رحمت کے دروازے ابھی کھلے ہیں
ماہ رمضان اپنی پوری رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ سایہ فگن رہا
ماہ رمضان اپنی پوری رحتموں اور برکتوں کے ساتھ سایہ فگن رہا، رمضان سراپا بخشش ومغفرت کامہینہ ہے، اس میں ہر قسم کی خیروبرکت کی انتہا ہے۔ بلاشبہ یہ ماہ مبارک صیام وقیام پہ اجر اور گناہوں کی مغفرت کے ساتھ اپنے اندر نیکیوں پہ بے حدوحساب جزا وثواب رکھتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اکابرین ملت چھ مہینے پہلے سے ہی رمضان پانے کی رب سے دعائیں کرتے، جب رمضان پالیتے تو اس میں ہر قسم کی اطاعت وبھلائی پر ذوق وشوق اور اﷲ سے اجر کی امید کرتے ہوئے محنت کرتے۔ جب رمضان گزرجاتا تو بقیہ چھ مہینے رمضان میں کیے گئے اعمال صالحہ کی قبولیت کے لیے دعا کرتے۔گویا سلف صالحین کا پورا سال رمضان کی خوشبوؤں سے معطر رہتا۔
اب یہ ماہِ مبارک فقط مہمان ہے کیونکہ اس بابرکت مہینے کے آخری عشرے کے آخری ایام باقی رہ گئے ہیں۔ آج ہم ہیں کہ نہ رمضان کی عظمت کا احساس، نہ اس کی خیروبرکات سے سروکار ہے، حتی کہ اپنے گناہوں کی مغفرت کا بھی خیال دل میں نہیں گزرتاجب کہ رمضان پاکر اس میں مغفرت نہ پانے والا نہایت ہی بدنصیب ہے۔ نبی اکرم کا فرمان ہے''بدبخت ہے وہ جس نے رمضان پایا اوریہ مہینہ اس سے نکل گیا اور وہ اس میں( نیک اعمال کرکے) اپنی بخشش نہ کرواسکا''۔
ہم نے استقبال رمضان پر لکھے گئے کالم میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان سے متعلق ایک حدیث کے کچھ حصے کا ذکر کیاتھا، اسی حدیث مبارکہ میں چار اشخاص کا ذکر ہے کہ ان کی رمضان میں بھی مغفرت نہیں ہوتی، جو درج ذیل ہیں:
1۔ایک وہ شخص جو شراب کا عادی ہو۔
2۔دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو۔
3۔تیسرا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو۔
4۔چوتھا وہ شخص جو (دِل میں)کینہ رکھنے والا ہو اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو۔''
ہمیں اپنے جائزہ لینا چاہیے اور اس بات کی کھوج لگانی چاہیے کہ خدانخواستہ ان چار قسم کے لوگوں میں ہمارا شمار تو نہیں ہوتا۔ بد قسمتی سے معاشرے میں اس قدر تقسیم پیدا ہوچکی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے قریب آنے جے بجائے دلوں میں نفرتیں کے کر ایک دوسرے سے دور ہوچکے ہیں۔
فی زمانہ سب سے زیادہ تقسیم سیاست کے نام پر دکھائی دے رہی ہے۔ آپ دیکھیے ہم سیاست کی دلدل میں اتنے دھنس چکے ہیں کہ ہمیں رمضان کی بھی کوئی فکر نہیں۔ میں کسی ایک جماعت کی بات نہیں کررہا، سب کے سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ اتنے بابرکت مہینے میں جب ہر مسلمان کو اﷲ کے در پر جھکے رہنا چاہیے، پاکستانی مسلمان سیاسی جلسے جلوسوں میں مصروف رہے، جہاں ڈھول ڈھمکا تو ہوتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ اپنے مخالفین کے لیے جو زبان استعمال کی جاتی ہے، اس کی اسلام میں کہیں کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ سیاسی رہنماؤں کی بدزبانی نے نسل نو کے اخلاق کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دی ہیں۔
آج سیاسی عداوت پر بھائی ، بھائی کے مد مقابل کھڑا ہے، باپ بیٹے آمنے سامنے ہیں، عزیز و اقارب ، پڑوسی رشتے داروں میں دشمنیاں جنم لے چکی ہیں حالانکہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے رمضان میں بھی اس شخص کی بخشش نہیں ہوگی جو شخص قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو۔ خدارا ان انتہاؤں سے واپس آجائیے جو آپ کو جنت سے دور کرکے جہنم کی جانب دھکیل رہی ہیں، جو اﷲ اور اس کے رسول کی ناراضی کا باعث بن رہی ہیں۔
ماہ رمضان کے آخری عشرے کے آخری ایام ابھی باقی ہیں، اﷲ رب العزت کی رحمت کے دروازے ابھی کھلے ہیں، ہمیں ان بابرکت گھڑیوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیا، کیا جائے جس سے اﷲ راضی ہو جائے،ہمیں اﷲ کے در سے لو لگانی چاہیے، اعتکاف بیٹھ جائیں۔ ہمیں شب قدر تلاش کرنی چاہیے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو میں کیا دعا کروں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:( اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عن? ) اے اﷲ تومعاف کرنے والا کرم والا ہے اورمعافی کوپسند کرتا ہے۔
لہٰذا مجھے معاف کردے۔حضرات محدثین و علماء کرام فرماتے ہیں کہ شب قدر سے متعلق روایات کثرت سے مروی ہیں اور ان کے مجموعہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ شب قدر ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے، اور طاق راتوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے جب کہ ستائیسویں رات میں اور زیادہ۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں مصلحت و حکمت سے شب قدر کو مخفی رکھا ہے۔
اس کو مخفی رکھنے میں شاید ہماری طلب اور ذوق جستجو کا امتحان مقصود ہے۔ اگر کوئی شخص خلوصِ نیت اورصدقِ دل سے کوشش کرے ، چاہے اسے علم ہو یا نہ ہو ،تو ان شاء اﷲ وہ محروم نہیں رہے گا۔ اہل ذوق کے یہاں تو سارا معاملہ ذوقِ طلب اور شوقِ جستجو ہی کا ہے۔ اس لیے آج ستائیس ویں شب ہے قوی امکان ہے کہ آج ہی لیلۃ القدر ہوگی، اس رات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔اﷲ کے پاک پیغمبر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ رمضان شریف میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے خلاصی مرحمت فرماتے ہیں جو جہنم کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں۔
اور جب رمضان کا آخری دِن ہوتا ہے تو یکم رمضان سے آخری رمضان تک جس قدر لوگ جہنم سے آزاد کیے گئے ہوتے ہیں اْن کے برابر اْس ایک دِن میں آزاد فرماتے ہیں۔اور جس رات ''شبِ قدر'' ہوتی ہے تو اْس رات حق تعالیٰ شانہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو (زمین پراْترنے کا ) حکم فرماتے ہیں، وہ فرشتوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ زمین پر اْترتے ہیں۔
اْن کے ساتھ ایک سبز جھنڈا ہوتا ہے، جس کو کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں۔ حضرت جبرئیل ؑ کے سو (100)بازو ہیں جن میں سے دو بازو صرف اِسی ایک رات میں کھولتے ہیں ، جن کو مشرق سے مغرب تک پھیلا دیتے ہیں ، پھر حضرت جبرئیل ؑ فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں : ''جو مسلمان آج کی رات کھڑا ہو یا بیٹھا ہو، نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کر رہا ہواْس کو سلام کریں اور اْس سے مصافحہ کریں اور اْن کی دْعاؤں پر آمین کہیں ، صبح تک یہی حالت رہتی ہے۔
جب صبح ہوجاتی ہے تو حضرت جبرئیل آواز دیتے ہیں : ''اے فرشتوں کی جماعت! اب کوچ کرواور چلو!۔'' فرشتے حضرت جبرئیل سے پوچھتے ہیں : ''اﷲ تعالیٰ نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی اْمت کے مؤمنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا معاملہ فرمایا؟'' وہ کہتے ہیں : '' اﷲ تعالیٰ نے اِن پر توجہ فرمائی اور چار شخصوں کے علاوہ سب کو معاف فرمادیا۔'' صحابہ نے عرض کیا : '' وہ چار شخص کون سے ہیں؟ '' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
1۔ایک وہ شخص جو شراب کا عادی ہو۔
2۔دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو۔
3۔تیسرا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو۔
4۔چوتھا وہ شخص جو (دِل میں)کینہ رکھنے والا ہو اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو۔''
پھر جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس رات کا نام آسمانوں پر ''لیلۃ الجائزہ'' (یعنی انعام کی رات) رکھا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں ، وہ زمین پر اْتر کر تمام گلیوں اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے (کہ جس کو جنات اور انسانوں کے علاوہ ہر مخلوق سنتی ہے) پکارتے ہیں : ''اے حضرت محمدؐ کی اْمت! اْس کریم رب کی (درگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے ، پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں : ''کیا بدلہ ہے اْس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟'' وہ عرض کرتے ہیں : ''اے ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اْس کا بدلہ یہی ہے کہ اْس کی مزدوری اْس کو پوری پوری دے دی جائے۔'' تو حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں : ''اے میرے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اْن کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطاکردی۔'' اور بندوں سے خطاب فرماکر ارشاد ہوتا ہے:
''اے میرے بندو!مجھ سے مانگو! میری عزت کی قسم ، میرے جلال کی قسم! آج کے دِن اپنے اِس اِجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے میں پورا کروں گا اور دْنیا کے بارے میں جو سوال کروگے اْس میں تمہاری مصلحت دیکھوں گا۔ میری عزت کی قسم !جب تک تم میرا خیال رکھوگے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (اور اْن کو چھپاتا رہوں گا)، میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں (اور کافروں) کے سامنے ذلیل اور رْسوا نہیں کروں گا۔ بس! اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ ! تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔''پس فرشتے اِس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اِس اْمت کو افطار (یعنی عید الفطر )کے دِن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں اورکھِل جاتے ہیں۔ اﷲ سے دعا ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہ ہو جو اس ماہ رمضان میں اپنی بخشش کا پروانہ لینے میں ناکام ٹھہرے۔ آمین
یہی وجہ ہے کہ اکابرین ملت چھ مہینے پہلے سے ہی رمضان پانے کی رب سے دعائیں کرتے، جب رمضان پالیتے تو اس میں ہر قسم کی اطاعت وبھلائی پر ذوق وشوق اور اﷲ سے اجر کی امید کرتے ہوئے محنت کرتے۔ جب رمضان گزرجاتا تو بقیہ چھ مہینے رمضان میں کیے گئے اعمال صالحہ کی قبولیت کے لیے دعا کرتے۔گویا سلف صالحین کا پورا سال رمضان کی خوشبوؤں سے معطر رہتا۔
اب یہ ماہِ مبارک فقط مہمان ہے کیونکہ اس بابرکت مہینے کے آخری عشرے کے آخری ایام باقی رہ گئے ہیں۔ آج ہم ہیں کہ نہ رمضان کی عظمت کا احساس، نہ اس کی خیروبرکات سے سروکار ہے، حتی کہ اپنے گناہوں کی مغفرت کا بھی خیال دل میں نہیں گزرتاجب کہ رمضان پاکر اس میں مغفرت نہ پانے والا نہایت ہی بدنصیب ہے۔ نبی اکرم کا فرمان ہے''بدبخت ہے وہ جس نے رمضان پایا اوریہ مہینہ اس سے نکل گیا اور وہ اس میں( نیک اعمال کرکے) اپنی بخشش نہ کرواسکا''۔
ہم نے استقبال رمضان پر لکھے گئے کالم میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان سے متعلق ایک حدیث کے کچھ حصے کا ذکر کیاتھا، اسی حدیث مبارکہ میں چار اشخاص کا ذکر ہے کہ ان کی رمضان میں بھی مغفرت نہیں ہوتی، جو درج ذیل ہیں:
1۔ایک وہ شخص جو شراب کا عادی ہو۔
2۔دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو۔
3۔تیسرا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو۔
4۔چوتھا وہ شخص جو (دِل میں)کینہ رکھنے والا ہو اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو۔''
ہمیں اپنے جائزہ لینا چاہیے اور اس بات کی کھوج لگانی چاہیے کہ خدانخواستہ ان چار قسم کے لوگوں میں ہمارا شمار تو نہیں ہوتا۔ بد قسمتی سے معاشرے میں اس قدر تقسیم پیدا ہوچکی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے قریب آنے جے بجائے دلوں میں نفرتیں کے کر ایک دوسرے سے دور ہوچکے ہیں۔
فی زمانہ سب سے زیادہ تقسیم سیاست کے نام پر دکھائی دے رہی ہے۔ آپ دیکھیے ہم سیاست کی دلدل میں اتنے دھنس چکے ہیں کہ ہمیں رمضان کی بھی کوئی فکر نہیں۔ میں کسی ایک جماعت کی بات نہیں کررہا، سب کے سب اس حمام میں ننگے ہیں۔ اتنے بابرکت مہینے میں جب ہر مسلمان کو اﷲ کے در پر جھکے رہنا چاہیے، پاکستانی مسلمان سیاسی جلسے جلوسوں میں مصروف رہے، جہاں ڈھول ڈھمکا تو ہوتا ہی ہے ساتھ ہی ساتھ اپنے مخالفین کے لیے جو زبان استعمال کی جاتی ہے، اس کی اسلام میں کہیں کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ سیاسی رہنماؤں کی بدزبانی نے نسل نو کے اخلاق کی دھجیاں بکھیر کے رکھ دی ہیں۔
آج سیاسی عداوت پر بھائی ، بھائی کے مد مقابل کھڑا ہے، باپ بیٹے آمنے سامنے ہیں، عزیز و اقارب ، پڑوسی رشتے داروں میں دشمنیاں جنم لے چکی ہیں حالانکہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے رمضان میں بھی اس شخص کی بخشش نہیں ہوگی جو شخص قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو۔ خدارا ان انتہاؤں سے واپس آجائیے جو آپ کو جنت سے دور کرکے جہنم کی جانب دھکیل رہی ہیں، جو اﷲ اور اس کے رسول کی ناراضی کا باعث بن رہی ہیں۔
ماہ رمضان کے آخری عشرے کے آخری ایام ابھی باقی ہیں، اﷲ رب العزت کی رحمت کے دروازے ابھی کھلے ہیں، ہمیں ان بابرکت گھڑیوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیا، کیا جائے جس سے اﷲ راضی ہو جائے،ہمیں اﷲ کے در سے لو لگانی چاہیے، اعتکاف بیٹھ جائیں۔ ہمیں شب قدر تلاش کرنی چاہیے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو میں کیا دعا کروں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:( اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عن? ) اے اﷲ تومعاف کرنے والا کرم والا ہے اورمعافی کوپسند کرتا ہے۔
لہٰذا مجھے معاف کردے۔حضرات محدثین و علماء کرام فرماتے ہیں کہ شب قدر سے متعلق روایات کثرت سے مروی ہیں اور ان کے مجموعہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ شب قدر ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے، اور طاق راتوں میں اس کا امکان زیادہ ہوتا ہے جب کہ ستائیسویں رات میں اور زیادہ۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں مصلحت و حکمت سے شب قدر کو مخفی رکھا ہے۔
اس کو مخفی رکھنے میں شاید ہماری طلب اور ذوق جستجو کا امتحان مقصود ہے۔ اگر کوئی شخص خلوصِ نیت اورصدقِ دل سے کوشش کرے ، چاہے اسے علم ہو یا نہ ہو ،تو ان شاء اﷲ وہ محروم نہیں رہے گا۔ اہل ذوق کے یہاں تو سارا معاملہ ذوقِ طلب اور شوقِ جستجو ہی کا ہے۔ اس لیے آج ستائیس ویں شب ہے قوی امکان ہے کہ آج ہی لیلۃ القدر ہوگی، اس رات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔اﷲ کے پاک پیغمبر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ شانہ رمضان شریف میں روزانہ افطار کے وقت ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے خلاصی مرحمت فرماتے ہیں جو جہنم کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں۔
اور جب رمضان کا آخری دِن ہوتا ہے تو یکم رمضان سے آخری رمضان تک جس قدر لوگ جہنم سے آزاد کیے گئے ہوتے ہیں اْن کے برابر اْس ایک دِن میں آزاد فرماتے ہیں۔اور جس رات ''شبِ قدر'' ہوتی ہے تو اْس رات حق تعالیٰ شانہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو (زمین پراْترنے کا ) حکم فرماتے ہیں، وہ فرشتوں کے ایک بڑے لشکر کے ساتھ زمین پر اْترتے ہیں۔
اْن کے ساتھ ایک سبز جھنڈا ہوتا ہے، جس کو کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں۔ حضرت جبرئیل ؑ کے سو (100)بازو ہیں جن میں سے دو بازو صرف اِسی ایک رات میں کھولتے ہیں ، جن کو مشرق سے مغرب تک پھیلا دیتے ہیں ، پھر حضرت جبرئیل ؑ فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں : ''جو مسلمان آج کی رات کھڑا ہو یا بیٹھا ہو، نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کر رہا ہواْس کو سلام کریں اور اْس سے مصافحہ کریں اور اْن کی دْعاؤں پر آمین کہیں ، صبح تک یہی حالت رہتی ہے۔
جب صبح ہوجاتی ہے تو حضرت جبرئیل آواز دیتے ہیں : ''اے فرشتوں کی جماعت! اب کوچ کرواور چلو!۔'' فرشتے حضرت جبرئیل سے پوچھتے ہیں : ''اﷲ تعالیٰ نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی اْمت کے مؤمنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا معاملہ فرمایا؟'' وہ کہتے ہیں : '' اﷲ تعالیٰ نے اِن پر توجہ فرمائی اور چار شخصوں کے علاوہ سب کو معاف فرمادیا۔'' صحابہ نے عرض کیا : '' وہ چار شخص کون سے ہیں؟ '' حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
1۔ایک وہ شخص جو شراب کا عادی ہو۔
2۔دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو۔
3۔تیسرا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو۔
4۔چوتھا وہ شخص جو (دِل میں)کینہ رکھنے والا ہو اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو۔''
پھر جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس رات کا نام آسمانوں پر ''لیلۃ الجائزہ'' (یعنی انعام کی رات) رکھا جاتا ہے اور جب عید کی صبح ہوتی ہے تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں ، وہ زمین پر اْتر کر تمام گلیوں اور راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے (کہ جس کو جنات اور انسانوں کے علاوہ ہر مخلوق سنتی ہے) پکارتے ہیں : ''اے حضرت محمدؐ کی اْمت! اْس کریم رب کی (درگاہ) کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف فرمانے والا ہے ، پھر جب لوگ عیدگاہ کی طرف نکلتے ہیں تو حق تعالیٰ شانہ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں : ''کیا بدلہ ہے اْس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو؟'' وہ عرض کرتے ہیں : ''اے ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اْس کا بدلہ یہی ہے کہ اْس کی مزدوری اْس کو پوری پوری دے دی جائے۔'' تو حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں : ''اے میرے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اْن کو رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطاکردی۔'' اور بندوں سے خطاب فرماکر ارشاد ہوتا ہے:
''اے میرے بندو!مجھ سے مانگو! میری عزت کی قسم ، میرے جلال کی قسم! آج کے دِن اپنے اِس اِجتماع میں مجھ سے اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے میں پورا کروں گا اور دْنیا کے بارے میں جو سوال کروگے اْس میں تمہاری مصلحت دیکھوں گا۔ میری عزت کی قسم !جب تک تم میرا خیال رکھوگے میں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (اور اْن کو چھپاتا رہوں گا)، میری عزت کی قسم اور میرے جلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں (اور کافروں) کے سامنے ذلیل اور رْسوا نہیں کروں گا۔ بس! اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ ! تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔''پس فرشتے اِس اجر و ثواب کو دیکھ کر جو اِس اْمت کو افطار (یعنی عید الفطر )کے دِن ملتا ہے خوشیاں مناتے ہیں اورکھِل جاتے ہیں۔ اﷲ سے دعا ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہ ہو جو اس ماہ رمضان میں اپنی بخشش کا پروانہ لینے میں ناکام ٹھہرے۔ آمین