مصلحت یا نظریہ ضرورت کی سیاست
ہماری ریاست یا سیاست نے اس بنیادی نقطہ پر اتفاق کرلیا ہے کہ ہمیں نظریہ ضرورت کے تحت ہی آگے بڑھنا ہے
ISLAMABAD:
پاکستانی سیاست ، جمہوریت اور معاشرے کے دیگر طبقات سے جڑے معاملات پر ہمیں مجموعی طور پر مصلحت یا نظریہ ضرورت کی سیاست کا عمل جڑا ہوا نظر آتا ہے۔
وہ معاشرے جو سنگین نوعیت کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں یا جہاں حالات کی سنگینی ان سے ایک بڑی تبدیلی کا تقاضہ کرتی ہے وہاں روایتی طور طریقوں سے تبدیلی کا عمل ممکن نہیں ہوسکتا۔ہماری ریاست یا سیاست نے اس بنیادی نقطہ پر اتفاق کرلیا ہے کہ ہمیں نظریہ ضرورت کے تحت ہی آگے بڑھنا ہے اور اسی کسی کڑوی گولی کو نہ تو خود کھانا ہے اور نہ ہی کسی کو کھلانا ہے جو غیر معمولی تبدیلیوں کا سبب بنے۔
مصلحت اور نظریہ ضرورت کی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہی ہوتا ہے کہ ہم روایتی ، فرسودہ خیالات کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کی دو اہم وجوہات ہوتی ہیں ۔
اول، ہم غیر معمولی اقدامات یا فکر کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے اور خود کو ایک غیر معمولی صورتحال کی بنیاد پر دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ۔ دوئم، ہمیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر ہم نے غیر معمولی تبدیلی کے عمل کو اختیار کیا تو اس سے معاشرے کے مقابلے میں ان کی اپنی سیاست یا نظام پر گرفت کمزور ہوتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں جو لوگ بھی غیر معمولی انداز میں مسائل کا حل تلاش کرنا چاہتے ہیں یا اس کو پیش کرتے ہیں تو ان لوگوں یا ان اداروں کی قبولیت طاقت ور یا فیصلہ ساز طبقات میں نہیں ہوتی ۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سیاست ، جمہوریت، قانون کی حکمرانی سمیت معاشی معاملات میں طاقت کی حکمرانی کو نظریہ ضرورت کی بنیاد پر سماجی یا سیاسی طور پر قبول کرلیا گیا ہے ۔ جب ہماری فکر کی بنیاد محض طاقت اور اقتدار کا حصول ہوتا ہے تو ایسے میں ایسی سیاسی و جمہوری سوچ اور طرز عمل کیسے مضبوط ہوگا جو واقعی ہماری قومی ضرورت کے زمرے میںآتا ہے ۔
اس مصلحت اور نظریہ ضرورت کی سیاست نے جمہوریت کے ساتھ ساتھ ملک میں ادارہ جاتی نظام کو مفلوج کردیا ہے۔ اس نظام میں اداروں کے مقابلے میں افراد کی حکمرانی ہے جو اپنی مرضی کے مطابق نظام کو چلاتے ہیں۔احتساب اور شفافیت پر مبنی حکمرانی کا نظام یہاں آخری سانسیں لے رہا ہے ۔
کیونکہ طاقت ور طبقہ نہ تو خود کو جوابدہ بنانا چاہتا ہے اور نہ ہی ان کی ترجیحات میں اداروں کی مضبوطی کا ایجنڈا سرفہرست ہے ۔احتساب یہاں ایک خواب بن کر رہ گیا ہے اور جو طاقت ور طبقہ عملی طور پر احتساب کے دائرہ کار میں آتا ہے اس کے احتساب کے بجائے اقتدار میں بڑے حصے دار کے طور پر شامل کرلیا جاتا ہے ۔
اس کی اہم وجہ ہماری سمجھوتہ پر مبنی سیاست ہے جو کچھ بڑا کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہاں جو اقتدار کی جنگ ہے اس میں اصل کردار طاقت ور طبقات ہیں اور ان ہی طاقت ور طبقات کے درمیان جاری باہمی جنگ ان ہی کے ذاتی مفاد سے جڑی ہوئی ہے ۔
لوگ اور بالخصوص نوجوان طبقہ اس پورے حکومتی اور معاشی نظام کو چیلنج کررہے ہیں۔ اس چیلنج میں ان کا غصہ بھی نمایاں ہے اور ان کو لگتا ہے کہ یہ نظام عام آدمی کے مقابلے میں طاقت ور لوگوں کے لیے ہے ، اس نظام میں ان کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ادارہ جاتی یا سیاسی نظام میں بار بار کے یوٹرن، متضاد دعوے ، بیانات ، جھوٹ اور سچ پر مبنی الزامات کو ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے جیسے امور نے لوگوں کو یقین دلادیا ہے کہ یہ کھیل جھوٹ اور اقتدار کی سیاست سے جڑا عمل ہے ۔
اس لیے اگر اس جمہوری نظام کوچلانا ہے تو وہ موجودہ سیاسی کھیل کے ساتھ لمبے عرصے تک جاری نہیں رہے گا۔ کیونکہ یہ نظام اپنی اہمیت کھوچکا ہے ۔ یہ نظام عام آدمی کی طاقت بننے کے بجائے اسے اور زیادہ کمزور کررہا ہے۔ ایسے میں اب ایک امید پاکستان کے نوجوان طبقہ سے ہی کی جاسکتی ہے ۔
یہ نوجوان طبقہ سیاسی اور غیر سیاسی کے درمیان الجھا ہواہے مگر ایک بات واضح ہے کہ ان نوجوانوں کے سامنے جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ سب اس نظام کے باغی ہیں۔ یہ نوجوان ہی ایک نئے سیاسی و جمہوری متبادل نظام کی بنیاد کو رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ان کو ایک بڑی سیاسی رہنمائی کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی سمت اور جدوجہد کو ایک بہتر اور قانونی راستہ دے سکیں۔
کیونکہ یہ ہی نوجوان طبقہ ہے جو پڑھا لکھا بھی ہے اور اس کے پاس گلوبل دنیا کے ساتھ جڑا ہوا سوشل میڈیا کا نظام بھی ہے جس کی مدد سے وہ اپنی آواز کو طاقت بھی دے سکتا ہے اور لوگوں میں متحرک اور فعالیت کے لیے ایک نئی سمت بھی متعین کرسکتا ہے۔اس وقت سب جماعتیں اقتدار کی سیاست کا حصہ ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اقتدار کی سیاست کے ثمرات عوام تک جانے کے بجائے ان تک یا ان کے خاندان تک محدود رہیں۔
وہ اس جنگ میں روایتی نظام کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں جب کہ نوجوانوں کی جنگ اس نظام کی تبدیلی کے ساتھ جڑی ہونی چاہیے ۔یہ جنگ جذبات اور جوش کی بنیاد پرہی نہیں بلکہ علمی وفکری بنیادوں پر خود کو بھی اور دوسروں کو بھی منظم کرکے جنگ کے لیے تیار کرنا ہوگا۔
اگر اس جنگ میں بھی ہم نے عملی طور پر مصلحت یا سمجھوتے کی سیاست یا روایتی جاری سیاست کو ہی طاقت دینی ہے تو پھر ہمیں واقعی اس سوچ اور فکر کو بھول جانا چاہیے کہ یہاں تبدیلی کا عمل ممکن ہوسکے گا،لیکن ہمیں مایوسی کے مقابلے میں امید کو طاقت دینی ہے اور طاقت کا بنیادی نقطہ جدوجہد کی اس جنگ کو جاری رکھنے ہی سے ْجڑا ہوا ہے۔
پاکستانی سیاست ، جمہوریت اور معاشرے کے دیگر طبقات سے جڑے معاملات پر ہمیں مجموعی طور پر مصلحت یا نظریہ ضرورت کی سیاست کا عمل جڑا ہوا نظر آتا ہے۔
وہ معاشرے جو سنگین نوعیت کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں یا جہاں حالات کی سنگینی ان سے ایک بڑی تبدیلی کا تقاضہ کرتی ہے وہاں روایتی طور طریقوں سے تبدیلی کا عمل ممکن نہیں ہوسکتا۔ہماری ریاست یا سیاست نے اس بنیادی نقطہ پر اتفاق کرلیا ہے کہ ہمیں نظریہ ضرورت کے تحت ہی آگے بڑھنا ہے اور اسی کسی کڑوی گولی کو نہ تو خود کھانا ہے اور نہ ہی کسی کو کھلانا ہے جو غیر معمولی تبدیلیوں کا سبب بنے۔
مصلحت اور نظریہ ضرورت کی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ ہی ہوتا ہے کہ ہم روایتی ، فرسودہ خیالات کی بنیاد پر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس کی دو اہم وجوہات ہوتی ہیں ۔
اول، ہم غیر معمولی اقدامات یا فکر کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتے اور خود کو ایک غیر معمولی صورتحال کی بنیاد پر دیکھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے ۔ دوئم، ہمیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر ہم نے غیر معمولی تبدیلی کے عمل کو اختیار کیا تو اس سے معاشرے کے مقابلے میں ان کی اپنی سیاست یا نظام پر گرفت کمزور ہوتی ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں جو لوگ بھی غیر معمولی انداز میں مسائل کا حل تلاش کرنا چاہتے ہیں یا اس کو پیش کرتے ہیں تو ان لوگوں یا ان اداروں کی قبولیت طاقت ور یا فیصلہ ساز طبقات میں نہیں ہوتی ۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سیاست ، جمہوریت، قانون کی حکمرانی سمیت معاشی معاملات میں طاقت کی حکمرانی کو نظریہ ضرورت کی بنیاد پر سماجی یا سیاسی طور پر قبول کرلیا گیا ہے ۔ جب ہماری فکر کی بنیاد محض طاقت اور اقتدار کا حصول ہوتا ہے تو ایسے میں ایسی سیاسی و جمہوری سوچ اور طرز عمل کیسے مضبوط ہوگا جو واقعی ہماری قومی ضرورت کے زمرے میںآتا ہے ۔
اس مصلحت اور نظریہ ضرورت کی سیاست نے جمہوریت کے ساتھ ساتھ ملک میں ادارہ جاتی نظام کو مفلوج کردیا ہے۔ اس نظام میں اداروں کے مقابلے میں افراد کی حکمرانی ہے جو اپنی مرضی کے مطابق نظام کو چلاتے ہیں۔احتساب اور شفافیت پر مبنی حکمرانی کا نظام یہاں آخری سانسیں لے رہا ہے ۔
کیونکہ طاقت ور طبقہ نہ تو خود کو جوابدہ بنانا چاہتا ہے اور نہ ہی ان کی ترجیحات میں اداروں کی مضبوطی کا ایجنڈا سرفہرست ہے ۔احتساب یہاں ایک خواب بن کر رہ گیا ہے اور جو طاقت ور طبقہ عملی طور پر احتساب کے دائرہ کار میں آتا ہے اس کے احتساب کے بجائے اقتدار میں بڑے حصے دار کے طور پر شامل کرلیا جاتا ہے ۔
اس کی اہم وجہ ہماری سمجھوتہ پر مبنی سیاست ہے جو کچھ بڑا کرنے کے لیے تیار نہیں۔یہاں جو اقتدار کی جنگ ہے اس میں اصل کردار طاقت ور طبقات ہیں اور ان ہی طاقت ور طبقات کے درمیان جاری باہمی جنگ ان ہی کے ذاتی مفاد سے جڑی ہوئی ہے ۔
لوگ اور بالخصوص نوجوان طبقہ اس پورے حکومتی اور معاشی نظام کو چیلنج کررہے ہیں۔ اس چیلنج میں ان کا غصہ بھی نمایاں ہے اور ان کو لگتا ہے کہ یہ نظام عام آدمی کے مقابلے میں طاقت ور لوگوں کے لیے ہے ، اس نظام میں ان کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ادارہ جاتی یا سیاسی نظام میں بار بار کے یوٹرن، متضاد دعوے ، بیانات ، جھوٹ اور سچ پر مبنی الزامات کو ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے جیسے امور نے لوگوں کو یقین دلادیا ہے کہ یہ کھیل جھوٹ اور اقتدار کی سیاست سے جڑا عمل ہے ۔
اس لیے اگر اس جمہوری نظام کوچلانا ہے تو وہ موجودہ سیاسی کھیل کے ساتھ لمبے عرصے تک جاری نہیں رہے گا۔ کیونکہ یہ نظام اپنی اہمیت کھوچکا ہے ۔ یہ نظام عام آدمی کی طاقت بننے کے بجائے اسے اور زیادہ کمزور کررہا ہے۔ ایسے میں اب ایک امید پاکستان کے نوجوان طبقہ سے ہی کی جاسکتی ہے ۔
یہ نوجوان طبقہ سیاسی اور غیر سیاسی کے درمیان الجھا ہواہے مگر ایک بات واضح ہے کہ ان نوجوانوں کے سامنے جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ سب اس نظام کے باغی ہیں۔ یہ نوجوان ہی ایک نئے سیاسی و جمہوری متبادل نظام کی بنیاد کو رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے ان کو ایک بڑی سیاسی رہنمائی کی بھی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی سمت اور جدوجہد کو ایک بہتر اور قانونی راستہ دے سکیں۔
کیونکہ یہ ہی نوجوان طبقہ ہے جو پڑھا لکھا بھی ہے اور اس کے پاس گلوبل دنیا کے ساتھ جڑا ہوا سوشل میڈیا کا نظام بھی ہے جس کی مدد سے وہ اپنی آواز کو طاقت بھی دے سکتا ہے اور لوگوں میں متحرک اور فعالیت کے لیے ایک نئی سمت بھی متعین کرسکتا ہے۔اس وقت سب جماعتیں اقتدار کی سیاست کا حصہ ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ اقتدار کی سیاست کے ثمرات عوام تک جانے کے بجائے ان تک یا ان کے خاندان تک محدود رہیں۔
وہ اس جنگ میں روایتی نظام کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں جب کہ نوجوانوں کی جنگ اس نظام کی تبدیلی کے ساتھ جڑی ہونی چاہیے ۔یہ جنگ جذبات اور جوش کی بنیاد پرہی نہیں بلکہ علمی وفکری بنیادوں پر خود کو بھی اور دوسروں کو بھی منظم کرکے جنگ کے لیے تیار کرنا ہوگا۔
اگر اس جنگ میں بھی ہم نے عملی طور پر مصلحت یا سمجھوتے کی سیاست یا روایتی جاری سیاست کو ہی طاقت دینی ہے تو پھر ہمیں واقعی اس سوچ اور فکر کو بھول جانا چاہیے کہ یہاں تبدیلی کا عمل ممکن ہوسکے گا،لیکن ہمیں مایوسی کے مقابلے میں امید کو طاقت دینی ہے اور طاقت کا بنیادی نقطہ جدوجہد کی اس جنگ کو جاری رکھنے ہی سے ْجڑا ہوا ہے۔