پاکستان کی مفت خور اشرافیہ
ایک نئی عالمی صف بندی ہو رہی ہے، اب امریکا اور ترقی یافتہ ممالک پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری حکومت چاہتے ہیں
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کو ابھی 8ماہ بھی نہیں ہوئے ہیں کہ روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا' امریکا اور یورپی یونین دیکھتے رہ گئے۔
معاملہ یہ ہے کہ روس پر برسراقتدار صدر پوٹن اپنی عظمت کے سحر میں گرفتار ہیں، وہ اپنی ناک کے نیچے یوکرین کو امریکا اور نیٹو کا اتحادی بنتا نہیں دیکھ سکتے ،روس وسط ایشیا پر بھی اپنا کنٹرول قائم رکھنا چاہتا ہے۔
ادھر چین بذریعہ پاکستان بحر ہند تک رسائی حاصل کرکے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ تک تجارت بڑھانا چاہتا ہے، اس لیے ان دونوں عالمی قوتوں کے لیے افغانستان میں امریکا اور نیٹو کی موجودگی قابل قبول نہیں تھی، اسی لیے روس اور چین نے افغانستان میں دلچسپی لینا شروع کی اور افغان طالبان کے ساتھ روابط استوار کیے ، ادھر ایران پر قابض مذہبی طبقہ اپنی رجیم کو بچانے کے لیے ہر ایسے ملک کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لیے تیار ہے جو امریکا اور سعودی عرب کے مفادات کے خلاف کام کررہا ہو، ایران تھیوکریٹک رجیم کی بھی خواہش ہے کہ افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان بھی امریکا اور امیر عرب ممالک سے دور ہوجائے۔
پاکستان اس کھیل میں بارہواں کھلاڑی ہے، پاکستان کا امریکا، یورپی یونین، سعودی عرب کے ساتھ براہ راست کوئی تنازعہ نہیں ہے، روس، چین اور ایران تو امریکا اور یورپ کے ساتھ تنازع میں فریق ہیں جب کہ افغانستان کے طالبان نے بوجہ امریکا اور یورپ کے ساتھ تنازعہ پیدا کیے رکھا لیکن پاکستان کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے تاہم پاکستان میں ایسے بااثر طبقے موجود ہیں جو افغانستان اور ایران کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں اور انھی طبقات کی وجہ سے پاکستان کے امریکا، مغربی یورپ کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے حتیٰ کہ سعودی عرب جیسے دیرینہ دوست ملک کے ساتھ بھی تعلقات میں سرد مہری دیکھنے میں آئی۔
سب کو معلوم ہے کہ تمام تر اتار چڑھاؤ کے باوجود پاکستان گزشتہ 75سال سے امریکی اتحاد کا حصہ چلا آ رہا ہے۔ لیکن عمران خان حکومت کی خارجہ پالیسی کچھ اور تھی، اس خارجہ پالیسی کو خان صاحب اور ان کے ساتھی آزاد خارجہ پالیسی کا نام دے رہے ہیں، عمران خان صاحب بطور وزیراعظم اپنے وفد کے ہمراہ عین اس وقت پیوٹن سے ملنے ماسکو جا پہنچے جب روسی فوج یوکرین پر حملہ آور ہورہی تھی ۔ اب عمران خان حکومت اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے اور وہ اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش قرار دے رہے ہیں ۔
ہم پاکستانی عوام بھی کتنے سادہ لوح ہیں ۔ آج تحریک انصاف اور اس کے سپورٹرز امریکا کے خلاف بیانیہ لے کر چل رہے ہیں، ذرا غور کریں، ایران کی مذہبی حکومت اور افغانستان کے طالبان امریکا کے خلاف ہیں، عمران خان اور ان کے ساتھی بھی امریکا مخالف بیانیہ عوام میں فروخت کررہے ہیں،ایسے میں ملکی معیشت کدھر جا رہی ہے ، کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔
افغانستان کی معیشت کی طالبان قیادت کو تو کوئی پروا نہیں ہے، نہ ہی وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں، وہ جو کہہ دیں، وہی خارجہ پالیسی، وہی معاشی پالیسی ہے اور وہی عدالت ہے، ایران کی معیشت کا بھی برا حال ہے، ایران کا نظام حکومت بھی ایک طرح سے یک جماعتی بلکہ فرد واحد کی صوابدید پر کھڑا ہے، ان سے بھی کوئی کارکردگی کا حساب طلب نہیں کرسکتا، ان کے مقابلے میں پاکستان جیسا بھی ہے لیکن یہاں ایک نظام موجود ہے، ادارے موجود ہیں، لولی لنگڑی ہی پارلیمانی جمہوریت موجود ہے، پارلیمنٹ موجود ہے، الیکشن ہوتے ہیں، عمران خان اور ان کی حکومت بھی آئینی اور قانونی طریقے سے ختم ہوئی ہے، وہ اقتدار میں بھی بذریعہ الیکشن آئین اور قانون کے مطابق آئے ، اب بھی جو کچھ ہورہا ہے، آئین اور قانون کا سہارا لے کر ہی ہورہا ہے اور کچھ عرصے بعد آئین اور قانون کے مطابق ہی مسائل حل ہوجائیں گے۔
پاکستان کو افغانستان، ایران کے ساتھ کمپئر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی چین اور روس پاکستان کو اس طرح گرانٹس، عطیات دے سکتے ہیں جیسے سعودی عرب ،یو اے ای، قطر یا امریکا دیتے آئے ہیں یا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک قرضے دیتے بھی رہے اور ری شیڈول بھی کرتے رہے، یہ بات بھی حقیقت بن گئی ہے کہ پاکستان میں اب کبھی مارشل لاء نہیں لگ سکتا۔ اب عالمی صورت حال بدل گئی ہے۔
سرد جنگ کا زمانہ ختم ہوا۔ اب ایک نئی عالمی صف بندی ہو رہی ہے، اب امریکا اور ترقی یافتہ ممالک پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری حکومت چاہتے ہیں، اب فوجی نہیں معاشی بالادستی کا دور ہے، نظریات کی جگہ معاشی اور سٹریٹجک مفادات برتری حاصل کرگئے ہیں۔ اب پاکستان کے بالادست طبقات کو حقائق کی دنیا میں جینا ہے، اب عالمی چودھریوں کو ان کے لیے لڑنے اور جانیں دینے والے پیادوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انھیں ایسے پیادے چاہیں جو پیداواری ویلیو رکھتے ہوں، اور کام کے بعد اپنے گھر میں اپنے اپنے اہل وعیال کے ساتھ پرامن انداز میں رہیں اور چودھریوں کے کاروبار پرسکون انداز میں چلتے رہیں، بھارت ایسا ہی کررہا ہے ، اسی لیے تیل پیدا کرنے والے مسلم عرب ممالک کے سرمایہ کار بھارت میں اربوں ڈالر انوسٹ کررہے ہیں، امریکا اور مغربی یورپ کے سرمایہ دار بھارت میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں۔
یہ امیر ممالک اور ان کا دولت مند طبقہ جنوبی ایشیا کو ایک نئی معاشی اکائی کی شکل دینا چاہتا ہے ، ایک ایسی معاشی اکائی جہاں باہمی تنازعات نہ ہوں تاکہ ان کی سرمایہ کاری کو تحفظ بھی ملے اور منافع بھی زیادہ ہو۔ ماضی میںسرمایہ دارانہ نظام کو سوویت یونین سے شدید خطرات لاحق تھے۔سوویت یونین تحلیل ہوچکا ہے، موجودہ روس بھی سرمایہ دارانہ نظام کا پیرو کار ہے جب کہ چین بھی اسی راستے پر چل رہا ہے، اب روس اور چین کی امریکا اور یورپ سے اقتصادی نظام پر کوئی لڑائی نہیں ، جھگڑا معاشی حصہ داری پر ہے۔
روس اور چین عالمی معیشت میں اپنے لیے بڑا حصہ مانگتے ہیں جب کہ امریکا کی سربراہی میں ترقی یافتہ ممالک انھیں یہ حصہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، اب اس سارے کھیل میں پاکستان کے حکمران طبقات کو کیا پالیسی اختیار کرنا ہے، یہ انھیں سمجھ نہیں آرہی، ہماری حکمران اشرافیہ کا غالب حصہ بغیر محنت اور بغیر کسی کاروبار کے امیر ہوا ہے، امریکا پالیسی سازوں کا طریقہ واردات دیکھیں ایک طرف وہ ضیاء آمریت کا خاتمہ کرتے ہیں تو وہ دوسری طرف سویلین بالا دستی کی داغ بیل بھی ڈال رہے تھے۔
یعنی پنجاب سے قیادت نہ صرف انھوں نے تخلیق کی بلکہ وہ مسلسل اس کی حفاظت بھی کرتے رہے۔ جس کا پھل انھوں نے 40سال بعد کھانا تھا ۔ سر پرستی تو انھوں نے بے نظیر کی بھی کی لیکن شومئی قسمت امریکا کو انھیں مجبوراً قتل کروانا پڑا ۔ کیوں کہ وہ ذرا خود سر منہ زور تھیں۔ ماننے کے ساتھ وہ اپنی بھی منوانا چاہتی تھیں۔
معاملہ یہ ہے کہ روس پر برسراقتدار صدر پوٹن اپنی عظمت کے سحر میں گرفتار ہیں، وہ اپنی ناک کے نیچے یوکرین کو امریکا اور نیٹو کا اتحادی بنتا نہیں دیکھ سکتے ،روس وسط ایشیا پر بھی اپنا کنٹرول قائم رکھنا چاہتا ہے۔
ادھر چین بذریعہ پاکستان بحر ہند تک رسائی حاصل کرکے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ تک تجارت بڑھانا چاہتا ہے، اس لیے ان دونوں عالمی قوتوں کے لیے افغانستان میں امریکا اور نیٹو کی موجودگی قابل قبول نہیں تھی، اسی لیے روس اور چین نے افغانستان میں دلچسپی لینا شروع کی اور افغان طالبان کے ساتھ روابط استوار کیے ، ادھر ایران پر قابض مذہبی طبقہ اپنی رجیم کو بچانے کے لیے ہر ایسے ملک کے ساتھ ہاتھ ملانے کے لیے تیار ہے جو امریکا اور سعودی عرب کے مفادات کے خلاف کام کررہا ہو، ایران تھیوکریٹک رجیم کی بھی خواہش ہے کہ افغانستان ہی نہیں بلکہ پاکستان بھی امریکا اور امیر عرب ممالک سے دور ہوجائے۔
پاکستان اس کھیل میں بارہواں کھلاڑی ہے، پاکستان کا امریکا، یورپی یونین، سعودی عرب کے ساتھ براہ راست کوئی تنازعہ نہیں ہے، روس، چین اور ایران تو امریکا اور یورپ کے ساتھ تنازع میں فریق ہیں جب کہ افغانستان کے طالبان نے بوجہ امریکا اور یورپ کے ساتھ تنازعہ پیدا کیے رکھا لیکن پاکستان کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے تاہم پاکستان میں ایسے بااثر طبقے موجود ہیں جو افغانستان اور ایران کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں اور انھی طبقات کی وجہ سے پاکستان کے امریکا، مغربی یورپ کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے حتیٰ کہ سعودی عرب جیسے دیرینہ دوست ملک کے ساتھ بھی تعلقات میں سرد مہری دیکھنے میں آئی۔
سب کو معلوم ہے کہ تمام تر اتار چڑھاؤ کے باوجود پاکستان گزشتہ 75سال سے امریکی اتحاد کا حصہ چلا آ رہا ہے۔ لیکن عمران خان حکومت کی خارجہ پالیسی کچھ اور تھی، اس خارجہ پالیسی کو خان صاحب اور ان کے ساتھی آزاد خارجہ پالیسی کا نام دے رہے ہیں، عمران خان صاحب بطور وزیراعظم اپنے وفد کے ہمراہ عین اس وقت پیوٹن سے ملنے ماسکو جا پہنچے جب روسی فوج یوکرین پر حملہ آور ہورہی تھی ۔ اب عمران خان حکومت اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے اور وہ اپنی حکومت کے خاتمے کو امریکی سازش قرار دے رہے ہیں ۔
ہم پاکستانی عوام بھی کتنے سادہ لوح ہیں ۔ آج تحریک انصاف اور اس کے سپورٹرز امریکا کے خلاف بیانیہ لے کر چل رہے ہیں، ذرا غور کریں، ایران کی مذہبی حکومت اور افغانستان کے طالبان امریکا کے خلاف ہیں، عمران خان اور ان کے ساتھی بھی امریکا مخالف بیانیہ عوام میں فروخت کررہے ہیں،ایسے میں ملکی معیشت کدھر جا رہی ہے ، کسی کو کوئی فکر نہیں ہے۔
افغانستان کی معیشت کی طالبان قیادت کو تو کوئی پروا نہیں ہے، نہ ہی وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں، وہ جو کہہ دیں، وہی خارجہ پالیسی، وہی معاشی پالیسی ہے اور وہی عدالت ہے، ایران کی معیشت کا بھی برا حال ہے، ایران کا نظام حکومت بھی ایک طرح سے یک جماعتی بلکہ فرد واحد کی صوابدید پر کھڑا ہے، ان سے بھی کوئی کارکردگی کا حساب طلب نہیں کرسکتا، ان کے مقابلے میں پاکستان جیسا بھی ہے لیکن یہاں ایک نظام موجود ہے، ادارے موجود ہیں، لولی لنگڑی ہی پارلیمانی جمہوریت موجود ہے، پارلیمنٹ موجود ہے، الیکشن ہوتے ہیں، عمران خان اور ان کی حکومت بھی آئینی اور قانونی طریقے سے ختم ہوئی ہے، وہ اقتدار میں بھی بذریعہ الیکشن آئین اور قانون کے مطابق آئے ، اب بھی جو کچھ ہورہا ہے، آئین اور قانون کا سہارا لے کر ہی ہورہا ہے اور کچھ عرصے بعد آئین اور قانون کے مطابق ہی مسائل حل ہوجائیں گے۔
پاکستان کو افغانستان، ایران کے ساتھ کمپئر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی چین اور روس پاکستان کو اس طرح گرانٹس، عطیات دے سکتے ہیں جیسے سعودی عرب ،یو اے ای، قطر یا امریکا دیتے آئے ہیں یا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک قرضے دیتے بھی رہے اور ری شیڈول بھی کرتے رہے، یہ بات بھی حقیقت بن گئی ہے کہ پاکستان میں اب کبھی مارشل لاء نہیں لگ سکتا۔ اب عالمی صورت حال بدل گئی ہے۔
سرد جنگ کا زمانہ ختم ہوا۔ اب ایک نئی عالمی صف بندی ہو رہی ہے، اب امریکا اور ترقی یافتہ ممالک پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری حکومت چاہتے ہیں، اب فوجی نہیں معاشی بالادستی کا دور ہے، نظریات کی جگہ معاشی اور سٹریٹجک مفادات برتری حاصل کرگئے ہیں۔ اب پاکستان کے بالادست طبقات کو حقائق کی دنیا میں جینا ہے، اب عالمی چودھریوں کو ان کے لیے لڑنے اور جانیں دینے والے پیادوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انھیں ایسے پیادے چاہیں جو پیداواری ویلیو رکھتے ہوں، اور کام کے بعد اپنے گھر میں اپنے اپنے اہل وعیال کے ساتھ پرامن انداز میں رہیں اور چودھریوں کے کاروبار پرسکون انداز میں چلتے رہیں، بھارت ایسا ہی کررہا ہے ، اسی لیے تیل پیدا کرنے والے مسلم عرب ممالک کے سرمایہ کار بھارت میں اربوں ڈالر انوسٹ کررہے ہیں، امریکا اور مغربی یورپ کے سرمایہ دار بھارت میں سرمایہ کاری کو ترجیح دے رہے ہیں۔
یہ امیر ممالک اور ان کا دولت مند طبقہ جنوبی ایشیا کو ایک نئی معاشی اکائی کی شکل دینا چاہتا ہے ، ایک ایسی معاشی اکائی جہاں باہمی تنازعات نہ ہوں تاکہ ان کی سرمایہ کاری کو تحفظ بھی ملے اور منافع بھی زیادہ ہو۔ ماضی میںسرمایہ دارانہ نظام کو سوویت یونین سے شدید خطرات لاحق تھے۔سوویت یونین تحلیل ہوچکا ہے، موجودہ روس بھی سرمایہ دارانہ نظام کا پیرو کار ہے جب کہ چین بھی اسی راستے پر چل رہا ہے، اب روس اور چین کی امریکا اور یورپ سے اقتصادی نظام پر کوئی لڑائی نہیں ، جھگڑا معاشی حصہ داری پر ہے۔
روس اور چین عالمی معیشت میں اپنے لیے بڑا حصہ مانگتے ہیں جب کہ امریکا کی سربراہی میں ترقی یافتہ ممالک انھیں یہ حصہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں، اب اس سارے کھیل میں پاکستان کے حکمران طبقات کو کیا پالیسی اختیار کرنا ہے، یہ انھیں سمجھ نہیں آرہی، ہماری حکمران اشرافیہ کا غالب حصہ بغیر محنت اور بغیر کسی کاروبار کے امیر ہوا ہے، امریکا پالیسی سازوں کا طریقہ واردات دیکھیں ایک طرف وہ ضیاء آمریت کا خاتمہ کرتے ہیں تو وہ دوسری طرف سویلین بالا دستی کی داغ بیل بھی ڈال رہے تھے۔
یعنی پنجاب سے قیادت نہ صرف انھوں نے تخلیق کی بلکہ وہ مسلسل اس کی حفاظت بھی کرتے رہے۔ جس کا پھل انھوں نے 40سال بعد کھانا تھا ۔ سر پرستی تو انھوں نے بے نظیر کی بھی کی لیکن شومئی قسمت امریکا کو انھیں مجبوراً قتل کروانا پڑا ۔ کیوں کہ وہ ذرا خود سر منہ زور تھیں۔ ماننے کے ساتھ وہ اپنی بھی منوانا چاہتی تھیں۔