سبط حسن مارکس اور مشرق پہلا حصہ

مارکس اور جینی کو شادی کے بعد سکھ چین کا شاید ہی کوئی دن نصیب ہوا ہو لیکن لندن میں تو ان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا


Zahida Hina May 01, 2022
[email protected]

اپریل کا مہینہ شمالی ہند کے لیے قیامت کا مہینہ ہوتا ہے۔ دم گھونٹ دینے والی فضا، سر پرآگ برسانے والی گرمی اور زمین سے اٹھنے والے بخارات سے ہمارا کسان اور غریب انسان نڈھال ہوجاتا ہے۔ یہی دن تھے جب ہم پاکستانی اور ہندوستانی ادیب لکھنو میں 1956 کی گولڈن جوبلی کا جشن مناکر مختلف شہروں میں بکھر گئے تھے۔

سبط صاحب دلی میں آگئے تھے، یہاں ان کے پرانے دوست اور کمیونسٹ پارٹی کے احباب موجود تھے، میں نے پٹنہ کا رخ کیا تھا۔ بھائی عابد رضا بیدار اور ان کی بیگم منی آپا کی مہمان داری کا لطف اٹھاکر دودن کے لیے اپنے بھائی اور اس وقت کے صوبائی وزیر ڈاکٹر عیسیٰ کے گھر ٹھہری ہوئی تھی۔ میراسامان برآمدے میں رکھا ہوا تھا۔ برساتی میں عیسیٰ بھائی کا موٹر گہری سانسیں لے رہا تھا۔ عیسیٰ بھائی نے نگاہیں اٹھاکر مجھے دیکھا۔ وہ کوئی انگریزی اخبار پڑھ رہے تھے جسے انھوں نے تہہ کرکے ایک طرف رکھ دیا۔

''لیجیے زاہدہ بیگم جس کے ساتھ آپ کو آگرہ جانا تھا وہ تو گئے۔''

میں عیسیٰ بھائی کی بات نہیں سمجھی ۔ انھوں نے کچھ کہے بغیر میری طرف ٹائمز آف انڈیا کا صفحہ بڑھا دیا۔ پہلے صفحے پر سبط صاحب کی رخصت کی خبر تھی۔ میری آنکھیں باڑھ پر آگئی تھیں اور ہاتھ کانپ رہے تھے۔ پٹنہ ائیرپورٹ سے دلی ائیرپورٹ تک کا سفر کیسے گزرا اسے کیسے بیان کروں۔

سبط صاحب سچ ہی کہتے تھے کہ میں لکھنو گیا، تو زندہ نہیں آئوں گا۔ وہ اپنے پیروں سے چل کر گئے تھے اور تابوت میں بند ہوکر چار شانوں پر واپس کراچی آئے،وہ پاکستان کی نئی نسل کے مرشد تھے۔ انھوں نے اپنی روشن تحریروں سے پاکستان کی تمام قومیتوں کے نوجوانوں کے ذہن منور کیے ۔

وہ امریکا میں تھے جب وہاں سے دیس نکالا ملا۔ واپس وطن آئے تو پارٹی نے جس طرح سجاد ظہیر کو پاکستان میں کمیونسٹ پارٹی کو سنوارنے اور سنبھالنے کا مشکل کام سپرد کیا تھا، اسی طرح سبط حسن کو بھی یہ کام تفویض کیا۔ دونوں یہاں آئے اور پنڈی سازش کیس میں ملوث کرکے دھرلیے گئے۔ سبط صاحب شاہی قلعے کی جیل کاٹ کر نکلے تو انھوں نے فیض صاحب کے ساتھ مل کر ''لیل و نہار'' کی ادارت کی۔ ان دونوں کا مرتب کیا ہوا ''فتویٰ نمبر'' بے مثال ہوا۔ وہ کراچی آئے اور یہاں اپنے پرانے دوست مرحوم روشن علی بھیم جی کے ادارے ایسٹرن فیڈرل یونین سے وابستہ ہوئے۔

یہاں انھیں تحقیق کی سہولتیں میسر آئیں اور اس کے بعد ان کے قلم سے وہ مضامین نکلے جنھوں نے گل گامش کی داستان، وادی سندھ کی تہذیب، پاکستانی تہذیب کی پہچان'' جیسے معاملات پر لکھا۔ ان کی کتابیں شروع سے ہی ان کے دوست ملک نورانی نے شایع کیں اور اب ان کی بیٹی حوری نورانی یہ کام سر انجام دے رہی ہیں۔ ان کی کتابوں کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کسی کتاب کا بارہواں اور کسی کا پندرہواں ایڈیشن شایع ہوچکا ہے۔ سبط صاحب کی خوش نصیبی یہ رہی کہ انھیں ڈاکٹر جعفر ایسا مرتب اورمدون میسر آیا۔ انھوں نے سبط صاحب کے منتشر کاغذات کو یکجا کیا اور انھیں کتابی صورت میں حوری نورانی کی مدد سے شایع کیا۔

اس کتاب کا عنوان ''مارکس اور مشرق'' رکھا گیا تھا جس کی وضاحت کرتے ہوئے کتاب کے مرتب ڈاکٹر جعفر احمد لکھتے ہیں ''معروف ترقی پسند ادیب اوردانشور سید سبط حسن کا انتقال 20 اپریل 1986 کو ہوا۔ اپنے انتقال کے وقت وہ جن علمی منصوبوں پر کام کرنے میں منہمک تھے ''مارکس اور مشرق'' ان میں سرفہرست تھا۔ مشرقی ممالک کے حوالے سے کارل مارکس کی سوچ کیا تھی اور اس کے افکار سے ان ممالک میں تہذیبی اور سیاسی سطح پر کس قسم کے اثرات مرتب ہوئے، ان امور کا تجزیہ کرنا سبط حسن صاحب کی دیرینہ خواہش تھی ان کی بے وقت وفات کی وجہ سے ''مارکس اور مشرق'' کی تصنیف کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔

تاہم اس کتاب کے جتنے ابواب سبط حسن مکمل کرچکے تھے ان کو دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں کتاب کے موضوع کا بڑی حد تک احاطہ ہوگیا تھا۔ زندگی اگر انھیں مہلت دیتی تو شاید وہ اس کتاب میں ایک آدھ باب ہی کا مزید اضافہ کرسکتے۔

اس بات کا بھی امکان ہے کہ وہ لکھے گئے ابواب پر نظر ثانی میں بھی کچھ وقت صرف کرنا چاہتے۔ کیونکہ یہی ان کا تنصیف و تالیف کا انداز تھا کہ وہ کسی مسودے کے پریس میں جانے کے وقت تک اس کی نوک پلک سنوارنے میں مصروف رہتے تھے۔ کتاب کا وہ حصہ جو میرے اندزے کے مطابق لکھا جانا باقی تھا وہ روسی انقلاب اور مسلم دنیا پر اس کے اثرات سے متعلق تھا اور میں اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر یہ کہنے کی پوزیش میں ہوں کہ سبط حسن صاحب نے اس حصے کے لیے بہت سا مواد اکٹھا کرلیا تھا۔

اس کے لیے انھوں نے لندن کی انڈیا آفس لائبریری سے بہت سی دستاویزات اور مضامین کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں حاصل کی تھیں اور مختلف مسلم ملکوں سے وہاں کی اشتراکی تنظیموں کا لٹریچر حاصل کرنے کے لیے بڑی تگ و دو کی تھی۔ اس آخری حصے کے لیے انھوں نے بیسیوں صفحات پر مشتمل نوٹس بھی تیار کیے تھے۔ افسوس یہ سب چیزیں کسی باب کی شکل میں ضبط تحریر میں نہیں آسکیں۔

مذکورہ کتاب کے دو حصے ہیں دوسرے حصے میں سبط حسن کے متفرق مضامین کو یک جا کیا گیا ہے۔ یوں تو کتاب میں شامل تمام مضمون علمی اور فکری لحاظ سے انتہائی اعلیٰ ہیں۔ تاہم ، سبط حسن نے مارکس کے بارے میں جو مضمون لکھا ہے وہ قاری کو مسحور کردیتا ہے۔ مارکس کے والد کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ممتاز وکیل بنے لیکن اسے قانون سے کہیں زیادہ فلسفے سے دلچسپی تھی۔ اس نے 1841 میں ورجینیا یونیورسٹی سے فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگر حاصل کی اور فلسفے کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا۔ مارکس نے استحصال سے پاک دنیا کا خواب دیکھا اور زندگی کی آخری سانس تک انقلابی جدوجہد میں مصروف رہا اور اپنے مقصد کے لیے ہر مشکل برداشت کی۔ اس حوالے سے سبط حسن لکھتے ہیں:

انقلابی سرگرمیوں کے ڈیڑھ دو سال جو مارکس اور اینگلز نے یورپ میں گزارے بڑے صبر آزما تھے۔ ان کو فرانس اور جرمنی کے انقلابیوں سے بڑی امیدیں تھیں، لیکن یہ امیدیں پوری نہیں ہوئیں البتہ عوامی جدوجہد میں شریک ہوکر انھوں نے یہ حقیقت واضح کردی کہ انقلابی عمل اتنا ہی ضروری ہوتا ہے جتنا انقلابی نظریے وضع کرنا یا کتابیں لکھنا۔

مارکس اور جینی کو شادی کے بعد سکھ چین کا شاید ہی کوئی دن نصیب ہوا ہو لیکن لندن میں تو ان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ نہ آمدنی کا کوئی ذریعہ، نہ کوئی یارو مدد گار۔ اینگلز بھی ان دنوں وہاں موجود نہ تھا جو ان کی چارہ گری کرتا۔ اسی اثنا میں مارکس کے گھر چوتھا بچہ پیدا ہوا جس کی وجہ سے مصارف اور بڑھ گئے۔ فلیٹ کا کرایہ ادا نہ ہوسکا تو مالکہ نے ان کو کھڑے کھڑے گھر سے نکال دیا۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے جینی 30 مئی 1850 کو ایک خط میں لکھتی ہے۔

''سرکاری ملازم آئے اور انھوں نے ہمارے بستروں، چادروں، پہننے کے کپڑوں، حتیٰ کہ میرے دودھ پیتے بچے کے پالنے اور بچیوں کی گڑیوں کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا اور وہ غریب کونے میںکھڑی آنسو بہاتی رہیں۔ پولیس نے ہمیں مشکل سے دو گھنٹے کی مہلت دی مگر تم یہ نہ سمجھنا کہ میں ان پریشانیوں سے گھبرا کر ہمت ہار دوں گی۔ میں جانتی ہوں کہ ہماری کش مکش کچھ ہمارے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ مجھ کو اس بات کی دلی خوشی ہے کہ میرا پیارا شوہر میری زندگی کا سہارا میرے ساتھ ہے۔ اس بات سے البتہ دکھ ہوتا ہے کہ ان پریشانیوں نے اس کو ایسے وقت میں آن گھیرا ہے جب اسے توانائی، سکون اور اعتماد کی سخت ضرورت ہے۔ افسوس ہے کہ جو دوسروں کی مدد کرکے دلی خوشی محسوس کرتا ہے، ان دنوں وہ کتنا بے بس ہے۔

اس شام مارکس نے بھاگ دوڑ کرکے کہیں سے کرائے کی رقم حاصل کی تب گھر کا اثاثہ وا گزاشت ہوا مگر اس کو فوراً ہی فروخت کردیا گیا تاکہ دوا فروش، نان بائی، قصاب وغیرہ کے قرضے ادا کیے جاسکیں۔ اس کے بعد مارکس سوہو کے نہایت گندے اور گنجان علاقے میں دو کمروں کے مکان میں منتقل ہوگیا اور چھ سال تک وہیں رہا۔ سامنے کا کمرہ بیٹھنے اور لکھنے پڑھنے کے کام آتا تھا اور عقب کے کمرے میں پورا خاندان سوتا تھا۔ اسی جگہ دو سال کے اندر مارکس کے دو بچے خوراک اور علاج کی کمی کی وجہ سے وفات پا گئے۔ دوسرا بچہ مرا تو گھر میں دوا کے لیے پیسے نہ تھے۔(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں