نسلوں سے ماہی گیری کے پیشہ سے وابستہ ہیں جو تیزی سے بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی اور سمندر میں شکار کے لیے آمد و رفت میں مشکلات کی وجہ سے ماہی گیری کے پیشہ کے مستقبل کے بارے میں فکر مند دکھائی دیتے ہیں۔
ماہی گیروں کاکہناہے کہ سمندری آلودگی کی روک تھام کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے تو چھوٹے ماہی گیروں کاروزگار مستقبل طورپربند ہونے کاخدشہ ہے، ماہی گیروں کے مطابق پورٹ قاسم صنعتی علاقے سے بغیر ٹریٹمنٹ سمندر میں گرنے والے فضلے، تمیر کے جنگلات کی کٹائی پورٹ قاسم پر قائم تنصیبات سے سمندری حیات کی آماج گاہیں آلودہ ہورہی ہیں اور ان کھاڑیوں (کریکس) میں سمندری خوراک ناپید ہورہی ہے جہاں وہ صدیوں سے اپنی چھوٹی کشتیوں کے ذریعے شکار کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے تھے۔
ماحولیاتی آلودگی سے چھوٹے ماہی گیروں کیلیے قریبی پانیوں سے شکار بھی ناممکن ہو گیا ہے اس سے قبل وہ سمندر میں جائے بغیر گزرگاہوں (نالوں) سے ہی شکار کرلیا کرتے تھے اور اس وقت تک مردوں کے ساتھ خواتین بھی ماہی گیری کرتی تھیں کیونکہ زیادہ تر شکار ان کے گھروں کے قریب سے ہی مل جاتا تھا اور انھیںکئی روز کیلیے سمندر میں نہیں جانا پڑتا تھا ،ڈوری سے بھی شکار ہوجاتا تھا، اب آلودگی کی وجہ سے مچھلی جھینگے دور جا رہے ہیں اور ماہی گیروں کو سمندر میں دور تک جانا پڑتا ہے اور ان کی چھوٹی کشتیاں اور کمزور انجن اس کی سکت نہیں رکھتے۔
ماہی گیرغلام مصطفی نے بتایا کہ بارشوں کے بعد سمندری آلودگی انتہا پر پہنچ جاتی ہے سمندری کھاڑیوں (دریا ) میںگرنے والا کیمیاوی مواد اور آلودگی جو جم جاتی ہے بارش کا پانی آنے کی وجہ سے بہہ کر پورے سمندر میں میلوں دور تک پھیل جاتی ہے جس کے اثرات دو سے تین ماہ تک رہتے ہیں اور اس دوران شکار نہیں ملتا جس سے چھوٹے ماہی گیر بری طرح متاثر ہوتے ہیں، اس دوران آلودگی کی وجہ سے بڑی تعداد میں مچھلیاں مرجاتی ہیں اور سمندر میں دور تک پھیلی ہوتی ہیں جن کی بدبو سے سمندر ہفتوں تعفن کا شکار رہتا ہے۔
سمندر تک جانے والی گزرگاہیں بند ہو رہی ہیں، ابوبکر
ماہی گیر ابوبکر نے بتایا شکار کے لیے کھاڑیوں اور سمندر تک جانے والی گزرگاہیں جنہیں ماہی گیر نالہ کہتے ہیں ماہی گیروں کے لیے بند ہورہی ہیں، ابراہیم حیدری اور ریڑھی گوٹھ کے چھوٹی کشتیوں میں شکار کرنیو الے ماہی گیر چار راستوں سے سمندر اور کھاڑیوںکا رخ کرتے تھے جن میں سے تین راستے بند ہوچکے ہیںان نالوں کے نام آڈی، کاڈیرو، چارو اور بوسکی سُگو ہیں۔
ماہی گیروں کی آمد و رفت کے لیے صرف آڈی کا راستہ کھلا ہے جہاں پورٹ تنصیبات کی سیکیورٹی کی وجہ سے 3گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے، چارو کا راستہ گیس ٹرمینل کی وجہ سے آمدورفت کے لیے بند ہے، راستے بند ہونے سے قبل انھیں کھاڑیوں تک جانے کے لیے نالوں سے گزرنے میں زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ لگتا تھا جس پر ایندھن کی مد میں تین چار ہزار روپے خرچ ہوتے تھے تاہم اب گزرگاہیں بند ہونے کی وجہ سے ڈھائی سے تین گھنٹے کی مسافت اور طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جس پر ایندھن کے اخراجات بھی چار گنا بڑھ چکے ہیں۔
قاسمانی برادری قبضہ مافیاکے آگے چٹان بنی ہوئی ہے
ماہی گیروں کی قاسمانی برادری تین دہائیوں سے ان کی زمینیں قبضہ کرکے غیرمقامی افراد کو فروخت کرنے والی قبضہ مافیا کے عزائم کے آگے چٹان بن کر کھڑی ہے،قبضہ مافیا سے اپنے آبائی گوٹھوں کے دفاع کی جدوجہد میں ماہی گیروں کی قاسمانی برادری کے 13 افراد نے جانوں کی قربانی دی جن میں 3خواتین بھی شامل ہیں، پہلی ہلاکت 1999 میں مائی حوا نامی خاتون کی ہوئی جنھیں قبضہ مافیا کے کارندوں نے گھر میں گھس کر قتل کردیا۔
آخری جانی نقصان 2017 میں اٹھانا پڑا جب قبضہ مافیا کے کارندوں نے جواں سال عثمان قاسمانی کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ پورٹ قاسم کے قریب سمندر میں کشتی پر شکار کر رہے تھے، قاسمانی برادری کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے اور لگ بھگ 16مقدمات میں ماہی گیروں کو نامزد کیے جانے کی وجہ سے ماہی گیروں کو سمندری جزیروں اور تیمر کے جنگلات میں روپوشی اختیار کرنا پڑی۔
شکار 50 فیصد تک کم ہو گیا ہے، غلام مصطفی
ریڑھی گوٹھ کے ایک اور ماہی گیر غلام مصطفی کے مطابق سمندری آلودگی اور آمدورفت میں مشکلات کی وجہ سے ماہی گیر اپنے پیشے کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا شکار ہیں، گزشتہ دس سے پندرہ سال کے دوران سمندری آلودگی بڑھنے سے کھاڑیوں اور کم گہرے پانی سے شکار 50فیصد تک کم ہوگیا ہے، سمندری آلودگی کا تدارک نہ کیا گیا اور ماہی گیروں کی آمدورفت میں اسی طرح رکاوٹیں حائل رہیں تو آئندہ 10سے 15سال میں سمندری کھاڑیوں سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے ماہی گیری کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔
ماحولیاتی آلودگی کا تدارک کیا جائے
ماہی گیروں کے مطابق پورٹ قاسم پر تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعتوں، گیس ٹرمینلز، پاور پلانٹس، کوئلے کی ترسیل، ٰایل این جی کے پارسلز کی تعداد میں اضافہ ایسے عوامل ہیں جنھیں روکا نہیں جاسکتا ،ماہی گیروں کو یہ بھی اندازہ ہے کہ ترقی کے اس عمل میں کسی نہ کسی کو تو قربانی دینا پڑے گی جس کے لیے وہ تیار ہیں تاہم ماہی گیروں کا یہ مطالبہ ہے کہ صنعتی ترقی یا پورٹ پر تعمیر ہونے والے توانائی کے منصوبوں کے ماہی گیروں کی برادری پر پڑنے والے سماجی اور معاشی اثرات کو کم کرنے کیلیے سرمایہ کار اور ادارے اپنی سماجی ذمے داری ادا کریں، ماہی گیروں کی آمدورفت کوآسان بنایا جائے اور تیزی سے پھیلتی ماحولیاتی آلودگی کا تدارک کیا جائے۔
ساحلی آبادیوں میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے، نوجوان اور خواتین نشہ کرنے لگ گئے
چھوٹے پیمانے پر ماہی گیروں کو درپیش مشکلات کی وجہ سے ساحلی آبادیوں میں بے روزگاری تیزی سے پھیل رہی ہے، ماہی گیری کے علاوہ کوئی ہنر یا تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے انھیں دیگر شعبوں میں ملازمت یا روزگار ملنا مشکل ہوتا ہے اس لیے اکثر ماہی گیر کورنگی اور لانڈھی کے صنعتی یونٹس میں معمولی اجرت پر مزدوری کررہے ہیں۔
دوسری جانب جرائم پیشہ عناصر اور منشیات فروش ماہی گیروں میں پھیلتی اس بے روزگاری اورغربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ماہی گیروں کی بستیوں کے نوجوانوں کو منشیات کی جانب راغب کررہے ہیں، ماہی گیروں کی آبادیوں میں 60فیصد نوجوان نشے کی لت میں مبتلا ہیں معاشی ناہمواری اور سماجی مسائل کیوجہ سے نشہ کرنے والوں میں خواتین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
ماہی گیروںکوسماجی رہنمامحمد علی شاہ کی کاوشوں سے قانونی ریلیف ملا
ماہی گیروں کو سماجی رہنما محمد علی شاہ کی کاوشوں سے قانونی ریلیف ملا جنھیں ماہی گیروں کی بستیوں میں ماہی گیروں کا مسیحا کہا جاتا ہے ، یہ غریب ماہی گیر قبضہ مافیا اور استحصال کے خلاف تین دہائیوں تک ڈٹ کر کھڑے رہے تاہم اب بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی اور ماحول پر اثر انداز ہونے والی ترقی کے آگے بے دست و پا دکھائی دیتے ہیں۔
منتخب نمائندوں نے مسائل حل نہیں کیے،ماہی گیر
ماہی گیروں کے مطابق انھوں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے بارہا منتخب نمائندوں ایم این اے آغارفیق اور رکن قومی اسمبلی محمود عالم جاموٹ سے رابطہ کیا لیکن وعدوں اور یقین دہانیوں کے علاوہ انھیں کچھ حاصل نہیں ہوسکا اور ان کے مسائل حل نہیں کیے گئے جس کے باعث انھیںشدید مشکلات کاسامنا ہے ۔
صنعتوں کا فضلہ سب سے زیادہ سمندر کو آلودہ کرنے لگا
ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ پورٹ قاسم صنعتی زون میں قائم صنعتوں کا فضلہ ٹریٹ کیے بغیر گرنے والا فضلہ سمندر کو آلودہ کررہا ہے دوسری جانب بھینس کالونی سے تمام حیاتیاتی فضلہ بھی سمندر برد کیا جاتا ہے، سمندری آلودگی کے ساتھ آبی حیات کی آماجگاہ تیمر کے جنگلات بھی تیزی کم ہورہے ہیں جس سے ابراہیم حیدری ، ریڑھی گوٹ اور دیگر ساحلی آبادیوں کے قریب شکار گاہیں تیزی سے ویران ہورہی ہیں،سمندری آلودگی کے ساتھ ساتھ پورٹ قاسم کے علاقے میں لگنے والے پاور پلانٹس، ایل این جی ٹرمینلز، چینل کی گہرائی برقرار رکھنے کے لیے کی جانے والی ڈریجنگ اور تنصیبات کی سیکیوریٹی بھی ماہی گیروں کے لیے مسئلہ بن رہی ہے۔
زیادہ ترماہی گیرچھوٹی کشتیوں ''ہوڑا '' میں کا شکار کرتے ہیں
ریڑھی گوٹھ اور ابراہیم حیدری کے زیادہ تر ماہی گیر چھوٹی کشتیوں میں جنھیں ''ہوڑا '' کہا جاتا ہے پورٹ قاسم اور اس کے اطراف سمندری کھاڑیوں میں جھینگے اور مچھلی کا شکار کرتے ہیں، سمندر میں تیمر کے جنگلات جھینگے ، مچھلی کیکڑوں اور دیگر آبی حیات کی نرسری ہوتے ہیں جہاں پرورش پانی والی سمندری خوراک کھاڑیوںمیں بکثرت پائی جاتی ہے ان کریکس یا کھاڑیوں کو ماہی گیر ''دریا'' کہتے ہیں۔
ریت پھینکنے سے تیمرکے جنگلات متاثر ہونے لگے
ماہی گیروں کے مطابق چینل سے نکالی جانے والی ریت اور گیس ٹرمینل کے لیے بچھائی جانیو الی پائپ لائن کی کھدائی سے نکلنے والی ریت گہرے سمندر میں جاکر پھینکنے کے بجائے تیمر کے جنگلات پر ہی ڈھیر کی جارہی ہے جس سے تیمر کے جنگلات متاثر ہو رہے ہیں، تیمر کے پودے بہت حساس ہوتے ہیں اور معمولی سی آلودگی بھی برداشت نہیں کرپاتے۔
دوسری جانب غیرقانونی طور پر لکڑی فروخت کرنے والی مافیا متعلقہ اداروں کی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تیمر کے جنگلات کاٹ کر فروخت کررہی ہے، سمندی آلودگی بھی تیمر کے جنگلات کو نقصان پہنچارہی ہے جس کا اندازہ بیرونی معائنے سے نہیں کیا جا سکتا درحقیت یہ جنگلات جو اندر سے کافی گھنے ہوتے تھے اب تیزی سے چھٹ رہے ہیں۔
سمندری آلودگی سے ماہی گیروں کا روزگار خطرے میں پڑ گیا ،ریڑھی گوٹھ کے پر امن اور محنت کش ماہی گیروں نے اپنی بستیوں پر قبضہ مافیا کی یلغار کے آگے تین دہائیوں تک جدوجہد کے دوران اپنی جانوں کی قربانی دی اب ماحولیاتی آلودگی سے شکست کھاتے نظر آرہے ہیں۔
ماہی گیروں کو درپیش مسائل اور مستقبل کے خدشات پر تشویش میں مبتلا ماہی گیروں میں زیادہ تر قاسمانی برادری سے تعلق رکھنے والے مالی گیر ہیں جو کئی نسلوں سے ماہی گیری کے پیشہ سے وابستہ ہیں جو تیزی سے بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی اور سمندر میں شکار کے لیے آمد و رفت میں مشکلات کی وجہ سے ماہی گیری کے پیشہ کے مستقبل کے بارے میں فکر مند دکھائی دیتے ہیں۔
ماہی گیروں کاکہناہے کہ سمندری آلودگی کی روک تھام کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے تو چھوٹے ماہی گیروں کاروزگار مستقبل طورپربند ہونے کاخدشہ ہے، ماہی گیروں کے مطابق پورٹ قاسم صنعتی علاقے سے بغیر ٹریٹمنٹ سمندر میں گرنے والے فضلے، تمیر کے جنگلات کی کٹائی پورٹ قاسم پر قائم تنصیبات سے سمندری حیات کی آماج گاہیں آلودہ ہورہی ہیں اور ان کھاڑیوں (کریکس) میں سمندری خوراک ناپید ہورہی ہے جہاں وہ صدیوں سے اپنی چھوٹی کشتیوں کے ذریعے شکار کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے تھے۔
ماحولیاتی آلودگی سے چھوٹے ماہی گیروں کیلیے قریبی پانیوں سے شکار بھی ناممکن ہو گیا ہے اس سے قبل وہ سمندر میں جائے بغیر گزرگاہوں (نالوں) سے ہی شکار کرلیا کرتے تھے اور اس وقت تک مردوں کے ساتھ خواتین بھی ماہی گیری کرتی تھیں کیونکہ زیادہ تر شکار ان کے گھروں کے قریب سے ہی مل جاتا تھا اور انھیںکئی روز کیلیے سمندر میں نہیں جانا پڑتا تھا ،ڈوری سے بھی شکار ہوجاتا تھا، اب آلودگی کی وجہ سے مچھلی جھینگے دور جا رہے ہیں اور ماہی گیروں کو سمندر میں دور تک جانا پڑتا ہے اور ان کی چھوٹی کشتیاں اور کمزور انجن اس کی سکت نہیں رکھتے۔
ماہی گیرغلام مصطفی نے بتایا کہ بارشوں کے بعد سمندری آلودگی انتہا پر پہنچ جاتی ہے سمندری کھاڑیوں (دریا ) میںگرنے والا کیمیاوی مواد اور آلودگی جو جم جاتی ہے بارش کا پانی آنے کی وجہ سے بہہ کر پورے سمندر میں میلوں دور تک پھیل جاتی ہے جس کے اثرات دو سے تین ماہ تک رہتے ہیں اور اس دوران شکار نہیں ملتا جس سے چھوٹے ماہی گیر بری طرح متاثر ہوتے ہیں، اس دوران آلودگی کی وجہ سے بڑی تعداد میں مچھلیاں مرجاتی ہیں اور سمندر میں دور تک پھیلی ہوتی ہیں جن کی بدبو سے سمندر ہفتوں تعفن کا شکار رہتا ہے۔
سمندر تک جانے والی گزرگاہیں بند ہو رہی ہیں، ابوبکر
ماہی گیر ابوبکر نے بتایا شکار کے لیے کھاڑیوں اور سمندر تک جانے والی گزرگاہیں جنہیں ماہی گیر نالہ کہتے ہیں ماہی گیروں کے لیے بند ہورہی ہیں، ابراہیم حیدری اور ریڑھی گوٹھ کے چھوٹی کشتیوں میں شکار کرنیو الے ماہی گیر چار راستوں سے سمندر اور کھاڑیوںکا رخ کرتے تھے جن میں سے تین راستے بند ہوچکے ہیںان نالوں کے نام آڈی، کاڈیرو، چارو اور بوسکی سُگو ہیں۔
ماہی گیروں کی آمد و رفت کے لیے صرف آڈی کا راستہ کھلا ہے جہاں پورٹ تنصیبات کی سیکیورٹی کی وجہ سے 3گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے، چارو کا راستہ گیس ٹرمینل کی وجہ سے آمدورفت کے لیے بند ہے، راستے بند ہونے سے قبل انھیں کھاڑیوں تک جانے کے لیے نالوں سے گزرنے میں زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ لگتا تھا جس پر ایندھن کی مد میں تین چار ہزار روپے خرچ ہوتے تھے تاہم اب گزرگاہیں بند ہونے کی وجہ سے ڈھائی سے تین گھنٹے کی مسافت اور طویل فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جس پر ایندھن کے اخراجات بھی چار گنا بڑھ چکے ہیں۔
قاسمانی برادری قبضہ مافیاکے آگے چٹان بنی ہوئی ہے
ماہی گیروں کی قاسمانی برادری تین دہائیوں سے ان کی زمینیں قبضہ کرکے غیرمقامی افراد کو فروخت کرنے والی قبضہ مافیا کے عزائم کے آگے چٹان بن کر کھڑی ہے،قبضہ مافیا سے اپنے آبائی گوٹھوں کے دفاع کی جدوجہد میں ماہی گیروں کی قاسمانی برادری کے 13 افراد نے جانوں کی قربانی دی جن میں 3خواتین بھی شامل ہیں، پہلی ہلاکت 1999 میں مائی حوا نامی خاتون کی ہوئی جنھیں قبضہ مافیا کے کارندوں نے گھر میں گھس کر قتل کردیا۔
آخری جانی نقصان 2017 میں اٹھانا پڑا جب قبضہ مافیا کے کارندوں نے جواں سال عثمان قاسمانی کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ پورٹ قاسم کے قریب سمندر میں کشتی پر شکار کر رہے تھے، قاسمانی برادری کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے اور لگ بھگ 16مقدمات میں ماہی گیروں کو نامزد کیے جانے کی وجہ سے ماہی گیروں کو سمندری جزیروں اور تیمر کے جنگلات میں روپوشی اختیار کرنا پڑی۔
شکار 50 فیصد تک کم ہو گیا ہے، غلام مصطفی
ریڑھی گوٹھ کے ایک اور ماہی گیر غلام مصطفی کے مطابق سمندری آلودگی اور آمدورفت میں مشکلات کی وجہ سے ماہی گیر اپنے پیشے کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا شکار ہیں، گزشتہ دس سے پندرہ سال کے دوران سمندری آلودگی بڑھنے سے کھاڑیوں اور کم گہرے پانی سے شکار 50فیصد تک کم ہوگیا ہے، سمندری آلودگی کا تدارک نہ کیا گیا اور ماہی گیروں کی آمدورفت میں اسی طرح رکاوٹیں حائل رہیں تو آئندہ 10سے 15سال میں سمندری کھاڑیوں سے چھوٹی کشتیوں کے ذریعے ماہی گیری کا سلسلہ بند ہوجائے گا۔
ماحولیاتی آلودگی کا تدارک کیا جائے
ماہی گیروں کے مطابق پورٹ قاسم پر تیزی سے بڑھتی ہوئی صنعتوں، گیس ٹرمینلز، پاور پلانٹس، کوئلے کی ترسیل، ٰایل این جی کے پارسلز کی تعداد میں اضافہ ایسے عوامل ہیں جنھیں روکا نہیں جاسکتا ،ماہی گیروں کو یہ بھی اندازہ ہے کہ ترقی کے اس عمل میں کسی نہ کسی کو تو قربانی دینا پڑے گی جس کے لیے وہ تیار ہیں تاہم ماہی گیروں کا یہ مطالبہ ہے کہ صنعتی ترقی یا پورٹ پر تعمیر ہونے والے توانائی کے منصوبوں کے ماہی گیروں کی برادری پر پڑنے والے سماجی اور معاشی اثرات کو کم کرنے کیلیے سرمایہ کار اور ادارے اپنی سماجی ذمے داری ادا کریں، ماہی گیروں کی آمدورفت کوآسان بنایا جائے اور تیزی سے پھیلتی ماحولیاتی آلودگی کا تدارک کیا جائے۔
ساحلی آبادیوں میں بیروزگاری بڑھ رہی ہے، نوجوان اور خواتین نشہ کرنے لگ گئے
چھوٹے پیمانے پر ماہی گیروں کو درپیش مشکلات کی وجہ سے ساحلی آبادیوں میں بے روزگاری تیزی سے پھیل رہی ہے، ماہی گیری کے علاوہ کوئی ہنر یا تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے انھیں دیگر شعبوں میں ملازمت یا روزگار ملنا مشکل ہوتا ہے اس لیے اکثر ماہی گیر کورنگی اور لانڈھی کے صنعتی یونٹس میں معمولی اجرت پر مزدوری کررہے ہیں۔
دوسری جانب جرائم پیشہ عناصر اور منشیات فروش ماہی گیروں میں پھیلتی اس بے روزگاری اورغربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ماہی گیروں کی بستیوں کے نوجوانوں کو منشیات کی جانب راغب کررہے ہیں، ماہی گیروں کی آبادیوں میں 60فیصد نوجوان نشے کی لت میں مبتلا ہیں معاشی ناہمواری اور سماجی مسائل کیوجہ سے نشہ کرنے والوں میں خواتین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
ماہی گیروںکوسماجی رہنمامحمد علی شاہ کی کاوشوں سے قانونی ریلیف ملا
ماہی گیروں کو سماجی رہنما محمد علی شاہ کی کاوشوں سے قانونی ریلیف ملا جنھیں ماہی گیروں کی بستیوں میں ماہی گیروں کا مسیحا کہا جاتا ہے ، یہ غریب ماہی گیر قبضہ مافیا اور استحصال کے خلاف تین دہائیوں تک ڈٹ کر کھڑے رہے تاہم اب بڑھتی ہوئی سمندری آلودگی اور ماحول پر اثر انداز ہونے والی ترقی کے آگے بے دست و پا دکھائی دیتے ہیں۔
منتخب نمائندوں نے مسائل حل نہیں کیے،ماہی گیر
ماہی گیروں کے مطابق انھوں نے اپنے مسائل کے حل کے لیے بارہا منتخب نمائندوں ایم این اے آغارفیق اور رکن قومی اسمبلی محمود عالم جاموٹ سے رابطہ کیا لیکن وعدوں اور یقین دہانیوں کے علاوہ انھیں کچھ حاصل نہیں ہوسکا اور ان کے مسائل حل نہیں کیے گئے جس کے باعث انھیںشدید مشکلات کاسامنا ہے ۔
صنعتوں کا فضلہ سب سے زیادہ سمندر کو آلودہ کرنے لگا
ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ پورٹ قاسم صنعتی زون میں قائم صنعتوں کا فضلہ ٹریٹ کیے بغیر گرنے والا فضلہ سمندر کو آلودہ کررہا ہے دوسری جانب بھینس کالونی سے تمام حیاتیاتی فضلہ بھی سمندر برد کیا جاتا ہے، سمندری آلودگی کے ساتھ آبی حیات کی آماجگاہ تیمر کے جنگلات بھی تیزی کم ہورہے ہیں جس سے ابراہیم حیدری ، ریڑھی گوٹ اور دیگر ساحلی آبادیوں کے قریب شکار گاہیں تیزی سے ویران ہورہی ہیں،سمندری آلودگی کے ساتھ ساتھ پورٹ قاسم کے علاقے میں لگنے والے پاور پلانٹس، ایل این جی ٹرمینلز، چینل کی گہرائی برقرار رکھنے کے لیے کی جانے والی ڈریجنگ اور تنصیبات کی سیکیوریٹی بھی ماہی گیروں کے لیے مسئلہ بن رہی ہے۔
زیادہ ترماہی گیرچھوٹی کشتیوں ''ہوڑا '' میں کا شکار کرتے ہیں
ریڑھی گوٹھ اور ابراہیم حیدری کے زیادہ تر ماہی گیر چھوٹی کشتیوں میں جنھیں ''ہوڑا '' کہا جاتا ہے پورٹ قاسم اور اس کے اطراف سمندری کھاڑیوں میں جھینگے اور مچھلی کا شکار کرتے ہیں، سمندر میں تیمر کے جنگلات جھینگے ، مچھلی کیکڑوں اور دیگر آبی حیات کی نرسری ہوتے ہیں جہاں پرورش پانی والی سمندری خوراک کھاڑیوںمیں بکثرت پائی جاتی ہے ان کریکس یا کھاڑیوں کو ماہی گیر ''دریا'' کہتے ہیں۔
ریت پھینکنے سے تیمرکے جنگلات متاثر ہونے لگے
ماہی گیروں کے مطابق چینل سے نکالی جانے والی ریت اور گیس ٹرمینل کے لیے بچھائی جانیو الی پائپ لائن کی کھدائی سے نکلنے والی ریت گہرے سمندر میں جاکر پھینکنے کے بجائے تیمر کے جنگلات پر ہی ڈھیر کی جارہی ہے جس سے تیمر کے جنگلات متاثر ہو رہے ہیں، تیمر کے پودے بہت حساس ہوتے ہیں اور معمولی سی آلودگی بھی برداشت نہیں کرپاتے۔
دوسری جانب غیرقانونی طور پر لکڑی فروخت کرنے والی مافیا متعلقہ اداروں کی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تیمر کے جنگلات کاٹ کر فروخت کررہی ہے، سمندی آلودگی بھی تیمر کے جنگلات کو نقصان پہنچارہی ہے جس کا اندازہ بیرونی معائنے سے نہیں کیا جا سکتا درحقیت یہ جنگلات جو اندر سے کافی گھنے ہوتے تھے اب تیزی سے چھٹ رہے ہیں۔