اقلیتوں کا تحفظ۔ ایک قومی ذمے داری
آج کی دنیا کا شائد ہی کوئی ایسا ملک ہو جس کی تمام آبادی ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتی ہو
ISLAMABAD:
اگرچہ ہم نے آپس میں مسلک اور عقیدے کی بنیاد پر تکفیر کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس کے حوالے سے یہ بیان بھی متنازعہ ٹھہرتا ہے کہ پاکستان کی 96% آبادی کا تعلق مذہب اسلام سے ہے اور باقی 4% اقلیتی آبادی عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی اور احمدی ہے۔
لیکن فی الوقت ہم اس بحث سے صرف نظر کرتے ہوئے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا فی زمانہ دینی اور انسانی دونوں طرح کے قوانین کے حوالے سے مذہب کی بنیاد پر لوگوں کے شہری حقوق بھی ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں؟ اس کا صاف اور سیدھا جواب یہی ہے کہ ''نہیں''۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں اس طرح کی تفریق روا نہیں رکھی جاتی۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اگر کبھی ایسا ہوا ہے تو اسے وقت کے اس کھاتے میں ڈال دینا چاہیے جسے عرف عام میں ماضی کہا جاتا ہے اور جس کی مثال ایک ایسے پڑائو کی سی ہے جہاں سے نسل انسانی کب کی آگے جا چکی ہے۔
آج کی دنیا کا شائد ہی کوئی ایسا ملک ہو جس کی تمام آبادی ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتی ہو۔ مسجد، گرجا، مندر، سینا گاگ، گوردوارہ، اور بدھ مذہب کی عبادت گاہیں دنیا کے بیشتر ممالک میں ایک ساتھ اور بعض مقامات پر تو پہلو بہ پہلو پائی جاتی ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ متعلقہ ملک کی آبادی میں جس مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہو گی اس کی عبادت گاہیں زیادہ تعداد میں ہوں گی۔ یہاں پھر ہم فرقوں، مسلکوں اور عقیدوں کی تفریق میں نہیں پڑتے کہ اس صف میں وہ تمام مذاہب پہلے نمبروں پر ہیں جنھیں ''اہل کتاب'' کہا جاتا ہے۔ پروین شاکر کا کیا درد ناک شعرہے کہ
اے مری گُل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا
اور اسی بات کو کوئی ڈیڑھ سو برس قبل استاد ابراہیم ذوق نے کچھ اس طرح بیان کیا تھا کہ
واجب القتل اس نے ٹھہرایا
آیتوں سے، روایتوں سے مجھے
اس سے پہلے کہ بات کسی اور طرف نکل جائے، ہم اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں کہ اکثریتی مذہب والے ممالک میں اقلیتوں کے حقوق کیا ہیں اور اسلام اس سلسلے میں ہمیں کیا حکم دیتا ہے۔ رسول کریمؐ کی آمد سے یثرب کا نام ہی بدل کر مدینۃ النبیؐ نہیں ہوا بلکہ اس کی آبادی کا تناسب بھی یک دم تبدیل ہو گیا۔ آپ کی تشریف آوری سے قبل وہاں کفار، یہودی اور عیسائی اور گنتی کے چند مسلمان آباد تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے مسلمان اکثریت میں ہو گئے اور باقی لوگ اقلیت بن گئے لیکن ان کے شہری اور انسانی حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑا ۔
پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں آغاز ہونے والی عظیم تبدیلی جسے نشاۃ ثانیہ بھی کہا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والے صنعتی انقلاب، انسانی حقوق کے شعور اور نو آبادیاتی نظام نے جغرافیائی، لسانی اور تہذیبی فاصلوں کو ختم کر کے ایک ایسی دنیا کو جنم دیا جس میں مختلف انسانی گروہ بوجوہ اپنے اپنے علاقوں سے نکل کر دنیا بھر میں پھیل گئے اور یوں جگہ جگہ رنگ، نسل، زبان، عقیدے اور مذہب کی بنیاد پر ایسی اقلیتیں پیدا ہو گئیں جنھیں اپنے ہر طرح کے حقوق کے تحفظ کے لیے اس ملک کی اکثریتی آبادی کی طرف دیکھنا پڑتا تھا اور چونکہ یہ ایک عالمگیر مسئلہ تھا اس لیے ہر ملک اور معاشرے نے ایسے قوانین وضع کیے کہ شہری اور انسانی حقوق کے حوالے سے ہر فرد کو ہر طرح کی تفریق سے بالاتر ہو کر مساوی حقوق دیے جائیں۔
قیام پاکستان سے قبل ہندوستان میں بھی کم و بیش یہی سلسلہ جاری تھا اور مذہب کی بنیاد پر قانون کی حد تک کسی قسم کی تفریق روا نہیں رکھی جاتی تھی، تقسیم اور اس کے ساتھ پھوٹنے والے فسادات کے نتیجے میں اگرچہ وسیع پیمانے پر آبادی کا تبادلہ اور قتل عام ہوا لیکن حالات کے سنبھلتے ہی دونوں ملکوں کی حکومتوں نے اقلیتوں کے تحفظ کے لیے نہ صرف قوانین وضع کیے بلکہ عملی طور پر بہت حد تک ان پر کاربند رہے جس کے نتیجے میں سیاست، معیشت، عدالت، مذہبی آزادی، اسپورٹس اور دیگر شعبوں میں ہمیں دونوں ملکوں کے اقلیتی طبقات کے نمایندے اعلیٰ ترین حیثیت پر فائز نظر آتے ہیں، رہی یہ بات کہ ان کی آبادی کے تناسب سے ان کو حصہ نہیں ملا تو اسے اس طرح سے دیکھنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اس کی اصل وجہ ہمارے نظام کی خرابی ہے جس کا خمیازہ تمام کمزور اور زیردست طبقوں کو بھگتنا پڑنا ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں بنائی جانے والی کچھ غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستانی اقلیتوں کو اس تحفظ کی فراہمی میں خلل پڑنا شروع ہو گیا جو اب تک کسی نہ کسی طرح ان کو مہیا ہو رہا تھا اور یہی وہ موڑ ہے جہاں مذہب کے نام پر کچھ جماعتوں اور گروہوں نے پہلے مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کرنا شروع کیا اور پھر یہ سلسلہ اقلیتوں کے حقوق تک دراز ہوتا چلا گیااور اب صورت حال یہ ہے کہ ہم ابن انشا کے اس فکر انگیز جملے کی عملی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔
''ایک دائرہ اسلام کا بھی ہوتا ہے پہلے اس میں لوگوں کو داخل کرتے تھے آج کل خارج کیا کرتے ہیں۔''
پاکستان کے دیگر باشندوں کی طرح عیسائی اور ہندو اقلیت بھی بہت سے اجتماعی مسائل سے دوچار رہی ہے لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں حکومتوں کی غفلت شعاری کی وجہ سے بعض شرپسند عناصر نے مذہبی بنیادوں پر ان کے خلاف ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ عیسائی آبادیوں اور گرجوں پر حملے اور سندھ میں آباد ہندو آبادی پر مظالم کا شروع ہونے والا حالیہ سلسلہ اسی افسوسناک قصے کی کڑیاں ہیں اور اس روش کی روک تھام صرف حکومت ہی نہیں پورے معاشرے کا مسئلہ اور فرض ہے۔ جو بھی دہشت گرد، تخریب کار یا مذہبی جنونی اس سارے عمل میں شریک ہیں ان کو صرف یہود و ہنود اور امریکا یا طالبان کی سازش قرار دے کر ہم اپنے آپ کو تو دھوکا دے سکتے ہیں لیکن اپنے رب اور تاریخ کو نہیں کہ دونوں ہی اپنے اپنے طریقے سے ہمارے اعمال کا حساب رکھتے ہیں اور دونوں کا فیصلہ بھی ایک ہی ہے کہ جو بھی قوم اور معاشرہ اپنا فرض ادا نہیں کرتے ان کا حساب یہیں اور اسی دنیا میں ہو گا۔