امپورٹڈ نہیں حقیقی قومی حکومت
عمران خان نے اپنی سلیکٹڈ قرار دی جانے والی حکومت کے متبادل اپوزیشن کی حکومت کو امپورٹڈ حکومت کا نام دیا ہے
DIJKOT:
عمران خان نے اپنی سلیکٹڈ قرار دی جانے والی حکومت کے متبادل اپوزیشن کی حکومت کو امپورٹڈ حکومت کا نام دیا ہے، حالانکہ اس حکومت میں شامل مختلف سیاسی پارٹیوں کے وزرا پاکستانی شہریت کے حامل ہیں اور ان میں کوئی ایک بھی وزیر یا معاون خصوصی باہر سے نہیں آیا اور نہ غیرملک کی شہریت رکھتا ہے جب کہ عمران خان کی حکومت میں مشیر و معاون خصوصی تو کیا وزرائے خزانہ تک باہر سے بلا کر کابینہ میں شامل کرائے گئے تھے جنھیں منتخب کرانے کی بھی وزیر اعظم نے کوشش کی تھی مگر عبدالحفیظ شیخ کو منتخب نہ کراسکے تھے جس کے بعد شوکت ترین کو امپورٹڈ وزیر خزانہ بنایا گیا تھا اور انھیں کے پی سے سینیٹر منتخب کرایا گیا تھا۔
عمران خان نے قومی اسمبلی میں آنا ہی چھوڑ دیا تھا اور ہر منگل کو کابینہ کا اجلاس ضرور منعقد کرتے جن میں ان کے برآمدی وزیر، مشیر اور معاون خصوصی نمایاں ہوا کرتے تھے۔ موجودہ اتحادی حکومت میں پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے سوا تمام اپوزیشن پارٹیاں سابق حکومت کی اتحادی (ق) لیگ، ایم کیو ایم، بی اے پی بھی عمران خان کے ساتھ نہیں۔ ایم کیو ایم، بی اے پی اور جمہوری وطن پارٹی نے تو عمران خان کی حکومت ختم ہونے سے قبل اور بی این پی مینگل نے تو ڈیڑھ سال قبل ہی چھوڑ دیا تھا۔
(ق) لیگ کا چند ماہ وفاقی وزیر رہنے والا چوہدری مونس الٰہی لاہور میں عمران خان کے جلسے میں تقریر کر رہا تھا تو عمران خان نے انھیں سراہا تھا اور جی ڈی اے کا ذکر تک نہیں کیاجب کہ وہ اتحادی تھی جو آخر تک عمران خان کے ساتھ رہے اور ان کے خلاف ووٹ نہیں دیا جب کہ (ق) لیگ کے دو ارکان نے نہ صرف عمران خان کے خلاف ووٹ دیا بلکہ اتحادی حکومت میں (ق) لیگ کے دونوں ارکان شامل ہیں جو چوہدری شجاعت کی مرضی سے شامل ہوئے اور دونوں کو چوہدری شجاعت نے مبارک باد اور ہدایات بھی دی ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی کی سیاست نے (ق) لیگ میں گروپنگ کرا دی جس کی عمران خان قدر کرتے ہیں مگر عمران خان نے اس جی ڈی اے کی قدر نہیں کی جو آخری حد تک ان کے ساتھ رہی اور اتحادی حکومت میں شامل بھی نہیں ہوئے مگر عمران خان نے اپنے کسی ایک جلسے میں جی ڈی اے اور اس کے لیڈروں کے کردار کو نہیں سراہا جو عمران خان کا احسان نہ ماننے کا ایک اور واضح ثبوت ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت میں پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے سوا ملک کی تمام چھوٹی بڑی بلکہ صوبائی پارٹیاں بھی شامل ہیں، اس لیے وہ ایک حقیقی قومی حکومت کہلا سکتی ہے جب کہ عمران خان کی حکومت میں پارلیمنٹ میں موجود ملک کی تین بڑی پارٹیاں اپوزیشن میں تھیں جنھوں نے پی ٹی آئی سے دگنے ووٹ حاصل کیے ہوئے تھے۔
اپوزیشن تو پہلے ہی کہتی تھی کہ عمران خان کی پارٹی کو انتخابی دھاندلی کے ذریعے سب سے زیادہ نشستیں دلائی گئی تھیں ،پھر بھی وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے تو ان کے ساتھ ایم کیو ایم، (ق) لیگ، بی اے پی اور جی ڈی اے کو شامل کرا کر حکومت بنوائی گئی تھی مگر عمران خان وزیر اعظم سے زیادہ خود کو بادشاہ سلامت سمجھتے تھے جو اپنی پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے تو اتحادی جماعتوں کو کیوں اہمیت دیتے۔ عمران خان نے اپنی اتحادی بی این پی مینگل کی بھی قدر نہیں کی جس نے کوئی وزارت تک نہیں لی تھی۔ عمران خان نے اپنی وزارت کے بغیر حمایت کرنے والی بی این پی مینگل سے کیے گئے معاہدے پر عمل کیا نہ سندھ کی جی ڈی اے اور ایم کیو ایم سے کیے گئے وعدے پورے کیے اور انھیں اہمیت نہیں دی۔
عمران خان نے اپنی اتحادی (ق) لیگ کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے صرف اس لیے اہمیت دی کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹوں کے باعث وہاں پی ٹی آئی حکومت بنی تھی جب کہ (ق) لیگ کی قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم سے کم نشستیں تھیں مگر پنجاب حکومت کی خاطر انھوں نے پنجاب اسمبلی کی اسپیکر شپ، پنجاب اور وفاق میں دو دو وزارتیں اور پنجاب کے بعض اضلاع (ق) لیگ کو دے رکھے تھے۔
عمران خان نے ماضی میں پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو اور ان کے بیٹے مونس الٰہی کو کرپٹ قرار دے رکھا تھا مگر اقتدار کے لیے انھوں نے پرویز الٰہی کو اسپیکر اور بعد میں نہ چاہتے ہوئے بھی (ق) لیگ کو ساتھ رکھنے کے لیے مونس الہی کو وفاقی وزیر بنایا، ان کی یہ اصول پرستی سیاست میں کبھی بھلائی نہیں جائے گی۔ عمران خان نے ایک نشست والے شیخ رشید احمد کے لیے کہا تھا کہ وہ انھیں کبھی اپنا چپڑاسی رکھنا بھی پسند نہیں کریں گے مگر بعد میں عمران خان نے پہلے ریلوے کا اور پھر وفاقی وزیر داخلہ تک بنا دیا تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی اور شیخ رشید کے علاوہ کوئی اور ان کے ساتھ نہیں ہے کیونکہ دونوں سیاست میں رہنے کے لیے عمران خان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔
موجودہ اتحادی حکومت بلاشبہ ایک قومی حکومت ہے جسے قومی اسمبلی کے جن ارکان نے منتخب کیا ان میں پی ٹی آئی کا کوئی منحرف رکن اسمبلی شامل نہیں تھا۔ موجودہ حکومت میں کوئی امپورٹڈ عہدیدار شامل نہیں مگر اقتدار سے محروم ہو کر عمران خان کو اپنے سابق اتحادی امپورٹڈ نظر آ رہے ہیں کیونکہ انھوں نے عمران خان کے شاہانہ مزاج کے باعث ان کی حکومت ہوتے ہوئے انھیں چھوڑ دیا تھا جب کہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی حکومت چھوڑ کر اپوزیشن میں نہیں جایا کرتا۔
لندن میں ملک کی دو بڑی حکمران جماعتوں کے قائدین نواز شریف اور بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ملک کے بدتر حالات کو موجودہ اتحادی عبوری حکومت ہی حل کرسکتی ہے کیونکہ عمران خان نے اپنے دور میں ملک و قوم اور جمہوریت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی متحد رہ کر ہی کی جاسکتی ہے۔ عوام کو بھی توقع ہے کہ اتحادی حکومت محب وطن رہنماؤں پر مشتمل ہے جن سے ملک و قوم کو ضرور فائدہ ہوگا۔
عمران خان نے اپنی سلیکٹڈ قرار دی جانے والی حکومت کے متبادل اپوزیشن کی حکومت کو امپورٹڈ حکومت کا نام دیا ہے، حالانکہ اس حکومت میں شامل مختلف سیاسی پارٹیوں کے وزرا پاکستانی شہریت کے حامل ہیں اور ان میں کوئی ایک بھی وزیر یا معاون خصوصی باہر سے نہیں آیا اور نہ غیرملک کی شہریت رکھتا ہے جب کہ عمران خان کی حکومت میں مشیر و معاون خصوصی تو کیا وزرائے خزانہ تک باہر سے بلا کر کابینہ میں شامل کرائے گئے تھے جنھیں منتخب کرانے کی بھی وزیر اعظم نے کوشش کی تھی مگر عبدالحفیظ شیخ کو منتخب نہ کراسکے تھے جس کے بعد شوکت ترین کو امپورٹڈ وزیر خزانہ بنایا گیا تھا اور انھیں کے پی سے سینیٹر منتخب کرایا گیا تھا۔
عمران خان نے قومی اسمبلی میں آنا ہی چھوڑ دیا تھا اور ہر منگل کو کابینہ کا اجلاس ضرور منعقد کرتے جن میں ان کے برآمدی وزیر، مشیر اور معاون خصوصی نمایاں ہوا کرتے تھے۔ موجودہ اتحادی حکومت میں پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے سوا تمام اپوزیشن پارٹیاں سابق حکومت کی اتحادی (ق) لیگ، ایم کیو ایم، بی اے پی بھی عمران خان کے ساتھ نہیں۔ ایم کیو ایم، بی اے پی اور جمہوری وطن پارٹی نے تو عمران خان کی حکومت ختم ہونے سے قبل اور بی این پی مینگل نے تو ڈیڑھ سال قبل ہی چھوڑ دیا تھا۔
(ق) لیگ کا چند ماہ وفاقی وزیر رہنے والا چوہدری مونس الٰہی لاہور میں عمران خان کے جلسے میں تقریر کر رہا تھا تو عمران خان نے انھیں سراہا تھا اور جی ڈی اے کا ذکر تک نہیں کیاجب کہ وہ اتحادی تھی جو آخر تک عمران خان کے ساتھ رہے اور ان کے خلاف ووٹ نہیں دیا جب کہ (ق) لیگ کے دو ارکان نے نہ صرف عمران خان کے خلاف ووٹ دیا بلکہ اتحادی حکومت میں (ق) لیگ کے دونوں ارکان شامل ہیں جو چوہدری شجاعت کی مرضی سے شامل ہوئے اور دونوں کو چوہدری شجاعت نے مبارک باد اور ہدایات بھی دی ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی کی سیاست نے (ق) لیگ میں گروپنگ کرا دی جس کی عمران خان قدر کرتے ہیں مگر عمران خان نے اس جی ڈی اے کی قدر نہیں کی جو آخری حد تک ان کے ساتھ رہی اور اتحادی حکومت میں شامل بھی نہیں ہوئے مگر عمران خان نے اپنے کسی ایک جلسے میں جی ڈی اے اور اس کے لیڈروں کے کردار کو نہیں سراہا جو عمران خان کا احسان نہ ماننے کا ایک اور واضح ثبوت ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت میں پی ٹی آئی اور جی ڈی اے کے سوا ملک کی تمام چھوٹی بڑی بلکہ صوبائی پارٹیاں بھی شامل ہیں، اس لیے وہ ایک حقیقی قومی حکومت کہلا سکتی ہے جب کہ عمران خان کی حکومت میں پارلیمنٹ میں موجود ملک کی تین بڑی پارٹیاں اپوزیشن میں تھیں جنھوں نے پی ٹی آئی سے دگنے ووٹ حاصل کیے ہوئے تھے۔
اپوزیشن تو پہلے ہی کہتی تھی کہ عمران خان کی پارٹی کو انتخابی دھاندلی کے ذریعے سب سے زیادہ نشستیں دلائی گئی تھیں ،پھر بھی وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے تو ان کے ساتھ ایم کیو ایم، (ق) لیگ، بی اے پی اور جی ڈی اے کو شامل کرا کر حکومت بنوائی گئی تھی مگر عمران خان وزیر اعظم سے زیادہ خود کو بادشاہ سلامت سمجھتے تھے جو اپنی پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی سے ملنا پسند نہیں کرتے تھے تو اتحادی جماعتوں کو کیوں اہمیت دیتے۔ عمران خان نے اپنی اتحادی بی این پی مینگل کی بھی قدر نہیں کی جس نے کوئی وزارت تک نہیں لی تھی۔ عمران خان نے اپنی وزارت کے بغیر حمایت کرنے والی بی این پی مینگل سے کیے گئے معاہدے پر عمل کیا نہ سندھ کی جی ڈی اے اور ایم کیو ایم سے کیے گئے وعدے پورے کیے اور انھیں اہمیت نہیں دی۔
عمران خان نے اپنی اتحادی (ق) لیگ کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے صرف اس لیے اہمیت دی کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹوں کے باعث وہاں پی ٹی آئی حکومت بنی تھی جب کہ (ق) لیگ کی قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم سے کم نشستیں تھیں مگر پنجاب حکومت کی خاطر انھوں نے پنجاب اسمبلی کی اسپیکر شپ، پنجاب اور وفاق میں دو دو وزارتیں اور پنجاب کے بعض اضلاع (ق) لیگ کو دے رکھے تھے۔
عمران خان نے ماضی میں پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو اور ان کے بیٹے مونس الٰہی کو کرپٹ قرار دے رکھا تھا مگر اقتدار کے لیے انھوں نے پرویز الٰہی کو اسپیکر اور بعد میں نہ چاہتے ہوئے بھی (ق) لیگ کو ساتھ رکھنے کے لیے مونس الہی کو وفاقی وزیر بنایا، ان کی یہ اصول پرستی سیاست میں کبھی بھلائی نہیں جائے گی۔ عمران خان نے ایک نشست والے شیخ رشید احمد کے لیے کہا تھا کہ وہ انھیں کبھی اپنا چپڑاسی رکھنا بھی پسند نہیں کریں گے مگر بعد میں عمران خان نے پہلے ریلوے کا اور پھر وفاقی وزیر داخلہ تک بنا دیا تھا۔ چوہدری پرویز الٰہی اور شیخ رشید کے علاوہ کوئی اور ان کے ساتھ نہیں ہے کیونکہ دونوں سیاست میں رہنے کے لیے عمران خان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔
موجودہ اتحادی حکومت بلاشبہ ایک قومی حکومت ہے جسے قومی اسمبلی کے جن ارکان نے منتخب کیا ان میں پی ٹی آئی کا کوئی منحرف رکن اسمبلی شامل نہیں تھا۔ موجودہ حکومت میں کوئی امپورٹڈ عہدیدار شامل نہیں مگر اقتدار سے محروم ہو کر عمران خان کو اپنے سابق اتحادی امپورٹڈ نظر آ رہے ہیں کیونکہ انھوں نے عمران خان کے شاہانہ مزاج کے باعث ان کی حکومت ہوتے ہوئے انھیں چھوڑ دیا تھا جب کہ ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی حکومت چھوڑ کر اپوزیشن میں نہیں جایا کرتا۔
لندن میں ملک کی دو بڑی حکمران جماعتوں کے قائدین نواز شریف اور بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ملک کے بدتر حالات کو موجودہ اتحادی عبوری حکومت ہی حل کرسکتی ہے کیونکہ عمران خان نے اپنے دور میں ملک و قوم اور جمہوریت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی متحد رہ کر ہی کی جاسکتی ہے۔ عوام کو بھی توقع ہے کہ اتحادی حکومت محب وطن رہنماؤں پر مشتمل ہے جن سے ملک و قوم کو ضرور فائدہ ہوگا۔