قرآن …اﷲ کی زندہ حجت
رمضان المبارک کا مہینہ اپنی آخری ساعتوں میں ہے اس مبارک مہینے کو قرآن سے خصوصی نسبت ہے
رمضان المبارک کا مہینہ اپنی آخری ساعتوں میں ہے اس مبارک مہینے کو قرآن سے خصوصی نسبت ہے۔ قرآن ربِ کائنات کا رہتی دنیا تک آخری اور مکمل پیغام ہے۔قرآنِ کریم سے پہلے جتنی بھی الہامی کتب موجود تھیں،ان میں سے کسی کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ حرف بہ حرف اﷲ کا کلام ہے۔قرآنِ کریم ایک ایسی قوم میں نازل ہوا جس کی اپنی کوئی تہذیب نہیں تھی۔ سیدنا اسمٰعیل ؑ کے بعد یہاں کوئی نبی نہیں آیا تھا۔
عرب کی سرزمین ایک ایسا لق و دق صحرا تھی جہاں کبھی کوئی باقاعدہ حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ یہاں کے اس دور کے باشندوں نے کوئی تہذیب نہیں چھوڑی،کوئی Architecture نہیں چھوڑا۔کوئی آرٹ نہیں چھوڑا۔ Oralشاعری کے علاوہ کوئی ادب نہیں چھوڑا،کوئی موسیقی نہیں چھوڑی،کوئی تاریخ نہیں چھوڑی۔ قرآن اﷲ کا وہ معجزہ ہے کہ ایسی قوم میں ایک ایسی پاک ہستی پر نازل ہوا جس نے کبھی کسی کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا تھا۔
اس بیک گراؤنڈ کے باوجود Believers n non believersسبھی اس بات کو مانتے ہیں کہ قرآن ایکHighly developed, sophisticated scriptural work ہے۔یہ تمام الہامی کتابوں میں واحد کتاب ہے جو اپنے قاری کو عقل استعمال کرنے،سوچنے ،سمجھنے غرضیکہ use of reason کی دعوت دیتی ہے۔اس کتاب کی ہر دسویں آیت سائنسی معلومات پر مبنی ہے۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ایسی کوئی اور الہامی کتاب نہیں۔
قرآن کثرت سے پڑھی جانے والی کتاب ہے۔مسلمانوں کی اکثریت دن، رات کے مختلف اوقات میں اس کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور تلاوت کرتی ہے۔ہر نماز میں قرآن کی تلاوت ہوتی ہے۔ قرآن فرقان ہے۔دینِ اسلام میں مختلف افکار، مختلف زاویہء نظر کا فیصلہ قرآن سے ہو گا۔کتاب اﷲ بتائے گی کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا ٹھیک نہیں ہے۔قرآن ایک ایسی Amazing کتاب ہے جو اپنے بارے میںاتنی معلومات فراہم کرتی ہے کہ کوئی پہلو تشنہ نہیں رہتا۔ قرآن سے پہلے یا بعد، جتنی بھی کتابیں اور صحائف ملتے ہیں ان میں سے کسی کے بارے میں بھی ایسی اور اتنی معلومات فراہم نہیں ہوتیں۔قرآن خود گویا ہوتا ہے کہ یہ اﷲ کی کتاب ہے۔
قرآن اس وسیع و عریض کائنات کے مالک کے بارے میں بھی جابجا معلومات فراہم کرتا ہے۔سورۃ واقعہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ یہ کلام اﷲ ر ب ا لعالمین کا نازل کردہ ہے۔اسی طرح سورۃ یوسف کی آیت نمبر2 میں بتایا گیا ہے کہ یہ قرآن عربی مبین میں اتارا گیا۔قرآن میں جہاں اﷲ اپنا تعارف رب العالمین کے طور پر کرواتا ہے وہیں اپنے اس کلام کو سورۃ اعراف آیت نمبر3میں ذکراللعالمین بتاتا ہے اور جس پاک ہستی پر نازل کیا گیا ہے اسے رحمت اللعالمین اور خاتم النبییینﷺ کہتا ہے۔
قرآنِ مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اسلام کوئی نیا دین نہیں جو محمدﷺ سے شروع ہوا۔قرآن اﷲ کے مبعوث کردہ انبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ ہر قوم کی طرف ہدایت کرنے والا بھیجا گیا۔سورۃ آلِ عمران کی آیت نمبر 3 اور سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 68میں اس بات کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ اﷲ کا یہ کلام پچھلی کتابوں سے جڑی ہوئی دعوت ہے جو اب تا قیامت اﷲ کے آخری پیغام کی شکل میں موجود رہے گا۔
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 97 اور سورۃ النحل کی آیت نمبر 102 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اس کتاب کو نبی کے پاس لے کر آنے والا روح القدس معزز ومکرم فرشتہ جبرائیل ؑہے۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 185 میں بتایا گیا ہے کہ قرآن رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا۔سورۃ القدر میں بتایا گیا کہ اﷲ کا یہ آخری کلام لیلۃ القدر میں نازل ہوا،یہ ایک ایسی خیر و برکت والی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔قرآنِ مجید ہمیں اس بات سے بھی مطلع فرماتا ہے کہ ابتدا میں سب بنی آدمؑ ہدایت پر تھے پھر آہستہ آہستہ اختلافات پیدا ہوئے۔
یہ اطلاع سورۃ البقرہ کی آیت 217 اور سورۃ یونس کی آیت 19میں ملتی ہے۔سورۃ النساء کی آیت166 میں ارشاد ہوتا ہے کہ قرآن کے اﷲ کی طرف سے نازل ہونے پر خود اﷲ اور اس کے تمام فرشتے گواہ ہیں۔سورۃ آلِ عمران کی آیت 5میں فرمایا گیا کہ وہ جو قرآن کی آیات کا انکار کرنے والے ہیں انھیں شدید عذاب سے دوچار ہونا ہو گا۔
قرآن مجید کے نزول سے پہلے صحائف اور کتب ایک ہی دفعہ میںانبیاء کو عطا فرمائی گئیں جب کہ قرآن بتدریج تحریکِ اسلامی کے حالات اور ضروریات کے مطابق نازل ہوا۔تاریخی ریکارڈ کے مطابق مکمل قرآن 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔ سورۃ النحل کی آیت 102 ہمیں قرآن کے بتدریج نزول کا پتہ دیتی ہے۔ سورۃ الحجر کی آیت 9میں اﷲ عزو جل یہ فرماتا ہے کہ اس کو ہم نے نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔یہ اﷲ کی حفاظت ہی ہے جس کی وجہ سے قرآن آج ہو بہو اسی حالت میں ہے جس میں رسول اﷲ ہمیں دے کر گئے۔قرآن خود ہی اس کے پڑھنے اور سننے کے آداب متعین کرتا ہے۔
النحل کی آیت 98میں ارشاد ہوتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کا شرف حاصل کرنے سے پہلے تعوذ پڑھ لینا چاہیے اور سورۃ اعراف کی آیت 204 میں حکم ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی اور غور سے سنو۔سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 82 اور اعراف کی آیت 52میں آواز دی گئی کہ اﷲ کا یہ کلام ایمان لانے والوں کو ہدایت بھی فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ شفاء اور رحمت ہے۔
سورۃ الشعرا آیت 198میں بتایا گیا ہے کہ روح الامین،رب العالمین کی طرف سے اسے لے کر سیدی و سیدنا محمدﷺ کے قلبِ اطہر پر اترا ہے۔سورۃ الکھف کی آیت 27میں یہ فرمان موجود ہے کہ کلامِ الٰہی کے فرمودات کو اﷲ کے سوا کوئی بدل نہیں سکتا۔سورۃ مائدہ میں اﷲ اپنے رسول کو فرما رہا ہے کہ رسول کا کام یہ ہے کہ اﷲ کا پیغام من و عن سارے کا سارا پہنچا دے اور دینِ اسلام کے پیروکاروں کو قرآن حکم دیتا ہے کہ میرا رسول جو دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے، رک جاؤ۔
یہ وہ کتاب ہے جس کا احاطہ ممکن نہیں اس لیے قرآن کھلا چیلنج دیتا ہے کہ ساری مخلوق مل کر بھی اس کی ایک سورۃ جیسا کلام لا سکتی ہے تو لے آئے۔ایسا ہرگز ممکن نہیں۔رسول اﷲ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد قرآنِ مجید اﷲ کی طرف سے ایک زندہ حجت ہے۔خوش نصیب ہیں وہ جو قرآن کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں اور اپنی زندگی اس نور کی روشنی میں بسر کرتے ہیں۔یہی لوگ ابدی فلاح پانے والے ہیں۔
عرب کی سرزمین ایک ایسا لق و دق صحرا تھی جہاں کبھی کوئی باقاعدہ حکومت قائم نہیں ہوئی تھی۔ یہاں کے اس دور کے باشندوں نے کوئی تہذیب نہیں چھوڑی،کوئی Architecture نہیں چھوڑا۔کوئی آرٹ نہیں چھوڑا۔ Oralشاعری کے علاوہ کوئی ادب نہیں چھوڑا،کوئی موسیقی نہیں چھوڑی،کوئی تاریخ نہیں چھوڑی۔ قرآن اﷲ کا وہ معجزہ ہے کہ ایسی قوم میں ایک ایسی پاک ہستی پر نازل ہوا جس نے کبھی کسی کے سامنے زانوئے تلمذ طے نہیں کیا تھا۔
اس بیک گراؤنڈ کے باوجود Believers n non believersسبھی اس بات کو مانتے ہیں کہ قرآن ایکHighly developed, sophisticated scriptural work ہے۔یہ تمام الہامی کتابوں میں واحد کتاب ہے جو اپنے قاری کو عقل استعمال کرنے،سوچنے ،سمجھنے غرضیکہ use of reason کی دعوت دیتی ہے۔اس کتاب کی ہر دسویں آیت سائنسی معلومات پر مبنی ہے۔ یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ایسی کوئی اور الہامی کتاب نہیں۔
قرآن کثرت سے پڑھی جانے والی کتاب ہے۔مسلمانوں کی اکثریت دن، رات کے مختلف اوقات میں اس کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور تلاوت کرتی ہے۔ہر نماز میں قرآن کی تلاوت ہوتی ہے۔ قرآن فرقان ہے۔دینِ اسلام میں مختلف افکار، مختلف زاویہء نظر کا فیصلہ قرآن سے ہو گا۔کتاب اﷲ بتائے گی کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا ٹھیک نہیں ہے۔قرآن ایک ایسی Amazing کتاب ہے جو اپنے بارے میںاتنی معلومات فراہم کرتی ہے کہ کوئی پہلو تشنہ نہیں رہتا۔ قرآن سے پہلے یا بعد، جتنی بھی کتابیں اور صحائف ملتے ہیں ان میں سے کسی کے بارے میں بھی ایسی اور اتنی معلومات فراہم نہیں ہوتیں۔قرآن خود گویا ہوتا ہے کہ یہ اﷲ کی کتاب ہے۔
قرآن اس وسیع و عریض کائنات کے مالک کے بارے میں بھی جابجا معلومات فراہم کرتا ہے۔سورۃ واقعہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ یہ کلام اﷲ ر ب ا لعالمین کا نازل کردہ ہے۔اسی طرح سورۃ یوسف کی آیت نمبر2 میں بتایا گیا ہے کہ یہ قرآن عربی مبین میں اتارا گیا۔قرآن میں جہاں اﷲ اپنا تعارف رب العالمین کے طور پر کرواتا ہے وہیں اپنے اس کلام کو سورۃ اعراف آیت نمبر3میں ذکراللعالمین بتاتا ہے اور جس پاک ہستی پر نازل کیا گیا ہے اسے رحمت اللعالمین اور خاتم النبییینﷺ کہتا ہے۔
قرآنِ مجید ہمیں بتاتا ہے کہ اسلام کوئی نیا دین نہیں جو محمدﷺ سے شروع ہوا۔قرآن اﷲ کے مبعوث کردہ انبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ ہر قوم کی طرف ہدایت کرنے والا بھیجا گیا۔سورۃ آلِ عمران کی آیت نمبر 3 اور سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 68میں اس بات کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ اﷲ کا یہ کلام پچھلی کتابوں سے جڑی ہوئی دعوت ہے جو اب تا قیامت اﷲ کے آخری پیغام کی شکل میں موجود رہے گا۔
سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 97 اور سورۃ النحل کی آیت نمبر 102 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اس کتاب کو نبی کے پاس لے کر آنے والا روح القدس معزز ومکرم فرشتہ جبرائیل ؑہے۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 185 میں بتایا گیا ہے کہ قرآن رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا۔سورۃ القدر میں بتایا گیا کہ اﷲ کا یہ آخری کلام لیلۃ القدر میں نازل ہوا،یہ ایک ایسی خیر و برکت والی رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔قرآنِ مجید ہمیں اس بات سے بھی مطلع فرماتا ہے کہ ابتدا میں سب بنی آدمؑ ہدایت پر تھے پھر آہستہ آہستہ اختلافات پیدا ہوئے۔
یہ اطلاع سورۃ البقرہ کی آیت 217 اور سورۃ یونس کی آیت 19میں ملتی ہے۔سورۃ النساء کی آیت166 میں ارشاد ہوتا ہے کہ قرآن کے اﷲ کی طرف سے نازل ہونے پر خود اﷲ اور اس کے تمام فرشتے گواہ ہیں۔سورۃ آلِ عمران کی آیت 5میں فرمایا گیا کہ وہ جو قرآن کی آیات کا انکار کرنے والے ہیں انھیں شدید عذاب سے دوچار ہونا ہو گا۔
قرآن مجید کے نزول سے پہلے صحائف اور کتب ایک ہی دفعہ میںانبیاء کو عطا فرمائی گئیں جب کہ قرآن بتدریج تحریکِ اسلامی کے حالات اور ضروریات کے مطابق نازل ہوا۔تاریخی ریکارڈ کے مطابق مکمل قرآن 23 سال کے عرصے میں نازل ہوا۔ سورۃ النحل کی آیت 102 ہمیں قرآن کے بتدریج نزول کا پتہ دیتی ہے۔ سورۃ الحجر کی آیت 9میں اﷲ عزو جل یہ فرماتا ہے کہ اس کو ہم نے نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔یہ اﷲ کی حفاظت ہی ہے جس کی وجہ سے قرآن آج ہو بہو اسی حالت میں ہے جس میں رسول اﷲ ہمیں دے کر گئے۔قرآن خود ہی اس کے پڑھنے اور سننے کے آداب متعین کرتا ہے۔
النحل کی آیت 98میں ارشاد ہوتا ہے کہ قرآن کی تلاوت کا شرف حاصل کرنے سے پہلے تعوذ پڑھ لینا چاہیے اور سورۃ اعراف کی آیت 204 میں حکم ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی اور غور سے سنو۔سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 82 اور اعراف کی آیت 52میں آواز دی گئی کہ اﷲ کا یہ کلام ایمان لانے والوں کو ہدایت بھی فراہم کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ شفاء اور رحمت ہے۔
سورۃ الشعرا آیت 198میں بتایا گیا ہے کہ روح الامین،رب العالمین کی طرف سے اسے لے کر سیدی و سیدنا محمدﷺ کے قلبِ اطہر پر اترا ہے۔سورۃ الکھف کی آیت 27میں یہ فرمان موجود ہے کہ کلامِ الٰہی کے فرمودات کو اﷲ کے سوا کوئی بدل نہیں سکتا۔سورۃ مائدہ میں اﷲ اپنے رسول کو فرما رہا ہے کہ رسول کا کام یہ ہے کہ اﷲ کا پیغام من و عن سارے کا سارا پہنچا دے اور دینِ اسلام کے پیروکاروں کو قرآن حکم دیتا ہے کہ میرا رسول جو دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے، رک جاؤ۔
یہ وہ کتاب ہے جس کا احاطہ ممکن نہیں اس لیے قرآن کھلا چیلنج دیتا ہے کہ ساری مخلوق مل کر بھی اس کی ایک سورۃ جیسا کلام لا سکتی ہے تو لے آئے۔ایسا ہرگز ممکن نہیں۔رسول اﷲ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد قرآنِ مجید اﷲ کی طرف سے ایک زندہ حجت ہے۔خوش نصیب ہیں وہ جو قرآن کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں اور اپنی زندگی اس نور کی روشنی میں بسر کرتے ہیں۔یہی لوگ ابدی فلاح پانے والے ہیں۔