جمشید دستی کا الزام حقیقت یا فسانہ ۔۔۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ہمارے ووٹوں سے منتخب ہوکر جانے والے نمائندےوہاں کیا کیا کارنامے سرانجام دیتے ہیں۔


عمرفاروق سردار February 28, 2014
پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 52کے تحت بھی شراب نوشی کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

QUETTA: قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ہمارے ووٹوں سے منتخب ہوکر جانے والے نمائندےوہاں کیا کیا کارنامے سرانجام دیتے ہیں۔اس بات سے پردہ بھی اسمبلی کے ایک رکن جمشید دستی نے اٹھا ہی دیا۔جمشید دستی نے قومی اسمبلی میں کہا کہ ہر سال پارلیمنٹ لاجزمیں کروڑوں کی شراب لائی جاتی ہے ، ہر وقت وہاں سے شراب و چرس کی بو آتی رہتی ہے اورمجروں کے لیے لڑکیاں بھی لائی جاتی ہیں۔پارلیمنٹ کی حدود میں ہی ایسی کاروائیاں قوم کے لیے بڑی حیران کن بات ہے ویسے اراکین اسمبلی باہر تو اپنے مختلف انداز میں کمالات دکھاتے رہتے ہیں جب کہ ان میں سے اکثر ممبرز کی کمزور پرکیے جانے والے ظلم وستم کی داستان کوئی نہ کوئی ان کے اپنے حلقہ انتخاب سے ہی اخبارات کے ذریعے سناتا نظر آتاہے۔

باہر تو ایسی ایسی کاروائیاں دیکھنے میں آئی ہیں جیسے کہ تین سال پہلےایک دوست نے بتایا ان کے گھر کے ساتھ ایک ایم پی اے صاحب کاگھر ہے اور ان کی چھت شراب کی خالی بوتلوں سے بھری رہتی ہے اور صفائی سال میں ہی کبھی ایک بار ہوتی ہے۔یقین نہیں آرہاتھا بس پھر ایک دن ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو میں نے ان سے چھت پر جانے کااصرار کیا۔جب ان کے پیچھے پیچھے ہم چھت پر پہنچے تو ساتھ والی وسیع چھت کا منظر دیکھ کر گھوم گئے ۔کیونکہ ان کی پوری چھت شراب کی بوتلوں سے بھری پڑی تھی ۔میرے ساتھ ایک اور دوست تھا اس نے تصویربنانے کے لیے فوری موبائل نکالا لیکن گھر کا مالک جو میرا دوست تھا اس نے بھرپور اصرار کے ساتھ تصاویربنانے سے منع کردیا۔لیکن میری بارہا گزارش پر اس وعدے کے ساتھ چند تصاویر بنانے کی اجازت دے دی کہ یہ تصویر کھبی منظرعام پر نہیں لائی جائے۔

یہ تو تھاایک ایم پی اے کے گھر کی چھت کا منظر۔ابھی مئی2013میں اخبارات اورٹی وی چینلزپر بریکنگ بنے والی خبر بھی آپ کو یادہی ہو گی کہ پارلیمنٹ لاجزمیں مختلف اراکین اسمبلی کے خالی ہونے والے کمروں سے صفائی کے دوران غیر ملکی ودیسی شراب کی خالی بوتلیں برآمد ہوئی تھی۔اگر اس وقت اس حوالے سے سخت ایکشن لیا جاتا تو آج جمشید دستی کو پارلیمنٹ لارجز میں شراب و چرس کی اٹھنے والی بو کی ادھوری شکایت نہ کرنی پڑتی ۔افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ جمشید دستی کی پوری بات کو بھی سنا نہیں گیا بلکہ ان کا مائیک ہی بند کر دیا گیا۔اور ان کو مشورہ دیا گیا کہ آپ محترم اسپیکر صاحب سے ملاقات کرکے ان کو ثبوت فراہم کریں۔ویسے تو اس بات کا ثبوت تو مئی میں اخبارات اور ٹی وی چینلز نے بھی دیا تھا ۔ان میڈیا نمائندگان کے ذریعے بھی آپ کاروائی عمل میں لاسکتے ہیں ۔

ویسے تو جمشید دستی صاحب نے خود بھی ایک تجویز دی ہے کہ تمام ممبران اسمبلی کے خون کے ٹیسٹ کروائے جائے تو قوم کے سامنے حقیقت کھل کر آجائے گی کہ ان کی بات غلط ہے یا ٹھیک یہ تو پتا نہیں لیکن اس سے تمام ان اراکین کی حقیقت کھل جائے گی جو اس کام میں ملوث ہیں۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 52کے تحت بھی شراب نوشی کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ ذولفقارعلی بھٹو نے مذہبی جماعتوں کی درخواست پر اور آئین کو متفقہ بنانے کے لیے شراب پر پابندی کا فیصلہ کیا تھا جس کے بعد ضیاء الحق کے دور میںبھی اس قانون میں مزید سختی کرنے کے لئے اقدامات کئے گئے تھے۔

میں نے اس بیان کے فوری بعد اپنے ایک دوست سے فون پر رابطہ کیا جن کاایک ایم این اے صاحب کے ساتھ پارلیمنٹ اور لاجز میںآناجانا لگا رہتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ پارلیمنٹ لاجرز میں ایسا کبھی نہیں دیکھا کہ وہاں کبھی لڑکیوں کے مجرے وغیرہ ہوتے ہوں، چرس کی بو ویسے کھبی کبھار محسوس ہو تی ہے لیکن وہ بھی ڈرائیور اور دیگر ملازمین کی جانب سے اس کی بو محسوس ہوتی ہےاور شراب کے حوالے سے وہ بھی جواب دینے سے قاصر تھے۔

پاکستان میں بہانہ بنایا جاتا ہے کہ ہم شراب کے پرمٹ اس لیے دیتے ہیں کہ اقلیتیں شراب پیتی ہیں اور ان کے مذہب میں جائز ہے اس بات پر پچھلے دنوں پنجاب اسمبلی کے اقلیتی رکن پرویز رفیق نے احتجاج بھی کیا تھا اور ساتھ میں کہا تھا کہ آپ اس حوالے سے قانون سازی کریں پرمٹ بند کریں ہم اقلیتی ممبران کواعتراض نہیں ہوگا بلکہ آپ کا ساتھ دیں گے ۔اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی سعودی عرب کی طرح منشیات کے حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے۔

ویسے تو یہ ایک اہم مسئلہ ہے صدرپاکستان،وزیراعظم پاکستان اوراسپیکر اسمبلی کو ذاتی طور پر ان معاملات کی خود انکوائری کرنی چاہئے، اور اگر اس طرح کا کوئی ماحول پارلیمنٹ لاجز میں موجود ہے تو فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے اس کو ختم کروایا جانا چاہئے اور شراب و دیگر نشہ ٓاور چیزوں کے استعمال پر ملک بھر میں سخت سے سخت سزا دی جائے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں