طلوع
شعری مجموعے کا پس منظر بیان کرنے سے پہلے بہتر ہے،اپنی شاعری کے ’’غروب‘‘ کا ذکر کر دُوں
لاہور:
یہ کالم لکھنے کی تحریک مجھے اس شخصیت کی یاد سے ہوئی جو اب اس دنیا میں نہیں ہے اور اکثر لوگ شاید اُسے بھول بھی چکے ہوں گے لیکن میری لائبریری میںاس کا ایک مجموعہ کلام موجود ہے جس کا عنوان ہے ''طلوع''۔
اس شعری مجموعے کا پس منظر بیان کرنے سے پہلے بہتر ہے،اپنی شاعری کے ''غروب'' کا ذکر کر دُوں۔ میری شاعری کی ابتدا دسویں کلاس سے کالج کے تھرڈ ایئر تک رہی۔ ان چار برسوں میں میرے تین استاد تھے: جناب عبدالمجید سالک، قتیل شفائی اور احمد ندیم قاسمیؔ۔ میں ان تینوں کو اپنے اشعارجوابی لفافہ ڈال کر سیالکوٹ سے لاہور اَرسال کرتا۔ دس پندرہ روز بعد مجھے اپنا کلام مرمت ہو کر واپس آ جاتا۔
چار سال بعد میرا لاہور جانا ہوا تو قتیل شفائی صاحب نے مجھے کھانے پر بلالیا۔ میں ہاتھ میں اپنے اشعار کی کاپی ساتھ لے گیا جسے وہ پڑھتے رہے ۔ کھانے کے بعد قتیل شفائی صاحب نے میرے اشعار پڑھے اور کہا کہ بُرا مت منائیے گا، میرا مشورہ ہے کہ یہ اشعار گوئی ترک کر کے تعلیم مکمل کیجیے اور کسی اچھے کیرئیر کے لیے محنت کیجیئے ۔ اگرچہ ان کا مشورہ میرے لیے تکلیف دہ تھا لیکن مشورہ زندگی میں کام آیا۔
ایک دن احمد ندیم قاسمی ؔصاحب گھرتشریف لائے، اُن کے ہمراہ ایک خاتون بھی تھی۔ انھوں نے تعارف کرایا کہ یہ میری آفس اسسٹنٹ اور منہ بولی بیٹی ہے۔ بہت اچھی شاعرہ ہے۔ آپ کی بیگم سے درخواست ہے کہ اس کے لیے ایک اچھا رشتہ تلاش کر دیں لیکن میری بیگم یہ ذمے داری نہ نبھا سکی۔قاسمیؔ صاحب کا دفتر میرے دفتر اور گھر کے درمیان پڑتا تھا،اس لیے ہفتہ دس دن بعد میںان سے ملاقات ہوجاتی اور منصورہ احمد کے ہاتھ کا بنا چائے کا پیالہ بھی پی لیتا ،کئی بار میں اپنے دفتر سے نکل کر روانہ ہوا تو اپنے ایک ملازم کو گھر سے ٹفن کیرئیر میں کھانا لے کر قاسمیؔ صاحب کے دفتر پہنچنے کے لیے فون کر دیا۔ یوں مجھے بھی میزبانی کاشرف حاصل ہو گیا۔ کھانا کھلانے کی تمام سروس منصورہ احمد ہی انجام دیتی تھیں۔
قاسمی ؔصاحب کو اکثر مشاعروں کی صدارت اور شرکت کی دعوت آتی رہتی تھی۔ ایک دو بار مجھے بھی ان کے ہمراہ جانے کا موقع ملالیکن منصورہ احمد ہر مشاعرے میں شریک ہوتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ دوسرے شعراء اور سامعین بھی منصورہ کی شاعری کے معترف ہونے لگے ۔ منصورہ احمد کی ایک نظم جس کا عنوان ''اپنے بابا کے لیے '' جو قاسمی ؔ صاحب کی عظمت کے بارے میں لکھی ہے نذرِ قارئین ہے۔
اپنے '' بابا'' کے لیے
یہ کیسا اسم ِ اعظم ہے
یہ کیسی خواب سی دنیا کا جادو ہے
مِرے بابا کے ہونٹوں پر ''مِری بیٹیـ'' اُبھرتا ہے
تو میرا سر فلک کو چھوُنے لگتا ہے
سبھی کوئی ہوئی گڑُیاں ، غبارے
مِری جھولی میں آ گر تے ہیں سارے
کسی لوری سا یہ اَمرت مِرے کانوں میں گھلُتا ہے
تو گزری عمر کے سب پَل
بہت سے فاصلوں پر چھوُٹ جاتے ہیں
بس اک نازوں کی پالی لاڈلی بچّی
بِنا بچپن کی اِس دنیا میں
بچپن اوڑھ لیتی ہے
قاسمیؔ صاحب کی وفات کے بعد منصورہ احمد نے بھی ان کا دفتر چھوڑ دیالیکن منصورہ کی صحت پر اتنا زیادہ اثر ہوا کہ وہ خود بھی بیمار رہنے لگیں اور پھر مشیت ِ ایزدی وہ بھی اس دنیا سے سدھار گئیں۔ چند روز پہلے مجھے اپنی لائبریری میں سے اس کی کتاب بعنوان ''طلوع'' مل گئی جو میں نے کئی بار پڑھی اور پھر دل چاہا کہ اس پر مختصر تحریر لکھوں کیونکہ وہ جو طلوع ہوئی تھی اب غروب ہو چکی ہے۔
یہ کالم لکھنے کی تحریک مجھے اس شخصیت کی یاد سے ہوئی جو اب اس دنیا میں نہیں ہے اور اکثر لوگ شاید اُسے بھول بھی چکے ہوں گے لیکن میری لائبریری میںاس کا ایک مجموعہ کلام موجود ہے جس کا عنوان ہے ''طلوع''۔
اس شعری مجموعے کا پس منظر بیان کرنے سے پہلے بہتر ہے،اپنی شاعری کے ''غروب'' کا ذکر کر دُوں۔ میری شاعری کی ابتدا دسویں کلاس سے کالج کے تھرڈ ایئر تک رہی۔ ان چار برسوں میں میرے تین استاد تھے: جناب عبدالمجید سالک، قتیل شفائی اور احمد ندیم قاسمیؔ۔ میں ان تینوں کو اپنے اشعارجوابی لفافہ ڈال کر سیالکوٹ سے لاہور اَرسال کرتا۔ دس پندرہ روز بعد مجھے اپنا کلام مرمت ہو کر واپس آ جاتا۔
چار سال بعد میرا لاہور جانا ہوا تو قتیل شفائی صاحب نے مجھے کھانے پر بلالیا۔ میں ہاتھ میں اپنے اشعار کی کاپی ساتھ لے گیا جسے وہ پڑھتے رہے ۔ کھانے کے بعد قتیل شفائی صاحب نے میرے اشعار پڑھے اور کہا کہ بُرا مت منائیے گا، میرا مشورہ ہے کہ یہ اشعار گوئی ترک کر کے تعلیم مکمل کیجیے اور کسی اچھے کیرئیر کے لیے محنت کیجیئے ۔ اگرچہ ان کا مشورہ میرے لیے تکلیف دہ تھا لیکن مشورہ زندگی میں کام آیا۔
ایک دن احمد ندیم قاسمی ؔصاحب گھرتشریف لائے، اُن کے ہمراہ ایک خاتون بھی تھی۔ انھوں نے تعارف کرایا کہ یہ میری آفس اسسٹنٹ اور منہ بولی بیٹی ہے۔ بہت اچھی شاعرہ ہے۔ آپ کی بیگم سے درخواست ہے کہ اس کے لیے ایک اچھا رشتہ تلاش کر دیں لیکن میری بیگم یہ ذمے داری نہ نبھا سکی۔قاسمیؔ صاحب کا دفتر میرے دفتر اور گھر کے درمیان پڑتا تھا،اس لیے ہفتہ دس دن بعد میںان سے ملاقات ہوجاتی اور منصورہ احمد کے ہاتھ کا بنا چائے کا پیالہ بھی پی لیتا ،کئی بار میں اپنے دفتر سے نکل کر روانہ ہوا تو اپنے ایک ملازم کو گھر سے ٹفن کیرئیر میں کھانا لے کر قاسمیؔ صاحب کے دفتر پہنچنے کے لیے فون کر دیا۔ یوں مجھے بھی میزبانی کاشرف حاصل ہو گیا۔ کھانا کھلانے کی تمام سروس منصورہ احمد ہی انجام دیتی تھیں۔
قاسمی ؔصاحب کو اکثر مشاعروں کی صدارت اور شرکت کی دعوت آتی رہتی تھی۔ ایک دو بار مجھے بھی ان کے ہمراہ جانے کا موقع ملالیکن منصورہ احمد ہر مشاعرے میں شریک ہوتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ دوسرے شعراء اور سامعین بھی منصورہ کی شاعری کے معترف ہونے لگے ۔ منصورہ احمد کی ایک نظم جس کا عنوان ''اپنے بابا کے لیے '' جو قاسمی ؔ صاحب کی عظمت کے بارے میں لکھی ہے نذرِ قارئین ہے۔
اپنے '' بابا'' کے لیے
یہ کیسا اسم ِ اعظم ہے
یہ کیسی خواب سی دنیا کا جادو ہے
مِرے بابا کے ہونٹوں پر ''مِری بیٹیـ'' اُبھرتا ہے
تو میرا سر فلک کو چھوُنے لگتا ہے
سبھی کوئی ہوئی گڑُیاں ، غبارے
مِری جھولی میں آ گر تے ہیں سارے
کسی لوری سا یہ اَمرت مِرے کانوں میں گھلُتا ہے
تو گزری عمر کے سب پَل
بہت سے فاصلوں پر چھوُٹ جاتے ہیں
بس اک نازوں کی پالی لاڈلی بچّی
بِنا بچپن کی اِس دنیا میں
بچپن اوڑھ لیتی ہے
قاسمیؔ صاحب کی وفات کے بعد منصورہ احمد نے بھی ان کا دفتر چھوڑ دیالیکن منصورہ کی صحت پر اتنا زیادہ اثر ہوا کہ وہ خود بھی بیمار رہنے لگیں اور پھر مشیت ِ ایزدی وہ بھی اس دنیا سے سدھار گئیں۔ چند روز پہلے مجھے اپنی لائبریری میں سے اس کی کتاب بعنوان ''طلوع'' مل گئی جو میں نے کئی بار پڑھی اور پھر دل چاہا کہ اس پر مختصر تحریر لکھوں کیونکہ وہ جو طلوع ہوئی تھی اب غروب ہو چکی ہے۔