’’اندرونی و بیرونی محاذوں پر سنگین مسائل بظاہر حل جلد انتخابات‘‘
3حکومتوں نے ڈنگ ٹپاؤ اور قرضوں کے ذریعے معاملات چلانے کی کوشش کی،اعجازبٹ
موجودہ حکومت کو اندرونی و بیرونی محاذوں پر سنگین مسائل کا سامنا ہے، جس کا بظاہر حل جلد انتخابات میں نظر آرہا ہے۔
اس وقت بڑا مسئلہ مہنگائی ، ڈالر کی اونچی اڑان اور بیرونی قرضے ہیں۔ملک کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک و قوم کیلیے سوچے، تقسیم کو ختم کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار ماہرین نے نئی حکومت کو درپیش مسائل اور مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے ایکسپریس فورم میں کیا۔
سیاسی تجزیہ نگار اعجاز بٹ نے کہا قوم تین بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی حکومتیں دیکھ چکی، تینوں نے ڈنگ ٹپاؤ اور قرضوں کے ذریعے معاملات چلانے کی کوشش کی، بنگلہ دیش کی بہتر معاشی حالت کی وجہ طویل المدت حکمت عملی اور تسلسل ہے، ہمارے ہاں ہر نئی حکومت سابق پالیسی ختم کر دیتی ہے تحریک انصاف کی حکومت نے چیئرمین ایف بی آر اور وزیر خزانہ باربار بدلے، معیشت کو سنجیدگی سے نہیں لیا ،جس سے مسائل سنگین ہوتے گئے۔
بریگیڈیئر (ر) غضنفر علی نے کہا سیاسی عدم استحکام مسائل کو جنم دیتا ہے،معاشی مسائل آنے والے دنوں میں مزید سنگین ہوسکتے ہیں۔موجودہ کابینہ میں زیادہ تر وزراء پرمقدمے ہیں، یہ حکومت متنازع ہے، عوام میں اس کی مقبولیت ہے نہ قبولیت، یہ حکومت اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکے گی، اس میں پیشہ وروں اوراستعداد کی کمی ہے، اگر سستی شہرت کی طرف جائیں گے تو مزید مسائل پیدا ہونگے۔ تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو خطرناک صورتحال پیدا ہوجائے گی، اس پر فارن فنڈنگ کیس کے تحت پابندی لگانا خانہ جنگی کی طرف لے جاسکتا ہے۔
ایف پی سی سی آئی کے سابق ریجنل چیئرمین ڈاکٹر ارشد نے کہا معاشی استحکام کیلیے ٹیکس اصلاحات لانا ہونگی، مشرف دور میں عالمی ادارے پریشان ہوگئے کہ اتنا ٹیکس کیسے اکٹھا ہوا؟ پورٹ پر ٹیکس لیا جائے اور نو ریفنڈ، نو آڈٹ کر دیا جائے تو بہت فائدہ ہوگا، بلا وجہ نوٹسوں اور خوف سے سرمایہ دار کام نہیں کرسکتے۔
اس وقت بڑا مسئلہ مہنگائی ، ڈالر کی اونچی اڑان اور بیرونی قرضے ہیں۔ملک کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو سیاسی مفادات سے بالاتر ہوکر ملک و قوم کیلیے سوچے، تقسیم کو ختم کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار ماہرین نے نئی حکومت کو درپیش مسائل اور مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے ایکسپریس فورم میں کیا۔
سیاسی تجزیہ نگار اعجاز بٹ نے کہا قوم تین بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی حکومتیں دیکھ چکی، تینوں نے ڈنگ ٹپاؤ اور قرضوں کے ذریعے معاملات چلانے کی کوشش کی، بنگلہ دیش کی بہتر معاشی حالت کی وجہ طویل المدت حکمت عملی اور تسلسل ہے، ہمارے ہاں ہر نئی حکومت سابق پالیسی ختم کر دیتی ہے تحریک انصاف کی حکومت نے چیئرمین ایف بی آر اور وزیر خزانہ باربار بدلے، معیشت کو سنجیدگی سے نہیں لیا ،جس سے مسائل سنگین ہوتے گئے۔
بریگیڈیئر (ر) غضنفر علی نے کہا سیاسی عدم استحکام مسائل کو جنم دیتا ہے،معاشی مسائل آنے والے دنوں میں مزید سنگین ہوسکتے ہیں۔موجودہ کابینہ میں زیادہ تر وزراء پرمقدمے ہیں، یہ حکومت متنازع ہے، عوام میں اس کی مقبولیت ہے نہ قبولیت، یہ حکومت اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکے گی، اس میں پیشہ وروں اوراستعداد کی کمی ہے، اگر سستی شہرت کی طرف جائیں گے تو مزید مسائل پیدا ہونگے۔ تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو خطرناک صورتحال پیدا ہوجائے گی، اس پر فارن فنڈنگ کیس کے تحت پابندی لگانا خانہ جنگی کی طرف لے جاسکتا ہے۔
ایف پی سی سی آئی کے سابق ریجنل چیئرمین ڈاکٹر ارشد نے کہا معاشی استحکام کیلیے ٹیکس اصلاحات لانا ہونگی، مشرف دور میں عالمی ادارے پریشان ہوگئے کہ اتنا ٹیکس کیسے اکٹھا ہوا؟ پورٹ پر ٹیکس لیا جائے اور نو ریفنڈ، نو آڈٹ کر دیا جائے تو بہت فائدہ ہوگا، بلا وجہ نوٹسوں اور خوف سے سرمایہ دار کام نہیں کرسکتے۔