یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن
مظلوموں، محنت کشوں، محکوموں، غریبوں، غلاموں کی بڑی طویل اور کٹھن صبر آزما جد و جہد صدیوں سے جاری ہے
ISLAMABAD:
آج سے ٹھیک 136 سال قبل امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں محنت کشوں نے اپنے اوقات کار مقرر کر نے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہوئے آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر کروائے تھے جب کہ ہمارے ملک پاکستان میں آج بھی مزدور 12 اور 16 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں، آج ملک میں سیاسی بحران ہے عمران حکومت ختم ہو چکی ہے ملک کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف تحریک عدم اعتماد کے بعد وزیر اعظم بن چکے ہیں۔
رمضان کے آخری دن میں شاید تین مئی کو عید منائی جائے گی ہم یکم مئی شاید چاند رات کو منا رہے ہوں گے اور شکاگو کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ دوسری جانب یورپ میں مزدورچھ گھنٹے اوقات کار بہتر تنخواہ یا اجرت کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔
یکم مئی کو دنیا بھر کے محنت کش اپنے اپنے ملکوں میں شکاگو کے ان شہید محنت کشوں کی یاد میں جلسے جلوس، سیمینار اور ریلیاں نکال کر اس عہد اور عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ جب تک دنیا سے استحصالی نظام کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔
ویسے مظلوموں، محنت کشوں، محکوموں، غریبوں، غلاموں کی بڑی طویل اور کٹھن صبر آزما جد و جہد صدیوں سے جاری ہے اور آج بھی جاری ہے جب سے کائنات یا دنیا وجود میں آئی ہے کشمکش جاری ہے، جانے کب پہلی مرتبہ زمین پر طاقتور لوگوں نے لکیریں کھینچ کر اپنے حق ملکیت کا دعویٰ کرنا شروع کر دیا تھا اور کمزور بے بس مظلوم، محکوم اور غریب عوام پر ظلم و ستم اور جبر کر کے اپنا غلام بنا لیا تھا اور جبری مشقت لینا شروع کردی۔ خیر یہ تو بڑی طویل داستان ہے۔ ابتدائی معاشرہ تو بھائی چارے کا اشتراکی معاشرہ تھا۔
18 ویں اور 19 ویں صدی میں تقریباً مزدور طبقہ وجود میں آگیا تھا اور منظم بھی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب جب کوئلے اور بھاپ سے چلنے والے انجن اور کارخانے مشینی دور میں داخل ہونا شروع ہو گئے تھے، بڑے کم معاوضے پر مزدوروں سے جبری مشقت اور بیگار لی جاتی تھی بلکہ ان کو کارخانوں ہی میں بند کر دیا جا تا تھا۔ اس سے قبل 1783 اور 1789 میں فرانس میں ایک انقلابی تبدیلی آ چکی تھی۔ جسے پیرس انقلاب یا پیرس کمیون بھی کہا جا تا ہے۔ کارل مارکس کے نظریات پھیل رہے تھے۔ اینگلز کا دور تھا داس کیپٹل نامی کتاب پورے یورپ میں آ چکی تھی۔
کارل مارکس 1883ء میں دنیا چھوڑ گئے تھے۔ اسی دوران میں محنت کشوں میں انجمن سازی بھی ہو رہی تھی۔ محنت کشوں کے لیے کوئی قانون نہیں تھا، نہ اوقات کار تھے، رات گئے تک کام کرنا پڑتا تھا۔ حادثے اور موت کی صورت میں کوئی معاوضہ بھی نہیں ملتا تھا، یورپ میں نئی نئی صنعتیں لگ رہی تھیں۔ سائنس بھی ترقی کر رہی تھی کارخانوں فیکٹریوں اور ملوں کا جال بچھایا جا رہا تھا۔ مزدور طبقہ بپھر رہا تھا اور یونین سازی کی طرف بڑھ رہا تھا سب سے پہلے برٹش راج میں برطانیہ میں مزدوروں نے جدو جہد کی یونینز بنائی۔ فیڈریشن بنائی کمیونسٹ لیگ پہلے ہی بن چکی تھی، اس سے قبل بھی محنت کش مختلف اشکال میں جد و جہد کرتے رہے تھے مگر جو کام شکاگو کے محنت کش 1886ء میں کر گئے وہ رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔
136 سال قبل ایسے مزدور رہنما پیدا ہو گئے تھے، جنھوں نے شکاگو میں پہلی مکمل ہڑتال کر کے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے مزدور تحریک کو ایک نیا رخ دے کر محنت کشوں کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔ یہ واقعہ شکاگو کی مشہور زمانہ ''ہے'' (HAY) مارکیٹ کے قریب پیش آیا۔ ان محنت کشوں نے اس وقت کے حکمرانوں، مل مالکوں، کارخانہ داروں، سرمایہ داروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ''ظالم حکمرانوں ہم بھی انسان ہیں ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دو، ہمارے اوقات کار مقرر کرو، ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو، ہمیں روز گار دو۔''
وہ نعرے لگا رہے تھے ''دنیا بھر کے مزدورو! ایک ہو جاؤ'' وہ بلا رنگ و نسل و مذہب ایک تھے گو کہ وہ عیسائی یا یہودی تھے مگر حکمران اور مل مالکان بھی اسی نسل کے تھے، پورا صنعتی شہر جام ہو گیا۔ ملوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہو گیا تھا۔ دنیا میں یہ پہلا موقع تھا جب محنت کرنے والوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے علم بغاوت بلند کردیا تھا، یکم مئی 1886 کو صبح ایک مزدوروں کے اخبار میں کسی گمنام صحافی نے اپنا انقلابی فرض ادا کرتے ہوئے صفحہ اول پر تحریر کر دیا تھا جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
''مزدورو تمہاری لڑائی شروع ہوچکی ہے، فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا، آگے بڑھو، اپنے مطالبات منوانے کے لیے، اپنے اوقات کار کے لیے جدوجہد جاری رکھنا، حاکموں کو جھکنا پڑے گا۔ جیت اور فتح تمہاری ہوگی۔ ہمت نہ ہارنا، متحد رہنا، اسی میں تمہاری بقا ہے اسی میں تمہاری فتح ہے، لڑتے رہنا، مطالبات کی منظوری تک مزدور اتحاد زندہ باد۔'' صحافی کی اس تقریر نے محنت کشوں میں مزید جذبہ اور ابھار پیدا کر دیا اور انھوں نے زور دار نعرے کے ساتھ 8 گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ کر دیا اور یوں پہلی مرتبہ 24 گھنٹوں کو کچھ اس طرح تقسیم کیا گیا، ہم آٹھ گھنٹے کام کریں گے ہم آٹھ گھنٹے آرام کریں گے ہم آٹھ گھنٹے اپنے اہل خانہ اور بیوی بچوں میں گزاریں گے۔
حکمرانو! مل مالکو! سرمایہ دارو! کو محنت کشوں کا یہ نعرہ اور اتحاد پسند نہ آیا اور انھوں نے محنت کشوں کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ نہتے کمزور اور پرامن محنت کشوں کو لہولہان کردیا۔ شکاگو کی سڑکوں پر مزدوروں کا خون بہنے لگا۔ محنت کشوں کا امن کا سفید پرچم سرخ ہو گیا۔ ایک محنت کش کی قمیض لہو سے سرخ ہوگئی پھر انھوں نے لہو میں ڈبوئے ہوئے سرخ پرچم کو ہی اپنا پرچم بنا لیا اور فیصلہ کیا کہ اب یہی سرخ پرچم ہمارا جھنڈا ہو گا ہم اس وقت تک کام پر نہیں جائیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔ سرخ پرچم ہی ہمارا پرچم ہو گا اس وقت سے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کیے اور پہلی مرتبہ آٹھ گھنٹے اوقات کار تسلیم کیے گئے۔
اس موقع پر محنت کشوں کے سرکردہ رہنماؤں فشر، اینجل، پیٹرسنز اور اسپائز سمیت سات رہنماؤں پر مقدمہ چلایا گیا اور چار رہنماؤں کو پھانسی کے پھندے پر چڑھایا گیا۔ یہ رہنما دنیا سے تو چلے گئے مگر اپنا نام اپنا کام اور اپنی تحریک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے، ان رہنماؤں نے پھانسی کے پھندے پر چڑھنے سے پہلے کہا تھا۔ حاکمو! غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو نہیں تو پھر ان کی تلواریں بلند ہوں گی (اسپائز ) جب کہ ایک اور ساتھی نے کہا تھا کہ ''ہم نیک مقصد کے لیے جان دے رہے ہیں ہمارا قافلہ آگے بڑھے گا۔''
بعد ازاں دنیا بھر میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ 1917ء میں روس میں انقلاب آیا پھر چین میں انقلاب آیا اور اب لاطینی امریکا کے ممالک سمیت مشرق وسطیٰ میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ خود یورپ میں بڑی تبدیلی آئی ہے، محنت کشوں نے کئی ایک مراعات حاصل کر لی ہیں وہاں 6 گھنٹے اوقات کار ہیں۔ تعلیم، صحت اور رہائش گاہ میسر ہے مگر ہمارے ملک میں آج بھی 12 اور 16 گھنٹے کام لیا جا تا ہے۔ ملک میں بھوک غربت، جہالت بے روز گاری عام ہے، خودکشی کا رجحان عام ہے۔پاکستان میں محنت کشوں کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں، حکمرانوں، سرمایہ داروں مذہبی فرقہ پرستوںلسانی اور نسلی گروہوں نے محنت کشوں کو زبان مذہب کلچر، تہذیب اور سیاسی جماعتوں میں تقسیم در تقسیم کر دیا ہے۔
ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کے لیبر ونگ ہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک کمزور ہو کر دم توڑ رہی ہے بلکہ اب تو نظریاتی ٹریڈ یونین ختم ہوتی نظر آرہی ہے، بعض لیبر لیڈر لیبر لارڈ بن گئے ہیں، ایئر کنڈیشنڈ یونین آفس میں بیٹھے ہیںمزدوروں سے براہ راست رابطہ ہی نہیں رہا۔ نجکاری کا ڈنکا بج رہا ہے قو می اداروں کو فروخت کیا جا رہا ہے ملکی معیشت زوال پذیر ہے ۔آئیے !ہم عہد کریں کہ یکم مئی 1886ء کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یکم مئی 2022 کو ایک نئی تاریخ رقم کریں گے۔
چند اشیائے ضرورت سے ترستے ہوئے لوگ
آخری جنگ کا اعلان تو کر سکتے ہیں
آج سے ٹھیک 136 سال قبل امریکا کے صنعتی شہر شکاگو میں محنت کشوں نے اپنے اوقات کار مقرر کر نے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیتے ہوئے آٹھ گھنٹے اوقات کار مقرر کروائے تھے جب کہ ہمارے ملک پاکستان میں آج بھی مزدور 12 اور 16 گھنٹے کام کرنے پر مجبور ہیں، آج ملک میں سیاسی بحران ہے عمران حکومت ختم ہو چکی ہے ملک کے نئے وزیر اعظم شہباز شریف تحریک عدم اعتماد کے بعد وزیر اعظم بن چکے ہیں۔
رمضان کے آخری دن میں شاید تین مئی کو عید منائی جائے گی ہم یکم مئی شاید چاند رات کو منا رہے ہوں گے اور شکاگو کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ دوسری جانب یورپ میں مزدورچھ گھنٹے اوقات کار بہتر تنخواہ یا اجرت کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔
یکم مئی کو دنیا بھر کے محنت کش اپنے اپنے ملکوں میں شکاگو کے ان شہید محنت کشوں کی یاد میں جلسے جلوس، سیمینار اور ریلیاں نکال کر اس عہد اور عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ جب تک دنیا سے استحصالی نظام کا خاتمہ نہیں ہو جاتا، ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔
ویسے مظلوموں، محنت کشوں، محکوموں، غریبوں، غلاموں کی بڑی طویل اور کٹھن صبر آزما جد و جہد صدیوں سے جاری ہے اور آج بھی جاری ہے جب سے کائنات یا دنیا وجود میں آئی ہے کشمکش جاری ہے، جانے کب پہلی مرتبہ زمین پر طاقتور لوگوں نے لکیریں کھینچ کر اپنے حق ملکیت کا دعویٰ کرنا شروع کر دیا تھا اور کمزور بے بس مظلوم، محکوم اور غریب عوام پر ظلم و ستم اور جبر کر کے اپنا غلام بنا لیا تھا اور جبری مشقت لینا شروع کردی۔ خیر یہ تو بڑی طویل داستان ہے۔ ابتدائی معاشرہ تو بھائی چارے کا اشتراکی معاشرہ تھا۔
18 ویں اور 19 ویں صدی میں تقریباً مزدور طبقہ وجود میں آگیا تھا اور منظم بھی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب جب کوئلے اور بھاپ سے چلنے والے انجن اور کارخانے مشینی دور میں داخل ہونا شروع ہو گئے تھے، بڑے کم معاوضے پر مزدوروں سے جبری مشقت اور بیگار لی جاتی تھی بلکہ ان کو کارخانوں ہی میں بند کر دیا جا تا تھا۔ اس سے قبل 1783 اور 1789 میں فرانس میں ایک انقلابی تبدیلی آ چکی تھی۔ جسے پیرس انقلاب یا پیرس کمیون بھی کہا جا تا ہے۔ کارل مارکس کے نظریات پھیل رہے تھے۔ اینگلز کا دور تھا داس کیپٹل نامی کتاب پورے یورپ میں آ چکی تھی۔
کارل مارکس 1883ء میں دنیا چھوڑ گئے تھے۔ اسی دوران میں محنت کشوں میں انجمن سازی بھی ہو رہی تھی۔ محنت کشوں کے لیے کوئی قانون نہیں تھا، نہ اوقات کار تھے، رات گئے تک کام کرنا پڑتا تھا۔ حادثے اور موت کی صورت میں کوئی معاوضہ بھی نہیں ملتا تھا، یورپ میں نئی نئی صنعتیں لگ رہی تھیں۔ سائنس بھی ترقی کر رہی تھی کارخانوں فیکٹریوں اور ملوں کا جال بچھایا جا رہا تھا۔ مزدور طبقہ بپھر رہا تھا اور یونین سازی کی طرف بڑھ رہا تھا سب سے پہلے برٹش راج میں برطانیہ میں مزدوروں نے جدو جہد کی یونینز بنائی۔ فیڈریشن بنائی کمیونسٹ لیگ پہلے ہی بن چکی تھی، اس سے قبل بھی محنت کش مختلف اشکال میں جد و جہد کرتے رہے تھے مگر جو کام شکاگو کے محنت کش 1886ء میں کر گئے وہ رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔
136 سال قبل ایسے مزدور رہنما پیدا ہو گئے تھے، جنھوں نے شکاگو میں پہلی مکمل ہڑتال کر کے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے مزدور تحریک کو ایک نیا رخ دے کر محنت کشوں کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔ یہ واقعہ شکاگو کی مشہور زمانہ ''ہے'' (HAY) مارکیٹ کے قریب پیش آیا۔ ان محنت کشوں نے اس وقت کے حکمرانوں، مل مالکوں، کارخانہ داروں، سرمایہ داروں کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ ''ظالم حکمرانوں ہم بھی انسان ہیں ہمیں بھی زندہ رہنے کا حق دو، ہمارے اوقات کار مقرر کرو، ہماری تنخواہوں میں اضافہ کرو، ہمیں روز گار دو۔''
وہ نعرے لگا رہے تھے ''دنیا بھر کے مزدورو! ایک ہو جاؤ'' وہ بلا رنگ و نسل و مذہب ایک تھے گو کہ وہ عیسائی یا یہودی تھے مگر حکمران اور مل مالکان بھی اسی نسل کے تھے، پورا صنعتی شہر جام ہو گیا۔ ملوں اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند ہو گیا تھا۔ دنیا میں یہ پہلا موقع تھا جب محنت کرنے والوں نے اپنے اتحاد کے ذریعے علم بغاوت بلند کردیا تھا، یکم مئی 1886 کو صبح ایک مزدوروں کے اخبار میں کسی گمنام صحافی نے اپنا انقلابی فرض ادا کرتے ہوئے صفحہ اول پر تحریر کر دیا تھا جو اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔
''مزدورو تمہاری لڑائی شروع ہوچکی ہے، فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا، آگے بڑھو، اپنے مطالبات منوانے کے لیے، اپنے اوقات کار کے لیے جدوجہد جاری رکھنا، حاکموں کو جھکنا پڑے گا۔ جیت اور فتح تمہاری ہوگی۔ ہمت نہ ہارنا، متحد رہنا، اسی میں تمہاری بقا ہے اسی میں تمہاری فتح ہے، لڑتے رہنا، مطالبات کی منظوری تک مزدور اتحاد زندہ باد۔'' صحافی کی اس تقریر نے محنت کشوں میں مزید جذبہ اور ابھار پیدا کر دیا اور انھوں نے زور دار نعرے کے ساتھ 8 گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ کر دیا اور یوں پہلی مرتبہ 24 گھنٹوں کو کچھ اس طرح تقسیم کیا گیا، ہم آٹھ گھنٹے کام کریں گے ہم آٹھ گھنٹے آرام کریں گے ہم آٹھ گھنٹے اپنے اہل خانہ اور بیوی بچوں میں گزاریں گے۔
حکمرانو! مل مالکو! سرمایہ دارو! کو محنت کشوں کا یہ نعرہ اور اتحاد پسند نہ آیا اور انھوں نے محنت کشوں کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہوئے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ نہتے کمزور اور پرامن محنت کشوں کو لہولہان کردیا۔ شکاگو کی سڑکوں پر مزدوروں کا خون بہنے لگا۔ محنت کشوں کا امن کا سفید پرچم سرخ ہو گیا۔ ایک محنت کش کی قمیض لہو سے سرخ ہوگئی پھر انھوں نے لہو میں ڈبوئے ہوئے سرخ پرچم کو ہی اپنا پرچم بنا لیا اور فیصلہ کیا کہ اب یہی سرخ پرچم ہمارا جھنڈا ہو گا ہم اس وقت تک کام پر نہیں جائیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے۔ سرخ پرچم ہی ہمارا پرچم ہو گا اس وقت سے محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کیے اور پہلی مرتبہ آٹھ گھنٹے اوقات کار تسلیم کیے گئے۔
اس موقع پر محنت کشوں کے سرکردہ رہنماؤں فشر، اینجل، پیٹرسنز اور اسپائز سمیت سات رہنماؤں پر مقدمہ چلایا گیا اور چار رہنماؤں کو پھانسی کے پھندے پر چڑھایا گیا۔ یہ رہنما دنیا سے تو چلے گئے مگر اپنا نام اپنا کام اور اپنی تحریک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے، ان رہنماؤں نے پھانسی کے پھندے پر چڑھنے سے پہلے کہا تھا۔ حاکمو! غریب انسانوں کی آواز بلند ہونے دو نہیں تو پھر ان کی تلواریں بلند ہوں گی (اسپائز ) جب کہ ایک اور ساتھی نے کہا تھا کہ ''ہم نیک مقصد کے لیے جان دے رہے ہیں ہمارا قافلہ آگے بڑھے گا۔''
بعد ازاں دنیا بھر میں بڑی تبدیلیاں آئیں۔ 1917ء میں روس میں انقلاب آیا پھر چین میں انقلاب آیا اور اب لاطینی امریکا کے ممالک سمیت مشرق وسطیٰ میں تبدیلیاں آرہی ہیں۔ خود یورپ میں بڑی تبدیلی آئی ہے، محنت کشوں نے کئی ایک مراعات حاصل کر لی ہیں وہاں 6 گھنٹے اوقات کار ہیں۔ تعلیم، صحت اور رہائش گاہ میسر ہے مگر ہمارے ملک میں آج بھی 12 اور 16 گھنٹے کام لیا جا تا ہے۔ ملک میں بھوک غربت، جہالت بے روز گاری عام ہے، خودکشی کا رجحان عام ہے۔پاکستان میں محنت کشوں کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں، حکمرانوں، سرمایہ داروں مذہبی فرقہ پرستوںلسانی اور نسلی گروہوں نے محنت کشوں کو زبان مذہب کلچر، تہذیب اور سیاسی جماعتوں میں تقسیم در تقسیم کر دیا ہے۔
ہر سیاسی اور مذہبی جماعت کے لیبر ونگ ہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک کمزور ہو کر دم توڑ رہی ہے بلکہ اب تو نظریاتی ٹریڈ یونین ختم ہوتی نظر آرہی ہے، بعض لیبر لیڈر لیبر لارڈ بن گئے ہیں، ایئر کنڈیشنڈ یونین آفس میں بیٹھے ہیںمزدوروں سے براہ راست رابطہ ہی نہیں رہا۔ نجکاری کا ڈنکا بج رہا ہے قو می اداروں کو فروخت کیا جا رہا ہے ملکی معیشت زوال پذیر ہے ۔آئیے !ہم عہد کریں کہ یکم مئی 1886ء کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یکم مئی 2022 کو ایک نئی تاریخ رقم کریں گے۔
چند اشیائے ضرورت سے ترستے ہوئے لوگ
آخری جنگ کا اعلان تو کر سکتے ہیں