شخصیت پرستی کا عارضہ
یہ کیسے ممکن ہو گیا آسمان جیسے بلند قطعہ زمیں پر کھڑے ہو کر کچھ لوگ بد بختی کے اسیر ہوئے اور انھوں نے آواز بلند کی
FAISALABAD:
''جھکاؤ نظریں ، بچھاؤ پلکیں ، ادب کا اعلیٰ مقام آیا''۔
جناب صبیح رحمانی کی اس خوب صورت نعت کا یہ مصرع تو جانے کب سنا ہوگا لیکن اس کیفیت کے مظاہر اُسی عمر میں دیکھنے شروع کر دیے تھے جب کسی نوعمر کو تھوڑی تھوڑی سمجھ آنی شروع ہوتی ہے۔ سرگودھا کی نواب کالونی اور کالونی میں وڑائچوں کا ڈیرہ بھی کچھ الف لیلوی فضا رکھتا تھا۔ اس ڈیرے سے ہمارا تعلق برادرم امجد نواز وڑائچ کی وجہ سے بنا۔
امجد گورنمنٹ کالج سرگودھا( اب سرگودھا یونیورسٹی بنا کر اس تاریخی ادارے کو اس میں ضم کر دیا گیا، لاہور اور فیصل آباد کی طرح اس کی شناخت برقرار نہیں رکھی گئی) کی اسٹوڈنٹس یونین کے سیکریٹری جنرل تھے۔ وہ دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے دبنگ طالب علم رہنما تھے۔ نواب کالونی میں وہ اپنے ماموں کے پاس رہا کرتے جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔
جنرل ضیا کے مارشل لا کے عین نصف النہار میں اس اجتماع ضدین نے نواب کالونی کے اس ڈیرے کو ایک عجب دلچسپ حیثیت عطا کر دی تھی۔ سر شام یہاں رنگا رنگ لوگ جمع ہوتے اور حالات حاضرہ کو زیر بحث لاتے۔ سینئرز کے آنے اور گفتگو شروع ہونے سے پہلے ایک اور دلچسپ سرگرمی یہاں آنے والے نو عمروں میں مقبول تھی۔ امجد کے ماموں کے ایک بیٹے ساجد نے ذرا سے موٹے اور مضبوط دھاگے کا ایک گولا اپنے پاس رکھا ہوا تھا جسے وہ بازو پر باندھ کر مسلز کی مضبوطی کا امتحان لیا کرتے تھے۔ یہ دھاگہ جس نوجوان کے زور بازو سے ٹوٹ جاتا، وہ مرد میدان قرار پاتا اور تعریف وتحسین کا مستحق ٹھہرتا۔ مجھے یاد ہے، ایک بار یہ دھاگا میرے کمزور بازو کو توڑنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
اسی ڈیرے پر گجرات کے کسی گاؤں سے ناٹے سے قد کے ایک بزرگ بھی آیا کرتے تھے۔ انھیں کم عمروں کی محفل زیادہ خوش آتی۔ وہ اس میں کسی طوطی شکر مقال کی طرح بیٹھ کر رنگین باتوں کی پچکاریاں چھوڑا کرتے۔ وہ منہ پکا کر کے ذومعنی باتیں کیے جاتے اور محفل میں قہقہے ابلتے رہتے۔یہی بزرگ کچھ بھلا سا نام تھا ان کا، پنجابی میں شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ ایک روز جانے کیسے محفل کا ماحول بدلا اور ان کی شاعری زیر بحث آگئی ،شاعری میں بھی نعت۔ نعت کے ذکر سے ان پر جادوئی اثر ہوا۔ اپنی پرپیچ گفتگو سے محفل کو زعفران زار بنائے رکھنے شخص کی وہ کیفیت مجھے کبھی نہیں بھولتی۔ جیسے ہی نعت کا ذکر ہوا، انھوں نے جھرجھری لی، جیب سے ٹوپی نکالی اور دائیں ہاتھ سے اس کا دایاں اور بائیں ہاتھ سے اس کا بایاں پلو پکڑ کر احتیاط سے اسے سر پر جمایا پھر وہ دو زانو ہو کر بیٹھ گئے۔
سخت موسموں میں کئی دہائیوں تک زمینداری کے دھندے کی وجہ سے ان کے چہرے کی رنگت سنولا چکی تھی جس پر سفید خشخشی داڑھی عجب بہار دکھاتی تھی۔ نعت اور حضور اعلیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر یہ سانولی رنگت پیلاہٹ میں بدلتے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ بڑی عمر میں خشخشی داڑھی کے بال سخت ریشوں والے برش کی طرح صاف اٹھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس دم ان سخت بالوں کو بھی میں نے ڈھلکتے ہوئے دیکھا۔ دوزانو بیٹھ جانے کے بعد انھوں نے ذرا سی نگاہ اٹھا کر دائیں سے بائیں دیکھا۔ ان کی بدلی ہوئی کیفیت نے محفل کا رنگ ویسے ہی بدل دیا تھا، اس نگاہ نے جانے کیااثر کیا کہ سب کے سب ان ہی کی طرح مؤدب ہو کر بیٹھ گئے۔
سب سے پہلے نگاہیں جھکائے جھکائے انھوں نے حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ رحمہ کی عالم گیر شہرت رکھنے والی پنجابی نعت کا شعر پڑھا
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں
یہ شعر ایک کیفیت کے عالم میں انھوں نے کئی بار دہرایا، اسی دوران ان پر کپکپی سی طاری ہوئی اور انھوں نے کانوں کی لوؤں کو چھو کر اپنا کلام شروع کیا۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں ایک نو عمر کی حیثیت سے میں نے جو منظر دیکھا، وہ ہمیشہ کے لیے دل و دماغ پر نقش ہو گیا۔ ہمارے درمیان اس وقت شعر و ادب پر نگاہ رکھنے والے ایک نسبتاً سینئر شخص بھی موجود تھے۔ انھوں نے ان کے کسی مصرعے کو موضوع بنا کر گفتگو کا آغاز کیا۔ ان صاحب کے اٹھائے ہوئے نکات تو ذہن میں نہیں ہیںلیکن اس بزرگ شاعر کا ایک جملہ ذہن میں نقش ہے، انھوں نے کہا تھا:'ادب اور بے ادبی میں بس بال برابر فرق ہے۔ گویا یہ پل صراط پر چلنا ہے ، ذرا سی بے احتیاطی بھی ہمیں دہکتی ہوئی نار جہنم کی گہری وادیوں میں گرا سکتی ہے'۔
جمعرات کو مسجد نبوی میں قیامت ٹوٹی تو یہ واقعہ یاد آیا۔ اب میرے سامنے سوال یہ ہے کہ ہم تو اس روایت کے امین ہیں جس میں بڑے بڑے ہنسوڑ اور لا ابالی بھی اس نام نامی کے آتے ہی خود کو سنبھال لیتے ہیں۔ ادب اور احترام ان پر لرزہ طاری کر دیتا ہے۔ اس معاشرے کے چند لوگوں کے ہاتھوں جمعرات والا سانحہ کیسے رونما ہو گیا؟ اس کے باوجود کہ وہ اس وقت حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تھے۔ حرم نبوی کا مقام و مرتبہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں کیا ہے، یہ کوئی ایسا راز نہیں۔ استاد امام دین گجراتی نے اپنے سادہ اور معصوم انداز میں اسے خوب نظم کیا تھا ۔
محمد کا جہاں پہ آستاں ہے
زمیں کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
یہ کیسے ممکن ہو گیا آسمان جیسے بلند قطعہ زمیں پر کھڑے ہو کر کچھ لوگ بد بختی کے اسیر ہوئے اور انھوں نے آواز بلند کی۔ صرف آواز بلند نہیں کی، فحش کلامی بھی کی۔فحش کلامی پر اکتفا نہیں کی، لوگوں پر ہاتھ بھی اٹھایا۔ چلیے ایک جرم تو یہ ہوا۔دوسرا جرم یہ ہے کہ اس سیاہ بختی کی تائید و حمایت کرنے اور جواز تراشنے والے لوگ بھی پیدا ہو گئے۔کسی معاشرے میں ایسا سانحہ صرف اسی صورت میں رونما ہوتا ہے جب مقصد اور نظریے پر فرد غالب آ جائے۔ دنیا میں مذہب یا سیاست کے نام پر اب تک جتنے بھی فتنہ و فساد برپا ہوئے ہیں، ان کا سبب یہی عارضہ بنا ہے۔
اس وقت ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ( خواہ وہ حقیر اقلیت ہی کیوں نہ ہو) اسی عارضے کا شکار ہو چکا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کو فتنہ و فساد سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر ریاست اور معاشرے کے اہل نظر کو اپنی اپنی وابستگیوں سے اوپر اٹھ کر ذمے دارانہ کردار ادا کرنا پڑے گا، ایسا اگر نہیں کیا جاتاتو پھر جو ہو گا، تاریخ کے صفحات پر اس کے تذکرے پڑھتے ہوئے خوف سے جھرجھری آ جاتی ہے۔
''جھکاؤ نظریں ، بچھاؤ پلکیں ، ادب کا اعلیٰ مقام آیا''۔
جناب صبیح رحمانی کی اس خوب صورت نعت کا یہ مصرع تو جانے کب سنا ہوگا لیکن اس کیفیت کے مظاہر اُسی عمر میں دیکھنے شروع کر دیے تھے جب کسی نوعمر کو تھوڑی تھوڑی سمجھ آنی شروع ہوتی ہے۔ سرگودھا کی نواب کالونی اور کالونی میں وڑائچوں کا ڈیرہ بھی کچھ الف لیلوی فضا رکھتا تھا۔ اس ڈیرے سے ہمارا تعلق برادرم امجد نواز وڑائچ کی وجہ سے بنا۔
امجد گورنمنٹ کالج سرگودھا( اب سرگودھا یونیورسٹی بنا کر اس تاریخی ادارے کو اس میں ضم کر دیا گیا، لاہور اور فیصل آباد کی طرح اس کی شناخت برقرار نہیں رکھی گئی) کی اسٹوڈنٹس یونین کے سیکریٹری جنرل تھے۔ وہ دائیں بازو کے خیالات رکھنے والے دبنگ طالب علم رہنما تھے۔ نواب کالونی میں وہ اپنے ماموں کے پاس رہا کرتے جن کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا۔
جنرل ضیا کے مارشل لا کے عین نصف النہار میں اس اجتماع ضدین نے نواب کالونی کے اس ڈیرے کو ایک عجب دلچسپ حیثیت عطا کر دی تھی۔ سر شام یہاں رنگا رنگ لوگ جمع ہوتے اور حالات حاضرہ کو زیر بحث لاتے۔ سینئرز کے آنے اور گفتگو شروع ہونے سے پہلے ایک اور دلچسپ سرگرمی یہاں آنے والے نو عمروں میں مقبول تھی۔ امجد کے ماموں کے ایک بیٹے ساجد نے ذرا سے موٹے اور مضبوط دھاگے کا ایک گولا اپنے پاس رکھا ہوا تھا جسے وہ بازو پر باندھ کر مسلز کی مضبوطی کا امتحان لیا کرتے تھے۔ یہ دھاگہ جس نوجوان کے زور بازو سے ٹوٹ جاتا، وہ مرد میدان قرار پاتا اور تعریف وتحسین کا مستحق ٹھہرتا۔ مجھے یاد ہے، ایک بار یہ دھاگا میرے کمزور بازو کو توڑنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
اسی ڈیرے پر گجرات کے کسی گاؤں سے ناٹے سے قد کے ایک بزرگ بھی آیا کرتے تھے۔ انھیں کم عمروں کی محفل زیادہ خوش آتی۔ وہ اس میں کسی طوطی شکر مقال کی طرح بیٹھ کر رنگین باتوں کی پچکاریاں چھوڑا کرتے۔ وہ منہ پکا کر کے ذومعنی باتیں کیے جاتے اور محفل میں قہقہے ابلتے رہتے۔یہی بزرگ کچھ بھلا سا نام تھا ان کا، پنجابی میں شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ ایک روز جانے کیسے محفل کا ماحول بدلا اور ان کی شاعری زیر بحث آگئی ،شاعری میں بھی نعت۔ نعت کے ذکر سے ان پر جادوئی اثر ہوا۔ اپنی پرپیچ گفتگو سے محفل کو زعفران زار بنائے رکھنے شخص کی وہ کیفیت مجھے کبھی نہیں بھولتی۔ جیسے ہی نعت کا ذکر ہوا، انھوں نے جھرجھری لی، جیب سے ٹوپی نکالی اور دائیں ہاتھ سے اس کا دایاں اور بائیں ہاتھ سے اس کا بایاں پلو پکڑ کر احتیاط سے اسے سر پر جمایا پھر وہ دو زانو ہو کر بیٹھ گئے۔
سخت موسموں میں کئی دہائیوں تک زمینداری کے دھندے کی وجہ سے ان کے چہرے کی رنگت سنولا چکی تھی جس پر سفید خشخشی داڑھی عجب بہار دکھاتی تھی۔ نعت اور حضور اعلیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر یہ سانولی رنگت پیلاہٹ میں بدلتے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ بڑی عمر میں خشخشی داڑھی کے بال سخت ریشوں والے برش کی طرح صاف اٹھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس دم ان سخت بالوں کو بھی میں نے ڈھلکتے ہوئے دیکھا۔ دوزانو بیٹھ جانے کے بعد انھوں نے ذرا سی نگاہ اٹھا کر دائیں سے بائیں دیکھا۔ ان کی بدلی ہوئی کیفیت نے محفل کا رنگ ویسے ہی بدل دیا تھا، اس نگاہ نے جانے کیااثر کیا کہ سب کے سب ان ہی کی طرح مؤدب ہو کر بیٹھ گئے۔
سب سے پہلے نگاہیں جھکائے جھکائے انھوں نے حضرت پیر مہر علی شاہ علیہ رحمہ کی عالم گیر شہرت رکھنے والی پنجابی نعت کا شعر پڑھا
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیں کتھے جا لڑیاں
یہ شعر ایک کیفیت کے عالم میں انھوں نے کئی بار دہرایا، اسی دوران ان پر کپکپی سی طاری ہوئی اور انھوں نے کانوں کی لوؤں کو چھو کر اپنا کلام شروع کیا۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں ایک نو عمر کی حیثیت سے میں نے جو منظر دیکھا، وہ ہمیشہ کے لیے دل و دماغ پر نقش ہو گیا۔ ہمارے درمیان اس وقت شعر و ادب پر نگاہ رکھنے والے ایک نسبتاً سینئر شخص بھی موجود تھے۔ انھوں نے ان کے کسی مصرعے کو موضوع بنا کر گفتگو کا آغاز کیا۔ ان صاحب کے اٹھائے ہوئے نکات تو ذہن میں نہیں ہیںلیکن اس بزرگ شاعر کا ایک جملہ ذہن میں نقش ہے، انھوں نے کہا تھا:'ادب اور بے ادبی میں بس بال برابر فرق ہے۔ گویا یہ پل صراط پر چلنا ہے ، ذرا سی بے احتیاطی بھی ہمیں دہکتی ہوئی نار جہنم کی گہری وادیوں میں گرا سکتی ہے'۔
جمعرات کو مسجد نبوی میں قیامت ٹوٹی تو یہ واقعہ یاد آیا۔ اب میرے سامنے سوال یہ ہے کہ ہم تو اس روایت کے امین ہیں جس میں بڑے بڑے ہنسوڑ اور لا ابالی بھی اس نام نامی کے آتے ہی خود کو سنبھال لیتے ہیں۔ ادب اور احترام ان پر لرزہ طاری کر دیتا ہے۔ اس معاشرے کے چند لوگوں کے ہاتھوں جمعرات والا سانحہ کیسے رونما ہو گیا؟ اس کے باوجود کہ وہ اس وقت حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں تھے۔ حرم نبوی کا مقام و مرتبہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں کیا ہے، یہ کوئی ایسا راز نہیں۔ استاد امام دین گجراتی نے اپنے سادہ اور معصوم انداز میں اسے خوب نظم کیا تھا ۔
محمد کا جہاں پہ آستاں ہے
زمیں کا اتنا ٹکڑا آسماں ہے
یہ کیسے ممکن ہو گیا آسمان جیسے بلند قطعہ زمیں پر کھڑے ہو کر کچھ لوگ بد بختی کے اسیر ہوئے اور انھوں نے آواز بلند کی۔ صرف آواز بلند نہیں کی، فحش کلامی بھی کی۔فحش کلامی پر اکتفا نہیں کی، لوگوں پر ہاتھ بھی اٹھایا۔ چلیے ایک جرم تو یہ ہوا۔دوسرا جرم یہ ہے کہ اس سیاہ بختی کی تائید و حمایت کرنے اور جواز تراشنے والے لوگ بھی پیدا ہو گئے۔کسی معاشرے میں ایسا سانحہ صرف اسی صورت میں رونما ہوتا ہے جب مقصد اور نظریے پر فرد غالب آ جائے۔ دنیا میں مذہب یا سیاست کے نام پر اب تک جتنے بھی فتنہ و فساد برپا ہوئے ہیں، ان کا سبب یہی عارضہ بنا ہے۔
اس وقت ہمارے معاشرے کا ایک حصہ ( خواہ وہ حقیر اقلیت ہی کیوں نہ ہو) اسی عارضے کا شکار ہو چکا ہے۔ اگر ہم اپنے معاشرے کو فتنہ و فساد سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر ریاست اور معاشرے کے اہل نظر کو اپنی اپنی وابستگیوں سے اوپر اٹھ کر ذمے دارانہ کردار ادا کرنا پڑے گا، ایسا اگر نہیں کیا جاتاتو پھر جو ہو گا، تاریخ کے صفحات پر اس کے تذکرے پڑھتے ہوئے خوف سے جھرجھری آ جاتی ہے۔