نوشتہ دیوار
ہم پر لازم ہے کہ اِس پورے مہینہ کے دوران اِس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں اور خصوصی دعاؤں اور عبادات کا اہتمام کریں
RAWALPINDI:
وطن عزیز پاکستان خداوند کریم کا وہ عظیم عطیہ ہے جو رمضانِ المبارک کے مقدس مہینہ میں معرضِ وجود میں آیا تھا۔ اسی لیے پاکستانیوں کے لیے اِس بابرکت مہینہ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔
ہم پر لازم ہے کہ اِس پورے مہینہ کے دوران اِس بات کو ملحوظِ خاطر رکھیں اور خصوصی دعاؤں اور عبادات کا اہتمام کریں اور اللہ تعالیٰ کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کریں۔ ہمارے تمام مناصب اور عہدے اور ٹھاٹ باٹ وطن عزیز کے دم سے ہی ہیں،ہم جو کچھ بھی ہیں اِس ملک کے طفیل ہی ہیں۔ ہم دنیا کے کسی بھی ملک میں رہ رہے ہوں اور خوب کما کھا رہے ہوں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ سب کچھ پاکستان ہی کی بدولت ہے، اگر پاکستان نہ ہوتا تو ہم کیا ہوتے؟
اللہ تعالی نے پاکستان کو بیشمار نعمتوں اور وسائل سے نوازا ہے۔ ہمارے ہنرمند اور محنت کش زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ہمارے انجینئر، ڈاکٹر اور سائنسدان بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔
ہمارے کھلاڑی اپنی پرفارمنس سے وطن عزیز کی شہرت کو چار چاند لگا چکے ہیں لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے ملک کی نیک نامی کم اور رسوائی اور بدنامی زیادہ ہورہی ہے۔بانیان وطن کے ملکِ عدم سدھارنے کے بعد ہمیں وہ مخلص اور بے لوث قیادت میسر نہیں آئی جو اِس وطن عزیز کو ترقی اور بامِ عروج تک پہنچا سکتی۔
ہمارے پیارے وطن کے ساتھ یہ حادثہ ہوا کہ یہ مفاد پرست، خودغرض اور ضمیر فروشوں کے ہتھے چڑھ گیا گویا رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی۔ یکے بعد دیگرے جو بھی آتا گیا اِسی رَوِش پر چلتا گیا۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جو حکمراں بھی آتا ہے اپنی سیاست چمکا کر چلا جاتا ہے اور عوام محض تماشائی بنے رہتے ہیں۔
الیکشن کے وقت عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں اور سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور کرسی اقتدار پر بیٹھنے کے بعد سب کچھ فراموش کردیا جاتا ہے جیسے رات گئی بات گئی۔گزشتہ عام انتخابات کے بعد بھی جو حکومت برسرِ اقتدار آئی تھی اُس نے سابق حکومت کو عوام سے مخلص نہ ہونے کا الزام دیا تھا اور عوامی خدمت کے بڑے بڑے وعدے اور بلند بانگ دعوے کیے تھے۔
جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو انھوں نے حکومت کا بھرپور ساتھ بھی دیا لیکن افسوس کہ وہ تبدیلی نہیں آئی جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔بلکہ اِس کے بجائے ایک اور قسم کی تبدیلی آئی جس کے نتیجہ میں بساط الٹ گئی اور رمضان المبارک کا وہ مقدس عرصہ سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ کی نذر ہوگیا۔وہ وقت جو عبادت اور یادِ الٰہی میں گزرنا چاہیے تھا آپس کی تو تو میں میں، الزام تراشی اور دھینگا مشتی کی بھینٹ چڑھ گیا اور سابقہ حکمرانوں کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد بھی ابھی تک جاری ہے۔
ملک اس وقت ایک غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہے اور آنے والے کل کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں۔بیروزگاری اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے بیچارے عوام بری طرح پریشان ہیں کہ نہ جانے اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
سیاستدانوں کی فری اسٹائل کشتی کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ اس خدشہ کی وجہ سے عوام بہت زیادہ پریشان ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں کسی بھی لمحہ مزید اضافہ کیا جائے گا۔ایسا ہونے کی صورت میں ٹرانسپورٹ جو پہلے ہی بہت مہنگی ہو چکی ہے مزید مہنگی ہوجائے گی جس کے نتیجہ میں گرانی کا گراف اور اونچا ہوجائیگا۔بالآخر اِس کا سارا بوجھ مہنگائی کے ملبہ تلے دبے ہوئے بے کس عوام پر ہی پڑے گا اور تیل تلوں سے ہی نکلے گا۔بجٹ کی تلوار پہلے ہی مظلوم عوام کے سروں پر لٹکی ہوئی ہے جس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دکان اپنی بڑھا گئے
کے مصداق نیا پاکستان بنانے والوں کی جگہ پرانا پاکستان والے دوبارہ برسرِ اقتدار آگئے۔ اب انتظار کیجیے اور دیکھیے کہ وہ کیا کمالات دکھاتے ہیں اور تھیلے سے کیا نکال کر دکھاتے ہیں۔بہرحال اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ وطنِ عزیز کے لیے یہ وقت بڑا کٹھن ہے اور حالات سازگار نہیں ہیں۔ اندرونی اور بیرونی چیلنج درپیش ہیں اور معاشی حالت جو کہ ملک کے جسد کے لیے روح کی حیثیت رکھتی ہے دگرگوں ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ آیندہ بجٹ کے آنے سے پہلے وزیر مالیات مفتاح اسماعیل ورلڈ بینک کے دروازے پر دستک دے کر آرہے ہیں۔ورلڈ بینک کے اندازہ کے مطابق ملک کے افق پر چھائی ہوئی کالی گھٹا میں روشنی کی صرف ایک ہی لکیر نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آیندہ مالی سال کے دوران شرحِ نمو 4 فیصد رہے گی اگرچہ یہ شرح بھی قابلِ ذکر نہیں ہے تاہم غنیمت ہے۔
اس وقت وطن عزیز کو جو سیاسی اور خارجہ پالیسی کے سنگین چیلنج درپیش ہیں اُن کے مدنظر یہ بھی ناکافی ہے کیونکہ ملک کے بائیس کروڑ عوام کی زندگیوں کا دارومدار ہی سیاسی اور معاشی حالات کی بہتری پر ہے۔ماضی کی طرح ہم جوں توں کرکے کسی نہ کسی طرح موجودہ بحران سے باہر نکل تو آئیں گے لیکن اس کے بعد بھی ہمیں بہت سی کڑوی گولیاں نگلنی پڑیں گی اور دیکھنا یہ ہے کہ آیندہ کیا ہوگا؟
گاڑی شکستہ ہے اور سڑک ناہموار۔ قرضہ فراہم کرنے والے دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی نظریں ورلڈ بینک کی پیش رفت پر مرکوز ہیں۔ حکومت وقت پھولوں کی نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج پر دراز ہے۔ اُسے آگے چل کر اور بھی کٹھن مراحل سے گزرنا ہوگا۔بقول منیرنیازی:
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
کیونکہ مستقبل کا انحصار آیندہ الیکشن کے انعقاد کے بعد ابھرنے والی صورتحال پر ہے اِس لیے موجودہ حکومت نگراں حکومت کے قیام تک کے لیے ہی کوئی معاشی حکمت عملی تیار کرسکتی ہے جس کی بنا پر اُس کی کامیابی منحصر ہوگی۔اگر یہ حکمت عملی عوام کی اکثریت کو مطمئن کرنے میں ناکام ہوگئی تو پھر اس کا انجام کیا ہوگا؟ یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے۔
عین ممکن ہے کہ بازی پھر پلٹ جائے اور پورا نقشہ ہی بدل جائے۔موجودہ حکومت بڑی عجیب کشمکش میں ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ ایک مخلوط بندوبست ہونے کی وجہ سے اتحاد میں شامل ہر فریق کی کوشش یہی ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ حصہ اُسی کو ملے جو کہ ایک فطری تقاضہ ہے۔
اگر ایسا ہوا تو اِس کی بقا خطرے میں پڑجائے گی اور کشتی الٹ جائے گی۔ ویسے بھی سانجھے کی ہنڈیا اکثر و بیشتر چوراہے پر پھوٹتی ہوئی دیکھی گئی ہے۔مثل مشہور ہے کہ محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہے۔اقتدار سے محروم ہونے والی سیاسی جماعت کے کَس بَل ڈھیلے ہونے کے بجائے مزید طاقتور اور مضبوط ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اس لیے نئی حکومت کو برقرار رہنے کے لیے عوام الناس کے مسائل حل کرنے کے لیے عملی طور پر کچھ نہ کچھ کرکے دکھانا ہوگا ۔