ڈومیسٹک کوچز کی کارکردگی بورڈ کے ریڈار میں آگئی
آج سے تمام ایسوسی ایشنز کے کوچنگ اسٹاف کی پرفارمنس کا تفصیل کے ساتھ پوسٹ مارٹم ہوگا
ڈومیسٹک کوچز کی کارکردگی بھی بورڈ کے ریڈار میں آگئی جب کہ آج سے تمام ایسوسی ایشنز کے کوچنگ اسٹاف کی پرفارمنس کا پوسٹ مارٹم ہوگا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے ویڑن کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈپارٹمنٹل ٹیمیں ختم کرتے ہوئے 6 ایسوسی ایشن ٹیمیں تشکیل دیں، جن کے درمیان ایک مکمل ڈومیسٹک سیزن کھیلا جاچکا ہے۔
بورڈ نے نئے سیزن کے آغاز سے قبل ان تمام ایسوسی ایشنز کے کوچز کی کارکردگی کا جانچنے کا فیصلہ کیا ہے، ان میں فرسٹ اور سیکنڈ الیون کے مجموعی طور پر 24 کوچم شامل ہیں، ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلیے 3 روزہ سیشن کا آغاز پیر سے نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر لاہور میں ہورہا ہے۔
اس دوران ڈومیسٹک کرکٹ کی فرسٹ اور سیکنڈ الیون کی ٹیموں کے مجموعی طور پر 24 کوچز کی کی کارکردگی کا تفصیل کے ساتھ پوسٹ مارٹم ہوگا۔ پیر اور منگل کے روز ان تمام کوچز کے انٹرویوز ہوں گے، جس کیلیے ایک باضابطہ کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے، جس میں عمر رشید، شاہد محبوب اور سجاد اکبر شامل ہیں، اس دوران کوچز سے ان کی کارکردگی سے متعلق سوال و جواب ہوں گے۔
سیشن کے تیسرے اور آخری روز ایک سیمینار کا بھی انعقاد کیا جائے گا جہاں پر ان کوچز کو ڈومیسٹک سیزن 23-2022 کے لیے اہداف دیے جائیں گے، جن پر عملدرآمد کیلیے انھیں پابند بھی کیا جائے گا۔ ان کوچز کیلیے منعقد سیمینار میں نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر کے کوچز اور ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس ندیم خان بھی شریک ہوں گے۔
یاد رہے کہ نیا ڈومیسٹک سسٹم اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہے، ایک بار پھر سے پرانے سسٹم کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے جس میں ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی واپسی بھی شامل ہے، سابق اور موجودہ کرکٹرز کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ نئے سسٹم کی وجہ سے کئی کھلاڑیوں کے چولہے ٹھنڈے پڑچکے ہیں اور وہ کھیلنے کا سلسلہ چھوڑ کر چھوٹی موٹی نوکریاں کررہے ہیں۔
حال ہی میں فاسٹ بولر حسن علی نے بھی ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی بحالی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ نوکری کیلیے نوجوان کھیل میں اچھی پرفارمنس پیش کرکے ڈپارٹمنٹل ٹیموں کا حصہ بنتے ہیں اور پھر مزید بہتر پرفارمنس پیش کرنے سے ان کی قومی ٹیم میں شمولیت کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے، اس لیے ارباب اختیار کو یہ سوچنا چاہیے کہ کھیل اور کھلاڑیوں کا مفاد کونسے سسٹم میں ہے، کوئی بھی قدم صرف کھیل کی بہترین اور ٹیلنٹ کے نکھار کیلیے اٹھانا چاہیے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے ویڑن کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈپارٹمنٹل ٹیمیں ختم کرتے ہوئے 6 ایسوسی ایشن ٹیمیں تشکیل دیں، جن کے درمیان ایک مکمل ڈومیسٹک سیزن کھیلا جاچکا ہے۔
بورڈ نے نئے سیزن کے آغاز سے قبل ان تمام ایسوسی ایشنز کے کوچز کی کارکردگی کا جانچنے کا فیصلہ کیا ہے، ان میں فرسٹ اور سیکنڈ الیون کے مجموعی طور پر 24 کوچم شامل ہیں، ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کیلیے 3 روزہ سیشن کا آغاز پیر سے نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر لاہور میں ہورہا ہے۔
اس دوران ڈومیسٹک کرکٹ کی فرسٹ اور سیکنڈ الیون کی ٹیموں کے مجموعی طور پر 24 کوچز کی کی کارکردگی کا تفصیل کے ساتھ پوسٹ مارٹم ہوگا۔ پیر اور منگل کے روز ان تمام کوچز کے انٹرویوز ہوں گے، جس کیلیے ایک باضابطہ کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے، جس میں عمر رشید، شاہد محبوب اور سجاد اکبر شامل ہیں، اس دوران کوچز سے ان کی کارکردگی سے متعلق سوال و جواب ہوں گے۔
سیشن کے تیسرے اور آخری روز ایک سیمینار کا بھی انعقاد کیا جائے گا جہاں پر ان کوچز کو ڈومیسٹک سیزن 23-2022 کے لیے اہداف دیے جائیں گے، جن پر عملدرآمد کیلیے انھیں پابند بھی کیا جائے گا۔ ان کوچز کیلیے منعقد سیمینار میں نیشنل ہائی پرفارمنس سینٹر کے کوچز اور ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس ندیم خان بھی شریک ہوں گے۔
یاد رہے کہ نیا ڈومیسٹک سسٹم اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہے، ایک بار پھر سے پرانے سسٹم کی بحالی کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے جس میں ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی واپسی بھی شامل ہے، سابق اور موجودہ کرکٹرز کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ نئے سسٹم کی وجہ سے کئی کھلاڑیوں کے چولہے ٹھنڈے پڑچکے ہیں اور وہ کھیلنے کا سلسلہ چھوڑ کر چھوٹی موٹی نوکریاں کررہے ہیں۔
حال ہی میں فاسٹ بولر حسن علی نے بھی ڈپارٹمنٹل ٹیموں کی بحالی کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ نوکری کیلیے نوجوان کھیل میں اچھی پرفارمنس پیش کرکے ڈپارٹمنٹل ٹیموں کا حصہ بنتے ہیں اور پھر مزید بہتر پرفارمنس پیش کرنے سے ان کی قومی ٹیم میں شمولیت کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے، اس لیے ارباب اختیار کو یہ سوچنا چاہیے کہ کھیل اور کھلاڑیوں کا مفاد کونسے سسٹم میں ہے، کوئی بھی قدم صرف کھیل کی بہترین اور ٹیلنٹ کے نکھار کیلیے اٹھانا چاہیے۔