مفادات کا ٹکراؤ
جس ملک کی قیادت شہریوں کو بنیادی انسانی حققوق کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتی، وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتے
WELLINGTON:
پاکستان میں اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز کے مابین مفادات کا ٹکراؤاس حد تک بڑھ چکا ہے کہ واپسی کے دروازے بند کیے جارہے ہیں۔
ملک کی ٹاپ لیڈرشپ آستینیں چڑھا کر ایک دوسرے پر وہ گند اچھال رہی کہ بس خدا کی پناہ۔ سیاست میں بدتمیزی ، زبان درازی ،گالم گلوچ کی نئی تاریخ رقم ہورہی ہے اور المیہ یہ کہ سیاسی قیادت اس پر ندامت بھی محسوس نہیں کررہی ۔سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی قیادت کے طرز کلام کو آئیڈیلائز کررہی ہے اور مخالفیں کو نیچا دکھانے کے ماردھاڑ سے لے کر بدکلامی تک ہر حربہ استعمال کررہی ہے۔
حتی کہ متبرک اور مقدس ترین مقامات کی حرمت کو پامال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا،مدینہ پاک میں مسجد نبوی میں کچھ ہوا، اس نے مسلم دنیا میں پاکستانیوں کے سرشرم سے جھکا دیاہے، یہ کسی نے منصوبہ بندی سے کرایا ، پاکستانیوں نے اپنے طور پر کیا، اس پر بحث کی گنجائش ہی ہے، پاکستان کا پاسپورٹ رکھنے والے نام نہاد پاکستانیوں اور خود کو مسلمان کہنے والوں جو زبان استعمال کی اور جو حرکت کی، اس کا دفاع چونکہ چنانچہ ، اگر مگر سے ممکن نہیں ہے۔
پاکستان کی سیاست اور معاشرت نے ایسے زہریلے اور بدترین رویئے ماضی میں کبھی نہیں دیکھتے ۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں سیاسی اختلافات آئین ، قانون اور معاشرتی اقدار کے اندر رہ کر ہوتے ہیں،سیاسی قیادت ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں اور اس میں کوئی بری بات نہیں ہے لیکن سیاسی قیادت ذاتی یا گروہی مفادات کے لیے اختلاف نہیں کرتی بلکہ ایک دوسرے کی غلط پالیسی کی نشاندہی کے لیے کیے جاتے ہیں تاکہ جہاں غلطی ہے ، اسے درست کرلیا جائے۔
جب سیاسی اختلافات منتخب جمہوری اداروں کی حدود سے نکل کر سڑکوں اور بازاروں میں آجائیں، سیاسی حریف کو دشمن، ملک دشمن اور غدار کہہ کر مخاطب کیا جائے، زہریلے، نفرت اور اشتعال انگیز نعروں اور بیانئے کی حوصلہ افزائی کرکے کارکنوں کے جذبات سے کھیلا جائے اور انھیں اشتعال دلا کر اداروں اور مخالفین کے خلاف پراپیگنڈے اور جلاؤ گھیراؤ کے لیے اکسایا جائے تاکہ ملک میں انارکی اور عدم استحکام پیدا ہوجائے تو یہ صورتحال جمہوری نظام کی بقا و استحکام کے لیے ہی نہیں بلکہ ریاست کی سالمیت کے لیے بھی خطرناک ہوجاتی اور اسے کسی طور بھی حب الوطنی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔
سیاسیات کے اساتذہ ہوں، طالب علم ہوں، شاعر و ادیب ہوں یا سیاستدان ہوں ، سب متفق ہیں کہ سیاست میں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے ، اس سے ہی مسائل کا حل نکلتا ہے ۔ آمریت اسی لیے ناکام ہوتی ہے کہ اس میں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہوتی جب کہ جمہوری نظام اسی لیے قائم و دائم ہے کہ یہاں اختلاف رائے کی گنجائش ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں اختلاف رائے کے معنی دشمنی اور غداری کے لیے جارہے ہیں۔ اس کا مشاہدہ پاکستان کی معاشرت اور سیاست میں بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
آج اختلاف رائے کیا ہوتا ہے، اسے سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ہے ،آج جو کچھ ہورہاہے، اس کے ذمے دار ناخواندہ شہری اور دیہاتی عوام نہیں ہیں بلکہ خود کو تعلیم یافتہ ، مہذب کہنے والے سیاستدان، سیاسی جماعتوں کے فنانسرز،ہینڈلرز اور سرکاری بابوہیںکیونکہ ستر برس سے یہی پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ کہلانے والے لوگ ریاست پاکستان کے اقتدار پر قابض چلے آرہے ہیں۔پاکستان پر اگر غیرملکی اور ملکی قرضے ہیں، تو انھی کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے، عوام بیچارے تو دن رات کماتے اور سرکار کو ٹیکس دیتے ہیں۔
ملک میں پارلیمنٹ بطور ایک سپریم ادارہ اپنا وجود رکھتا ہے ، جس کے قواعد و ضوابط بھی درج ہیں ، سیاسی مسائل کا حل پارلیمنٹ کے ذریعے کرنے کے بجائے انھیں عدالتوں میں لے جانا پارلیمنٹ کو انڈرمائن کرنے کے مترادف ہے اور یہ سب کچھ سیاسی قیادت کرہی ہے جو خود کو پارلیمانی جمہوریت کی محافظ قرار دیتی ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت اور عوام کے منتخب نمایندے جو کچھ کررہے ہیں، وہ سب کے سامنے ہے۔
جو پارلیمان ریاست اور عوام کے مفادات ، ملکی سلامتی اور ترقی کے ضامن سمجھے جاتے ہیں، وہاں ہمارے پارلیمنٹیرنز کیا گل کھلا رہے ہیں، وہ سب کچھ ٹی وی اسکرین پر دکھایا جارہا ہے اور اخبارات میں شایع ہورہا ہے۔ عوام کے منتخب نمایندوں کے کرپشن اسکینڈلز اخبارات کی زینت بنتے ہیں اور ٹی وی چینلز پر نشر ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ شرمندہ ہونے کے بجائے مسکراتے چہروں کے ساتھ معاشرے میں اپنا سیاسی چورن بیچتے نظر آتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا ونگز بنا رکھے ہیں، یہ ونگز سوشل میڈیا پر مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں، حتی کے ملک کے اہم اداروں اور شخصیات کے حوالے سے شرانگیز پراپیگنڈا کیا جاتا ہے اور سیاسی قیادت اس کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آرہی ہے ۔ ملک کے باشعور لوگ ان غلط پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں توان کو بھی گالیوں اور بے عزتی کے ساتھ ساتھ دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ جمہوریت میں اختلاف ہر جماعت کا بنیادی حق ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جھوٹا، غلیظ اور شرانگیز پراپیگنڈا کیا جائے،معاشرتی اقدار سے عار ہوکر گند اچھالا جائے ۔
میڈیا کی اطلاع کے مطابق سعودی حکومت نے مسجد نبوی میں پاکستانی حکومتی وفد کی آمد پرسیاسی نعرے بازی اور ہلڑبازی پر کارروائی کرتے ہوئے پانچ پاکستانی باشندوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ مدینہ پولیس نے گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے۔سعودی پریس ایجنسی نے مدینہ پولیس کے ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ سیکیورٹی حکام نے پاکستانی شہریت کے حامل پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے۔
مدینہ پولیس کے مطابق گرفتارافراد کے خلاف قانونی کارروائی مکمل کرکے معاملہ مجاز حکام کو بھیج دیا گیا ہے۔پاکستان میں سعودی سفارتخانے کے ترجمان ف نے بھی گرفتاریوں کی تصدیق کردی ہے۔ بی بی سی کے مطابق جب اس بارے میں سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے کے حکام سے پوچھاگیا تو ان کا کہنا تھا کہ جو بھی ہو گا، سعودی پریس ایجنسی پر آ جائے گا۔
پاکستان کو یہ دن بھی دیکھنے تھے ، جن لوگوں نے یہ قبیح حرکت کی ، انھوں نے اپنی عاقبت خراب کرلی، پاکستان کے پالیسی سازوں، اہل علم ، اساتذہ، ادباء و شعرا کو ان خطرناک ، نفرت انگیز اورمائنڈلیس سیاسی رویوں کی فکرکرنی چاہیے، ان رویوں کی وجہ سے پاکستان کی نوجوان نسل برباد ہورہی ہے ، اب اہل علم کو خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ اصلاح کے لیے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ اگر اس وقت تعلیم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تو ریاست کے اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی قیادت کو ہے۔
سیاسی بحث مباحثے میں جو زبان استعمال کی جارہی ہے اور جس طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے اور ہر گفتگوکا اختتام لڑائی جھگڑے اور گالی گلوچ پر ہوتا ہے، اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے ۔ بظاہر پڑھے لکھے،مہذب نظر آنے والے حضرات جب سیاست ، معاشرت یا فقہی معاملات پر بات کرتے ہیں تو ان کی ذہنی افلاس پر رونا آتاہے۔ یہ ذہنی حالت ملک ومعاشرے کی وحدت اور سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ حکمرانوں کے کارناموں کی وجہ سے دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور ہم ایک انتہا پسند معاشرے کے طور پر جانے جا رہے ہیں۔
اس تشویش ناک صورتحال میں ملک کی سیاسی قیادت اور ریاستی مشینری چلانے والے بابوؤں کو استحقاقی اور مراعاتی کلچر سے باہر آنا ہوگا۔ ایسے قوانیں کو تبدیل کرنا پڑے جو ریاستی منصاب پر فائز افراد کو صوابدیدی اختیارات کے دیتے ہیں۔ پاکستان میں بڑے سے بڑے ریاستی عہدیدار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ غیرملکی تحائف کو خود رکھے یا کسی اور دے، اسے یہ بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ریاست کی ملکیت زمین کسی کو صوابیدی اختیار کے کسی کو الاٹ کردے، اس قسم کے اختیارات انگریز راج میں دیے گئے تھے ، مالی فوائد اور مراعات وہی ملنی چاہیں جو تنخواہ کی مد میں ہوں۔
جس ملک کی قیادت شہریوں کو بنیادی انسانی حققوق کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتی، وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ اخلاقی زوال اور عدم برداشت کے خاتمہ کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کے فرسودہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے اقدامات اٹھائے ، ملک کو معاشرے کے کو تعلیم یافتہ انتہاپسندوں کی نہیں بلکہ پڑھے لکھے روشن خیال افراد کی ضرورت ہے، انھیں ایسا نصاب پڑھانے کی ضرورت ہے ، جسے پڑھ کر ان میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور سجھنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر مثال بنتے ہوئے اس کی شروعات کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔
پاکستان میں اقتدار کے اسٹیک ہولڈرز کے مابین مفادات کا ٹکراؤاس حد تک بڑھ چکا ہے کہ واپسی کے دروازے بند کیے جارہے ہیں۔
ملک کی ٹاپ لیڈرشپ آستینیں چڑھا کر ایک دوسرے پر وہ گند اچھال رہی کہ بس خدا کی پناہ۔ سیاست میں بدتمیزی ، زبان درازی ،گالم گلوچ کی نئی تاریخ رقم ہورہی ہے اور المیہ یہ کہ سیاسی قیادت اس پر ندامت بھی محسوس نہیں کررہی ۔سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنی قیادت کے طرز کلام کو آئیڈیلائز کررہی ہے اور مخالفیں کو نیچا دکھانے کے ماردھاڑ سے لے کر بدکلامی تک ہر حربہ استعمال کررہی ہے۔
حتی کہ متبرک اور مقدس ترین مقامات کی حرمت کو پامال کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا،مدینہ پاک میں مسجد نبوی میں کچھ ہوا، اس نے مسلم دنیا میں پاکستانیوں کے سرشرم سے جھکا دیاہے، یہ کسی نے منصوبہ بندی سے کرایا ، پاکستانیوں نے اپنے طور پر کیا، اس پر بحث کی گنجائش ہی ہے، پاکستان کا پاسپورٹ رکھنے والے نام نہاد پاکستانیوں اور خود کو مسلمان کہنے والوں جو زبان استعمال کی اور جو حرکت کی، اس کا دفاع چونکہ چنانچہ ، اگر مگر سے ممکن نہیں ہے۔
پاکستان کی سیاست اور معاشرت نے ایسے زہریلے اور بدترین رویئے ماضی میں کبھی نہیں دیکھتے ۔ پارلیمانی جمہوری نظام میں سیاسی اختلافات آئین ، قانون اور معاشرتی اقدار کے اندر رہ کر ہوتے ہیں،سیاسی قیادت ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں اور اس میں کوئی بری بات نہیں ہے لیکن سیاسی قیادت ذاتی یا گروہی مفادات کے لیے اختلاف نہیں کرتی بلکہ ایک دوسرے کی غلط پالیسی کی نشاندہی کے لیے کیے جاتے ہیں تاکہ جہاں غلطی ہے ، اسے درست کرلیا جائے۔
جب سیاسی اختلافات منتخب جمہوری اداروں کی حدود سے نکل کر سڑکوں اور بازاروں میں آجائیں، سیاسی حریف کو دشمن، ملک دشمن اور غدار کہہ کر مخاطب کیا جائے، زہریلے، نفرت اور اشتعال انگیز نعروں اور بیانئے کی حوصلہ افزائی کرکے کارکنوں کے جذبات سے کھیلا جائے اور انھیں اشتعال دلا کر اداروں اور مخالفین کے خلاف پراپیگنڈے اور جلاؤ گھیراؤ کے لیے اکسایا جائے تاکہ ملک میں انارکی اور عدم استحکام پیدا ہوجائے تو یہ صورتحال جمہوری نظام کی بقا و استحکام کے لیے ہی نہیں بلکہ ریاست کی سالمیت کے لیے بھی خطرناک ہوجاتی اور اسے کسی طور بھی حب الوطنی نہیں کہا جاسکتا ہے ۔
سیاسیات کے اساتذہ ہوں، طالب علم ہوں، شاعر و ادیب ہوں یا سیاستدان ہوں ، سب متفق ہیں کہ سیاست میں اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتا ہے ، اس سے ہی مسائل کا حل نکلتا ہے ۔ آمریت اسی لیے ناکام ہوتی ہے کہ اس میں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہوتی جب کہ جمہوری نظام اسی لیے قائم و دائم ہے کہ یہاں اختلاف رائے کی گنجائش ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں اختلاف رائے کے معنی دشمنی اور غداری کے لیے جارہے ہیں۔ اس کا مشاہدہ پاکستان کی معاشرت اور سیاست میں بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
آج اختلاف رائے کیا ہوتا ہے، اسے سمجھنے کی سب سے زیادہ ضرورت سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ہے ،آج جو کچھ ہورہاہے، اس کے ذمے دار ناخواندہ شہری اور دیہاتی عوام نہیں ہیں بلکہ خود کو تعلیم یافتہ ، مہذب کہنے والے سیاستدان، سیاسی جماعتوں کے فنانسرز،ہینڈلرز اور سرکاری بابوہیںکیونکہ ستر برس سے یہی پڑھے لکھے اور تہذیب یافتہ کہلانے والے لوگ ریاست پاکستان کے اقتدار پر قابض چلے آرہے ہیں۔پاکستان پر اگر غیرملکی اور ملکی قرضے ہیں، تو انھی کی پالیسیوں کی وجہ سے ہے، عوام بیچارے تو دن رات کماتے اور سرکار کو ٹیکس دیتے ہیں۔
ملک میں پارلیمنٹ بطور ایک سپریم ادارہ اپنا وجود رکھتا ہے ، جس کے قواعد و ضوابط بھی درج ہیں ، سیاسی مسائل کا حل پارلیمنٹ کے ذریعے کرنے کے بجائے انھیں عدالتوں میں لے جانا پارلیمنٹ کو انڈرمائن کرنے کے مترادف ہے اور یہ سب کچھ سیاسی قیادت کرہی ہے جو خود کو پارلیمانی جمہوریت کی محافظ قرار دیتی ہے۔ ملک کی سیاسی قیادت اور عوام کے منتخب نمایندے جو کچھ کررہے ہیں، وہ سب کے سامنے ہے۔
جو پارلیمان ریاست اور عوام کے مفادات ، ملکی سلامتی اور ترقی کے ضامن سمجھے جاتے ہیں، وہاں ہمارے پارلیمنٹیرنز کیا گل کھلا رہے ہیں، وہ سب کچھ ٹی وی اسکرین پر دکھایا جارہا ہے اور اخبارات میں شایع ہورہا ہے۔ عوام کے منتخب نمایندوں کے کرپشن اسکینڈلز اخبارات کی زینت بنتے ہیں اور ٹی وی چینلز پر نشر ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ شرمندہ ہونے کے بجائے مسکراتے چہروں کے ساتھ معاشرے میں اپنا سیاسی چورن بیچتے نظر آتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سوشل میڈیا ونگز بنا رکھے ہیں، یہ ونگز سوشل میڈیا پر مخالف جماعتوں کے رہنماؤں کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں، حتی کے ملک کے اہم اداروں اور شخصیات کے حوالے سے شرانگیز پراپیگنڈا کیا جاتا ہے اور سیاسی قیادت اس کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آرہی ہے ۔ ملک کے باشعور لوگ ان غلط پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں توان کو بھی گالیوں اور بے عزتی کے ساتھ ساتھ دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ جمہوریت میں اختلاف ہر جماعت کا بنیادی حق ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ جھوٹا، غلیظ اور شرانگیز پراپیگنڈا کیا جائے،معاشرتی اقدار سے عار ہوکر گند اچھالا جائے ۔
میڈیا کی اطلاع کے مطابق سعودی حکومت نے مسجد نبوی میں پاکستانی حکومتی وفد کی آمد پرسیاسی نعرے بازی اور ہلڑبازی پر کارروائی کرتے ہوئے پانچ پاکستانی باشندوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ مدینہ پولیس نے گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے۔سعودی پریس ایجنسی نے مدینہ پولیس کے ترجمان کے حوالے سے بتایا ہے کہ سیکیورٹی حکام نے پاکستانی شہریت کے حامل پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے۔
مدینہ پولیس کے مطابق گرفتارافراد کے خلاف قانونی کارروائی مکمل کرکے معاملہ مجاز حکام کو بھیج دیا گیا ہے۔پاکستان میں سعودی سفارتخانے کے ترجمان ف نے بھی گرفتاریوں کی تصدیق کردی ہے۔ بی بی سی کے مطابق جب اس بارے میں سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے کے حکام سے پوچھاگیا تو ان کا کہنا تھا کہ جو بھی ہو گا، سعودی پریس ایجنسی پر آ جائے گا۔
پاکستان کو یہ دن بھی دیکھنے تھے ، جن لوگوں نے یہ قبیح حرکت کی ، انھوں نے اپنی عاقبت خراب کرلی، پاکستان کے پالیسی سازوں، اہل علم ، اساتذہ، ادباء و شعرا کو ان خطرناک ، نفرت انگیز اورمائنڈلیس سیاسی رویوں کی فکرکرنی چاہیے، ان رویوں کی وجہ سے پاکستان کی نوجوان نسل برباد ہورہی ہے ، اب اہل علم کو خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ اصلاح کے لیے آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ اگر اس وقت تعلیم کی سب سے زیادہ ضرورت ہے تو ریاست کے اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی قیادت کو ہے۔
سیاسی بحث مباحثے میں جو زبان استعمال کی جارہی ہے اور جس طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کی جاتی ہے اور ہر گفتگوکا اختتام لڑائی جھگڑے اور گالی گلوچ پر ہوتا ہے، اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے ۔ بظاہر پڑھے لکھے،مہذب نظر آنے والے حضرات جب سیاست ، معاشرت یا فقہی معاملات پر بات کرتے ہیں تو ان کی ذہنی افلاس پر رونا آتاہے۔ یہ ذہنی حالت ملک ومعاشرے کی وحدت اور سالمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ حکمرانوں کے کارناموں کی وجہ سے دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے اور ہم ایک انتہا پسند معاشرے کے طور پر جانے جا رہے ہیں۔
اس تشویش ناک صورتحال میں ملک کی سیاسی قیادت اور ریاستی مشینری چلانے والے بابوؤں کو استحقاقی اور مراعاتی کلچر سے باہر آنا ہوگا۔ ایسے قوانیں کو تبدیل کرنا پڑے جو ریاستی منصاب پر فائز افراد کو صوابدیدی اختیارات کے دیتے ہیں۔ پاکستان میں بڑے سے بڑے ریاستی عہدیدار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ غیرملکی تحائف کو خود رکھے یا کسی اور دے، اسے یہ بھی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ریاست کی ملکیت زمین کسی کو صوابیدی اختیار کے کسی کو الاٹ کردے، اس قسم کے اختیارات انگریز راج میں دیے گئے تھے ، مالی فوائد اور مراعات وہی ملنی چاہیں جو تنخواہ کی مد میں ہوں۔
جس ملک کی قیادت شہریوں کو بنیادی انسانی حققوق کی ضمانت فراہم نہیں کر سکتی، وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتے۔ اخلاقی زوال اور عدم برداشت کے خاتمہ کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ نئی حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک کے فرسودہ نظام تعلیم اور نصاب تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے اقدامات اٹھائے ، ملک کو معاشرے کے کو تعلیم یافتہ انتہاپسندوں کی نہیں بلکہ پڑھے لکھے روشن خیال افراد کی ضرورت ہے، انھیں ایسا نصاب پڑھانے کی ضرورت ہے ، جسے پڑھ کر ان میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور سجھنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر مثال بنتے ہوئے اس کی شروعات کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔