جوڈیشل کمیشن بنانے میں کوئی حرج نہیں
ملکی سلامتی کے اداروں نے بھی واضح کر دیا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کوئی بیرونی ہاتھ ملوث نہیں ہے
LONDON:
نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے واضح کر دیا ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے لیے کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی ہے۔ ملکی سلامتی کے اداروں نے بھی واضح کر دیا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کوئی بیرونی ہاتھ ملوث نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی عمران خان اپنے حامیوں کو سازش اور مداخلت کے درمیان ابہام پیدا کر کے کنفیوژ کر رہے ہیں۔
عام آدمی سفارت کاری کی زبان اور اصطلاحات کو نہیں سمجھتا بلکہ پڑھے لکھے طبقے کو بھی اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک مداخلت اور سازش ایک ہی بات ہے۔ عمران خان عوام کی اسی سادہ لوحی اور لاعلمی سے کھیل رہے ہیں، اس لیے قومی سلامتی کمیٹی کے واضح اعلامیے کے باوجود سیاسی کھیل ابھی جاری ہے۔
اس کھیل کو جاری رکھنا عمران خان کی سیاسی مجبوری بھی ہے، اگر اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے ہیں تو عمران خان کی سیاست کو نا قابل تلافی نقصان ہو گا۔ میں اس دلیل کو نہیں مانتا کہ اگر عمران خان غلط ثابت ہو بھی جائے، تب بھی ان کے حامیوں کے خیالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگ جیسے جیسے حقائق جانتے جائیں گے ، وہ پی ٹی آئی سے دور ہوتے جائیں گے۔
نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے کے بعد بات ختم ہوجانی چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب عمران خان کے بیانیے کومنطقی انجام تک پہنچانے کی ذمے داری اور ضرورت حکومت کی ہے۔ عمران خان تو چاہیں گے کہ بات ختم نہ ہو اور وہ سیاسی کھیل کو تیز تر کریں ۔
میری رائے میں عمران خان کے مطالبہ پر عمل کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائے۔ اس جوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس میں ''ساز ش'' کو ثابت کرنے کی ذمے داری عمران خان پر رکھی جائے۔ انھیں بلایا جائے اور ان سے وہ تمام ثبوت طلب کیے جائیں جو وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ہیں۔ گو دوستوں کی رائے ہے کہ ماضی میں دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن بنا تھا لیکن عمران خان نے اس کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا تھا اور دھاندلی دھاندلی کی رٹ جا ری رکھی تھی۔
اسی لیے جوڈیشل کمیشن بنا بھی دیا جائے، اگر اس کا فیصلہ عمران خان کے خلاف آبھی گیا، تب بھی عمران خان سازش اور مداخلت کے درمیان کھیل جاری رکھیں گے، وہ کبھی بھی خود کو غلط نہیں مانیں گے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دھاندلی کمیشن کے بعد عمران خان دھاندلی کو ایشو نہیں بنا سکے تھے، وہ تو اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ تھی، اس لیے انھیں نواز شریف حکومت کے خلاف ایک کے بعد ایک نیا ایشو ملتا گیا لیکن آج وہ صورتحال نہیں ہے۔
اس بار جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد وہ بچ نہیں سکیں گے۔ یہ 2014نہیں ہے، یہ 2022 ہے۔
عمران خان اسلام آباد مارچ کا بار بار اعلان کر رہے ہیں۔ حالانکہ میری رائے میں وہ اگست سے پہلے مارچ نہیں کر سکتے۔ مئی، جون، جولائی کی شدید گرمی میں مارچ ممکن نہیں ہے، اس لیے انھیں بہتر موسم کا انتظار کرنا ہے۔ اگر تب تک جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ بھی آجائے یا تب تک جوڈیشل کمیشن میں سماعت جاری ہو تو عمران خان کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ عدالتیں بھی کہیں گی کہ جب ہم سن رہے ہیں تو اب مارچ کی کیا ضرورت ہے۔
اور پھر اس وقت ان کا مرکزی مطالبہ بھی یہی ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ اس لیے جب وہ بھی پورا ہو جائے گا تو مارچ کا جواز ختم ہو جائے گا۔ کچھ دوستوں کی رائے یہ بھی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا ٹرمپ کارڈ حکومت کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہیے۔
اگر عمران خان کے اسلام آباد مارچ کے دوران کہیں حکومت پھنس گئی تو جوڈیشل کمیشن کا ٹرمپ کارڈ استعمال ہو سکتا ہے۔اس سے عمران خان اور حکومت کے درمیان فیس سیونگ ہو سکتی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب حکومت کو عمران خان کو سیاسی فیس سیونگ دینے کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے ، اس لیے میری رائے میں جوڈیشل کمیشن ابھی بننا چاہیے۔
عمران خان کے اسلام آباد مارچ سے ویسے ہی نبٹنا چاہیے جیسے حکومتیں نبٹتی ہیں۔ اب دھونس کے سامنے نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔عمران خان کے حامی سوشل میڈٖیا پر تو گالیاں نکال سکتے ہیں۔ لیکن سڑکوں پر مار کھانا، گرفتار ہونا ،لاٹھی چارج کا مقابلہ کرنا ، آنسو گیس کا سامنا کرنا ، واٹر کینن کے سامنے کھڑا ہونا ، پی ٹی آئی کے لیڈروں اور ورکروں کے بس کی بات نہیں ہے۔ ماضی میں جب عمران خان احتجا ج کے لیے نکلتے تھے تو حکومت کے ہاتھ باندھ دیے جاتے تھے کہ احتجاجیوںکے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرنا، چاہیے وہ پی ٹی وی کی عمارت پر ہلہ بول دیں، انھیں ہاتھ نہیں لگانا۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔
مکمل آزادی میں عمران خان کا دھرنا ناکام ہوا۔ اس لیے اس بار بھی مجھے کامیابی کے امکانا ت نہیں لگتے۔ اس لیے اسلام آباد مارچ کے لیے کسی ٹرمپ کارڈ کو بچانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے رانا ثناء اللہ کو نبٹنے دیں۔
پنجاب میں حمزہ شہباز نبٹ لیں گے۔ کے پی سے چڑھائی کی پہلے بھی عمران خان کوشش کر چکے ہیں۔ لیکن درمیان میں پنجاب آتا ہے۔ اس لیے کوئی ایسی بات نہیں۔ لیکن جب معلوم ہے کہ عمران خان کسی احتجاج سے حکومت نہیں گر اسکتے۔ پھر بھی جوڈیشل کمیشن بنانا چاہیے۔کچھ فیصلہ سیاسی ضرورت کے تحت نہیں ملکی ضرورت کے تحت بھی کیے جاتے ہیں۔
نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے واضح کر دیا ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے نکالنے کے لیے کوئی بیرونی سازش نہیں ہوئی ہے۔ ملکی سلامتی کے اداروں نے بھی واضح کر دیا ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں کوئی بیرونی ہاتھ ملوث نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی عمران خان اپنے حامیوں کو سازش اور مداخلت کے درمیان ابہام پیدا کر کے کنفیوژ کر رہے ہیں۔
عام آدمی سفارت کاری کی زبان اور اصطلاحات کو نہیں سمجھتا بلکہ پڑھے لکھے طبقے کو بھی اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ اس لیے ان کے نزدیک مداخلت اور سازش ایک ہی بات ہے۔ عمران خان عوام کی اسی سادہ لوحی اور لاعلمی سے کھیل رہے ہیں، اس لیے قومی سلامتی کمیٹی کے واضح اعلامیے کے باوجود سیاسی کھیل ابھی جاری ہے۔
اس کھیل کو جاری رکھنا عمران خان کی سیاسی مجبوری بھی ہے، اگر اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے ہیں تو عمران خان کی سیاست کو نا قابل تلافی نقصان ہو گا۔ میں اس دلیل کو نہیں مانتا کہ اگر عمران خان غلط ثابت ہو بھی جائے، تب بھی ان کے حامیوں کے خیالات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگ جیسے جیسے حقائق جانتے جائیں گے ، وہ پی ٹی آئی سے دور ہوتے جائیں گے۔
نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے کے بعد بات ختم ہوجانی چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اب عمران خان کے بیانیے کومنطقی انجام تک پہنچانے کی ذمے داری اور ضرورت حکومت کی ہے۔ عمران خان تو چاہیں گے کہ بات ختم نہ ہو اور وہ سیاسی کھیل کو تیز تر کریں ۔
میری رائے میں عمران خان کے مطالبہ پر عمل کرتے ہوئے جوڈیشل کمیشن بنا دیا جائے۔ اس جوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس میں ''ساز ش'' کو ثابت کرنے کی ذمے داری عمران خان پر رکھی جائے۔ انھیں بلایا جائے اور ان سے وہ تمام ثبوت طلب کیے جائیں جو وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس ہیں۔ گو دوستوں کی رائے ہے کہ ماضی میں دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن بنا تھا لیکن عمران خان نے اس کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا تھا اور دھاندلی دھاندلی کی رٹ جا ری رکھی تھی۔
اسی لیے جوڈیشل کمیشن بنا بھی دیا جائے، اگر اس کا فیصلہ عمران خان کے خلاف آبھی گیا، تب بھی عمران خان سازش اور مداخلت کے درمیان کھیل جاری رکھیں گے، وہ کبھی بھی خود کو غلط نہیں مانیں گے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دھاندلی کمیشن کے بعد عمران خان دھاندلی کو ایشو نہیں بنا سکے تھے، وہ تو اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ تھی، اس لیے انھیں نواز شریف حکومت کے خلاف ایک کے بعد ایک نیا ایشو ملتا گیا لیکن آج وہ صورتحال نہیں ہے۔
اس بار جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد وہ بچ نہیں سکیں گے۔ یہ 2014نہیں ہے، یہ 2022 ہے۔
عمران خان اسلام آباد مارچ کا بار بار اعلان کر رہے ہیں۔ حالانکہ میری رائے میں وہ اگست سے پہلے مارچ نہیں کر سکتے۔ مئی، جون، جولائی کی شدید گرمی میں مارچ ممکن نہیں ہے، اس لیے انھیں بہتر موسم کا انتظار کرنا ہے۔ اگر تب تک جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ بھی آجائے یا تب تک جوڈیشل کمیشن میں سماعت جاری ہو تو عمران خان کے لیے اسلام آباد پر چڑھائی کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ عدالتیں بھی کہیں گی کہ جب ہم سن رہے ہیں تو اب مارچ کی کیا ضرورت ہے۔
اور پھر اس وقت ان کا مرکزی مطالبہ بھی یہی ہے کہ جوڈیشل کمیشن بنایا جائے۔ اس لیے جب وہ بھی پورا ہو جائے گا تو مارچ کا جواز ختم ہو جائے گا۔ کچھ دوستوں کی رائے یہ بھی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا ٹرمپ کارڈ حکومت کو اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہیے۔
اگر عمران خان کے اسلام آباد مارچ کے دوران کہیں حکومت پھنس گئی تو جوڈیشل کمیشن کا ٹرمپ کارڈ استعمال ہو سکتا ہے۔اس سے عمران خان اور حکومت کے درمیان فیس سیونگ ہو سکتی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب حکومت کو عمران خان کو سیاسی فیس سیونگ دینے کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے ، اس لیے میری رائے میں جوڈیشل کمیشن ابھی بننا چاہیے۔
عمران خان کے اسلام آباد مارچ سے ویسے ہی نبٹنا چاہیے جیسے حکومتیں نبٹتی ہیں۔ اب دھونس کے سامنے نرمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔عمران خان کے حامی سوشل میڈٖیا پر تو گالیاں نکال سکتے ہیں۔ لیکن سڑکوں پر مار کھانا، گرفتار ہونا ،لاٹھی چارج کا مقابلہ کرنا ، آنسو گیس کا سامنا کرنا ، واٹر کینن کے سامنے کھڑا ہونا ، پی ٹی آئی کے لیڈروں اور ورکروں کے بس کی بات نہیں ہے۔ ماضی میں جب عمران خان احتجا ج کے لیے نکلتے تھے تو حکومت کے ہاتھ باندھ دیے جاتے تھے کہ احتجاجیوںکے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کرنا، چاہیے وہ پی ٹی وی کی عمارت پر ہلہ بول دیں، انھیں ہاتھ نہیں لگانا۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔
مکمل آزادی میں عمران خان کا دھرنا ناکام ہوا۔ اس لیے اس بار بھی مجھے کامیابی کے امکانا ت نہیں لگتے۔ اس لیے اسلام آباد مارچ کے لیے کسی ٹرمپ کارڈ کو بچانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس سے رانا ثناء اللہ کو نبٹنے دیں۔
پنجاب میں حمزہ شہباز نبٹ لیں گے۔ کے پی سے چڑھائی کی پہلے بھی عمران خان کوشش کر چکے ہیں۔ لیکن درمیان میں پنجاب آتا ہے۔ اس لیے کوئی ایسی بات نہیں۔ لیکن جب معلوم ہے کہ عمران خان کسی احتجاج سے حکومت نہیں گر اسکتے۔ پھر بھی جوڈیشل کمیشن بنانا چاہیے۔کچھ فیصلہ سیاسی ضرورت کے تحت نہیں ملکی ضرورت کے تحت بھی کیے جاتے ہیں۔