چائلڈ لیبر ایک سنگین مسئلہ
بچے کسی بھی قوم کے مستقبل کی شناخت ہوتے ہیں
RAWALPINDI:
بچے کسی بھی قوم کے مستقبل کی شناخت ہوتے ہیں بچوں کی تعلیم و تربیت جہاں والدین کی ذمے داری ہوتی ہے ، وہاں ریاست کے بھی فرائض میں شامل ہوتا ہے کہ بچوں کو تعلیم دلانے میں اہم کردار ادا کرے۔ پاکستان کے آئین میں ریاست نے بچوں کی میٹرک تک کی تعلیم کی ذمے داری خود سنبھالی ہے لیکن آئین کے دیگر آرٹیکلزکی طرح اس آرٹیکلز پر بھی عمل درآمد نہیں کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے ہر صوبے میں لاکھوں بچے تعلیم سے محروم ہیں اور اپنے خاندان کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ معصوم بچے جن کے ہاتھوں میں قلم اورکتابیں ہونی چاہی تھیں ہوٹلوں، کارخانوں ، کھیتوں، قالین بانی کی صنعت اور دیگر پرائیویٹ اداروں میں کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
سیکڑوں بچے گندگی اور غلاظت کے علاقوں میں کاغذ چنتے نظر آتے ہیں۔ یہ خطرناک صورتحال ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آئین کی ضمانت کے باوجود بچوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
خصوصاً شہروں کی مضافاتی بستیوں اور دیہاتوں میں بچوں کی تعلیم کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے ، ہر سال ایک بڑی رقم تعلیم کے لیے مختص کی جاتی ہے لیکن مطلوبہ اہداف آج تک حاصل نہیں کیے گئے ہیں۔ پاکستان کی مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں بچوں کی مزدوری کے استعمال کی سب سے اہم وجہ غربت ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر خاندان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں اسے والدین کا اپنے بچوں کو کام پر بھیجنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا ہے تاکہ وہ خاندانی آمدنی میں اضافہ کرسکیں۔ روز بروز بڑھتی مہنگائی معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقے کو سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے۔
معصوم بچوں کو آپ ہر مقام پر کام کرتے دیکھتے ہیں دکانوں پر یہ محنت کرتے نظر آتے ہیں، پرائیویٹ اداروں میں ان سے مشقت لی جاتی ہے بسوں، منی بسوں میں یہ کنڈیکٹر کے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔
کھیتوں میں یہ کام کرتے ہیں سوال یہ ہے کہ ان بچوں کے مستقبل کو تاریک کرنے کا ذمے دارکون ہے؟ ان کے والدین یا ریاست؟ اکثر والدین غربت کی وجہ سے بچوں کو تعلیم دلانے سے قاصر ہیں یہ ایک پیچیدہ سماجی اور معاشی مسئلہ بھی ہے جس پر توجہ نہیں دی جاتی۔ والدین کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ بچوں کو تعلیم دلائیں لیکن جن والدین کے پاس اپنے گھرکے اخراجات پورے کرنے کے لیے رقم نہیں ہوتی وہ مجبوراً اپنے بچوں سے جبری مشقت کراتے ہیں۔ ان حالات میں ریاست کا فرض ہے کہ وہ ان بچوں کو ظالمانہ جبری مشقت کے چْنگل سے نجات دلائے غریب والدین کو عزت و آبرو کے ساتھ زندہ رکھنے کے لیے انھیں معاشی استحکام فراہم کرے ایسے غریب والدین جو اپنے بچوں کو پڑھانے کے قابل نہیں ہیں اْنہیں وظیفہ ملنا چاہیے۔
حکومت کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ بچوں کی جبری مشقت کے قوانین میں اٹھارویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد آرٹیکل 25-A میں ایسی ترمیم کرے کہ بچوں کی جبری مشقت کا ملک سے مکمل طور پر خاتمہ کیا جائے۔
اس کے علاوہ بچوں کی ملازمت کے ایکٹ میں بھی ترمیم کرنا ضروری ہے اس ایکٹ میں ایسی تبدیلیاں ضروری ہیں کہ کوئی بھی ادارہ اور شخص بچوں سے غیر انسانی حالات میں جبری مشقت نہ لے۔ اس طرح صنعتی تعلقات کے ایکٹ 2008میں ترمیم کے لیے بھی وسیع تر اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ اینٹوں کے بھٹوں سے لے کر دیہاتوں میں کھیتوں میں کام کرنے والے بچوں کے حقوق کا تحفظ بہت ضروری ہے اس طرح سوشل سیکیورٹی سے تعلق رکھنے والے اداروں کو بھی معصوم ملازمین بچوں کا استحصال کرنے والوں کا احتساب کرنا چاہیے۔ 1992کا جو ایکٹ Bonded Labour Abolition (System) کے عنوان سے منظور کیا گیا تھا اْس میں بہت خامیاں ہیں۔
1992کے ایکٹ میں بھی قابل عمل ترامیم کا ہونا وقت کا تقاضہ ہے تاکہ جبری مشقت کے غیر انسانی اور غیر اخلاقی نظام کو جڑ سے اکھاڑکر پھینکا جائے۔ اس سلسلے میں اب تاخیر کی گنجائش نہیں ہے۔ سندھ، بلوچستان اور ملک کے بہت سے حصوں میں زرعی معیشت میں جبری مشقت کا ایسا وحشیانہ نظام قائم ہے جو دور جہالت کے دورکی یاد تازہ کراتا ہے۔
کھیتوں پر قائم کرنے والے افراد ، عورتوں، بچوں کی خرید و فروخت کی جاتی ہے اْنہیں زنجیریں پہناکر رکھا جاتا ہے اس ظالمانہ نظام پر احتجاج کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ حکومت اور اْس کے اداروں کو کارروائی کرنی چاہیے۔ قانون بنانا بھی ضروری ہے لیکن اصل کام قانون پر عمل درآمد ہے جس سے ہمارے ملک میں ہمیشہ گریز کیا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ چائلڈ لیبر ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے خاص طور پر وطن عزیز میں جہاں لوگوں کے حقوق کا کوئی پرسان حال نہیں تو وہاں بچوں کے حقوق کس کو یاد رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے سن 2021 کو چائلڈ لیبر کے خاتمے کا سال قرار دیا تھا اور جبری مشقت کی لعنت کو سن 2025 تک ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی اپیل کی تھی مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اب تک کسی بھی سطح پر بچوں کو جبری مشقت سے نجات دلانے کے لیے کوئی کام نہیں ہو سکا۔ بلا شبہ بعض این جی اوز نے اس ضمن میں پیش رفت کی ہے مگر یہ اتنا بڑا چیلنج ہے جس سے صرف این جی اوز نہیں نمٹ سکتیں۔دنیا بھر میں سمندری ماہی گیری کو خطرناک پیشوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے لیکن آج بھی پاکستان میں بچوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کی خاطر سمندر کا رْخ کرتی ہے۔
آپ علی الصبح کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں واقع جیٹی پر معصوم بچوں کو کشتیوں میں بیٹھے سمندری مخلوقات کی صفائی اور چھانٹی میں مشغول دیکھ سکتے ہیں۔ ان بچوں کو جبری مشقت کے باعث صحت کے بھی مسائل درپیش ہوتے ہیں مگر علاج کے لیے کوئی سہولت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ بچوں کی صحت مزید تنزلی کی طرف بڑھتی رہتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ انھی علاقوں سے انتخابات میں کامیاب ہونے والے سیاست دان الیکشن کے بعد کبھی پلٹ کر بھی اس جانب نہیں آتے۔
بچوں کی جبری مشقت کے نظام کے خاتمے کے لیے سیاسی و مذہبی جماعتوں، انسانی حقوق کے اداروں، سول سوسائٹی کے ارکان اور عدلیہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ایک مضبوط و مستحکم پاکستانی قوم کی تشکیل کے لیے معصوم مظلوم بچوں کو ظالمانہ نظام سے نجات دلانے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور بچوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے ارکان پارلیمنٹ کو مثالی قانون سازی کرنی ہوگی۔ جبری مشقت کے ضابطوں پر عملدرآمد اور مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے اجتماعی لائحہ عمل طے کرنا بھی قومی مفاد میں ہوگا۔