خدارا ہمیں بے وقت مرنے سے بچاؤ
اگر آپ یہ لڑائی اورجنگ پلاننگ ، ہمت ، جرأت ، عقل و دانش کے ساتھ لڑتے ہیں تو فتح لازماً ہوتی ہے
جان بنیان اپنی کتاب "Pilgrims Progress" جو1848 میں لکھی کاآغاز یوں کرتا ہے '' اس دنیا کے ویرانے میں گھومنے پھرنے کے دوران میں ایک جگہ کچھ دیر رکا جہاں ایک کچھار تھی میں سستانے کے لیے اس جگہ لیٹ گیا، آنکھ لگنے پر میں نے ایک خواب دیکھا۔
میں نے خواب میں چیتھڑوں میں ملبوس ایک شخص کو ایک مخصوص مقام پر کھڑے دیکھا ،اس کا چہرہ اپنے گھرکی طرف تھا، ہاتھ میں ایک کتاب اور کمر پر کافی بوجھ تھا میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے کتاب کھولی اور پڑھنے لگا پڑھتے پڑھتے وہ رو پڑا اور لرزنے لگا اور مزید برداشت نہ کرسکنے پر وہ ماتمی انداز میں چلایا '' میں کیاکروں؟ '' اگریہ کہاجائے کہ آج پاکستانیوں کی اکثریت اس ہی کیفیت کا شکار ہے تو کیا یہ کہنا غلط ہو گا۔
کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ انسان کی ایسی کیفیت کب ہوتی ہے۔ حالانکہ انسان بظاہر بہت مضبوط اور طاقتور دکھائی دیتا ہے ، لیکن اصل میں یہ سچائی نہیں ہے بقول پاسکل کے '' انسان دریا کے کنارے اگی ہوئی گھاس ہے وہ فطرتاً سب سے کمزور ہے لیکن وہ سوچنے والی گھاس ہے۔ '' انسان میں خدا نے برداشت کی ایک حد رکھی ہے وہ اس حد سے زیادہ تکلیفیں ، پر یشانیاں ، مصیبتیں، برداشت نہیں کر سکتا ہے ۔ اس کے بعد وہ مایوسی ، ناامیدی میں ڈوب جاتا ہے ۔ اسے ایسا لگتاہے کہ جیسے اسے دیوار میں چن دیا گیا ہے جس میں ہوا آنے کے تمام راستے بند ہیں۔
خداانسان کو معاف کر دیتا ہے لیکن پریشانیاں ، مصیبتیں اور تکلیفیں کبھی معاف نہیں کر تیں ۔ عظیم یونانی المیہ نگار سو فو کلیز کے ڈرامے '' شاہ اوئی دی پوس '' میں تھیبیز میں اوئی دی پوس کے محل کے سامنے لوگوں کا ایک گروہ عرض گذاروں کے روپ میں قربان گاہ کے سامنے بیٹھا ہے ان میں زیوس کا بوڑھا پجاری بھی ہے۔ اوئی دی پوس دروازے میں داخل ہوتاہے اور کہتا ہے ''کیڈس کے قدیم ترین گھرانے کے بیٹو کیا بات ہے آج تم عرض گزاروں کے روپ میں سر پر کافور کی ٹہنیاں سجائے ہوئے کیوں آئے ہو؟
شہرمیں لوبان کی خوشبو کیوں پھیلی ہوئی ہے۔ اذیتوں کو دور کرنے کے لیے دعائیںکیوں مانگی جارہی ہیں میں نے یہ مناسب سمجھا کہ خود آکر دیکھوں نہ کہ پیا مبر کو بھیجوں ، میں اوئی دی پوس جس کو سب جانتے ہیں ۔ تم سب سے عمر رسیدہ ہو، تمہیں یہ حق حاصل ہے کہ سب کی ترجمانی کرو۔ تم مجھے بتائو کہ میری قربان گاہ کے سامنے کیوں جمع ہو کیا تم کسی بات سے خوفزدہ ہو ، یہاں کیوں آئے ہو کیا چاہتے ہو جس قد رممکن ہو سکا میں تمہاری مدد کروں گا ۔''
زیوس کا بوڑھا پجاری کہتا ہے ''اے مالک ، بادشاہ وقت ، ہم سب بزرگ و جوان یہاں جمع ہوئے ہیں کچھ پجاری ہیں کچھ تھیبیزکے خوبصورت نوجوان ہیں۔ عالی مقام تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ شہر کس تکلیف میں مبتلا ہے موت جو اس کے اوپر منڈلا رہی ہے اب اسے عافیت چاہیے چار سو موت پھیلی ہوئی ہے ۔کیڈمس کا گھرانہ تباہ ہورہاہے اور ہیڈیز میں لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں اور وہاں کرب ناک چیخ پکار جاری ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ بچے اور میں تمہا رے پا س آئے ہیں ہم تمہیں دیوتا نہیں سمجھتے لیکن یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ فانی انسانوں میں سے تمہیںیہ مقام حاصل ہے کہ تم ان مسائل کاحل ڈھونڈ سکو جن سے انسان دو چار ہے اورجن مسائل کا حل دیوتائوں نے انسان کو دیا ہے۔
تمہیں یاد ہوگا کہ اس سے پہلے بھی تھیبیز میں آئے تھے اور ہمیں عذاب سے نجات دلائی تھی جس میں ہم مبتلا تھے تم نے اس کا حل ڈھونڈ لیا تھا اس وقت تم ہم سے زیادہ باعلم نہیں تھے ہم نے تمہاری کوئی مدد نہیں کی تھی دیوتا تمہاری مدد کو آئے تھے اور تم نے ہمیں دوبارہ معمول کے مطابق زندگی عطا کی تھی ۔ اب دوسری بار عظیم اوئی دی پوس ہم تجھ سے مدد مانگنے آئے ہیں ہماری کچھ مدد کرو اپنی مدد کے لیے خواہ کسی دیوتا یا انسان کو ہی کیوں نہ بلائو تم نے اس وقت ہماری مدد کی تھی ہاں ہمیں یقین ہے کہ اب بھی ہماری مدد کروگے اے آقا ! ہمارے شہر کی رونقیں بحال کر دے۔
اپنی شہرت کا پاس کرو لوگ جانتے ہیں کہ ماضی میں بھی تم نے انھیں ان مایوسیوں سے نکالا تھا کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دو کہ تم نے ہمیں عروج دیا اس زوال کے لیے ۔ ہمارا تحفظ کرو تمہیں ایک دفعہ نیک شگون ملے تھے اور تم نے ہمارے لیے قسمت کی راہیں کھول دی تھیں ان شگونوں کو ایک دفعہ پھر ڈھونڈ و اگر تم نے اس ملک پر حکومت ہی کرنی ہے تو لوگوں پر حکومت کرو۔ اس دیوار پر نہیں جو ویرانوں کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے انسانوں کے بغیر نہ ہی کوئی دیوار شہر اور نہ ہی کوئی جنگی بیڑہ مستحکم ہوتے ہیں۔''
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائو ،کیا بالکل ایسا ہی منظر آج پاکستان کا نہیں بنا ہوا ہے ؟کیا پاکستان کا ہر شخص آج موت کی زد میں نہیں ہے ؟ کیا ہر شخص آج تکلیف اور اذیت میں مبتلا نہیں ہے ؟کیا بھوک کی وجہ سے ہر شخص اپنی اپنی قبر کے قریب نہیں پہنچ چکاہے ؟ کیا موت ہر شخص کو نگل نہیں رہی ہے ؟ 1981 کا واقعہ ہے ہیرا لڈکشنرنے جو کہ خود کو زندگی کا ستایا ہوا قرار دیتا ہے ،ایسے لوگوں کے لیے کتاب لکھی جو زندگی کے ستا ئے ہوئے ہیں اور کسی بہتر چیز کے حقدار ہیں اس کتاب کانامWhen Bad Thigns Happen to Good Peopleہے ۔
یہ کتاب بیسو ی صدی کی نویں دہائی کے دوران چند سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک ہے، کیونکہ اس میں ہمارے ایک قدیم ترین اور آفاقی سوال کو مو ضوع بنایا گیا ہے اور وہ سوال ہے '' میں ہی کیوں''یہ ہی سب سے زیادہ اذیت ناک وہ سچ ہے جسے ہم نے جاننا ہے اور شاید دنیا بھر میں سب سے زیادہ پوچھے جانے والا سوال بھی یہ ہی ہے اور پاکستان میں تو 22کروڑ انسانوں کے منہ پر یہ ہی سوال ہے کہ آخر ''میں ہی کیوں '' فلسفی ہزاروں سال سے اس موضوع پے لکھتے چلے آئے ہیں کہ زندگی جیسی ہے وہ ویسی کیوں ہوتی ہے کیونکہ زندگی ہمیشہ ویسی نہیں ہوتی جیسی ہم چاہتے ہیں۔
ٹم ہینسل اپنی حیران کن کتابYou Gootta Keep Dancin میں لکھتا ہے '' درد و کر ب نا گزیر ہے لیکن مصیبت زدہ ہونا اختیاری ہے۔ '' انگلینڈ میںCrom Wellian گر جاگھروں میں پتھرلی دیواروں پر دو لفظ کندہ ہو تے ہیں '' سو چوا ور شکر کرو ۔'' آئیں !ہم مل کر سو چتے ہیں کہ ہم سب بدترین صورتحال سے 'ـ'کیوں '' دو چار ہیں ۔ دنیا میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی ۔ مفت میں صرف ذلت ، شرمندگی ، ناکامی ، مسائل اور مشکلات ملتے ہیں ۔ دنیا آپ کو کامیاب اور خو شحال اورمسائل سے پاک بنانے کے لیے خود کو وقف نہیں کرتی ہے ۔مسائل اور مشکلات وقت کی طرح ہوتے ہیںجنہیں آپ کی زندگی میں آنا ہی ہوتا ہے حال اور مستقبل پہلے سے لکھے ہوئے نہیں ہوتے کہ جس میں آپ داخل ہوجائیں یہ آپ کو اپنے لیے روز بنا نا پڑتے ہیں۔
اب یہ ہم پر منحصر ہوتاہے کہ ہم اسے پنے لیے مسرت زدہ بناتے ہیں یااذیت زدہ ۔ یہ روز کی لڑائی اورجنگ آخری سانس تک جاری رہتی ہے ، اگر آپ یہ لڑائی اورجنگ پلاننگ ، ہمت ، جرأت ، عقل و دانش کے ساتھ لڑتے ہیں تو فتح لازماً ہوتی ہے ۔ اسے بد نصیبی کہیں یا بد قسمتی ہم سالہا سال سے لڑے بغیر یہ جنگ ہارتے چلے جارہے ہیں اوربد نصیبی اور بد قسمتی کو اپنا نصیب اور مقدر مانے بیٹھے ہیں اور یہ چاہ رہے ہیں کہ کہیں سے کوئی آئے اور ہماری لڑائی اور جنگ لڑے اور ہماری زندگی کو مسرت زدہ اور خو شگوار بنا دے۔
میں نے خواب میں چیتھڑوں میں ملبوس ایک شخص کو ایک مخصوص مقام پر کھڑے دیکھا ،اس کا چہرہ اپنے گھرکی طرف تھا، ہاتھ میں ایک کتاب اور کمر پر کافی بوجھ تھا میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے کتاب کھولی اور پڑھنے لگا پڑھتے پڑھتے وہ رو پڑا اور لرزنے لگا اور مزید برداشت نہ کرسکنے پر وہ ماتمی انداز میں چلایا '' میں کیاکروں؟ '' اگریہ کہاجائے کہ آج پاکستانیوں کی اکثریت اس ہی کیفیت کا شکار ہے تو کیا یہ کہنا غلط ہو گا۔
کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ انسان کی ایسی کیفیت کب ہوتی ہے۔ حالانکہ انسان بظاہر بہت مضبوط اور طاقتور دکھائی دیتا ہے ، لیکن اصل میں یہ سچائی نہیں ہے بقول پاسکل کے '' انسان دریا کے کنارے اگی ہوئی گھاس ہے وہ فطرتاً سب سے کمزور ہے لیکن وہ سوچنے والی گھاس ہے۔ '' انسان میں خدا نے برداشت کی ایک حد رکھی ہے وہ اس حد سے زیادہ تکلیفیں ، پر یشانیاں ، مصیبتیں، برداشت نہیں کر سکتا ہے ۔ اس کے بعد وہ مایوسی ، ناامیدی میں ڈوب جاتا ہے ۔ اسے ایسا لگتاہے کہ جیسے اسے دیوار میں چن دیا گیا ہے جس میں ہوا آنے کے تمام راستے بند ہیں۔
خداانسان کو معاف کر دیتا ہے لیکن پریشانیاں ، مصیبتیں اور تکلیفیں کبھی معاف نہیں کر تیں ۔ عظیم یونانی المیہ نگار سو فو کلیز کے ڈرامے '' شاہ اوئی دی پوس '' میں تھیبیز میں اوئی دی پوس کے محل کے سامنے لوگوں کا ایک گروہ عرض گذاروں کے روپ میں قربان گاہ کے سامنے بیٹھا ہے ان میں زیوس کا بوڑھا پجاری بھی ہے۔ اوئی دی پوس دروازے میں داخل ہوتاہے اور کہتا ہے ''کیڈس کے قدیم ترین گھرانے کے بیٹو کیا بات ہے آج تم عرض گزاروں کے روپ میں سر پر کافور کی ٹہنیاں سجائے ہوئے کیوں آئے ہو؟
شہرمیں لوبان کی خوشبو کیوں پھیلی ہوئی ہے۔ اذیتوں کو دور کرنے کے لیے دعائیںکیوں مانگی جارہی ہیں میں نے یہ مناسب سمجھا کہ خود آکر دیکھوں نہ کہ پیا مبر کو بھیجوں ، میں اوئی دی پوس جس کو سب جانتے ہیں ۔ تم سب سے عمر رسیدہ ہو، تمہیں یہ حق حاصل ہے کہ سب کی ترجمانی کرو۔ تم مجھے بتائو کہ میری قربان گاہ کے سامنے کیوں جمع ہو کیا تم کسی بات سے خوفزدہ ہو ، یہاں کیوں آئے ہو کیا چاہتے ہو جس قد رممکن ہو سکا میں تمہاری مدد کروں گا ۔''
زیوس کا بوڑھا پجاری کہتا ہے ''اے مالک ، بادشاہ وقت ، ہم سب بزرگ و جوان یہاں جمع ہوئے ہیں کچھ پجاری ہیں کچھ تھیبیزکے خوبصورت نوجوان ہیں۔ عالی مقام تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ شہر کس تکلیف میں مبتلا ہے موت جو اس کے اوپر منڈلا رہی ہے اب اسے عافیت چاہیے چار سو موت پھیلی ہوئی ہے ۔کیڈمس کا گھرانہ تباہ ہورہاہے اور ہیڈیز میں لاشوں کے انبار لگ رہے ہیں اور وہاں کرب ناک چیخ پکار جاری ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ بچے اور میں تمہا رے پا س آئے ہیں ہم تمہیں دیوتا نہیں سمجھتے لیکن یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ فانی انسانوں میں سے تمہیںیہ مقام حاصل ہے کہ تم ان مسائل کاحل ڈھونڈ سکو جن سے انسان دو چار ہے اورجن مسائل کا حل دیوتائوں نے انسان کو دیا ہے۔
تمہیں یاد ہوگا کہ اس سے پہلے بھی تھیبیز میں آئے تھے اور ہمیں عذاب سے نجات دلائی تھی جس میں ہم مبتلا تھے تم نے اس کا حل ڈھونڈ لیا تھا اس وقت تم ہم سے زیادہ باعلم نہیں تھے ہم نے تمہاری کوئی مدد نہیں کی تھی دیوتا تمہاری مدد کو آئے تھے اور تم نے ہمیں دوبارہ معمول کے مطابق زندگی عطا کی تھی ۔ اب دوسری بار عظیم اوئی دی پوس ہم تجھ سے مدد مانگنے آئے ہیں ہماری کچھ مدد کرو اپنی مدد کے لیے خواہ کسی دیوتا یا انسان کو ہی کیوں نہ بلائو تم نے اس وقت ہماری مدد کی تھی ہاں ہمیں یقین ہے کہ اب بھی ہماری مدد کروگے اے آقا ! ہمارے شہر کی رونقیں بحال کر دے۔
اپنی شہرت کا پاس کرو لوگ جانتے ہیں کہ ماضی میں بھی تم نے انھیں ان مایوسیوں سے نکالا تھا کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ دو کہ تم نے ہمیں عروج دیا اس زوال کے لیے ۔ ہمارا تحفظ کرو تمہیں ایک دفعہ نیک شگون ملے تھے اور تم نے ہمارے لیے قسمت کی راہیں کھول دی تھیں ان شگونوں کو ایک دفعہ پھر ڈھونڈ و اگر تم نے اس ملک پر حکومت ہی کرنی ہے تو لوگوں پر حکومت کرو۔ اس دیوار پر نہیں جو ویرانوں کو گھیرے ہوئے ہوتی ہے انسانوں کے بغیر نہ ہی کوئی دیوار شہر اور نہ ہی کوئی جنگی بیڑہ مستحکم ہوتے ہیں۔''
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائو ،کیا بالکل ایسا ہی منظر آج پاکستان کا نہیں بنا ہوا ہے ؟کیا پاکستان کا ہر شخص آج موت کی زد میں نہیں ہے ؟ کیا ہر شخص آج تکلیف اور اذیت میں مبتلا نہیں ہے ؟کیا بھوک کی وجہ سے ہر شخص اپنی اپنی قبر کے قریب نہیں پہنچ چکاہے ؟ کیا موت ہر شخص کو نگل نہیں رہی ہے ؟ 1981 کا واقعہ ہے ہیرا لڈکشنرنے جو کہ خود کو زندگی کا ستایا ہوا قرار دیتا ہے ،ایسے لوگوں کے لیے کتاب لکھی جو زندگی کے ستا ئے ہوئے ہیں اور کسی بہتر چیز کے حقدار ہیں اس کتاب کانامWhen Bad Thigns Happen to Good Peopleہے ۔
یہ کتاب بیسو ی صدی کی نویں دہائی کے دوران چند سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک ہے، کیونکہ اس میں ہمارے ایک قدیم ترین اور آفاقی سوال کو مو ضوع بنایا گیا ہے اور وہ سوال ہے '' میں ہی کیوں''یہ ہی سب سے زیادہ اذیت ناک وہ سچ ہے جسے ہم نے جاننا ہے اور شاید دنیا بھر میں سب سے زیادہ پوچھے جانے والا سوال بھی یہ ہی ہے اور پاکستان میں تو 22کروڑ انسانوں کے منہ پر یہ ہی سوال ہے کہ آخر ''میں ہی کیوں '' فلسفی ہزاروں سال سے اس موضوع پے لکھتے چلے آئے ہیں کہ زندگی جیسی ہے وہ ویسی کیوں ہوتی ہے کیونکہ زندگی ہمیشہ ویسی نہیں ہوتی جیسی ہم چاہتے ہیں۔
ٹم ہینسل اپنی حیران کن کتابYou Gootta Keep Dancin میں لکھتا ہے '' درد و کر ب نا گزیر ہے لیکن مصیبت زدہ ہونا اختیاری ہے۔ '' انگلینڈ میںCrom Wellian گر جاگھروں میں پتھرلی دیواروں پر دو لفظ کندہ ہو تے ہیں '' سو چوا ور شکر کرو ۔'' آئیں !ہم مل کر سو چتے ہیں کہ ہم سب بدترین صورتحال سے 'ـ'کیوں '' دو چار ہیں ۔ دنیا میں کوئی چیز مفت نہیں ملتی ۔ مفت میں صرف ذلت ، شرمندگی ، ناکامی ، مسائل اور مشکلات ملتے ہیں ۔ دنیا آپ کو کامیاب اور خو شحال اورمسائل سے پاک بنانے کے لیے خود کو وقف نہیں کرتی ہے ۔مسائل اور مشکلات وقت کی طرح ہوتے ہیںجنہیں آپ کی زندگی میں آنا ہی ہوتا ہے حال اور مستقبل پہلے سے لکھے ہوئے نہیں ہوتے کہ جس میں آپ داخل ہوجائیں یہ آپ کو اپنے لیے روز بنا نا پڑتے ہیں۔
اب یہ ہم پر منحصر ہوتاہے کہ ہم اسے پنے لیے مسرت زدہ بناتے ہیں یااذیت زدہ ۔ یہ روز کی لڑائی اورجنگ آخری سانس تک جاری رہتی ہے ، اگر آپ یہ لڑائی اورجنگ پلاننگ ، ہمت ، جرأت ، عقل و دانش کے ساتھ لڑتے ہیں تو فتح لازماً ہوتی ہے ۔ اسے بد نصیبی کہیں یا بد قسمتی ہم سالہا سال سے لڑے بغیر یہ جنگ ہارتے چلے جارہے ہیں اوربد نصیبی اور بد قسمتی کو اپنا نصیب اور مقدر مانے بیٹھے ہیں اور یہ چاہ رہے ہیں کہ کہیں سے کوئی آئے اور ہماری لڑائی اور جنگ لڑے اور ہماری زندگی کو مسرت زدہ اور خو شگوار بنا دے۔