پاک سعودیہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز
شہباز شریف سعودی عرب اور پاکستان کے باہمی تعلقات کو مزید ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں
وزیراعظم شہبازشریف ان دنوں سعودی عرب کے دورے پر ہیں، وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد ان کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔
دورے کے دوران وزیراعظم پاکستان، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز اور دیگر متعلقہ حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں اقتصادی و تجارتی روابط کو بڑھانے اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے علاوہ سعودی عرب میں پاکستانی افرادی قوت کے لیے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنے کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔ اس موقع پر دونوں دوست ممالک باہمی دلچسپی کے امور خاص طور پر متعدد علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
ایک ایسے وقت میں نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں، جب پاکستان کو بڑھتے ہوئے مالیاتی اور تجارتی خسارے کا سامنا ہے، سعودی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کے زرعی، تیل، گیس، سیاحت، ٹرانسپورٹ، انڈسٹریز آئی ٹی، میڈیا، مواصلات اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی وسیع گنجائش موجود ہے۔سعودی عرب میں20 لاکھ سے زیادہ پاکستانی ورکرز ہیں، جس کے باعث یہ پاکستان کا سب سے بڑا ترسیلات زر کا ذریعہ ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2019 اور اپریل 2020 کے درمیان 4۔4 بلین ڈالرز کی ترسیل ہوئی ہے لیکن ان میں سے زیادہ تر غیر ہنر مند یا نیم ہنر مند لیبر کے زمرے میں آتے ہیں۔ افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد پاکستان کی مغربی سرحد پر نازک صورتحال کا سامنا ہے، مشرقی سرحد کے اس پار بھی انتہا پسند طاقتوں کی وجہ سے مسئلہ کشمیر مزید پیچیدگیوں کا شکار ہے ،اندرونی طور پر معاشی بگاڑ نے سیاسی استحکام کو ہی نہیں بلکہ بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیتوں کو بھی متاثر کر رکھا ہے۔
بلاشبہ شہباز شریف سعودی عرب اور پاکستان کے باہمی تعلقات کو مزید ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔وزارت خزانہ کے ذرایع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ میں پاکستان کو 6 سے 8ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج آسان شرائط پر مل سکتا ہے، انتہائی کم شرح سود پر3ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔ ادھار تیل، ایل این جی اور یوریا کھاد کی سہولت بھی میسر ہوسکتی ہے۔
سعودی عرب کی گارنٹی پر سعودی بینکوں سے سستے قرضوں کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔ پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری بڑھانے، پاکستانی مصنوعات کی برآمدات بڑھانے پر بھی تبادلہ خیال ہوگا۔ تیل کی دولت سے مالا مال مملکت سعودی عرب نے ہر مشکل حالات میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے چاہے وہ 2005 کا تباہ کن زلزلہ ہو یا 2010 کا سیلاب۔ وزیر ِاعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سی پیک اور دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جاسکے گا۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کی فلاح اور خوشحالی کی جدوجہد میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے ۔یہ قابل ِ فخر روایت قیامِ پاکستان سے قبل شروع ہو گئی تھی جب 1940میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد اس وقت کے ولی عہد شہزادہ سعود بن عبدالعزیز نے کراچی کا دورہ کیا اور مرزا ابوالحسن اصفہانی سمیت آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماؤں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔سعودی عرب پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں شامل تھا ۔
1951 میں دونوں ممالک کے مابین دوستی کا معاہدہ بھی ہوا۔ 1954 میں شاہ سعود نے کراچی میں ایک ہاؤسنگ اسکیم کا سنگِ بنیاد رکھا جو سعود آباد کہلائی۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ اور بعد ازاں 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے۔1970 کی دہائی میں شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں دو طرفہ تعلقات کے ایک شاندار دور کا آغاز ہوا۔1974کا او آئی سی لاہور اجلاس اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی پاکستانی عوام کو شاہ فیصل سے محبت تھی۔فیصل مسجد اسلام آباد، فیصل آباد شہر اور شاہراہ فیصل کراچی'فیصل چوک لاہور سب انھی سے منسوب ہیں ۔
1983 میں ہونے والے ایک دو طرفہ دفاعی تعاون کے معاہدے کی رو سے پاکستان سعودی عرب کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے مدد فراہم کرتا ہے۔ 1997میں پاکستان نے اپنی آزادی کی پچاسویں سالگرہ کے موقعے پر او آئی سی کا ایک غیر معمولی اجلاس منعقد کیا تھا جس میں شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے شرکت کی۔ 1998 کے ایٹمی تجربوں کے بعد سخت مغربی پابندیوں میں سعودی عرب نے پاکستان کی ہر طرح سے مدد کی، سعودی قیادت پاکستان کو کبھی مایوس نہیں ہونے دے گی ،موجودہ حکومت پاکستان اگلے عام انتخابات سے قبل ایک مستحکم سیاسی ماحول کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے جو پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے۔
موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہنرمند افرادی قوت کو تربیت دینے کے لیے پیشہ ورانہ ادارے بنانے پر توجہ دے تاکہ پاکستان تیزی سے مسابقتی سعودی لیبر مارکیٹ میں کامیاب ہو سکے۔ پاکستان کے پاس سعودی عرب کی بعد از صنعتی ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے کافی ہنر مند نوجوان موجود ہیں، اس طرح ترسیلات زر کے ذریعے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں پہلا قدم پاکستانیوں کی بھرتی اور مہارت کی تصدیق کے حوالے سے دو طرفہ معاہدوں کے ذریعے پہلے ہی اٹھایا جا چکا ہے، جس سے مملکت میں متنوع پیشوں کے لیے ہنر مند اور تصدیق شدہ کارکنوں کی برآمد کے عمل کو ممکن بنایا جائے گا۔ پاکستان کا نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن اور سعودی حکومت کا ذیلی ادارہ مشترکہ طور پر کنگ ڈم اسکلز ویری فکیشن پروگرام کے تحت اس کام کا انتظام کریں گے، یہ ممکنہ پاکستانی افرادی قوت کو سعودی ترقیاتی شعبے میں کامیاب بھرتی کے لیے ہندوستانی اور دیگر غیر ملکی امیدواروں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل بنائے گا۔
سرمایہ کاری اور تجارت اقتصادی تعاون کے دو دیگر اہم شعبے ہیں جہاں دونوں ممالک کے چیمبرز آف کامرس اور انڈسٹریز کو متعلقہ حکومتی وزارتوں کی مدد سے اپنی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔سعودی حکومت پہلے ہی پاکستان میں ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس کی ترقی اور کان کنی اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں پر 20 بلین ڈالر خرچ کرنے کے لیے پرعزم ہے لیکن پاکستانی معیشت کے دیگر شعبوں میں نجی سعودی کمپنیوں کی طرف سے سرمایہ کاری کی بہت گنجائش ہے۔
پاکستانی شہر سیالکوٹ عالمی سطح پر کھیلوں کے سامان اور آلات جراحی کے مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ سعودی سرمایہ کاری کے لیے ایک مثالی جگہ ہوگی۔ کراچی اور فیصل آباد میں صنعتی زون اس مقصد کے لیے اضافی انتخاب ہو سکتے ہیں۔ پہلے سے طے شدہ ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل پروجیکٹس سعودی پبلک سیکٹر کی سرمایہ کاری کو پاک چین اکنامک کوری ڈور ''سی پیک'' کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں۔ اقتصادی راہداری کے ساتھ متعدد خصوصی اقتصادی زونز کی منصوبہ بند ترقی، جو چین کے شہر سنکیانگ سے نکل کر گوادر پر ختم ہوتی ہے۔
سعودی نجی سرمایہ کاری کو بھی راغب کر سکتی ہے، لہٰذا دونوں ممالک کے چیمبرز آف کامرس اور انڈسٹریز کے نمایندوں کو زیادہ کثرت سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے پاکستان اور سعودی عرب تعلقات کی گہرائی کا اندازہ یہاں سے کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان واحد ملک ہے جس کے پاس مدینہ منورہ میں اپنی پراپرٹی''پاکستان ہاؤس''موجو د ہے دنیا کے کسی اور مسلمان ملک کے پاس مدینہ منورہ میں کوئی پراپرٹی نہیں ہے۔
بلاشبہ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ، پرجوش اور باہمی اعتماد پر مبنی تاریخی تعلقات کی تجدید کا مظہر ہے اور مثالی دوستی کا ایک نیا تاریخی باب کھولے گا، پچھلی کئی دہائیوں سے سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں یہ رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوا ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ نو منتخب پاکستانی وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی کرشماتی قیادت میں یہ مزید بہتر ہو گا۔
سیاسی امور کے ماہرین بھی اس دورے کو انتہائی اہمیت کا حامل قراردے رہے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ موجودہ صورتحال میں پاک، سعودی اقتصادی تعاون میں اضافہ ہوگا۔
دورے کے دوران وزیراعظم پاکستان، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز اور دیگر متعلقہ حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں اقتصادی و تجارتی روابط کو بڑھانے اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے علاوہ سعودی عرب میں پاکستانی افرادی قوت کے لیے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنے کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔ اس موقع پر دونوں دوست ممالک باہمی دلچسپی کے امور خاص طور پر متعدد علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بھی تبادلہ خیال کریں گے۔
ایک ایسے وقت میں نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں، جب پاکستان کو بڑھتے ہوئے مالیاتی اور تجارتی خسارے کا سامنا ہے، سعودی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کے زرعی، تیل، گیس، سیاحت، ٹرانسپورٹ، انڈسٹریز آئی ٹی، میڈیا، مواصلات اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی وسیع گنجائش موجود ہے۔سعودی عرب میں20 لاکھ سے زیادہ پاکستانی ورکرز ہیں، جس کے باعث یہ پاکستان کا سب سے بڑا ترسیلات زر کا ذریعہ ہے۔
اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2019 اور اپریل 2020 کے درمیان 4۔4 بلین ڈالرز کی ترسیل ہوئی ہے لیکن ان میں سے زیادہ تر غیر ہنر مند یا نیم ہنر مند لیبر کے زمرے میں آتے ہیں۔ افغانستان سے امریکا کے انخلا کے بعد پاکستان کی مغربی سرحد پر نازک صورتحال کا سامنا ہے، مشرقی سرحد کے اس پار بھی انتہا پسند طاقتوں کی وجہ سے مسئلہ کشمیر مزید پیچیدگیوں کا شکار ہے ،اندرونی طور پر معاشی بگاڑ نے سیاسی استحکام کو ہی نہیں بلکہ بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کی صلاحیتوں کو بھی متاثر کر رکھا ہے۔
بلاشبہ شہباز شریف سعودی عرب اور پاکستان کے باہمی تعلقات کو مزید ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنے میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔وزارت خزانہ کے ذرایع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ میں پاکستان کو 6 سے 8ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج آسان شرائط پر مل سکتا ہے، انتہائی کم شرح سود پر3ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔ ادھار تیل، ایل این جی اور یوریا کھاد کی سہولت بھی میسر ہوسکتی ہے۔
سعودی عرب کی گارنٹی پر سعودی بینکوں سے سستے قرضوں کی فراہمی ممکن ہو سکے گی۔ پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری بڑھانے، پاکستانی مصنوعات کی برآمدات بڑھانے پر بھی تبادلہ خیال ہوگا۔ تیل کی دولت سے مالا مال مملکت سعودی عرب نے ہر مشکل حالات میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے چاہے وہ 2005 کا تباہ کن زلزلہ ہو یا 2010 کا سیلاب۔ وزیر ِاعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سی پیک اور دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا جاسکے گا۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں تو سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کی فلاح اور خوشحالی کی جدوجہد میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے ۔یہ قابل ِ فخر روایت قیامِ پاکستان سے قبل شروع ہو گئی تھی جب 1940میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے بعد اس وقت کے ولی عہد شہزادہ سعود بن عبدالعزیز نے کراچی کا دورہ کیا اور مرزا ابوالحسن اصفہانی سمیت آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماؤں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔سعودی عرب پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں شامل تھا ۔
1951 میں دونوں ممالک کے مابین دوستی کا معاہدہ بھی ہوا۔ 1954 میں شاہ سعود نے کراچی میں ایک ہاؤسنگ اسکیم کا سنگِ بنیاد رکھا جو سعود آباد کہلائی۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ اور بعد ازاں 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے۔1970 کی دہائی میں شاہ فیصل اور ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں دو طرفہ تعلقات کے ایک شاندار دور کا آغاز ہوا۔1974کا او آئی سی لاہور اجلاس اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی پاکستانی عوام کو شاہ فیصل سے محبت تھی۔فیصل مسجد اسلام آباد، فیصل آباد شہر اور شاہراہ فیصل کراچی'فیصل چوک لاہور سب انھی سے منسوب ہیں ۔
1983 میں ہونے والے ایک دو طرفہ دفاعی تعاون کے معاہدے کی رو سے پاکستان سعودی عرب کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے مدد فراہم کرتا ہے۔ 1997میں پاکستان نے اپنی آزادی کی پچاسویں سالگرہ کے موقعے پر او آئی سی کا ایک غیر معمولی اجلاس منعقد کیا تھا جس میں شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے شرکت کی۔ 1998 کے ایٹمی تجربوں کے بعد سخت مغربی پابندیوں میں سعودی عرب نے پاکستان کی ہر طرح سے مدد کی، سعودی قیادت پاکستان کو کبھی مایوس نہیں ہونے دے گی ،موجودہ حکومت پاکستان اگلے عام انتخابات سے قبل ایک مستحکم سیاسی ماحول کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے جو پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے ضروری ہے۔
موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہنرمند افرادی قوت کو تربیت دینے کے لیے پیشہ ورانہ ادارے بنانے پر توجہ دے تاکہ پاکستان تیزی سے مسابقتی سعودی لیبر مارکیٹ میں کامیاب ہو سکے۔ پاکستان کے پاس سعودی عرب کی بعد از صنعتی ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے کافی ہنر مند نوجوان موجود ہیں، اس طرح ترسیلات زر کے ذریعے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
اس سلسلے میں پہلا قدم پاکستانیوں کی بھرتی اور مہارت کی تصدیق کے حوالے سے دو طرفہ معاہدوں کے ذریعے پہلے ہی اٹھایا جا چکا ہے، جس سے مملکت میں متنوع پیشوں کے لیے ہنر مند اور تصدیق شدہ کارکنوں کی برآمد کے عمل کو ممکن بنایا جائے گا۔ پاکستان کا نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن اور سعودی حکومت کا ذیلی ادارہ مشترکہ طور پر کنگ ڈم اسکلز ویری فکیشن پروگرام کے تحت اس کام کا انتظام کریں گے، یہ ممکنہ پاکستانی افرادی قوت کو سعودی ترقیاتی شعبے میں کامیاب بھرتی کے لیے ہندوستانی اور دیگر غیر ملکی امیدواروں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل بنائے گا۔
سرمایہ کاری اور تجارت اقتصادی تعاون کے دو دیگر اہم شعبے ہیں جہاں دونوں ممالک کے چیمبرز آف کامرس اور انڈسٹریز کو متعلقہ حکومتی وزارتوں کی مدد سے اپنی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔سعودی حکومت پہلے ہی پاکستان میں ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل کمپلیکس کی ترقی اور کان کنی اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں پر 20 بلین ڈالر خرچ کرنے کے لیے پرعزم ہے لیکن پاکستانی معیشت کے دیگر شعبوں میں نجی سعودی کمپنیوں کی طرف سے سرمایہ کاری کی بہت گنجائش ہے۔
پاکستانی شہر سیالکوٹ عالمی سطح پر کھیلوں کے سامان اور آلات جراحی کے مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے اور یہ سعودی سرمایہ کاری کے لیے ایک مثالی جگہ ہوگی۔ کراچی اور فیصل آباد میں صنعتی زون اس مقصد کے لیے اضافی انتخاب ہو سکتے ہیں۔ پہلے سے طے شدہ ریفائنری اور پیٹرو کیمیکل پروجیکٹس سعودی پبلک سیکٹر کی سرمایہ کاری کو پاک چین اکنامک کوری ڈور ''سی پیک'' کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں۔ اقتصادی راہداری کے ساتھ متعدد خصوصی اقتصادی زونز کی منصوبہ بند ترقی، جو چین کے شہر سنکیانگ سے نکل کر گوادر پر ختم ہوتی ہے۔
سعودی نجی سرمایہ کاری کو بھی راغب کر سکتی ہے، لہٰذا دونوں ممالک کے چیمبرز آف کامرس اور انڈسٹریز کے نمایندوں کو زیادہ کثرت سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے پاکستان اور سعودی عرب تعلقات کی گہرائی کا اندازہ یہاں سے کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان واحد ملک ہے جس کے پاس مدینہ منورہ میں اپنی پراپرٹی''پاکستان ہاؤس''موجو د ہے دنیا کے کسی اور مسلمان ملک کے پاس مدینہ منورہ میں کوئی پراپرٹی نہیں ہے۔
بلاشبہ یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ، پرجوش اور باہمی اعتماد پر مبنی تاریخی تعلقات کی تجدید کا مظہر ہے اور مثالی دوستی کا ایک نیا تاریخی باب کھولے گا، پچھلی کئی دہائیوں سے سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور ثقافتی میدانوں میں یہ رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوا ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ نو منتخب پاکستانی وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کی کرشماتی قیادت میں یہ مزید بہتر ہو گا۔
سیاسی امور کے ماہرین بھی اس دورے کو انتہائی اہمیت کا حامل قراردے رہے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ موجودہ صورتحال میں پاک، سعودی اقتصادی تعاون میں اضافہ ہوگا۔