اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے

خبر گرم ہے کہ بی جے پی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے پر تُلی ہوئی ہے


Shakeel Farooqi April 29, 2022
[email protected]

PESHAWAR: خبر گرم ہے کہ بی جے پی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ بی جے پی سرکار اب مساجد میں دی جانے والی اذان پر بھی پابندی عائد کرنے جارہی ہے جس کے لیے بہانہ یہ تراشا گیا ہے کہ اِس کے شور سے لوگ ڈسٹرب ہوتے ہیں۔

مودی سرکار کا بس نہیں چلتا کہ وہ مسلمانوں کے سانس لینے پر بھی پابندی عائد کردے۔جب سے یہ سرکار برسرِاقتدار آئی ہے اس نے مسلمانوں پر اتیا چار ڈھانے کا عہد کر رکھا ہے۔ بھارت کے مسلمانوں کی تعداد ہندو آبادی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے اسی لیے انھیں اقلیت کہنے کے بجائے دوسری بڑی اکثریت کہنا زیادہ درست ہوگا۔ سرکاری اعداد و شمار میں بھارتی مسلمانوں کی آبادی کو ہمیشہ کم کرکے دکھایا جاتا ہے جو سراسر غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے۔

ایک اندازہ کے مطابق یہ تعداد بائیس تئیس کروڑ کے لگ بھگ ہے جو کہ وطن عزیز پاکستان کے شہریوں کی کل تعداد کے برابر ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود یہ صورتحال کیوں ہے؟ آئیے اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اتحاد بین المسلمین میں اسلام اور مسلمانوں کی اصل قوت مضمر ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ مسلمان اس ڈگر سے ہٹ گئے اور بھارت کے ہندوؤں کی طرح ذات پات اور معاشی ناہمواری کی گرداب میں پھنس گئے۔رہی سہی کسر فرقوں کی تفریق نے پوری کر دی۔ عالم یہ ہے کہ کوئی اپنے شیعہ ہونے پر فخر کرتا ہے تو کوئی سُنی کہلانے پر۔ مختلف مسالک نے اس تقسیم کو خلیج کی شکل دے دی ہے۔ کوئی دیوبندی ہے اور کوئی بریلوی۔ کوئی خود کو اہلِ سنت کہلواتا ہے تو کوئی اہلِ حدیث کہلوانے پر فخر کرتا ہے۔ بقولِ اقبالؔ:

یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جا رہی ہے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کوئی ایک دوسرے کو مسلمان ہی نہیں مانتا اور ہر ایک اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ کی رَوِش پر چلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔کسی ایک جماعت کے جھنڈے تلے اکٹھے ہونے کے بجائے بھارتی مسلمان مختلف ٹولیوں میں بَٹے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں اُن کی قوت اتنی نہیں جتنی اجتماعی طور پر ہونا چاہیے۔

صرف بھارتی مسلمان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی ناکامی اور پسپائی کا بنیادی سبب بھی یہی ہے ورنہ سارے جہاں کی حکمرانی آج انھی کے ہاتھوں میں ہوتی۔اب ذرا اِس بات پر غور فرمائیے کہ دنیا میں جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں وہاں کی سرزمین کو بھی اللہ تعالی نے کسی نہ کسی قِسم کے قدرتی وسائل سے نوازا ہوا ہے۔یہ ربِ کریم کی ایمان والوں پر خصوصی مہربانی اور فضل و کرم ہے۔

یہ اور بات ہے کہ وہ ناشکری اور نافرمانی کی سزا کے طور پر ذلت اور خواری کا شکار ہوں۔عقائد، مسالک اور فرقہ واریت سے بالاتر ہوکر اگر بھارت کے مسلمان ایک جھنڈے تلے جمع ہوجائیں تو وہ آج بھی ایک بہت بڑی قوت ہیں جسے دبانا یا کُچلنا اتنا آسان نہیں۔علامہ اقبالؔ نے اِسی بات کو کمال خوبی کے ساتھ اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

بھارتی مسلمانوں کی دوسری بڑی کمزوری علم حاصل کرنے کی دوڑ میں پیچھے رہ جانا ہے حالانکہ انھیں تلقین کی گئی ہے کہ '' علم حاصل کرو خواہ اس کے لیے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔''اُن کی معاشی زبوں حالی کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔ کاش! بھارت کے مسلمان اپنی خامیوں کو پہچان لیں اور احکامِ الٰہی پر سختی سے عمل کرتے ہوئے اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور خود کو ایکتا کے بندھن میں باندھ لیں۔ اُن کے لیے یہ پیغام باعث نجات ہوگا:

اٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے

پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے

بھارتی ریاست کیرل میں آباد مسلمان دیگر علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ایک قابل تقلید رول ماڈل ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں پیش پیش ہیں اور کامیابی کی روشن مثال ہیں۔اُن کی معاشی، معاشرتی اور سیاسی حالت دوسروں سے بہتر اور بڑھ چڑھ کر ہے۔ اِس کا سب سے بڑا سبب تعلیم کے میدان میں اُن کی نمایاں برتری ہے،اگر بھارت کے دیگر علاقوں کے مسلمان بھی اِسی روش پر گامزن ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ پسماندگی کے دلدل سے باہر نہ نکل سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں