عجائب خانہ تحمل اور برداشت درخت سے سیکھیں آخری حصہ

قریباََبیالیس کروڑبرس پہلے پودے وجود میں آئے۔یہ بھی رَگ دارپودے ہوتے تھے جوایک میٹریا تین فٹ سے زیادہ بلندنہ ہوتے تھے


Zahida Hina April 27, 2022
[email protected]

LONDON: ماہرین کے مطابق دنیا کو وجود میں آئے ساڑھے چار ارب برس ہوئے ہیں۔اس مدت کے ابتدائی نوئے فیصد حصے میں دنیا میں کوئی درخت نہیں تھا۔

قریباََبیالیس کروڑ برس پہلے پودے وجود میں آئے۔یہ بھی رَگ دار پودے ہوتے تھے جو ایک میٹر یا تین فٹ سے زیادہ بلند نہ ہوتے تھے۔درخت کو مضبوط تنے کی ضرورت ہوتی تھی جو سیدھا کھڑا رہ سکے اور زمین میں سے پانی اور نمکیات کی اپنی شاخوں اور پتوں کو فراہمی ممکن بنا سکے۔

پودوں کی ابتدائی شکل پھپھوندی کی تھی(حیران کن طور پر اگر انسان کو ابتدائی شکل میں رحم مادر میں دیکھا جائے تو وہ بھی مایع سے چمٹنے والے مادے اور اس سے بتدریج دیگر اشکال اختیار کرتا ہے۔) اسی طرح اس پھپھوندی نے کروڑوں برس میں کائی اور اس سے کزف (فرن)اور پھر بونے پودوں کی شکل اختیار کی۔دنیا کی قدیم ترین فرن کی باقیات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ اڑتیس کروڑ برس پرانی تھی۔اس کی افزایش بیجوں سے نہیں ، بیضے سے ہوتی تھی۔

اس وقت دنیا میں تین کھرب سے زائد درخت ہیں۔ان میں سے اکثریت گرم اور مرطوب خطوں میں پائی جاتی ہے۔آج بھی ماہرین نباتات ان کی تعداد اور اقسام کے بارے میں مکمل علم نہیں رکھتے ۔ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں ہر برس پندرہ ارب درخت کا ٹے جاتے ہیںاور پانچ ارب درخت لگائے جاتے ہیں۔

درختوں کی ایک بڑی تعداد زیرزمین روابط کے پیچیدہ سلسلے سے باہم منسلک ہوتی ہے۔یہ حقیقت جانچنے کے لیے ایک درخت میں کیمیائی یا تا ب کار مادے داخل کردیے جاتے ہیں۔بعد ازاں قرب وجوار کے درختوں میں ان کی موجود گی پائی گئی۔

یوں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ درخت ایک کالونی کی شکل میں رہتے ہیں۔ اس تحقیق کے دوران ایک دل چھولینے والی حقیقت بھی سامنے آئی۔ پُرانے اور بڑے درخت اپنے قریب اُگنے والے ننھے بچے درختوں کو اپنی جڑوں کے ذریعے خوراک فراہم کرتے رہتے ہیں تا وقتے کہ وہ توانا اور مکمل خودمختار نہ ہوجائیں ۔بعد میں وہی بچے درخت بڑے ہوکر انھی پرانے بوڑھے درختوں کو خوراک فراہم کرنا شروع کردیتے ہیں۔

اسے www ورلڈ وائڈ ویب کی طرز پر وُوڈ وائڈ ویب کہا جاتا ہے۔یقینا دنیا کا نظام رحم ، مہربانی اور بقائے باہم کے اصولوں ہی پر آگے بڑھ رہا ہے۔یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی قدیم درخت قدرتی طور پر گر جاتاہے تو آس پاس کے درخت اس کے زمین میں گڑ ے تنے کو سیکڑوں برس تک شکر آمیز خوراک دے کر زندہ رکھتے ہیں۔

پاک و ہند میں نباتات کی تاریخ دیکھی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ موئن جو دڑو کی تہذیب کے اثرات بھارتی گجرات تک جاتے تھے۔راجستھان سے لے کر موئن جو دڑو کے تہذیبی اثرات والے علاقوں میں چند ہزار برس پہلے تک لامتناہی دلدلی سلسلے تھے جن میں نرسل اُگتی تھی۔ان کے قریب وجوار کے جنگلات میں گینڈے اور مگر مچھ ہوتے تھے جن کے نشان اُس دور کی مہراں پر بھی ملتے ہیں۔

اس دور کے درختوں کو کاٹنے کے لیے کانسی اور چقماق کی کلہاڑیاں استعمال ہوتی تھیں چوں کہ لوہاتب تک استعمال میں نہ آیا تھا۔اس تہذیب کے خاتمے کے بعد آریائی نسل کے لوگ اس خطے میں آئے ۔ان کی آمد دو ہزار برس قبل مسیح معلوم ہوتی ہے۔ انھی لوگوں نے کلہاڑیوں اور کھیتی باڑی کے حل کے لیے اس خطے میں لوہا متعارف کروایا۔

پاک وہند کے جن درختوں کی خاص منزلت اور تو جہ حاصل رہی ہے ان میں پیپل سرفہرست ہے۔ بدھ مت کے ماننے والوں کا یقین ہے کہ اس درخت کے نیچے بیٹھ کر گیان دھیان میں مصروف مہاتما بدھ کو نروان حاصل ہوا تھا۔بدھ گیا،بہار میں وہ درخت موجود ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے نیچے مہاتما بدھ کو معروفت کی روشنی ملی تھی۔

ہندو اس درخت کی جڑوں کو براہما(کائنا ت کا خالق )، تنے کو وشنو (محافظ)اور پتوں کو شیوا (تباہ کرنے ولا)سے علامتی طور پر وابستہ کرتے آئے ہیں۔پیپل کے درخت سے ایک حیران کن حقیقت وابستہ ہے۔

بظاہر نہ تو پیپل کی چھاؤ ں گھنیری ہوتی ہے اور نہ ہی اس پر مفید، خوش ذائقہ و خوشبو دار پھل آتا ہے پھر علامتی و مذہبی رویات کے سوا اس کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟ جدید سائنس نے ایک چشم کشا حقیقت دریافت کی ہے کہ عموماََدرخت دن میں زندگی آمیز آکسیجن اور رات میں کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں مگر پیپل وہ واحد درخت ہے جو رات میں بھی آکسیجن خارج کرتا ہے۔حیرت ہے کہ قدیم انسان نے اس حقیقت کے علم کے بغیر بھی اس درخت کو اتنی اہمیت دی یا پھر انسان کو اس کی اس زندگی آور خوبی کا علم ہوگیا تھا مگر وہ اسے بیان کرنے سے قاصر تھا سو اس کے کاٹنے کو ''بڑا گناہ'' سمجھتا تھا۔

برگد کے درخت کو اس کی پھیلی جڑوں اور کثیر شاخوں کی وجہ سے بارآوری، زرخیزی اور زندگی کی علامت کے طور پر لیا جاتا ہے۔بے اولاد ضعیف العقید ہ غیر مسلم لوگ اس کے وسیلے سے اولاد کے خواہش مند بھی ہوتے ہیں ۔تقدس کی وجہ سے اسے کاٹا نہیں جاتا اور بعض اوقات یہ سیکڑوں گز کے حساب سے جگہ گھیر لیتا ہے۔اشوکا درخت سے یہ روایت منسلک ہے کہ مہاتما بدھ اس کے نیچے پیدا ہوئے تھے۔

اسے بدھ مت کی عبادت گاہوں اور خانقاہوں میں لگایا جاتا ہے۔اشوکا کے معنی ''دکھ سے بچاہوا یا وہ جو دکھ نہ دے''کے بھی ہیں۔وہ پانی جس سے اشوکا کے پھول دھوئے جاتے ہیں، اُسے دکھ اور غم کے ماروں کی راحت کے لیے بھی استعمال میں لایا جاتا ہے۔

ناریل کا درخت عموماََگرم و مرطوب جنگلات اور ساحلوں پر پایا جاتا ہے۔البتہ ناریل کو نہ صرف ہندو پوجا کے دوران استعمال کرتے ہیں بلکہ شگون کے لے پھوڑا بھی جاتا ہے۔ویسے تو ناریل کے پھل کی گری پاکستان بھر میں مختلف پکوانوں اور مٹھائیوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔آم کا درخت تو پاک وہند کے باسیوں کا محبوب درخت ہے اور آم عوام و خواص کا مرغوب پھل ہے۔ہندوستان میں اس کے پتے بھی ہار میں استعمال کیے جاتے ہیں اور کسی گھر کے داخلی دروازے میں اچھے شگون کے لیے لٹکائے جاتے ہیں۔

نیم کے درخت کے جہاں بے شمار طبی فوائد ہیں، اس کی ٹہنیوں سے مسواک بنا کر دانتوں کی صفائی کی جاتی ہے۔صندل کا عام گفتگو میں تذکرہ کم ہوتا ہے البتہ علم و ادب میں اسے خوب برتا جاتا ہے۔اس خوش بو دار اور مہکتے درخت سے چندن بنایا جاتا ہے جو بدن پر ملا جاتا ہے۔اسی درخت سے ہم مسلمان تسبیح کے دانے بھی تیار کرتے ہیںجن کی مہک مشام ِجاں معطر کررکھتی ہے۔درخت سے آدمی کا پہلا براہِ راست واسطہ عموماًکتاب کے اوراق کی وجہ سے پڑتا ہے۔کتاب کا کاغذ درختوں ہی سے بنتا ہے۔لاطینی زبان سے پہلے قدیم زبان کے حروف ٹہنیوں کے ہوتے تھے۔

ہر حرف کسی درخت سے بھی مخصوص ہوتا تھا ، بھلے وہ برچ کا درخت ہو یا صنوبر کا۔برچ کو آغاز کی علامت کے طور پر لیا جا تا ہے۔آگ بھڑکانی ہو تو اسی درخت کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے۔حروفِ تہجی کے آخر میں یوُدرخت یعنی سدابہار درخت آتا ہے جو موت کی علامت ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے قبر ستانوں میں لگایا جاتا ہے۔

دنیا میں چینی زبان میں سب سے زیادہ شاعری درختوں سے متعلق ہے۔درختوں کا تحمل، برداشت اور صبر چینی شاعروں کو بہت متاثر کر تا تھا۔درخت ، انسان سے زیادہ عمر پاتے ہیں، انھیں زمین و آسمان کے بیچ رابطے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔

بے شمار ادیبوں نے درختوں کو اپنی تخلیقات میں خوب برتا ہے۔شیکسپیئر نے اپنے ڈرامے اوتھیلومیںبید کے درخت کا تذکرہ کیا ہے۔جدیدادب میں ہر من ہیسے سے لے کر ولیم ورڈز ورتھ تک کی تخلیقات سے جنگلوں اور باغوں کی خوشبوآتی ہے۔آج کل کے عدم برداشت کے بدترین موسم میں درخت ہم انسانوں سے کہیں بہتر نظر آتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں