میاں نواز شریف اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ
اس مرتبہ میاں نواز شریف کی سیاسی کتاب میں اسٹیبلشمنٹ کےساتھ طاقت کےتوازن کے فارمولے پر عمل در آمد کی کوئی گنجائش نہیں
حیران کن امر ہے کہ حامد کرزئی پاکستان کو بدترین تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود پچھلی حکومت کی طرح موجودہ حکومت کا بھی منظورِ نظر ہے۔افغانستان کا موجودہ صدر جو اسلام آباد کی مہمان نواز ی سے برسوں مستفید ہوتا رہا، اپنا گھر بار، بچے، سیاسی مستقبل اور جان کا تحفظ یعنی سب کچھ اس سرزمین کے صدقے حاصل کرتا رہا۔ آج کل پاکستان کے بارے میں زہر افشانی کے سوا منہ کھولتا ہی نہیں۔ میں نے پچھلے ایک آرٹیکل میں ذکر کیا تھا کہ ترکی میں حامد کرزئی نے آدھے گھنٹے کے قریب عسکری اور انٹیلی جنس اداروں کی افغانستان کے خلاف مبینہ سازشوں کا بے لاگ ذکر کیا اور کیسے وزیر اعظم پاکستان کی موجودگی میں ہمارے نمایندگان معذرت خواہانہ انداز میں وضاحتیں کرتے رہے۔ کیا اس وقت یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ پاکستان کے نقطہ نظر کی وضاحت کی جاتی اور الزام تراشی کے اس کھیل کو پاک فوج کی طرف پھینکنے کے بجائے چھکا لگا کر کابل کے صدارتی محل کے اوپر پھینک دیا جاتا۔ مگر ہندوستان کے بارے میں پالیسی اہداف کی تکمیل میں یہ رد عمل رکاوٹ کا باعث بن سکتا تھا۔
وزیر اعظم نواز شریف اس تیسرے دور میں جو بڑا کام کرنا چاہتے ہیں' اس کا ایک کونا دہلی کے ساتھ انتہائی برادرانہ تعلقات کا قیام ہے اور دوسرا سرا کابل کو ہر حال میں خوش رکھنے کی شعوری کوشش ہے۔ پاکستان کے لیے یورپی یونین کی طرز پر جنوبی ایشیا میں ایک خاص ماحول پیدا کرنے کی جو خواہش اور پالیسی موجودہ حکومت اپنائے ہوئے ہے اس میں ہمسائیوں کے ساتھ منہ ماری یا سخت گیر رویہ کسی طور صحیح بیٹھتا نہیں ہے۔ موجودہ حکومت پاکستان کو ایک تجارتی اور توانائی کی راہداری میں بدلنا چاہتی ہے۔ جو دہلی سے چلنے والے مال کو یورپی مارکیٹ میں پہنچانے اور اس طرف سے آنے والی اشیاء کو ہندوستان اور اس سے آگے بھجوانے کا رستہ بن سکے۔ کابل، دہلی اور اسلام آباد وہ بنیاد ہے جس پر جنوبی ایشیا کے اس پرانے تصور کی نئی عمارت تشکیل ہوتی ہے۔ میاں نواز شریف کا خیال ہے کہ وہ ہر کام کر سکتے ہیں۔ علاقے میں اتنی بڑی تبدیلی لانے کے بعد وہ سیاسی طور پر اس انتہائی مقبولیت کو بھی پا لیں گے کہ ان کے سیاسی مخالفین ان کے سامنے بونے نظر آئیں گے۔
خود کو سیاسی طور پر مستحکم کرنے کے لیے دفاعی اور خارجہ امور پر توجہ ہی نہیں دی جا رہی۔ روایتی سیاسی پیچ و خم سے بنے ہوئے داؤ پیچ بھی کھیلے جا رہے ہیں۔ اپنے پچھلے دو ادوار سے اگر نواز لیگ نے کچھ سیکھا ہے تو یہ کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کو کم کیے بغیر وہ ذہنی طور پر خود کو ہمیشہ غیر محفوظ تصور کریں گے۔ آپ اس کو اصلی جمہوریت سے محبت بھی کہہ سکتے ہیں اور طاقت جمع کرنے کا خبط بھی۔ مگر اس مرتبہ میاں نواز شریف کی سیاسی کتاب میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ طاقت کے توازن کے فارمولے پر عمل در آمد کی کوئی گنجائش نہیں۔ ترکی کے قائد رجب طیب اردگان سے متاثر ہو کر انھوں نے اپنے تجربات کو باقاعدہ پالیسی کی شکل دیدی۔ ابھی تک ان کو اس میدان میں کافی کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔ بہت سے ایسے معاملات جہاں پر عسکری قیادت روایتی طور پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا کرتی تھی اب وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے گرد ان کے پسندیدہ سیاسی سرکاری افسر خود سے طے کر رہے ہیں۔ اپنی آزاد فیصلہ سازی کا اظہار وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل مشرف کے معاملے پر واضح کر دیا ہے۔ مستند اطلاعات کے مطابق موجودہ آرمی چیف کی طرف سے اس معاملے پر وزیر اعظم نواز شریف نے کسی قسم کے غیر معمولی تعاون سے انکار کر دیا ہے۔ ہاں یہ ضرور کہا ہے کہ جنرل مشرف کو جیل میں جانے کے بعد شاید صدارتی اختیارات کے ذریعے معافی دلوا دیں۔ مگر مقدمات سے نجات اور جیل جانے سے بچانے میں وزیر اعظم نواز شریف نے کسی قسم کا کوئی کردار ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
یہ اس پالیسی میں بڑی تبدیلی ہے جو میاں صاحبان نے پچھلے آرمی چیف کے دور میں اپنائی ہوئی تھی۔ اس دور میں چار پانچ مرتبہ وزیر اعلی پنجاب اور وزیر داخلہ چوہدری نثار، جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقاتوں میں جنرل مشرف کے معاملے کو دوستانہ انداز سے حل کرنے کے مختلف رستے تلاش کرتے رہے تھے۔ اس وقت فوج کی قیادت کو یہ پیغام دیا جا رہا تھا کہ میاں نواز شریف اپنے تیسرے دور میں خواہ مخواہ کے تنازعوں میں پڑ کر سول اور ملٹری تعلقات کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہتے۔ مگر وہ پالیسی تبدیل ہو گئی ۔ اس کے علاوہ سفارتکاروں کی تعیناتی اور وزیرستان میں آپریشن جیسے معاملات پر بھی میاں نواز شریف نے خود کو واحد فیصلہ ساز قوت کے طور پر متعارف کروا دیا ہے۔ نواز لیگ کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ موافق ماحول میں وہ تمام ایسے کام کر سکتی ہے جو شاید اس سے پہلے ممکن نہ تھے۔ آنے والے دنوں میں آپ دفاعی بجٹ، اسٹیبلشمنٹ کی مراعات، ترقی اور تعیناتی کے نظام پر موجودہ حکومت کی طرف سے بڑے اقدامات کی توقع کر سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف ذہنی اور عملی طور پر خود کو سیاسی طاقت دلوانے کے لیے اس رستے پر چلنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ان کے نزدیک قابو میں لائی ہوئی اسٹیبلشمنٹ ان کی سیاسی طاقت کا اظہار بھی ہے اور اس کے تحفظ کی ضمانت بھی۔ یہاں پر دو سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔ پہلا کیا میاں نواز شریف کی یہ پالیسی جمہوری اصولوں کے خلاف ہے؟ اور دوسرا کہ طاقت کی سیاست کے اس کھیل میں ان کی پالیسی سیاسی مخالفین بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں کیا ہے؟ ان دونوں سوالوں کا جواب اگلے کالم میں دیا جائے گا جو اس سریز کا اختتامی کالم ہو گا۔
وزیر اعظم نواز شریف اس تیسرے دور میں جو بڑا کام کرنا چاہتے ہیں' اس کا ایک کونا دہلی کے ساتھ انتہائی برادرانہ تعلقات کا قیام ہے اور دوسرا سرا کابل کو ہر حال میں خوش رکھنے کی شعوری کوشش ہے۔ پاکستان کے لیے یورپی یونین کی طرز پر جنوبی ایشیا میں ایک خاص ماحول پیدا کرنے کی جو خواہش اور پالیسی موجودہ حکومت اپنائے ہوئے ہے اس میں ہمسائیوں کے ساتھ منہ ماری یا سخت گیر رویہ کسی طور صحیح بیٹھتا نہیں ہے۔ موجودہ حکومت پاکستان کو ایک تجارتی اور توانائی کی راہداری میں بدلنا چاہتی ہے۔ جو دہلی سے چلنے والے مال کو یورپی مارکیٹ میں پہنچانے اور اس طرف سے آنے والی اشیاء کو ہندوستان اور اس سے آگے بھجوانے کا رستہ بن سکے۔ کابل، دہلی اور اسلام آباد وہ بنیاد ہے جس پر جنوبی ایشیا کے اس پرانے تصور کی نئی عمارت تشکیل ہوتی ہے۔ میاں نواز شریف کا خیال ہے کہ وہ ہر کام کر سکتے ہیں۔ علاقے میں اتنی بڑی تبدیلی لانے کے بعد وہ سیاسی طور پر اس انتہائی مقبولیت کو بھی پا لیں گے کہ ان کے سیاسی مخالفین ان کے سامنے بونے نظر آئیں گے۔
خود کو سیاسی طور پر مستحکم کرنے کے لیے دفاعی اور خارجہ امور پر توجہ ہی نہیں دی جا رہی۔ روایتی سیاسی پیچ و خم سے بنے ہوئے داؤ پیچ بھی کھیلے جا رہے ہیں۔ اپنے پچھلے دو ادوار سے اگر نواز لیگ نے کچھ سیکھا ہے تو یہ کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کو کم کیے بغیر وہ ذہنی طور پر خود کو ہمیشہ غیر محفوظ تصور کریں گے۔ آپ اس کو اصلی جمہوریت سے محبت بھی کہہ سکتے ہیں اور طاقت جمع کرنے کا خبط بھی۔ مگر اس مرتبہ میاں نواز شریف کی سیاسی کتاب میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ طاقت کے توازن کے فارمولے پر عمل در آمد کی کوئی گنجائش نہیں۔ ترکی کے قائد رجب طیب اردگان سے متاثر ہو کر انھوں نے اپنے تجربات کو باقاعدہ پالیسی کی شکل دیدی۔ ابھی تک ان کو اس میدان میں کافی کامیابی حاصل ہو چکی ہے۔ بہت سے ایسے معاملات جہاں پر عسکری قیادت روایتی طور پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا کرتی تھی اب وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے گرد ان کے پسندیدہ سیاسی سرکاری افسر خود سے طے کر رہے ہیں۔ اپنی آزاد فیصلہ سازی کا اظہار وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل مشرف کے معاملے پر واضح کر دیا ہے۔ مستند اطلاعات کے مطابق موجودہ آرمی چیف کی طرف سے اس معاملے پر وزیر اعظم نواز شریف نے کسی قسم کے غیر معمولی تعاون سے انکار کر دیا ہے۔ ہاں یہ ضرور کہا ہے کہ جنرل مشرف کو جیل میں جانے کے بعد شاید صدارتی اختیارات کے ذریعے معافی دلوا دیں۔ مگر مقدمات سے نجات اور جیل جانے سے بچانے میں وزیر اعظم نواز شریف نے کسی قسم کا کوئی کردار ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
یہ اس پالیسی میں بڑی تبدیلی ہے جو میاں صاحبان نے پچھلے آرمی چیف کے دور میں اپنائی ہوئی تھی۔ اس دور میں چار پانچ مرتبہ وزیر اعلی پنجاب اور وزیر داخلہ چوہدری نثار، جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقاتوں میں جنرل مشرف کے معاملے کو دوستانہ انداز سے حل کرنے کے مختلف رستے تلاش کرتے رہے تھے۔ اس وقت فوج کی قیادت کو یہ پیغام دیا جا رہا تھا کہ میاں نواز شریف اپنے تیسرے دور میں خواہ مخواہ کے تنازعوں میں پڑ کر سول اور ملٹری تعلقات کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہتے۔ مگر وہ پالیسی تبدیل ہو گئی ۔ اس کے علاوہ سفارتکاروں کی تعیناتی اور وزیرستان میں آپریشن جیسے معاملات پر بھی میاں نواز شریف نے خود کو واحد فیصلہ ساز قوت کے طور پر متعارف کروا دیا ہے۔ نواز لیگ کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ موافق ماحول میں وہ تمام ایسے کام کر سکتی ہے جو شاید اس سے پہلے ممکن نہ تھے۔ آنے والے دنوں میں آپ دفاعی بجٹ، اسٹیبلشمنٹ کی مراعات، ترقی اور تعیناتی کے نظام پر موجودہ حکومت کی طرف سے بڑے اقدامات کی توقع کر سکتے ہیں۔ میاں نواز شریف ذہنی اور عملی طور پر خود کو سیاسی طاقت دلوانے کے لیے اس رستے پر چلنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔ ان کے نزدیک قابو میں لائی ہوئی اسٹیبلشمنٹ ان کی سیاسی طاقت کا اظہار بھی ہے اور اس کے تحفظ کی ضمانت بھی۔ یہاں پر دو سوال اٹھائے جا سکتے ہیں۔ پہلا کیا میاں نواز شریف کی یہ پالیسی جمہوری اصولوں کے خلاف ہے؟ اور دوسرا کہ طاقت کی سیاست کے اس کھیل میں ان کی پالیسی سیاسی مخالفین بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں کیا ہے؟ ان دونوں سوالوں کا جواب اگلے کالم میں دیا جائے گا جو اس سریز کا اختتامی کالم ہو گا۔