لوڈ شیڈنگ اور مہنگی بجلی

مہنگی بجلی کم برآمدات زیادہ درآمدات کم صنعتی ترقی اور معاشی ترقی کا گرنا جیسے مسائل معیشت کو نڈھال کرتے رہیں گے

SHAHDADKOT:
پاکستان کے بہت سے گاؤں، دیہات ، علاقے ایسے ہیں جو آج بھی پندرہویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ پانچ صدیاں قبل ایک مسلمان حکمران نے کلکتہ سے پشاور تک جرنیلی سڑک بنا دی تھی، لیکن آج بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں ڈامر کی ایک پتلی لکیر ڈال کر اسے سڑک کا نام دے دیا جاتا ہے۔

جب سڑک آجاتی ہے تو گاؤں کے لوگوں کو بجلی کے آنے کا انتظار ہوتا ہے اور بجلی بھی خراماں خراماں ہی آتی ہے کسی گاؤں میں 5 سال بعد اور کہیں دس سال بعد اور جب بجلی کا دیا روشن ہوتا ہے تو سب کے چہرے کھلکھلا جاتے ہیں۔

بجلی اپنے ساتھ لوڈ شیڈنگ بھی لے کر آتی ہے بجلی جاتی ہے تو بچے بھی سوتے میں اٹھ کر بلکنے لگتے ہیں اور مائیں ہاتھ کا پنکھا لے کر جھلنے لگتی ہیں۔ اسی انتظار میں رات کٹ جاتی ہے۔ کئی سال ہوئے گرمیوں کا زمانہ تھا، رات جو بجلی جاتی صبح ہی کسی بہانے سے آتی تھی اور یہ معمول بن چکا تھا۔

فلیٹوں کے نوجوانوں نے بھی اس کا حل ڈھونڈ لیا، باہر سڑک کنارے کہیں پارکوں میں ڈیرے ڈال لیے، رات بسر کرلی، کیوں کہ بجلی ایسے غائب ہوتی جیسے کبھی تھی ہی نہیں۔ پچھلی صدی ابھی مکمل ہوئی نہ تھی کہ اس لوڈ شیڈنگ پر صنعت کاروں نے بہت کچھ سوچا، بہت انتظار کیا، بہت صبر کیا۔ بالآخر اپنی صنعتوں کو کئی صنعتکار لے کر ہی دیار غیر کسی ایسے ملک شفٹ ہوگئے جہاں دریائی پانی سے بجلی وافر مقدار میں حاصل ہو رہی تھی، لہٰذا وہاں بجلی سستی ہی سستی تھی۔

ہمارے ملک میں بجلی کی کمی کا حل پن بجلی کی پیداوار سے حاصل کرنے کے بجائے امریکا سے درآمدہ تھکی ہوئی مشینوں میں تیل ڈال کر مہنگی ترین بجلی پیدا کی جانے لگی۔ پھر کچھ یوں ہوا کہ 2001 تک 23 ڈالر فی بیرل تیل مل رہا تھا،2005 تک پہنچتے پہنچتے 50 ڈالر فی بیرل تک جا پہنچا۔ اس وقت کے صدر مملکت کو آئی پی پی پیز کو سمجھانا پڑا کہ تیل کے بجائے گیس کے ذریعے بجلی پیدا کی جائے لیکن پھر بھی پن بجلی سے متعلق کوئی بڑا منصوبہ نہ بن سکا۔ آخر آہستہ آہستہ عالمی منڈی میں گیس کے نرخ بھی بڑھنے شروع ہوگئے، پھر ملک میں بجلی کے نرخ کب تک کم رکھتے۔

اس دوران آئی ایم ایف نے جیسے ہی نبض پر ہاتھ رکھا، بجلی کے نرخوں میں اضافہ در اضافہ اور بار بار اضافے کا نسخہ تھما دیا، جس پر حکومت کو دل و جان سے عمل پیرا ہونا پڑتا ہے۔ اس طرح ماہ اپریل 2022 کے آخر میں ایک بار پھر بجلی مزید مہنگی کردی گئی۔ اس کے علاوہ لوڈ شیڈنگ میں بھی اضافہ ہونے لگا جس کے باعث ایکسپورٹرز کو یہ شکایت پیدا ہوئی کہ وہ آرڈرز کی تکمیل سے قاصر رہتے ہیں لہٰذا ایکسپورٹ کی کمی ہونے لگی۔

طویل عرصے بعد رواں مالی سال یہ بتایا گیا کہ برآمدات میں 25 فی صد اضافہ ہوا ہے، لیکن مالی سال کے اختتام میں دو ماہ رہ گئے ہیں اور شارٹ فال 8 ہزار میگاواٹ ہو چکا ہے۔ کہیں کہیں 18 گھنٹے تک کی لوڈ شیڈنگ بھی ہو رہی ہے۔ ملکی طلب 26 ہزار میگاواٹ ہے اور پیداوار 18 ہزار میگاواٹ پر برقرار ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بجلی گھروں کو ایندھن کی مطلوبہ فراہمی تاحال نہ ہوسکی۔


ادھر شہری علاقوں میں صورت حال اس لیے نہایت ہی سنگین ہو چکی ہے کہ گرمی میں غیر معمولی اضافے کی پیش گوئی کردی گئی۔ ایسے میں شہریوں کی جان پر بن آئی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق لوڈ شیڈنگ کے باعث گرمی کی شدت برداشت نہ کرنے پر خاتون سمیت دو افراد جاں بحق ہوگئے۔ سندھ کے مختلف علاقوں میں ہیٹ ویو کی پیش گوئی کردی گئی ہے۔ زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 43 سے 48ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ ہو سکتا ہے۔ محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ کراچی میں موسم گرم رہے گا البتہ ہیٹ ویو کا امکان نہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے فوری نوٹس لیتے ہوئے یکم مئی سے لوڈ شیڈنگ مکمل ختم کرنے کی ہدایت کردی ہے اور اس سلسلے میں ایک اعلیٰ سطح اجلاس بھی منعقد کیا گیا۔اجلاس میں یہ بات بتائی گئی کہ ایک سال سے زائد عرصے سے بند پڑے 27 بجلی گھروں میں سے 20 بجلی گھروں کو فعال کردیا گیا ہے۔ اس طرح 20 بجلی گھروں کے دوبارہ چلنے سے بجلی کی پیداوار بڑھے گی۔

لوڈ شیڈنگ کی دیگر وجوہات میں ایندھن کی فراہمی میں مسائل، بجلی گھروں کی بروقت مرمت نہ ہونا، ان کی دیکھ بھال کا نہ ہونا اور دیگر کئی مسائل کا حل نکالنے کی ہدایت کردی گئی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایندھن کے مربوط اور مستقل نظام کی تشکیل اور گرمیوں میں آیندہ ماہ کی پیشگی منصوبہ بندی کی جائے۔ وزیر اعظم نے نقصان میں جانے والی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے فیڈرز کے خسارے کو ختم کرنے کی طویل مدتی موثر منصوبہ بندی طلب کرلی ہے۔

اب اس پر متعلقہ حکام کتنی محنت کرتے ہیں اور کس طرح سے ایسی طویل منصوبہ بندی پیش کرتے ہیں کہ ملک کو بار بار عذاب والی لوڈ شیڈنگ کے طویل دورانیے سے چھٹکارا مل جائے۔

کیونکہ بجلی ہوگی تو شہریوں کو سکھ کا سانس میسر آئے گا۔ کارخانہ داروں کی صنعتوں کے پہیے رواں دواں ہوں گے۔ بروقت آرڈرز کی تکمیل ممکن ہو سکے گی۔ پانی کے علاوہ جس ذریعے سے پاکستان میں بجلی کی پیداوار حاصل کی جا رہی ہے ان میں تیل اور گیس کا استعمال زیادہ ہے۔ ان ذرایع سے سستی بجلی کبھی حاصل نہیں کی جاسکتی، مہنگی بجلی حاصل ہوگی۔ ایسی صورت میں آئی ایم ایف کا مطالبہ بھی مدنظر رکھنا ہوگا اور بجلی کے نرخ بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔

لہٰذا ہائیڈرو پاور کے حصول کے لیے ہی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ڈیمز کے دو فائدے انتہائی اہم ہیں اول کاشتکاری کے لیے وافر پانی میسر آتا ہے، لاکھوں ایکڑ اراضی کو لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل کرکے لاکھوں ٹن غلہ حاصل کرسکتے ہیں اور سستی بجلی حاصل کرکے سسٹم میں داخل کرنے سے عام صارفین سے لے کر کارخانہ داروں، مل اونرز، کمرشل بنیادوں پر بجلی کے صارفین تک کو سستی بجلی میسر آئے گی۔ موجودہ دور میں صنعتی ترقی کا انتہائی اہم ذریعہ سستی بجلی کا حصول ہے۔

بصورت دیگر مہنگی بجلی کم برآمدات زیادہ درآمدات کم صنعتی ترقی اور معاشی ترقی کا گرنا جیسے مسائل معیشت کو نڈھال کرتے رہیں گے، لہٰذا سستی بجلی کے حصول کے لیے طویل مدت منصوبہ بندی کی جائے۔
Load Next Story