دیسی رابن ہڈ
جمشید دستی وہ کمبل ثابت ہو رہے ہیں جسے میں چھوڑنا چاہتا ہوں مگر وہ میرے دل و دماغ سے باہر جا کر ہی نہیں دے رہے
جمشید دستی وہ کمبل ثابت ہو رہے ہیں جسے میں چھوڑنا چاہتا ہوں مگر وہ میرے دل و دماغ سے باہر جا کر ہی نہیں دے رہے۔ گزشتہ ایک کالم میں اعتراف کر چکا ہوں کہ صحافت میں اپنے سخت گیر استادوں کی سکھائی تمام باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے میں نے 2010ء کے سیلاب کے دوران ان میں چھپا عوام کا ایک مخلص اور ہمدرد ہیرو ڈھونڈ نکالا۔ پھر میرا یہ ہیرو آصف علی زرداری کا سب سے لاڈلا رکن قومی اسمبلی بن گیا اور اپنی اس حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیپلز پارٹی کے وزیروں کو مختلف احکامات جاری کرنے کے حکم دیتا رہا۔ وفاقی حکومت پر اپنا رُعب اور دبدبہ جما لینے کے بعد یہی جمشید دستی ''سرائیکی وسیب'' بنوانے کی مہم میں صف اوّل کا ''بلارا'' بن گیا۔ پچھلی قومی اسمبلی میں جب بھی موقعہ ملتا ''تختِ لہور'' والوں کے خوب لتے لیتا۔ 2013ء کے انتخابات مگر آئے تو ''آزاد'' ہو کر ایک نہیں دو نشستوں پر کھڑا ہو گیا۔ مظفر گڑھ کے معصوم اور جذباتی لوگوں نے اسے دونوں نشستوں سے منتخب کر دیا۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اپنے لوگوں کو مجتمع کر کے ''سرائیکی وسیب'' کے قیام کی جدوجہد کو تیز تر کر دیتا۔ بجائے اس حوالے سے کسی عوامی مہم کی تیاری کرنے کے موصوف مگر کسی کے بلائے بغیر خود رائے ونڈ جا کر نواز شریف اور شہباز شریف کو اپنی حمایت کا یقین دلا آئے۔
دستی صاحب جیسے دیسی ساخت کے ''رابن ہڈ'' اپنی سیاست کا آغاز اپنے علاقے کے مشہور اور خاندانی جاگیرداروں کے خلاف سلطان راہی کی طرح خود سر بڑھکیں لگا کر کیا کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے انھیں تھانہ کچہری کی دی ہوئی بے شمار مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنی ضد کے بل بوتے پر ان مشکلات کو سر کرتے عوام میں ہٹ ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ دستی صاحب کی عملی زندگی میں روزمرہّ دِکھتی فلم بھی کافی عرصے تک کھڑکی توڑ رش لیتی رہی۔ مگر پھر یوں ہوا کہ انھوں نے قومی اسمبلی کی جو نشست خالی کی تھی اس کے لیے اُمیدوار بنایا بھی تو اپنے ہی ایک سگے بھائی کو۔ صدیوں سے جھوٹے سچے ہیروز کو بھگتے ہوئے کوٹ ادوّ کے ووٹروں کو سمجھ آ گئی کہ ان کی دی ہوئی طاقت کے ذریعے جمشید دستی اب ''موروثی سیاست'' میں در آنا چاہ رہا ہے۔ انگریزی کا ایک محاورہ آپ کو سمجھاتا ہے کہ مشکل کی گھڑی میں اس ''شیطان'' پر انحصار کرنے میں کوئی برائی نہیں جسے آپ پوری طرح جانتے ہوں۔ انھوں نے دستی جونیئر کے بجائے غلام مصطفیٰ کھر کے بھائی اور حنا ربانی کھر کے والد نور ربانی کھر کو منتخب کر دیا۔ جمشید دستی کو اس حوالے سے زیادہ دُکھ اس وجہ سے بھی ہوا کہ نور ربانی پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اور شہباز شریف نے انھیں روکنے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہ دکھائی۔ مسلم لیگ (نواز) سے ان کا دل ٹوٹ گیا۔ آزاد پنچھی تھے۔
بہت عرصہ بڑی سنجیدگی سے سوچتے رہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہو کر ''تبدیلی'' والا انقلاب برپا کیا جائے۔ تحریک انصاف میں لیکن ''سرائیکی وسیب'' کے کوٹے سے پہلے ہی جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی اور مخدوم جاوید ہاشمی جیسے عام انسانوں کی تقدیر بدلنے کے خواب دیکھنے والے انقلابی کافی تعداد میں موجود ہیں۔ دستی صاحب وہاں چلے جاتے تو پنجابی محاورے والا وہ دیا بن جاتے جو سانپوں کی پھنکار کے باعث پوری طرح روشن ہو کر لو نہیں دے پاتا۔ ویسے بھی شیخ رشید جیسے ''عام آدمی'' کی مثال ان کے سامنے موجود تھی۔ تحریک انصاف میں شامل ہوئے بغیر یہ خود ساختہ ''فرزندِ پاکستان'' عمران خان کے متحرک کردہ ووٹروں کی مدد سے قومی اسمبلی میں واپس لوٹ آئے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں اکیلے بیٹھتے ہیں۔ طبقہ امراء اور ''ستو پیئے جرنیلوں'' کے خلاف سیاپا فروشی سے اینکروں کی ریٹنگ بڑھاتے ہیں۔ عمران خان کو شاہ محمود قریشی جب فیصل صالح حیات جیسے صالح اور رزقِ حلال کمانے والے سیاستدان کے ہاں لے گئے تو شیخ صاحب بھی ان کے ساتھ ''دُعائے خیر'' کے لیے ہاتھ اٹھانے والوں میں شامل پائے گئے۔ جمشید دستی اب خوب جان چکے ہیں کہ Solo Flight کے اپنے مزے ہیں۔ اس کام کے لیے آپ کو صرف ایک ہنر درکار ہے اور وہ ہے میڈیا کے لیے چٹ پٹی خبریں بنا کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہنا۔ وینا ملک سے بہتر اس ہنر کا استعمال ہمارا کوئی سیاست دان ابھی تک سیکھ نہیں پایا۔ کوشش مگر جاری ہے اور مجھے اس ضمن میں جمشید دستی بہت جلد نمبرون کی Slot میں اپنی جگہ بناتے نظر آ رہے ہیں۔
بدھ کا سارا دن نواز شریف صاحب نے قومی اسمبلی میں آ کر قوم کو چوہدری نثار علی خان کی متعارف کردہ قومی سلامتی کمیٹی والے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا تھا۔ اس کمیٹی کی دستاویز مگر جمعرات کی صبح اراکین پارلیمان اور صحافیوں کو دیکھنا نصیب ہوئی۔ یہ دستاویز سو کے قریب صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے ابتدائی 33 صفحات جناتی انگریزی میں گزشتہ حکومتوں کی قومی سلامتی اور خارجہ امور کے بارے میں نااہلی اور کوتاہ اندیشی کی داستانِ ہوشربا سنانے پر صرف کیے گئے ہیں۔ ٹیلی وژن پر ریٹنگ کی دکان لگانے والے میرے جیسے صحافی اس دستاویز کو غور سے پڑھ کر لوگوں کو متوجہ کرنے والی کہانیاں نہیں گھڑ سکتے۔ ہمیں تو سستے اور فوری چسکے کی ضرورت ہوتی ہے۔ خدا عمر دراز کرے جمشید دستی صاحب کی۔ جمعرات کے دن قومی اسمبلی میں کھڑے ہوئے اور رونق لگا دی۔ مجھے یقین ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پارسائی فروشوں کے لیے انھوں نے بڑا ہی مفید اور کارآمد مواد فراہم کر دیا ہے۔ آیندہ 3 سے 4 دن شام سات بجے سے رات گئے تک ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈتے رہیں گے کہ آئین میں واضح طور پر دیے 62/63 کو موثر بنانے کے لیے ڈاکٹروں کی ایک کمیٹی کیوں قائم نہ ہو جو پتہ چلائے کہ ہمارے کون کون سے رکن پارلیمان کی رگوں میں وہ چیزیں دوڑ رہی ہیں جن کا استعمال قطعاََ حرام ہے۔ مگر صرف ان اشیاء کو خریدنے کے لیے بقول جمشید دستی سالانہ 4 سے 5 کروڑ روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ کاش کہ دستی صاحب اس ویڈیو کی قیمت بھی بتا دیتے جو ان کے پاس موجود ہے۔ دام اگر مناسب ہوں تو خرید کر اس ویڈیو کو اپنی دکان میں ضرور رکھنا چاہوں گا۔