روس یوکرین جھگڑا اور میر تقی میر

یہ مہنگائی صرف غریب کو نہیں ڈس رہی۔روسی تیل، گیس اور یوکرینی غلے کی مار امیر ممالک پر بھی پڑرہی ہے


Wasat Ullah Khan April 26, 2022

جنگ تو روس اور یوکرین کے درمیان جاری ہے مگر ہزاروں میل پرے گنی بساؤ کی حکومت محاذِ جنگ سے آنے والی خبروں پر کیوں ہاتھ مل رہی ہے؟

توپیں تو مشرقی یوکرین کے علاقے لوہانسک میں گرج رہی ہیں مگر کراچی میں آٹے کی دکان پر پانچ کلو تھیلے کی قیمت میں ایک ہی رات میں بیس روپے کے اضافے پر گاہک اور دکاندار میں تو تو میں میں کیوں ہو رہی ہے؟

تباہی کا نوحہ تو یوکرین کے ساحلی شہر ماریوپول کے ماتھے پر کندہ ہے لیکن ڈھاکا کی ایک برگر شاپ سے فرنچ فرائز خریدنے والوں کی تعداد کیوں کم ہو رہی ہے؟

پناہ گزین تو لاکھوں کی تعداد میں پولینڈ اور رومانیہ اور ہنگری کا رخ کر رہے ہیں مگر یونان میں گیس کے چولہے کیوں ٹھنڈے پڑ رہے ہیں؟

میر صاحب نے ڈھائی سو برس پہلے فرمایا تھا

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو

کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

یہ شعر تب سمجھ میں نہیں آیا پر اب سمجھ میں آ رہا ہے کہ مدھو مکھی باغ میں جائے گی تو پھول کا رس چوسے گی اور پھر اس رس سے اپنے چھتے میں شہد بنائے گی اور پھر اس عمل کے دوران موم بھی پیدا ہو گی اور اس موم سے جو شمع تیار ہو گی وہ جلے گی تو پروانہ اردگرد منڈلاوے گا اور اس بے چارے کا خون ہو جائے گا،مگر اس شعر کا تعلق یوکرین اور روس کی جنگ سے کیا ہے؟

اس وقت مشرقی افریقہ (ایتھوپیا، صومالیہ، کینیا) میں تین کروڑ لوگ بھک مری کا براہِ راست سامنا کر رہے ہیں۔وجہ ماحولیاتی تبدیلی سے جنم لینے والی خشک سالی بتائی جاتی ہے۔گویا روٹی کے لالے پڑے ہیں۔مگر مشرقی افریقہ کے یہی تین ممالک کیوں؟ مصر، تیونس اور الجزائر سمیت افریقہ کے تینتالیس ممالک کے سر پے اس وقت غذائی عدم تحفظ کی تلوار لٹک رہی ہے۔

کیونکہ وہاں جو گندم استعمال ہوتی ہے اس کا نوے فیصد روس اور یوکرین سے آتا ہے،اگر یہ جنگ آج ختم بھی ہو جائے تو بھی اگلے برس اور پھر اس سے اگلے برس اس کے غذائی اثرات دنیا کی لگ بھگ اکسٹھ معیشتیں بھگتتی رہیں گی کہ جن کا خوراکی دارومدار روس اور یوکرین کے دہقانوں پر ہے۔

دونوں ممالک مجموعی طور پر گندم کی ستائیس سے تیس فیصد عالمی پیداوار فراہم کرتے ہیں۔جب سے جنگ شروع ہوئی ہے گندم کی عالمی قیمتوں میں چونتیس تا چالیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔یوکرین کا مشرقی خطہ گندم کا گھر ہے اور یہاں شدید لڑائی ہو رہی ہے۔

کسانوں کی بڑی تعداد میں اندرونی و بیرونی نقل مکانی اور غیر معمولی جنگی نقل و حرکت کے سبب اس برس کاشت کا سیزن بانجھ گذرے گا۔فریقین ایک دوسرے کی پیش قدمی روکنے کے لیے گندم کی جگہ زمین میں بڑی تعداد میں بارودی سرنگیں کاشت کر رہے ہیں اور وہ بھی دنیا کی زرخیز ترین زمین میں ہو ۔

اس قدر زرخیز کے اسے انسانی ورثے کی عالمی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔اس برس یوکرین کے کسانوں نے بہت تیر مارا تب بھی آدھا رقبہ بنا کسی کاشت کے ہی رہے گا۔

روسی ناکا بندی کے سبب اس وقت ساڑھے تیرہ ملین ٹن گندم یوکرین کے گوداموں میں پڑی ہے۔سب کی سب برآمد ہونا تھی۔سولہ ملین ٹن مکئی بھی پڑی پڑی خراب ہو رہی ہے۔

زمین سرخیز ہو یا بنجر اس سے قطع نظر بارودی سرنگ لگانا جتنا مشکل ہے اس کا کھوجنا اور ناکارہ کرنا اس سے سو گنا مشکل اور مہنگا کام ہے۔ابھی تو یوکرین کے محض آٹھ فیصد رقبے میں سرنگیں لگی ہیں۔آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔یہ سرنگیں زمین پر نہیں ہمارے آپ کے پیٹ پر نصب کی جا رہی ہیں۔

عالمی فلاحی تنظیم اوکسفیم کے تازہ آنکڑوں کے مطابق کوویڈ کے معاشی اثرات ، آمدنی کی تقسیم میں مزید عدم مساوات اور یوکرین روس کی جنگ کے سبب پیدا ہونے والے خوراکی بحران و مہنگائی کے سبب مزید پچیس کروڑ نفوس صرف اس برس کے دوران خطِ غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔

دونوں جنگ آزما ممالک محض ایک تہائی عالمی گندم ہی پیدا نہیں کرتے بلکہ جو کی تیس فیصد عالمی پیداوار کے بھی ضامن ہیں،اور سورج مکھی کے تریپن فیصد بیج کہ جن سے سن فلاور کوکنگ آئل بنتا ہے روس اور یوکرین میں ہی پیدا ہوتے ہیں۔

روس اور اس کا حلیف بیلا روس مصنوعی کھاد (پوٹاش ) کی بیس فیصد عالمی پیداوار فراہم کرتے ہیں۔ دونوں حالتِ جنگ میں ہیں۔دونوں کی بیرونی تجارت کو کڑی پابندیوں کا سامنا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مصنوعی کھاد کی تیاری میں قدرتی گیس کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔

اور نہ صرف گیس بلکہ روسی تیل کی قیمت ڈالر میں طے کی جائے یا روبل میں۔اس بابت مغرب اور روس میں گھمسان کی مالیاتی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔چنانچہ روسی و بیلا روسی مصنوعی کھاد کی عالمی منڈی تک رسائی میں شدید مشکلات ہیں۔

اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر روسی کھاد ساز اداروں نے بھی عالمی پیمانے پر کھاد کی قیمت دگنی کر دی ہے،کیونکہ تیل اور گیس کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن جن کسانوں کی دسترس میں یہ کھاد نہیں ہو گی ان کی فصلوں پر اس کا اثر پڑے گا اور پھر ہم سب کے پیٹ پر مہمگائی کا ایک اور پتھر بندھ جائے گا۔ اس تجارتی جنگ اور بحرانی مہنگائی سے تنگ آ کر عام آدمی سماجی بے چینی کا حصہ بنے گا اور پھر اس بے چینی کو کوئی بھی ذہین سیاست داں کسی بھی طریقے سے استعمال کر سکے گا۔

یہ مہنگائی صرف غریب کو نہیں ڈس رہی۔روسی تیل ، گیس اور یوکرینی غلے کی مار امیر ممالک پر بھی پڑرہی ہے۔متبادل کی تلاش میں کم ازکم پانچ سے چھ برس اور ارب ہا ڈالر کا اضافی خرچہ درکار۔اس کا مطلب ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے ہاتھ ترقی پذیر دنیا کی مالی امداد سکیڑنے کا ایک اور جواز آ گیا ہے۔

اب جس ملک کو بھی روزمرہ چلانا ہے وہ بینکوں یا عالمی مالیاتی اداروں سے اور قرض لے اور اپنا مستقبل پہلے سے اور کڑی شرائط پر گروی رکھے۔ہمارے پڑوسی سری لنکا کے ساتھ اس وقت معاشی و سماجی طور پر جو ہو رہا ہے وہ کل دوسروں کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔

ایسے میں اگر مہنگائی یا معاشی زبوں حالی کا ذمے دار کوئی محض عمران خان یا شہباز شریف کو سمجھتا ہے تو سمجھا کرے۔ہر کسی کی اپنی اپنی سمجھ ہے۔میرا مقصد تو بس اتنا تھا کہ میر صاحب کے جس مندرجہ بالا شعر کا مطلب میری سمجھ میں جتنا بھی آیا اس کا گیان آپ تک بھی پہنچا دوں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں