بڑھے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
پاکستان میں مزدور تحریک اور ٹریڈ یونینز کا جائزہ
اب سے 136سال قبل محنت کشوں کے حقوق کے حوالے سے امریکا کے شہر شکاگو میں قربانیاں دینے اور اُس کی پاداش میں پھانسی پر چڑھائے جانے والے مزدور راہنماؤں کی یاد میں منایا جانے والا عالمی یوم محنت ایک مرتبہ پھر آپہنچا ہے۔
136ویں عالمی یوم محنت کے حوالے سے اگر ہم اپنے ملک میں مزدور تحریک اور ٹریڈ یونینز کا جائزہ لیتے ہیں تو صورت حال واضح ہوتی ہے کہ اس تحریک کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ سرکاری، نیم سرکاری اداروں اور حکومت کے زیرانتظام دیگر اداروں میں ٹریڈ یونینز موجود اور کسی حد تک متحرک بھی ہیں لیکن جہاں تک پرائیویٹ سیکٹر کا تعلق ہے تو صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
صنعت کاروں کی اکثریت کی سوچ میں اب تک کوئی پروگریسو تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ اب بھی مزدوروں کی یونینز کو اپنا حریف بلکہ غالباً دشمن ہی سمجھتے ہیں اور اُنہیں پنپنے ہی نہیں دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حقیقی نمائندہ مزدور یونینز معدوم ہوتی جارہی ہیں اور اُن کی جگہ یہ دور پاکٹ یونینز کے عروج کے لیے انتہائی سازگار ہے۔ ان حالات میں وہ جو کہا جاتا ہے کہ دیگ میں سے چند چاول نکال اور اُنہیں چکھ کر پوری دیگ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ہم پاکستان کی بینکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونین موومنٹ کا اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ 1991میں نجکاری کے بعد پرائیویٹ مالکان اور اُن کی انتظامیہ نے شعبہ بینکاری میں ٹریڈ یونین تحریک کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے اور اب وہاں جلے ہوئے نشیمن کی چند چنگاریاں تو موجود ہیں لیکن وہ بھی جلد ہی بجھ جائیں گی۔ اس انڈسٹری میں کہ جس میں پرائیویٹائزیشن سے قبل یونینز کی ممبرشپ ہزاروں کی مجموعی ورک فورس کا 80 فی صد ہوتی تھی اب یہ صرف ایک فی صد رہ گئی ہے۔
افسران کی تعداد اب 99 فی صد ہے لیکن آفیسرز ایسوسی ایشن موجود ہونے کے باوجود لاپتا ہیں اور اب پاکستان کی بینکنگ انڈسٹری جس میں اس وقت بھی تقریباً 2لاکھ افراد کی ورکنگ فورس موجود ہے لیکن اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں اور وہ مکمل طور پر انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہیں۔
یہ المیہ صرف پرائیویٹ سیکٹر کے بینکس کا نہیں بلکہ یہی صورت حال مختلف شعبوں کے دیگر اداروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ٹریڈ یونینز تو موجود ہیں لیکن وہ بھی اپنی بقاء جیسے بنیادی مسئلہ سے دو چار ہیں اور یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک انتہائی ذبوںحالی کا شکار ہے۔ ابھی ایک واقعہ ہوا کہ وزیراعظم شہبازشریف نے اپنی ذمے داریاں سنبھالتے ہی سرکاری اداروں میں ہفتہ میں دو چھٹیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے صرف اتوار کی چھٹی کو برقرار رکھا۔
تعجب یہ ہے کہ اس حوالے سے ٹریڈ یونینز کی جانب سے کوئی نمایاں ردِعمل سامنے نہیں آیا مگر موبائل اور واٹس ایپ کے ذریعہ بینکنگ انڈسٹری کے ملازمین سے اس فیصلے کے خلاف کراچی اور ملک بھر کے دیگر شہروں میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے دفاتر اور پریس کلبز کے سامنے احتجاج کرنے کی اپیل کی گئی۔ حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ یہ احتجاج ہوا اور اُس میں ہزاروں بینک ملازمین نے حصّہ بھی لیا مگر تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس تحریک میں ہماری اطلاعات کے مطابق بینکنگ انڈسٹری کی کوئی ٹریڈ یونین یا آفیسرز ایسوسی ایشن شامل نہیں تھی، اور یہ کہ اِس تحریک کی قیادت یا تنظیم کہیں ظاہر بھی نہیں ہوئی اور اس طرح اِسے ہم ایک خودرو تحریک بھی کہہ سکتے ہیں۔
ان تمام مایوس کن حقائق کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹریڈ یونین تحریک کی بحالی کے لیے کوششیں بھی ملک میں جاری ہیں۔ گذشتہ سالوں میں کراچی، اسلام آباد اور پاکستان کے دیگر شہروں میں اجلاس منعقد ہوئے ہیں جن میں ٹریڈ یونین نمائندگان نے بڑی تعداد میں شرکت کی ہے اور مزدور تحریک کی کشتی کو منجھدار سے نکالنے کے لیے سوچ بچار اور لائحہ عمل بھی مرتب کیے ہیں۔
آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد شعبۂ محنت کو مکمل طور پر صوبوں کو منتقل کردیا گیا جس کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ اور ٹریڈ یونین تحریک کی جدوجہد کو بڑھاوا دینے کے لیے متعدد قانون سازیاں کی گئیں۔ پی پی پی کی صوبائی حکومت نے اس ضمن میں جو تاریخی کام یابی حاصل کی اُس کا اعتراف انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے پاکستان میں ذمے داران نے بھی کیا ہے۔
صوبہ سندھ کی حکومت کی جانب سے کی گئی مثبت قانون سازیوں کی تقلید دیگر صوبائی حکومتوں نے بھی کی ہے لیکن جہاں تک قوانین پر اُس کی اسپرٹ کے مطابق عمل درآمد کا تعلق ہے تو صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پورے ملک میں پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں حکومتوں کی جانب سے مقررکردہ کم از کم اُجرت کے قانون پر عمل درآمد ہی نہیں کیا جاتا، لیبر لاز کے تحت کسی بھی ورکر سے 8 گھنٹے یومیہ سے زاید کام نہیں لیا جاسکتا لیکن اس کے برعکس بغیر کسی اوور ٹائم ادائی کے 12,12 گھنٹے کام لینے کی شکایت عام ہے۔
پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں مزدوروں کی حقیقی یونین کا قیام اور اُسے فعال رکھنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مزدوروں کو تقررنامہ (Appointment Letter) بھی جاری نہیں کیے جاتے اور اس طرح یہ لاکھوں محنت کش (EOBI)، ورکرز ویلفئیر بورڈ اور سوشل سیکیوریٹی کے اداروں سے ملنے والی سہولیات جن میں بُڑھاپے کی پینشن، طبّی سہولیات، میریج گرانٹ، فوتگی گرانٹ اور مفت تعلیم اور مکان کے حصُول سے محروم رہتے اور ادارے سے بُڑھاپے کی عمر میں خالی ہاتھ بے یارومددگار اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔
زندگی کے بقایا دن کسمپرسی میں گزارنے کے لئے۔ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے اور اس میں محنت کش طبقے کی تعداد سات کروڑ سے زاید ہے لیکن ملک کی پارلیمان، سینیٹ آف پاکستان، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مزدوروں کا کوئی حقیقی نمائندہ موجود نہیں۔ مزدور تنظیموں کا یہ مطالبہ اب زور پکڑتا جارہا ہے کہ اُن کے طبقے کے لیے پارلیمان میں نشستیں مختص کی جائیں۔
پاکستان میں جب ہم مزدور تحریک کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں شکاگو کے اُن شہید مزدور راہ نماؤں کی یاد آتی ہے کہ جنہوں نے اب سے 136 سال قبل محنت کشوں کے بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے اور اُن سے جانوروں کی طرح 18,18 گھنٹے کام لینے کے خلاف امریکا کے شہر شکاگو میں علمِ بغاوت بلند کیا۔ اس تاریخی بغاوت کے نتیجے میں سات مزدور راہ نماؤں کو صنعت کاروں کی عدالت نے پھانسی کے پھندے پر چڑھادیا اور اپنے طور پر وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوئے کہ اُنہوں نے تحریک کو تشدّد کے ذریعے کُچل ڈالا ہے لیکن یہ اُن کی بہت بڑی بھول تھی جس تحریک کو ختم کرنے کا خواب اِنہوں نے دیکھا تھا وہ رفتہ رفتہ پوری دنیا میں بیداری کی ایک لہر کے طور پر پھیل گئی۔
دنیا کے تمام برِاعظموں میں ٹریڈ یونین منظم ہوئی، حقوق کے سُرخ جھنڈے بلند کیے، کئی ریاستوں نے محنت کشوں کے سُرخ جھنڈے اور اُن کے حقوق کو اپنے ریاستوں کے بنیادی منشور میں شامل کیا اور آج تمام دنیا شکاگو کے شہداء کی یاد پورے جوش و خروش سے مناتی ہے، لیکن اُن کو پھانسی کے تختے پر چڑھانے والے صنعت کار اور اُن کے اشاروں پر کام کرنے والی نام نہاد انصاف کی عدالتیں تاریخ کے کوڑے دان کا حصّہ بن چُکی ہیں۔
ہمیں بحیثیت مجموعی ایک معاشرہ کے طور پر تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے کم زور طبقات اور مظلوموں کے حقوق کو مکمل طور پر تسلیم اور اُنہیں بحال کردینا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا ہم کسی نئے یومِ مئی کا انتظار کررہے ہیں؟
136ویں عالمی یوم محنت کے حوالے سے اگر ہم اپنے ملک میں مزدور تحریک اور ٹریڈ یونینز کا جائزہ لیتے ہیں تو صورت حال واضح ہوتی ہے کہ اس تحریک کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ سرکاری، نیم سرکاری اداروں اور حکومت کے زیرانتظام دیگر اداروں میں ٹریڈ یونینز موجود اور کسی حد تک متحرک بھی ہیں لیکن جہاں تک پرائیویٹ سیکٹر کا تعلق ہے تو صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔
صنعت کاروں کی اکثریت کی سوچ میں اب تک کوئی پروگریسو تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ اب بھی مزدوروں کی یونینز کو اپنا حریف بلکہ غالباً دشمن ہی سمجھتے ہیں اور اُنہیں پنپنے ہی نہیں دیتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حقیقی نمائندہ مزدور یونینز معدوم ہوتی جارہی ہیں اور اُن کی جگہ یہ دور پاکٹ یونینز کے عروج کے لیے انتہائی سازگار ہے۔ ان حالات میں وہ جو کہا جاتا ہے کہ دیگ میں سے چند چاول نکال اور اُنہیں چکھ کر پوری دیگ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ہم پاکستان کی بینکنگ انڈسٹری کی ٹریڈ یونین موومنٹ کا اس حوالے سے جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ 1991میں نجکاری کے بعد پرائیویٹ مالکان اور اُن کی انتظامیہ نے شعبہ بینکاری میں ٹریڈ یونین تحریک کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے اور اب وہاں جلے ہوئے نشیمن کی چند چنگاریاں تو موجود ہیں لیکن وہ بھی جلد ہی بجھ جائیں گی۔ اس انڈسٹری میں کہ جس میں پرائیویٹائزیشن سے قبل یونینز کی ممبرشپ ہزاروں کی مجموعی ورک فورس کا 80 فی صد ہوتی تھی اب یہ صرف ایک فی صد رہ گئی ہے۔
افسران کی تعداد اب 99 فی صد ہے لیکن آفیسرز ایسوسی ایشن موجود ہونے کے باوجود لاپتا ہیں اور اب پاکستان کی بینکنگ انڈسٹری جس میں اس وقت بھی تقریباً 2لاکھ افراد کی ورکنگ فورس موجود ہے لیکن اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں اور وہ مکمل طور پر انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہیں۔
یہ المیہ صرف پرائیویٹ سیکٹر کے بینکس کا نہیں بلکہ یہی صورت حال مختلف شعبوں کے دیگر اداروں میں بھی پائی جاتی ہے۔ سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں ٹریڈ یونینز تو موجود ہیں لیکن وہ بھی اپنی بقاء جیسے بنیادی مسئلہ سے دو چار ہیں اور یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک انتہائی ذبوںحالی کا شکار ہے۔ ابھی ایک واقعہ ہوا کہ وزیراعظم شہبازشریف نے اپنی ذمے داریاں سنبھالتے ہی سرکاری اداروں میں ہفتہ میں دو چھٹیوں کا خاتمہ کرتے ہوئے صرف اتوار کی چھٹی کو برقرار رکھا۔
تعجب یہ ہے کہ اس حوالے سے ٹریڈ یونینز کی جانب سے کوئی نمایاں ردِعمل سامنے نہیں آیا مگر موبائل اور واٹس ایپ کے ذریعہ بینکنگ انڈسٹری کے ملازمین سے اس فیصلے کے خلاف کراچی اور ملک بھر کے دیگر شہروں میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے دفاتر اور پریس کلبز کے سامنے احتجاج کرنے کی اپیل کی گئی۔ حیرت انگیز حقیقت یہ ہے کہ یہ احتجاج ہوا اور اُس میں ہزاروں بینک ملازمین نے حصّہ بھی لیا مگر تعجب خیز امر یہ ہے کہ اس تحریک میں ہماری اطلاعات کے مطابق بینکنگ انڈسٹری کی کوئی ٹریڈ یونین یا آفیسرز ایسوسی ایشن شامل نہیں تھی، اور یہ کہ اِس تحریک کی قیادت یا تنظیم کہیں ظاہر بھی نہیں ہوئی اور اس طرح اِسے ہم ایک خودرو تحریک بھی کہہ سکتے ہیں۔
ان تمام مایوس کن حقائق کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹریڈ یونین تحریک کی بحالی کے لیے کوششیں بھی ملک میں جاری ہیں۔ گذشتہ سالوں میں کراچی، اسلام آباد اور پاکستان کے دیگر شہروں میں اجلاس منعقد ہوئے ہیں جن میں ٹریڈ یونین نمائندگان نے بڑی تعداد میں شرکت کی ہے اور مزدور تحریک کی کشتی کو منجھدار سے نکالنے کے لیے سوچ بچار اور لائحہ عمل بھی مرتب کیے ہیں۔
آئین میں 18ویں ترمیم کے بعد شعبۂ محنت کو مکمل طور پر صوبوں کو منتقل کردیا گیا جس کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ اور ٹریڈ یونین تحریک کی جدوجہد کو بڑھاوا دینے کے لیے متعدد قانون سازیاں کی گئیں۔ پی پی پی کی صوبائی حکومت نے اس ضمن میں جو تاریخی کام یابی حاصل کی اُس کا اعتراف انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے پاکستان میں ذمے داران نے بھی کیا ہے۔
صوبہ سندھ کی حکومت کی جانب سے کی گئی مثبت قانون سازیوں کی تقلید دیگر صوبائی حکومتوں نے بھی کی ہے لیکن جہاں تک قوانین پر اُس کی اسپرٹ کے مطابق عمل درآمد کا تعلق ہے تو صورت حال انتہائی تشویش ناک ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پورے ملک میں پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں حکومتوں کی جانب سے مقررکردہ کم از کم اُجرت کے قانون پر عمل درآمد ہی نہیں کیا جاتا، لیبر لاز کے تحت کسی بھی ورکر سے 8 گھنٹے یومیہ سے زاید کام نہیں لیا جاسکتا لیکن اس کے برعکس بغیر کسی اوور ٹائم ادائی کے 12,12 گھنٹے کام لینے کی شکایت عام ہے۔
پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں مزدوروں کی حقیقی یونین کا قیام اور اُسے فعال رکھنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مزدوروں کو تقررنامہ (Appointment Letter) بھی جاری نہیں کیے جاتے اور اس طرح یہ لاکھوں محنت کش (EOBI)، ورکرز ویلفئیر بورڈ اور سوشل سیکیوریٹی کے اداروں سے ملنے والی سہولیات جن میں بُڑھاپے کی پینشن، طبّی سہولیات، میریج گرانٹ، فوتگی گرانٹ اور مفت تعلیم اور مکان کے حصُول سے محروم رہتے اور ادارے سے بُڑھاپے کی عمر میں خالی ہاتھ بے یارومددگار اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔
زندگی کے بقایا دن کسمپرسی میں گزارنے کے لئے۔ پاکستان کی آبادی بائیس کروڑ ہے اور اس میں محنت کش طبقے کی تعداد سات کروڑ سے زاید ہے لیکن ملک کی پارلیمان، سینیٹ آف پاکستان، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں مزدوروں کا کوئی حقیقی نمائندہ موجود نہیں۔ مزدور تنظیموں کا یہ مطالبہ اب زور پکڑتا جارہا ہے کہ اُن کے طبقے کے لیے پارلیمان میں نشستیں مختص کی جائیں۔
پاکستان میں جب ہم مزدور تحریک کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں شکاگو کے اُن شہید مزدور راہ نماؤں کی یاد آتی ہے کہ جنہوں نے اب سے 136 سال قبل محنت کشوں کے بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے اور اُن سے جانوروں کی طرح 18,18 گھنٹے کام لینے کے خلاف امریکا کے شہر شکاگو میں علمِ بغاوت بلند کیا۔ اس تاریخی بغاوت کے نتیجے میں سات مزدور راہ نماؤں کو صنعت کاروں کی عدالت نے پھانسی کے پھندے پر چڑھادیا اور اپنے طور پر وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوئے کہ اُنہوں نے تحریک کو تشدّد کے ذریعے کُچل ڈالا ہے لیکن یہ اُن کی بہت بڑی بھول تھی جس تحریک کو ختم کرنے کا خواب اِنہوں نے دیکھا تھا وہ رفتہ رفتہ پوری دنیا میں بیداری کی ایک لہر کے طور پر پھیل گئی۔
دنیا کے تمام برِاعظموں میں ٹریڈ یونین منظم ہوئی، حقوق کے سُرخ جھنڈے بلند کیے، کئی ریاستوں نے محنت کشوں کے سُرخ جھنڈے اور اُن کے حقوق کو اپنے ریاستوں کے بنیادی منشور میں شامل کیا اور آج تمام دنیا شکاگو کے شہداء کی یاد پورے جوش و خروش سے مناتی ہے، لیکن اُن کو پھانسی کے تختے پر چڑھانے والے صنعت کار اور اُن کے اشاروں پر کام کرنے والی نام نہاد انصاف کی عدالتیں تاریخ کے کوڑے دان کا حصّہ بن چُکی ہیں۔
ہمیں بحیثیت مجموعی ایک معاشرہ کے طور پر تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے کم زور طبقات اور مظلوموں کے حقوق کو مکمل طور پر تسلیم اور اُنہیں بحال کردینا چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیا ہم کسی نئے یومِ مئی کا انتظار کررہے ہیں؟