عمران خان کے پجاری اور مسجد نبویؐ کا احترام
موقف کچھ بھی ہو لیکن مسجد نبویؐ کے تقدس کی پامالی کسی صورت قابل معافی نہیں
TAIPEI:
اگر کچھ دیر کےلیے پی ٹی آئی کے حامیوں کی یا یوں کہہ لیجئے کہ عمران خان کے پجاریوں کی بات مان لی جائے کہ یہ حکومت باہر سے مسلط کی گئی ہے، یہ لوگ کرپٹ ترین ہیں، ان میں آدھے سے زائد ضمانتوں پر ہیں، اور جو نہیں ہیں انہیں بھی جیل جانا چاہیے وغیرہ۔ اس سب کے باوجود آپ کا یہ جرم قابل معافی نہیں ہے کہ آپ حضرات مسجد نبویؐ میں ان کے خلاف نعرے بازی کریں، انہیں باآواز بلند، چور چور، غدار کہتے ہوئے مسجد نبویؐ کے تقدس کو پامال کریں۔
کیونکہ آپؐ کے روزۂ مبارک کے عین اوپر سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 2 لکھی ہوئی ہے، جس کا ترجمہ ہے۔
جنہوں نے یہ ناپاک جسارت کی ہے صرف وہی مجرم نہیں بلکہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں کہ مسلط شدہ حکومت کے نمائندوں کا ہر جگہ چور چور اور غدار کے نعروں سے استقبال کیا جائے گا، یا وہ لوگ جو اس کے جواز میں مریم نواز کا ماضی کا یہ ٹوئٹ پیش کررہے ہیں جس میں وہ ایک شخص کی عمران خان پر خانہ کعبہ کے اندر جملہ بازی پر فرمارہی ہیں ''جھوٹے اور بہتان باز کو کیا کچھ سننا پڑ رہا ہے، اور ابھی تو آغاز ہے،''
یا پھر وہ احباب جو خان صاحب اور خاور مانیکا کی مخالفین کی جانب سے ایڈٹ شدہ تصویروں کو جواز کے طور پر پیش کررہے ہیں، سب ہی شریک جرم ہیں۔ کیونکہ اس مقدس جگہ کی بے اکرامی کے بار ے میں کوئی جواز قابل قبول نہیں۔ نہ ماضی میں، نہ آج اورنہ مستقبل میں کبھی۔
مستقبل میں کیا ہوسکتا ہے؟
اگر پاکستانیوں نے اپنی روش نہ بدلی تو عین ممکن ہے کہ مستقبل میں سعودی حکومت اپنے مہمانوں کے احترام کو یقینی بنانے کےلیے کسی غیر ملکی مہمان کی آمد کے موقع پر بالخصوص پاکستان کے سرکاری وفد کی آمد کی صورت میں حرم پاک کو خالی کروا لیا کرے، یا پھر کم ازکم حرم سے چن چن کر پاکستانیوں کا ایک مخصوص وقت یا پھر اس دن کےلیے حرم میں پاکستانیوں کا داخلہ بند کرنے جیسے اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوجائے، تاکہ کسی قسم کی بدمزگی سے بچا جاسکے۔
آپ کچھ دیر کےلیے تصور کیجیے کہ کس قدر شرمندگی اور ذلت ہوگی جب پولیس والے کارڈ چیک کرکے پاکستانیوں کو حرم سے باہر نکال رہے ہوں گے۔ یا دوسروں کو داخلے کی اجازت مل رہی ہوگی اور آپ کو واپس کیا جارہا ہوگا۔ اور پھر اس ذلت کا شکار تمام پارٹیوں کے حامی ہوں گے۔ اور دائمی گناہ ان لوگوں کے نامہ اعمال میں درج ہوگا جنہوں نے اس گناہ جاریہ کی ابتدا کی ہوگی۔
اگر نعرے بازی نہ کریں تو کیا کریں؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام اگر نعرے بازی نہ کریں تو کیا کریں؟ کس طرح اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے، کس طرح غلط لوگو ں کو مسلط ہونے سے روکے، کیسے اپنے حکمرانوں کو راہ راست پر لے آئے؟
اس کےلیے سب سے آسان اور قانونی راستہ الیکشن ہیں۔ آپ جس کو پسند کرتے ہیں، جسے ایماندار سمجھتے ہیں، اسے الیکشن کے ذریعے کامیاب کریں، اور کم ازکم دو تہائی اکثریت سے کامیاب کریں تاکہ وہ بیساکھیوں کا محتاج نہ ہو۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ خود کو ٹھیک کرلیں۔ چوری، ڈاکا، بدکاری، ناپ تول میں کمی، حق تلفی، حقوق العباد میں کٹوتی، بہنوں، بیٹیوں کا حق مارنا، عبادت الہٰی میں ڈنڈی مارنا وغیرہ چھوڑ کر راہ راست پر آجائیں۔ کیونکہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ/ مفہوم) خشکی اور تری میں جو فساد ہے وہ انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔
اہل علم لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ تمھارے اعمال ہی تمھارے حکمران ہیں۔ اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ آپ کے حکمران ڈاکو چور، لٹیرے ہیں تو پھر مان لیجیے کہ آپ بھی ایسے ہی ہیں۔ اگرچہ آپ ملکی خزانے کی چوری نہیں کررہے، کیونکہ اس پر آپ کا اختیار نہیں ہے، لیکن عین ممکن ہے آپ چھوٹی چوری کررہے ہوں جس پر آپ کا اختیار ہے۔ مثال کے طور پر ہوسکتا ہے آپ نے بہن، بیٹی کی وراثت پر ڈاکا ڈالا ہو۔ ہوسکتا ہے آپ ناپ تول میں کمی کررہے ہوں۔ اگر آپ رشوت لینے پر قادر ہیں، ہوسکتا ہے آپ رشوت لے رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ ملکی سطح پر ظالم نہ ہوں لیکن محلے کی سطح پر، گلی یا پڑوسی یا پھر خاندان کی حد تک اور نہیں تو کم از کم بیوی کےلیے ایک ظالم شخص ہوں۔ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو حکمرانوں کے بارے میں شکوہ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ جیسے تم ویسے ہی تمھارے حکمران۔
اور یہ حکمران الیکشن، نعروں، چور چور کہنے یا امپورٹڈ حکومت کا ہیش ٹیگ بنانے، یا مسجد نبویؐ کا تقدس پامال کرنے سے نہیں جائیں گے۔ بلکہ خود کو درست کرنے، اپنی اصلاح کرنے سے ٹھیک ہوں گے یا پھر تبدیل ہوں گے۔ وگرنہ لاکھ مولانا طارق جمیل شب دعا میں التجائیں کریں، کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ نعرے لگانے والے بھی مجرم ٹھہریں گے، ان کے حامی بھی پکڑ میں آئیں گے اور عین ممکن ہے کہ کل تک سب مولانا، طارق جمیل کی طرح صرف ایک پارٹی کی چھاپ لگوا لیں۔
پی ٹی آئی کے وزرا لوگوں کو پہلے ہی ایسی کسی حرکت کے لیے اُکسا رہے تھے۔ کیا یہ باتیں مولانا طارق جمیل کے سامنے نہیں آئی ہوں گی؟ انھوں نے لوگوں کو ایسا کرنے سے روکنے کے لیے کوئی پیشگی بیان کیوں نہیں دیا؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر کچھ دیر کےلیے پی ٹی آئی کے حامیوں کی یا یوں کہہ لیجئے کہ عمران خان کے پجاریوں کی بات مان لی جائے کہ یہ حکومت باہر سے مسلط کی گئی ہے، یہ لوگ کرپٹ ترین ہیں، ان میں آدھے سے زائد ضمانتوں پر ہیں، اور جو نہیں ہیں انہیں بھی جیل جانا چاہیے وغیرہ۔ اس سب کے باوجود آپ کا یہ جرم قابل معافی نہیں ہے کہ آپ حضرات مسجد نبویؐ میں ان کے خلاف نعرے بازی کریں، انہیں باآواز بلند، چور چور، غدار کہتے ہوئے مسجد نبویؐ کے تقدس کو پامال کریں۔
کیونکہ آپؐ کے روزۂ مبارک کے عین اوپر سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 2 لکھی ہوئی ہے، جس کا ترجمہ ہے۔
''اے وہ لوگو! جو ایمان لائے، نہ بلند کرو اپنی آوازیں نبیؐ کی آواز پر اور نہ زور سے بولو ان کے روبرو بات کرتے وقت، جس طرح زور سے بولتے ہو ایک دوسرے سے۔ ایسا نہ ہو ضائع ہوجائیں تمھارے اعمال اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔''
جنہوں نے یہ ناپاک جسارت کی ہے صرف وہی مجرم نہیں بلکہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں کہ مسلط شدہ حکومت کے نمائندوں کا ہر جگہ چور چور اور غدار کے نعروں سے استقبال کیا جائے گا، یا وہ لوگ جو اس کے جواز میں مریم نواز کا ماضی کا یہ ٹوئٹ پیش کررہے ہیں جس میں وہ ایک شخص کی عمران خان پر خانہ کعبہ کے اندر جملہ بازی پر فرمارہی ہیں ''جھوٹے اور بہتان باز کو کیا کچھ سننا پڑ رہا ہے، اور ابھی تو آغاز ہے،''
یا پھر وہ احباب جو خان صاحب اور خاور مانیکا کی مخالفین کی جانب سے ایڈٹ شدہ تصویروں کو جواز کے طور پر پیش کررہے ہیں، سب ہی شریک جرم ہیں۔ کیونکہ اس مقدس جگہ کی بے اکرامی کے بار ے میں کوئی جواز قابل قبول نہیں۔ نہ ماضی میں، نہ آج اورنہ مستقبل میں کبھی۔
مستقبل میں کیا ہوسکتا ہے؟
اگر پاکستانیوں نے اپنی روش نہ بدلی تو عین ممکن ہے کہ مستقبل میں سعودی حکومت اپنے مہمانوں کے احترام کو یقینی بنانے کےلیے کسی غیر ملکی مہمان کی آمد کے موقع پر بالخصوص پاکستان کے سرکاری وفد کی آمد کی صورت میں حرم پاک کو خالی کروا لیا کرے، یا پھر کم ازکم حرم سے چن چن کر پاکستانیوں کا ایک مخصوص وقت یا پھر اس دن کےلیے حرم میں پاکستانیوں کا داخلہ بند کرنے جیسے اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوجائے، تاکہ کسی قسم کی بدمزگی سے بچا جاسکے۔
آپ کچھ دیر کےلیے تصور کیجیے کہ کس قدر شرمندگی اور ذلت ہوگی جب پولیس والے کارڈ چیک کرکے پاکستانیوں کو حرم سے باہر نکال رہے ہوں گے۔ یا دوسروں کو داخلے کی اجازت مل رہی ہوگی اور آپ کو واپس کیا جارہا ہوگا۔ اور پھر اس ذلت کا شکار تمام پارٹیوں کے حامی ہوں گے۔ اور دائمی گناہ ان لوگوں کے نامہ اعمال میں درج ہوگا جنہوں نے اس گناہ جاریہ کی ابتدا کی ہوگی۔
اگر نعرے بازی نہ کریں تو کیا کریں؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام اگر نعرے بازی نہ کریں تو کیا کریں؟ کس طرح اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے، کس طرح غلط لوگو ں کو مسلط ہونے سے روکے، کیسے اپنے حکمرانوں کو راہ راست پر لے آئے؟
اس کےلیے سب سے آسان اور قانونی راستہ الیکشن ہیں۔ آپ جس کو پسند کرتے ہیں، جسے ایماندار سمجھتے ہیں، اسے الیکشن کے ذریعے کامیاب کریں، اور کم ازکم دو تہائی اکثریت سے کامیاب کریں تاکہ وہ بیساکھیوں کا محتاج نہ ہو۔
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ خود کو ٹھیک کرلیں۔ چوری، ڈاکا، بدکاری، ناپ تول میں کمی، حق تلفی، حقوق العباد میں کٹوتی، بہنوں، بیٹیوں کا حق مارنا، عبادت الہٰی میں ڈنڈی مارنا وغیرہ چھوڑ کر راہ راست پر آجائیں۔ کیونکہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ/ مفہوم) خشکی اور تری میں جو فساد ہے وہ انسان کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔
اہل علم لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ تمھارے اعمال ہی تمھارے حکمران ہیں۔ اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ آپ کے حکمران ڈاکو چور، لٹیرے ہیں تو پھر مان لیجیے کہ آپ بھی ایسے ہی ہیں۔ اگرچہ آپ ملکی خزانے کی چوری نہیں کررہے، کیونکہ اس پر آپ کا اختیار نہیں ہے، لیکن عین ممکن ہے آپ چھوٹی چوری کررہے ہوں جس پر آپ کا اختیار ہے۔ مثال کے طور پر ہوسکتا ہے آپ نے بہن، بیٹی کی وراثت پر ڈاکا ڈالا ہو۔ ہوسکتا ہے آپ ناپ تول میں کمی کررہے ہوں۔ اگر آپ رشوت لینے پر قادر ہیں، ہوسکتا ہے آپ رشوت لے رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے آپ ملکی سطح پر ظالم نہ ہوں لیکن محلے کی سطح پر، گلی یا پڑوسی یا پھر خاندان کی حد تک اور نہیں تو کم از کم بیوی کےلیے ایک ظالم شخص ہوں۔ اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو حکمرانوں کے بارے میں شکوہ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ جیسے تم ویسے ہی تمھارے حکمران۔
اور یہ حکمران الیکشن، نعروں، چور چور کہنے یا امپورٹڈ حکومت کا ہیش ٹیگ بنانے، یا مسجد نبویؐ کا تقدس پامال کرنے سے نہیں جائیں گے۔ بلکہ خود کو درست کرنے، اپنی اصلاح کرنے سے ٹھیک ہوں گے یا پھر تبدیل ہوں گے۔ وگرنہ لاکھ مولانا طارق جمیل شب دعا میں التجائیں کریں، کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ نعرے لگانے والے بھی مجرم ٹھہریں گے، ان کے حامی بھی پکڑ میں آئیں گے اور عین ممکن ہے کہ کل تک سب مولانا، طارق جمیل کی طرح صرف ایک پارٹی کی چھاپ لگوا لیں۔
پی ٹی آئی کے وزرا لوگوں کو پہلے ہی ایسی کسی حرکت کے لیے اُکسا رہے تھے۔ کیا یہ باتیں مولانا طارق جمیل کے سامنے نہیں آئی ہوں گی؟ انھوں نے لوگوں کو ایسا کرنے سے روکنے کے لیے کوئی پیشگی بیان کیوں نہیں دیا؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔