دہشت گردی کی نئی لہر

شہر قائد میں اکیس سال میں دوسری مرتبہ کسی خودکش حملے کے لیے کسی خاتون کو استعمال کیا گیا ہے

شہر قائد میں اکیس سال میں دوسری مرتبہ کسی خودکش حملے کے لیے کسی خاتون کو استعمال کیا گیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کراچی یونیورسٹی میں وین پر خودکش حملے میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔

چینی زبان کی تعلیم دینے والے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے گیٹ پر خاتون بمبار نے عین اس وقت خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جب چینی اساتذہ کی وین اندر داخل ہونے والی تھی۔ رپورٹس کے مطابق جامعہ کراچی میں خودکش حملے کی ذمے داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کو قیمت چکانا پڑے گی ، چینی شہریوں کا خون رائیگاں نہیں جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی جامعہ کراچی دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے ہلاک افراد کے لواحقین سے ہمدردی اور افسوس کا اظہار کیا ۔

ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ سی پیک کا روشن مستقبل دشمنوں کو برداشت نہیں ہورہا ہے ، جس کے لیے وہ دہشت گردی کا استعمال کرتے ہیں ، ہندوستان براہ راست دہشت گردی میں ملوث ہے جبکہ افغانستان کی سرزمین بھی دہشت گردی میں استعمال ہورہی ہے۔

سی پیک منصوبوں کا آغاز ہوا تو بعض ممالک نے اس کی شدید مخالفت کی اور چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے خلاف سازشی مفروضے پیش کرنا شروع کر دیں۔ مغربی ممالک کی طرف سے پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا کہ ان منصوبوں سے علیحدہ ہو جائے، لیکن حکومت نے ان منصوبوں کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ بھارت بھی سی پیک منصوبوں کواپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے ، وہ پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور جدید انفرا اسٹرکچر قائم ہونے پر پریشان ہے، سیدھی سی بات ہے پاکستان کی ترقی بھارت کوایک آنکھ نہیں بھاتی۔ بھارت ، چین اور پاکستان کی مستحکم دوستی سے پریشان ہے ، جب بھارت سی پیک منصوبوں کو نہ رکوا سکا ، اس نے دوبارہ دہشت گردی کا سہارا لیا ہے۔

پاکستان کے دوست چین نے ہمیشہ اور ہر مشکل میں پاکستان کا ساتھ دیا ، چین نے کئی مرتبہ عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ وطن عزیز میں خدانخواستہ دہشت گردی کی ایک اور لہر آرہی ہے بعض عناصر کی جانب سے صورتحال کی سنگینی میں اضافہ اور کسی بڑے واقعے کا خطرہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے۔

شہر قائد میں اکیس سال میں دوسری مرتبہ کسی خودکش حملے کے لیے کسی خاتون کو استعمال کیا گیا ہے۔ خودکش بمبار خاتون زوالوجی میں ماسٹرز، ایجوکیشن میں ایم فل کر چکی تھی، اس ملک میں ہمیں جس دہشت گردی کا سامنا رہا ہے ۔

اس میں یہ یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھے، بظاہر کسی مذہبی اثر و رسوخ کے بغیر اور کسی فرقے سے بالاتر لوگ خود کو کیوں دھماکوں سے اڑا رہے ہیں؟ اور اگر یہ لوگ بھی مینی پولیٹ ہو رہے ہیں تو مسئلہ کہیں یونیورسٹیوں اور تعلیمی نظام میں تو نہیں؟ ففتھ جنریشن وار فیر کی اصل جنگ یونیورسٹیاں، کتابیں، نیوز، ویڈیوز اور نوجوان ہیں، اس جنگ کا سب سے خطرناک ہتھیار انفارمیشن ہے، جس کو جس طرح مرضی چاہیں استعمال کر کے گھر کو گھر کے اندر سے آگ لگوا دیں ، ریاستی ادارے یونیورسٹیوں کے نصاب پر نظر نہیں رکھ سکتے تو پھر یہ پریشانی کی بات ہے کیونکہ دھماکے اب یونیورسٹیوں میں ہونا شروع ہو گئے ہیں، یہ ریاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

پاکستان کئی سال دہشت گردی کی ایک طویل ترین لہر کا دہائیوں تک سامنا کر چکا ہے جس کے دوران جہاں دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور ان کی وارداتوں کی روک تھام میں کامیابیاں حاصل ہوئیں ، وہاں دہشت گردی کی درجنوں چھوٹی بڑی وارداتیں ہوئیں اور پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کی شہادتیں ہوئیں اور 70 ہزار کے قریب سویلین اموات ہوئیں جبکہ مالی اور معاشی نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ بلوچستان میں ہونے والی کارروائیوں کا بڑا گہرا تعلق پاکستان کے اسٹرٹیجک مفادات سے ہے۔ بلوچستان میں پاکستان کے اسٹرٹیجک مفادات چین کے ساتھ بہت قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔


اس لیے کچھ قوتیں چاہتی ہیں کہ ان کو نقصان پہنچایا جائے۔ بلوچستان کا مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ وہاں چند لوگ ناراض ہیں، جنھوں نے ہتھیار اٹھائے ہیں، وہ پاکستان کو توڑ نہیں سکتے، ان کو بڑے پیمانے پر بلوچستان کے عوام کی حمایت بھی حاصل نہیں ہے، کچھ قوتوں کے اشارے پر چین اور پاکستان کے اسٹرٹیجک مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ اس میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ تعصب اور لسانیت کی بنیاد پر تقسیم کی نہ اسلام ہمیں اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ملکی حالات اس کے متحمل ہو سکتے ہیں۔

ایک طرف ہمارا دشمن ہمیں تاک تاک کر نشانہ بنارہا ہے اور دوسری طرف لسانیت اور عصبیت کو ہوا دی گئی اور بھڑکاوا دیا گیا تو خود سوچ لیں کہ ایسا کرنے والے کس کی معاونت، کس کے کام کو آسان اور کس کی خدمت کررہے ہیں۔

ماضی میں پنجاب میں دہشت گردوں کے سلیپر سیلز کی موجودگی کے حوالے سے جو اطلاعات خود سرکاری ذرائع سے دے کر اس کا اعتراف کیا گیا تھا ان سلیپر سیلز کا خاتمہ کیا جا چکا تھا یا پھر اس حوالے سے کس نوعیت کے اقدامات ہوئے تھے۔

اس ضمن میں بہرحال کسی بڑی اور سنجیدہ کارروائی کی کوئی معلومات جاری نہیں کی گئیں ۔ ان تمام امور سے قطع نظر یہ بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ سرحد پر بیس اکیس کلو میٹر علاقہ کے علاوہ باڑ لگا کر پوری طرح محفوظ بنانے اور افغانستان میں طالبان حکومت کی آمد کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی موجودہ نئی لہر کیسے آئی؟ کیا اب بھی پاک افغان سرحد پر دہشت گردوں کے ٹھکانے موجود ہیں، نیز پاکستان اور طالبان حکومت کے درمیان افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کی ضمانت پر کس حد تک عملدرآمد ہو رہا ہے؟

علاوہ ازیں حال ہی میں پاک افغان سرحد کے بعض معاملات کو موجود ہ لہر کے تناظر میں کس طرح دیکھا جائے ان تمام سوالات کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تازہ صورتحال کے پس پردہ اسباب و علل واضح ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان واقعات کے پس پردہ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ایسی پالیسی وضع کر لینے کی ضرورت ہے کہ ان واقعات کی روک تھام اور دہشت گردی کی اس ممکنہ لہر کا ابتداء ہی میں قلع قمع کیا جا سکے ان عناصر کو ابتداء ہی میں مسکت جواب دینا بہت ضروری ہے۔ دہشت گردوں کے سلیپر سیلز کا جتنا جلد ہو سکے قلع قمع کیا جائے۔

انٹیلی جنس کو دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے بھرپور وسائل مہیا کیے جائیں، اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ بہترین انٹیلی جنس وہ ہوتی ہے جو خطرے کو بروقت بھانپ لے اور خطرے کے امکانات پیدا ہوتے ہی خطرہ پیدا کرنے والوں کا سر کچل دے۔ پے درپے واقعات کے نتیجے میں ملک میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونا فطری امر ہے، خدانخواستہ امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی تو عالمی حالات سے متاثرہ ہماری معیشت کے مزید متاثر ہونے کا خطرہ ہے توقع کی جانی چاہیے کہ ٹی ٹی پی کے نئے خطرے اور چیلنج کا پہلے سے بڑھ کر مسکت جواب دیا جائے گا اور ملک بھر میں سیکیورٹی کے انتظامات و اقدامات پوری طرح سے یقینی بنا کر کسی بھی ممکنہ خطرے سے ملک و قوم کو محفوظ بنایا جائے گا۔

گزشتہ برس اگست میں افغانستان میں طالبان نے اقتدار سنبھالا تو زیادہ تر لوگوں کا یہ خیال رہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی کے ساتھ دونوں ممالک کے مابین معاشی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوگا لیکن ایسا نہ ہو سکا بلکہ الزام تراشی اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی فضا بدستور جاری رہی۔ معاشی سرگرمیوں کے حوالے سے اہم تجارتی گذر گاہیں طورخم ، غلام خان، انگور اڈہ، خرلاچی اور دیگر آئے روز اختلافات کی وجہ سے بند کی جاتی رہی ہیں۔

سرحد کی بندش کی وجہ سے دونوں ممالک کے شہریوں کو شدید مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان سے سیمنٹ، سریا، اشیاء خورونوش اور افغانستان سے تازہ پھل اور سبزیاں آ رہی ہیں۔ اسی طرح کراچی اور لاہور سے تجارتی سامان افغانستان کے لیے آ رہا ہے لیکن سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان کو یہ سرحدیں کبھی کبھی بند کرنی پڑتی ہیں، جس کے یقینا ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج دونوں ممالک کے مابین تجارت ڈھائی ارب ڈالر سے کم ہوکر چند کروڑ ڈالر رہ چکی ہے۔

خطے اور دنیا میں قیام امن کے لیے عالمی برادری کو پاکستان کی مدد اورحمایت جاری رکھنی چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے جو گروپ رہ گئے ہیں ان کابھی صفایاکیاجاسکے۔ پاکستان دہشت گرد تنظیموں سے لڑنے اور انھیں شکست دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ حکومت کے لیے یہ ضروری ہے کہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر محفوظ بنایا جاسکے۔
Load Next Story